|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
میانمار کے اندر 31 جنوری کو فوج کے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلینگ کی قیادت میں ہونے والے فوجی ’کُو‘ نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا ہے جو فوج کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس ’کُو‘ نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ میانمار میں کوئی بھی اس کی توقع نہیں کر رہا تھا اور اس کا کوئی جواز بھی ظاہری طور پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ تو پھر آخر اس کی وجہ کیا بنی؟ اس مضمون میں ہم ان عناصر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے جو حال ہی میں جنم لینے والی اچانک اور تیز ترین سماجی تبدیلی کا باعث بنے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
حکمران طبقے کے پالیسی سازوں کیلئے ’کُو‘ عمومی طور پر آخری حربہ ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’کُو‘ کامیاب ہونے کے لیے اسے تب ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے جب مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی تحریک ان کے قائدین کے ہاتھوں نا امیدی کا شکار ہو چکی ہو۔
اٹلی کے اندر 1922ء میں ایسا ہی ہوا تھا جب مسولینی اقتدار میں آیا تھا، اور چلی کے اندر 1973ء میں پنوشے بھی ایسے ہی اقتدار میں آیا تھا۔ جب محنت کش طبقے کے قائدین کے قدم لڑکھڑانے لگے تو حکمران طبقے کو رجعتی دھاوا بولنے کا موقع ہاتھ آیا، کیونکہ محنت کشوں کے قائدین نے سازگار حالات میں مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کو پوری قوت کے ساتھ متحرک نہیں کیا تھا۔
البتہ تاریخ میں کچھ ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب حکمران طبقے کے مختلف گروہوں کے بیچ تصادم کی وجہ سے ایسی صورتحال جنم لیتی ہے جس میں طاقت کا استعمال کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ میانمار کے سماج کی گہرائیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے پیچھے بھی حکمران طبقے کے دو گروہوں کا ٹکراؤ کار فرما ہے، جہاں ایک طرف وسائل پر قابض فوجی اشرافیہ ہے اور دوسری جانب ابھرتی ہوئی لبرل بورژوازی ہے جس کی پشت پناہی مغربی سامراجیت کر رہی ہے۔
بہرحال ہمیں اس نکتے کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اوپری ٹکراؤ، یعنی حکمران طبقے کے بیچ دراڑوں، کے باعث نچلی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ سرمایہ داری کے محافظ منصوبہ سازوں کا عام طور پر یہ ماننا ہے کہ جب مزدور تحریک عروج پر ہوتی ہے تو اسے محض جبر کے ذریعے نہیں دبایا جا سکتا۔ اسی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ پہلے کچھ عرصے کے لیے اصلاح پسند قائدین کو استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ قائدین محنت کشوں کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں تاکہ نظام کی بقا ممکن ہو اور وہ اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑا ہو جائے۔
میانمار کے اندر اس عمل کے پہلے مراحل رونما ہو رہے تھے، جہاں پر آنگ سان سو چی کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہو رہی تھی، اور گو کہ بعض پرتوں کا اس کے اوپر اعتماد ختم ہوتا جا رہا تھا، بہت سے لوگ اب بھی اس سے اکثریت کی خاطر حقیقی تبدیلی لانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
میانمار میں آنے والا عرصہ طبقاتی جدوجہد کے ابھار کا ہوگا، نہ کہ نا امیدی اور جمود کا۔ اس بات کی تصدیق ’کُو‘ پر دیے جانے والے عوامی ردّ عمل سے ہوتی ہے، جس میں حوصلہ شکنی اور نا امیدی نہیں بلکہ واپس لڑنے کی جستجو اور ہمت نظر آئی ہے۔
تو ہم بات کر رہے تھے کہ اس ’کُو‘ کی وجہ کیا بنی؟ یہ بات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میانمار کے اندر فوجی افسران کی حیثیت، سماج میں ان کی اوقات، ان کی جڑیں اور ماضی میں ان کے غلبے کو مدّ نظر لایا جائے۔ بعض دفعہ ان مخصوص طاقتور شخصیات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے جو مادی حالات کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہوں، اور جن کا میانمار کے معاملے میں ایک رجعتی کردار ہے۔
تاریخی پسِ منظر
میانمار، جسے تب برما کے نام سے جانا جاتا تھا، نے رسمی طور پر 1948ء میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کی۔ نوزائیدہ مقامی بورژوا اور زمیندار دوسری جنگِ عظیم کے بعد ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے اہل نہیں تھے۔ وہ برما کے پیچیدہ قومی سوال کو حل کرنے کے قابل نہیں تھے، جبکہ قومی اقلیتوں، جیسا کہ کاچین اور شان ریاست کے لوگوں نے، حقِ خود ارادیت حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا اور مختلف قومیتوں پر مشتمل عوام کے بیچ انتشار پھیل رہا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق میانمار کے اندر 135 قومیتیں پائی جاتی ہیں، جن کی ذیلی شاخیں اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان میں بامار کی قوم اکثریت میں ہے جو آبادی کے 68 فیصد لوگوں پر مشتمل ہے، اس کے بعد شان (9 فیصد)، کاچین (7 فیصد) اور راخائن (3.5 فیصد) کی باری آتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی تقسیم بھی پائی جاتی ہے، جس میں 88 فیصد آبادی بدھ مت، 6 فیصد آبادی عیسائیت اور 4 فیصد آبادی اسلام کی پیروکار ہے۔ مسلمانوں میں روہنگیا بھی شامل ہیں، جن کو سرکاری طور پر آبادی کا حصہ بھی نہیں گردانا جاتا، اور جن کی فوج کے ہاتھوں نسل کشی کر کے بری طرح سے جبر کا نشانہ بنایا گیا۔
آزادی کے بعد نئی حکومت کو طاقتور کمیونسٹ پارٹی کا بھی سامنا تھا، جس کے اثر و رسوخ میں جاپان کے خلاف جنگ کے دوران اور آزادی کی جدوجہد کی وجہ سے بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ بد قسمتی سے کمیونسٹ پارٹی نے پاپولر فرنٹ کی پالیسی اپنا لی، جو اس خیال پر مبنی تھی کہ میانمار کے اندر ہونے والا انقلاب بورژوا جمہوری انقلاب ہوگا، جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ ترقی کی بنیاد ڈالی جائے گی۔
1948ء سے قبل کمیونسٹ پارٹی نے برما کے قومی سرمایہ داروں کے ساتھ پاپولر فرنٹ بنایا مگر بعد میں انہی سرمایہ داروں کی جانب سے اسے دبایا گیا، جس کے بعد پارٹی نے مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا اور شہروں سے دیہاتوں میں منتقل ہو گئی۔ نتیجتاً 1953ء میں پارٹی کے اوپر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس دوران آنے والی حکومتوں میں سے کسی نے بھی ملک کو درپیش مسائل حل نہیں کیے۔ بورژوا جمہوری انقلاب کا کوئی بھی بنیادی فریضہ نبھانے کے لیے کمزور بورژوازی نا اہل ثابت ہوئی۔ کسان زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور تمام عوام بحیثیت مجموعی سامراجیت کے طوق سے نجات حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔
اس عرصے میں سوویت یونین عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا تھا، جو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور جس کا اثر و رسوخ مشرقی یورپ میں پھیل رہا تھا۔ چین میں 1949ء کے انقلاب نے سرمایہ داری اور زمینداری کا خاتمہ کر دیا تھا، جس کے ایک دہائی بعد کیوبا میں بھی انقلاب برپا ہو گیا۔
سٹالنسٹ روس اور ماؤسٹ چین، دونوں نے قومی ملکیت اور منصوبہ بند معیشت کی بدولت، حقیقی معنوں میں اصلاحات سر انجام دینے اور معاشی ترقی کے معاملے میں بڑے بڑے اقدامات اٹھائے تھے۔ مگر محنت کش طبقہ اب بھی اقتدار میں نہیں تھا۔ سماج کے اوپر مراعات یافتہ افسر شاہی مسلط ہو چکی تھی جو جبری طریقوں کے ذریعے حکومت کر رہی تھی۔ اس کے باوجود اس وقت سابقہ نو آبادیاتی ممالک کی سرمایہ داری کے اندر جو حالت تھی، اس کے مقابلے میں سوویت یونین اور چین میں رائج نظام ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
اسی صورتحال کے پیشِ نظر، جبکہ چینی ماڈل ملک کی سرحد پر موجود تھا، 1962ء میں ’نے وِن‘ کی قیادت میں انتہا پسند افسران کے گروہ نے ’کُو‘ سر انجام دیا۔ یہ فوجی افسران خود کو وہ واحد پرت سمجھ رہے تھے جو ملک کو ٹوٹنے سے بچا سکتے تھے، جنہوں نے ”سوشلزم لانے کا برمی اور بدھ اسٹ طریقہ کار“ اپنا لیا تھا۔ ایک پارٹی پر مشتمل آمرانہ حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، اور غیر ملکی کاروباروں کے ساتھ ملکی سرمایہ داروں کے کاروباروں کو بھی قومیا لیا گیا۔ البتہ سوویت یونین اور چین کو بطورِ ماڈل دیکھنے کی وجہ سے اقتدار مراعات یافتہ افسر شاہی کے ہاتھ میں مرکوز تھا۔
1962ء میں ہونے والے ’کُو‘ کے بعد والے سالوں میں منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر ملک نے خاصی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی، جس کے بیچ اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے، مگر بعض سالوں کے اندر جی ڈی پی کی سالانہ بڑھوتری دس فیصد سے اوپر چلی گئی اور 10 سے 13 فیصد تک بڑھوتری ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں حکومت مستحکم اور مقبول ہو گئی۔
اگرچہ حکومت اس عرصے کے دوران کسی کی اتحادی نہیں بنی مگر آخرکار وہ ماؤسٹ چین کے زیر اثر آ گئی۔ یہ حکومت 1988ء میں برپا ہونے والی احتجاجی تحریک تک قائم رہی، جس کا جنم شدید معاشی بحران کے نتیجے میں ہوا تھا، اور جو ’نے وِن‘ کو مستعفی ہونے پر مجبور کر گئی۔ 1986ء اور 1988ء کے بیچ جی ڈی پی میں تیزی کے ساتھ سکڑاؤ آیا، جو صرف 1988ء میں منفی 11 فیصد سکڑ گئی۔
اس کے بعد میانمار کے اگلے مرحلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں عالمی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سوویت یونین بحران کا شکار تھا اور یورپ کے وہ مشرقی ممالک جو اس کے زیرِ اثر تھے، 1989ء میں زوال کا شکار ہوئے، جس کے دو سال بعد سوویت یونین خود زوال کا شکار ہوا۔ اس عمل سے کچھ سال قبل دنگ شاوپنگ کی سربراہی میں چین بیرونی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کر رہا تھا اور تیزی کے ساتھ منڈی کی معیشت کی جانب بڑھ رہا تھا۔
وہ منصوبہ بند معیشت جس کو کئی لوگ ”سوشلزم“ سمجھ رہے تھے، ایک ناکام نظام دکھائی دینے لگا۔ جبکہ سرمایہ داری 70ء کی دہائی کے بحران سے عارضی طور پر نکل چکی تھی۔ اس عمل نے ناگزیر طور پر میانمار کے فوجی افسران کی سوچ کو بھی متاثر کیا۔ جس نظام کے سہارے وہ حکومت کرتے آ رہے تھے، اس پر ان کا اپنا اعتماد ختم ہونے لگ گیا۔
1988ء کی تحریک
اس دور میں میانمار کے اندر انتشار بھی بڑھنے لگ گیا۔ 80ء کی دہائی کے بیچ طلبہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو اس عوامی بغاوت پر اختتام پذیر ہوا جسے 8888 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ 8 اگست 1988ء کو طلبہ تحریک کا آغاز ہوا تھا، جو بعد میں عوام کی دیگر پرتوں تک پھیل گئی۔
اس تحریک کو اسی سال ستمبر میں خونریز ’کُو‘ کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا، جب اقتدار میں آنے والی فوجی حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں بلا تفریق قتل عام کیا۔ آنگ سان سو چی اسی عرصے میں ایک مقبول شخصیت کے طور پر ابھری، جب اس نے اگست کے اواخر میں تقریباً پانچ لاکھ کے بڑے مجمعے سے خطاب کیا۔
سو چی کو حزبِ اختلاف کی مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی اور فوج جبر کے باوجود حالات کو معمول پر نہیں لا پا رہی تھی۔ فوج کو دباؤ کا سامنا تھا اور وہ 1990ء میں انتخابات کرانے پر مجبور ہو گئی۔ این ایل ڈی (نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی) نے سو چی کی قیادت میں انتخابات لڑے اور بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے 81 فیصد ووٹ لے کر پارلیمنٹ کی492 سیٹوں میں سے 392 سیٹیں حاصل کیں۔
البتہ اس کے بعد فوج نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور جمہوری عمل کو روک کر سو چی کو نظر بند کر دیا۔ 2007ء کے اندر دوبارہ ہلچل مچ گئی اور ایک بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا، جسے ”سیفرون انقلاب“ کے نام سے جانا جاتا ہے (کیونکہ اس میں راہبوں کی بڑی اکثریت شامل تھی، جو سیفرون یعنی زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں)۔ اس تحریک کو بھی فوج نے روکنے کی کوشش کی مگر نچلی پرتوں کی جانب سے دباؤ کے سبب اس دفعہ جبر کے ذریعے اسے روکا نہیں جا سکا۔
چنانچہ 2008ء میں فوج نے پارلیمانی الیکشن کے لیے ریفرنڈم کروایا، جس میں عوام نے بڑے پیمانے پر فوجی آمریت کے خاتمے کی خواہش ظاہر کی۔ نتیجتاً 2010ء میں سو چی کی نظر بندی ختم کر دی گئی اور نئے انتخابات کی تیاری شروع کر دی گئی۔
البتہ این ایل ڈی نے انتخابات میں حصّہ لینے سے بائیکاٹ کر لیا کیونکہ ان کے بہت سے مطالبات ابھی تک منظور نہیں ہوئے تھے، جن میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ اور یوں فوج کی پارٹی یو ایس ڈی پی (یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) نے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بڑی اکثریت کے ساتھ جیت حاصل کی۔
اس کے ساتھ ساتھ فوج نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ آئندہ ان کا اقتدار خطرے میں نہ پڑے۔ انہوں نے اپنے زیر نگرانی نیا آئین لکھا جس میں فوج کی جانب سے 25 فیصد ممبران پارلیمنٹ کو لازمی قرار دیا گیا اور اہم وزارتوں یعنی وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور سرحدی اختیارات کو فوج کے قبضے میں دیا گیا۔ انہوں نے آئین میں وہ شق بھی شامل کر دی جس کے تحت نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی کونسل میں فوج کی اکثریت شامل کی جائے گی، یہ وہ ادارے ہیں جو ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
مذکورہ حفاظتی اقدامات لے کر فوج نے براہِ راست آمریت کا خاتمہ کر دیا اور ملک پر یو ایس پی ڈی حکومت کرنے لگ گئی۔ مگر 2015ء کے انتخابات میں سو چی کی قیادت میں این ایل ڈی نے ایک دفعہ پھر اکثریت کے ساتھ جیت حاصل کی۔ 1991ء میں نوبل پرائز برائے امن وصول کرنے والی سو چی کو ہیرو مانا جانے لگا اور وہ جمہوریت اور آزادی کی مثال بن گئی۔ مگر جب اس نے اقتدار سنبھالا تو حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگ گئے۔
فوجی افسران نے اکثریت میں موجود بامار قوم کے اندر بدھ مت شاؤنزم (انتہا پسند قوم پرستی) کو فروغ دینا شروع کیا، تاکہ حقیقی معاشی و سماجی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ حالیہ عرصے میں انہوں نے اقلیتی مسلم آبادی یعنی روہنگیا کو نشانہ بنایا ہے، جن میں سے کئی ملک سے باہر ہجرت کر کے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 2017ء میں فوج نے رجعتی بدھ مت گروہوں کے ساتھ مل کر روہنگیا کے پورے پورے گاؤں جلا کر رکھ دیے اور ہزاروں کو قتل کیا۔
اس کی بجائے کہ سو چی فوج کے ان اقدامات کی مخالفت کرتی، وہ عالمی میدان میں ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ماضی میں یہ وعدہ کرنے کے باوجود کہ وہ قومی اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرے گی اور علاقائی فسادات کا خاتمہ کرے گی، وہ در حقیقت بامار قوم کو ترجیح دیتی رہی ہے۔
جب وہ اقتدار میں آ گئی تو اس کا ”جمہوری“ نقاب اترنے لگ گیا۔ اس کا معاشی لائحہ عمل بھی اتنا ترقی پسند نہیں تھا جتنا کہ میڈیا نے ہلچل مچائی ہوئی تھی۔ در اصل ”ترقی پسند“ ہونے سے ان کی مراد نجکاری اور بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری کا لبرل منصوبہ تھا۔ مثال کے طور پر ”میانمار سسٹینیبل اکنامک ڈویلپمنٹ پلان“، جو غیر ملکی سرمایہ داروں کو ملکی کمپنیوں میں 35 فیصد سرمایہ کاری کے ساتھ رنگون سٹاک ایکسچینج میں میانمار کی کمپنیوں کا 35 فیصد سٹاک خریدنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
اس قسم کے منصوبوں کے بعد میانمار کے مزدوروں اور کسانوں کے لیے حقیقی اصلاحات کرنے کا کوئی موقع نہیں بچتا۔ اس کے برعکس اس کے نتیجے میں محض یہی ہوگا کہ معیشت کا اختیار فوجی اشرافیہ کے ہاتھوں سے بیرونی سرمایہ کاروں کے پاس چلا جائے گا۔ میانمار کے عوام کا بھلا ان دونوں صورتوں میں ممکن نہیں ہے۔
جب 2015ء میں سو چی اقتدار میں آ گئی تو اس نے چین کے ساتھ ملکی معیشت کے مضبوط تعلقات کا کافی فائدہ اٹھایا۔ 2015ء سے لے کر 2019ء تک ملک کی اوسط سالانہ بڑھوتری 6.5 فیصد رہی۔ البتہ 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں بڑی کمی واقع ہوئی اور یہ 2 فیصد تک گر گئی، جس کے ساتھ کورونا وباء کے اثرات کی وجہ سے پبلک فنانس کی حالت بھی خراب ہو گئی۔
جیسا کہ دی اکنامسٹ نے 7 نومبر 2020ء کو نشاندہی کی:
”ابھی تک بہت سے برمی لوگوں نے اس خوشحالی کو نہیں دیکھا جس کا سو چی نے وعدہ کیا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2017ء کے اندر چار میں سے ایک بندہ غربت میں زندگی گزار رہا تھا۔ روزگار کی ضمانت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اے بی ایس سروے (کاروبار کا سالانہ سروے) میں شامل تقریباً آدھے لوگوں کو اپنا ذریعہ معاش کھو جانے کا ڈر تھا، جو 2015ء کی تعداد کے دُگنے سے بھی زیادہ تعداد ہے۔ 54 فیصد کے قریب لوگوں نے کہا کہ وہ پانی، پبلک ٹرانسپورٹ اور علاج جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، یہ تعداد پانچ سال قبل 48 فیصد تھی۔ سروے کے مصنفین نے لکھا کہ این ایل ڈی حکومت کی معاشی بڑھوتری اور اصلاحات سے عام شہریوں کی بڑی تعداد کو ابھی مستفید ہونا باقی ہے۔“
عام محنت کشوں کے لیے جمہوریت کوئی مجرد اصول نہیں بلکہ ایک ٹھوس سوال ہے۔ محنت کش جمہوریت کو ایک اچھی زندگی، روزگار میں اضافہ، بہتر اجرت اور اچھی سہولیات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ فوجی آمریت کے تحت عوام دہائیوں تک پستے رہے تھے اور سو چی کی حکومت میں وہ حقیقی تبدیلی کی توقع کر رہے تھے۔
اس نے بامار کے ساتھ دیگر قومی اقلیتوں میں کسی حد تک حمایت حاصل کی ہے کیونکہ فوجی آمریت ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، مگر اس نے فوج کی سرپرستی میں جاری بدھ مت اور بامار شاؤنزم کو بڑی رعایتیں بھی دی ہیں، جس سے اقلیتوں کے بارے میں اس کے رویے کی حقیقت سامنے آتی ہے۔
فوج کی اساس
اپنے سوال کی جانب واپس چلتے ہیں کہ فوج نے ’کو‘ کیوں سر انجام دیا؟ اس کا جواب دینے کے لیے ملکی فوج کی اساس اور ملک میں موجود عدم استحکام پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ میانمار کی فوج محض (اینگلز کے الفاظ میں) ”مسلح جتھے“ نہیں ہیں جو سرمایہ داروں کے تحفظ پر مامور ہیں۔ فوجی افسران ملک کی معیشت میں ایک بڑا اور طاقتور کردار ادا کرتے ہیں، جو آمریت کے ذریعے زیادہ تر براہِ راست حکومت کرتے رہے ہیں۔ بہت سے سابقہ اعلیٰ فوجی افسران ملک کے امیر ترین افراد میں شامل ہو چکے ہیں۔
1962ء سے لے کر 1988ء تک اعلیٰ فوجی افسران کے اقتدار اور مراعات کی ضمانت براہِ راست آمریت کی صورت میں ممکن ہوتی تھی، جس کے ذریعے وہ معیشت کے ایک بڑے حصے پر قابض تھے۔ مگر 1988ء میں سا ماؤنگ کے تحت قائم ہونے والی حکومت میں ظاہر ہوا کہ فوج اب تک جس معاشی نظام کا سہارا لے رہی تھی، اس کے اوپر ان کا اعتماد ختم ہو گیا تھا۔ نئی حکومت منڈی کی جانب متوجہ ہوئی، یعنی سرمایہ داری کی جانب، تاکہ اس بحران کو حل کیا جا سکے جس نے سماجی افراتفری پیدا کر دی ہے، اور یوں قومی ملکیتوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور منڈی کی جانب پیش قدمی کی جانے لگی۔ یہ پالیسی اپنا کر وہ یہ امید کر رہے تھے کہ معاشی ترقی حاصل کرتے ہوئے وہ اپنی مراعات یافتہ حیثیت برقرار رکھ پائیں گے۔
چین کا کردار
اس صورتحال میں چین نے بھی اپنا کردار ادا کیا کیونکہ وہ بھی اسی راستے پر گامزن تھا۔ چین کی میانمار کے ساتھ طویل سرحد لگتی ہے اور اس کے معاشی مفادات بڑے پیمانے پر اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ 1988ء کے ’کُو‘ کے بعد چین نے برما میں موجود کمیونسٹ قوتوں کا صفایا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جیو پولیٹیکل مانیٹر کے مطابق:
”سی پی بی (برمی کمیونسٹ پارٹی) کے نائب چیئرمین اور دیگر مرکزی قائدین ’کُو‘ کے دوران حراست میں لے لیے گئے اور انہیں چین کے مینگلیان کاؤنٹی منتقل کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق چین نے اس بغاوت میں اپنا کردار ادا کیا اور سی پی بی کی تمام قیادت کو باقی زندگی چین میں گزارنے کی پیشکش کی گئی۔ چین اس کوشش میں تھا کہ کمیونسٹ قائدین کو دبا کر انہیں ہار ماننے پر مجبور کر دے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ چین مزید میانمار کے اندر انقلابی خیالات کو برآمد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی بجائے سرمایہ کاری کی پالیسیوں کے ذریعے وہ میانمار کے ساتھ تجارت کا آغاز کرنا چاہ رہا تھا تاکہ اس کے وسائل سے مستفید ہو سکے۔“
یہی مضمون مزید وضاحت کرتا ہے کہ 1988ء کے ’کُو‘ کے بعد:
”مغربی ممالک کی جانب سے میانمار کی فوج پر معاشی پابندیاں لگائی گئیں اور حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرے۔ چنانچہ میانمار، معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے چینی حکومت کی حمایت پر انحصار کرتا رہا اور چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے۔ مثال کے طور پر چین نے میانمار کے اندر ہائیڈرو پاور سٹیشن تعمیر کیے، اور اس کے ساتھ ساتھ میانمار کے ماکاسار بندرگاہ سے لے کر چین میں کونمینگ تک تیل اور گیس کی پائپ لائنز بھی بچھائیں۔“
چینی افسر شاہی میانمار کے اندر کسی کمیونسٹ انقلاب کی خواہاں نہیں تھی بلکہ وہ وہاں پر کاروبار کے لیے، خصوصاً چین کے ساتھ کاروبار کے لیے، سازگار ماحول پیدا کرنے کی خواہش مند تھی، جس کی بدولت چین کو موقع ملتا کہ میانمار کی منڈی میں داخل ہو کر اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔
چین کے ساتھ اس قریبی تعلق کی بنیاد پر نئی ابھرنے والی فوجی اشرافیہ کی ضروریات کو پورا کیا جانے لگا۔ 2010ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد جو حکومت اقتدار میں آئی، وہ براہِ راست فوج کے اختیار میں تھی؛ کیونکہ یہ فوج ہی کی پارٹی تھی جس نے انتخابات میں ”جیت“ حاصل کی تھی۔ 2011ء میں حکومت نے اعلان کیا کہ ایک سال کے اندر اندر قومی ملکیت میں موجود 90 فیصد اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ مگر جیسا کہ اس وقت بی بی سی نے شکایت کی:
”ایک خیال یہ ہے کہ نجکاری کے تحت فارغ کیے جانے والے افراد کو بونس وغیرہ فراہم کیا جائے گا۔“
”یہ اس جانب اشارہ ہے کہ جن اثاثوں کی نجکاری کی جائے گی، ان کو ماضی کے اندر حکومت میں شامل افراد، اور ان کے خاندان اور دوست انتہائی سستے داموں خریدیں گے۔“
”آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی میکواری یونیورسٹی میں معاشیات پڑھانے والے پروفیسر شان ٹرنیل نے کہا کہ میرے خیال میں ان اثاثوں کو موجودہ حکومت کے قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں نہایت کم قیمت پر بیچا جائے گا۔“
”ٹرنیل نے کہا کہ چاہے سیاسی صورتحال جو بھی بنے، حکومت کی یہی کوشش ہے کہ دولت ہر صورت میں ان کے قبضے میں رہے۔“ (’برما کے 90 فیصد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ‘، 14 جنوری 2011ء)
اس منصوبے کو مکمل طور پر سر انجام نہیں دیا گیا، جیسا کہ میانمار کی معیشت کے بارے میں کچھ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے۔ روزمرہ کی اشیاء تیار کرنے والی صنعت اور زراعت کا بڑا حصّہ اب نجی ملکیت میں ہے، مگر بھاری صنعت کی اکثریت اب بھی ریاستی ملکیت میں برقرار ہے۔
حکومت میں شامل افراد کا منصوبہ یہ نہیں تھا کہ اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ دے، بلکہ وہ خود ذرائع پیداوار کے مالکان بننا چاہتے تھے۔ 2010ء کے انتخابات سے پہلے انہوں نے زمینوں پر قبضے جمانے شروع کر دیے، اور اس کے ساتھ ہر قسم کے وسائل کو اپنے اختیار میں لینا شروع کیا، جس میں غیر قانونی طریقے بھی استعمال کیے گئے، اور سستے داموں خریداری کی گئی۔ اس قسم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، جس کے خلاف ان لوگوں کی جانب سے علاقائی سطح پر کئی احتجاج سامنے آئے ہیں جن کو ان کی ملکیت سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔
اس دفعہ بھی وہ چین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔ فوجی افسر شاہی، چینی کمیونسٹ پارٹی کی افسر شاہی کی طرح ملکی معیشت کا قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی اور اسی لیے انہوں ایسا طریقہ اپنانا چاہا کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے۔ انہوں نے معیشت کے ایک حصّے کی نجکاری کی تو سہی مگر کلیدی شعبہ جات کو ریاستی ملکیت میں ہی برقرار رکھا۔
منافع بخش اداروں کی اکثریت کو فوج کے تحت چلائے جانے والی کئی کمپنیوں کے مالک دو بڑے کاروباروں، یعنی میانمار اکنامک کارپوریشن اور میانمار اکنامک ہولڈنگز لمیٹڈ کے قبضے میں دیا گیا۔ کمانڈر ان چیف منگ آنگ ہلینگ کو ان بڑے کاروباروں کے اوپر اختیارات حاصل ہیں، جو براہِ راست اس کے خاندان کے زیرِ انتظام چل رہے ہیں۔
فوج کو یہ بالکل گوارا نہیں کہ ان منافع بخش کاروباروں کے اختیارات ان غیر فوجی شہریوں کے ہاتھوں میں دیں جو مغربی سامراجی ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ ایسا ہونے سے چین کے ساتھ تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔ مغربی سامراجی ممالک اسی وجہ سے میانمار کی فوج کو اپنے لیے رکاوٹ سمجھتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں میانمار کی معیشت میں داخل ہونا چاہتی ہیں مگر فوج کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پاتا۔ یہ حقیقت کہ میانمار کے اندر چین ہی مرکزی بیرونی قوت ہے، اس مسئلے کو شدید تر کر دیتی ہے۔
1988ء میں فوج کے تحت شروع ہونے والے سلسلے کو مضبوط سہارے کی ضرورت تھی، کیونکہ قدرتی وسائل اور بھاری صنعت ریاستی ملکیت میں برقرار تھے۔ 2016ء کے اندر 50 پبلک کارپوریشن اور 500 ریاستی کارخانے مختلف وزارتوں اور ریاستی ایجنسیوں کے تحت چل رہے تھے، جنہیں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی جو ملک کے باہر سے ہی ممکن تھی۔
ریاستی ادارے اب بھی معیشت کے اندر ایک بڑا کردار نبھاتے ہیں۔ وہ Fiscal Revenue (ٹیکس وغیرہ کے ذریعے حکومتی آمدن) کا 50 فیصد پیدا کرتے ہیں؛ وہ ٹرانسپورٹ سے لے کر ٹیکسٹائل تک، اور بینکوں سے لے کر قدرتی وسائل تک تقریباً ہر ایک شعبے میں شامل ہیں، جن میں 1 لاکھ 50 ہزار کے قریب محنت کش کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کے منتظمین کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ نجی شعبوں کو شراکت دار بنائے، جو زیادہ تر فوجی افسران کی کمپنیاں ہوتی ہیں۔
اس حقیقت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مغربی ممالک کیوں سو چی کی پشت پناہی کر رہے تھے، کیونکہ وہ اسے میانمار کی معیشت میں داخل ہونے اور فوج کی جکڑ کمزور کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسے یہ فریضہ دیا گیا تھا کہ نجکاری کے منصوبوں کو تیز کرے، اور اس نے ”صحت مند منڈی کی معیشت“ لانے کا وعدہ کیا تھا۔
البتہ جیسا کہ نکی ایشیا اخبار نے 2016ء میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نجکاری کے عمل کی فوج کی جانب سے مزاحمت متوقع تھی، اس اخبار نے خبردار کیا تھا کہ ”اگر سو چی کی حکومت نے نجکاری کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کا فوج کے مفادات کے ساتھ ٹکراؤ ہوگا۔“ (نکی ایشیا، 22 مئی 2016ء) حالیہ فوجی ’کُو‘ میں یہی کچھ دیکھنے کو ملا ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا، فوج نے اپنے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے کئی طرح کے اقدامات اٹھا رکھے تھے۔ یہاں تک کہ سو چی نے فوج کے سابقہ اعلیٰ افسر مائنٹ سو کو نائب صدر منتخب کیا تھا، جو نجکاری کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کا چیئرمین بھی تھا، یہ فوج کے ساتھ ایک کھلے عام سمجھوتہ تھا۔
تو پھر جنرل من آنگ ہلینگ آخر کیوں اقتدار پر قابض ہوا؟ وہ میانمار کی فوج کا موجودہ کمانڈر ان چیف ہے مگر وہ جلد ہی ریٹائر ہونے کی قانونی عمر کو پہنچ جائے گا، جب وہ جولائی میں 65 برس کا ہو جائے گا۔ بہرحال اس کو اپنی ذات کی فکر لگی ہوئی ہے۔ اسے روہنگیا کی نسل کشی کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ امریکی اور برطانوی ریاست، دونوں نے اس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ چنانچہ اسے اس بات کا ڈر ہے کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے عہدے سے اتر گیا تو بین الاقوامی قانون کے تحت اس کا ذاتی ذریعہ معاش خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسے جنگی مجرم قرار دیے جانے کا ڈر ہے۔ وہ اور اس کے خاندان نے نجکاری کے مذکورہ عمل سے بے تحاشا فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ ایک ایسا فوجی افسر ہے جس نے میانمار کے عوام کے بلبوتے پر اپنی دولت میں اضافہ کیا ہے۔
الجزیرہ نے انکشاف کیا ہے کہ انصاف کی مہم چلانے والا ایک گروہ جسٹس فار میانمار کے مطابق: ”اگر جمہوری عمل شروع ہونے کے بعد اس کے جرائم کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کے اور اس کے خاندان کی آمدنی کے ذرائع رک جائیں گے۔“ اسی لیے وہ میانمار کا صدر بننے کے خواب دیکھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا کہ اس طریقے سے وہ خود پر جرائم کے دفعات لگنے سے بچا سکتا ہے۔
البتہ اس کا صدر بننے کے لیے فوج کو، جو پارلیمنٹ کے 166 ممبران خود منتخب کرتی ہے، مزید 167 سیٹیں درکار ہوں گی، جس میں وہ پچھلے انتخابات کے اندر بری طرح ناکام ہوئی، جب 498 سیٹوں میں سے انہوں نے صرف 33 سیٹیں حاصل کیں۔ انتخابات کے محاذ پر ناکامی کے بعد فوج کے پاس واحد یہی راستہ بچا کہ ’کُو‘ کر کے دوبارہ آمریت قائم کی جائے۔
نومبر 2020ء کے انتخابات سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ عوام کی جانب سے فوج کو کتنی کم حمایت حاصل ہے۔ آنگ سان سو چی اور این ایل ڈی کے بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنے کے بعد فوج ڈرنے لگ گئی کہ کہیں عوام اس جیت سے حوصلہ پا کر سو چی کو اس کے اپنے منصوبوں سے آگے جانے پر مجبور نہ کر دے۔
پچھلے سال مارچ کے مہینے میں این ایل ڈی نے کچھ آئینی ترامیم کی تجویز پیش کی تھی۔ ان میں سے ایک کا مقصد یہ تھا کہ پارلیمنٹ میں فوج کی سیٹوں کو مرحلہ وار طریقے سے کم کیا جائے۔ این ایل ڈی کو اس مسئلے کا سامنا تھا کہ فوج نے آئین کو کچھ اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ ایسی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے تین چوتھائی سے زیادہ ممبران کی حمایت لازم ہے۔ مگر سیٹوں کے ایک چوتھائی حصے پر فوج اس لیے قابض ہے کہ اس قسم کی کوششوں کو روکا جا سکے، جیسا کہ پچھلے سال کیا گیا۔
1988ء کے بعد سب سے بڑی احتجاجی تحریک
آنگ سان سو چی اور این ایل ڈی دونوں اس اہل نہیں ہے کہ فوج کے اقتدار کا مکمل خاتمہ کرے، کیونکہ آخری تجزیے میں سو چی اور فوجی افسران دونوں منڈی کی معیشت، یعنی سرمایہ داری کے حامی ہیں۔ فوجی افسران کو شکست دے کر انہیں اقتدار سے ہٹانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کو بھرپور قوت کے ساتھ متحرک کیا جائے، مگر یہ عمل لبرل بورژوازی کے لیے بھی کافی خطرناک ہوگا، کیونکہ کسی ایسی عوامی تحریک کا شعور خود ساختہ طور پر پروان چڑھ سکتا ہے۔ اگر عوام بڑے پیمانے پر متحرک ہو گئے اور انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہونے لگ گیا، تو وہ روزگار، رہائش اور تنخواہوں وغیرہ کے مطالبات اٹھا سکتے ہیں، جو سو چی کے پیچھے کھڑے بورژوا لبرلز کے مفادات کے بر خلاف بات ہو گی، اور جس سے بحیثیت کل سرمایہ دارانہ نظام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ان خطرات سے فوج با خبر تھی، اس لیے وہ بڑھتی ہوئی بے چینی کا خاتمہ کرنا چاہ رہی تھی۔ یہ ان عناصر میں سے ایک تھا جس نے انہیں براہِ راست مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔ بہرحال وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ زیادہ دیر تک آمریت کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کے لیے ان کے پاس حمایت کا فقدان ہے۔ اسی لیے ’کُو‘ کے فوراً بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ایک سال کے اندر نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ اس دوران وہ سو چی پر واکی ٹاکی کی غیر قانونی برآمد کا الزام لگا کر انتخابات میں اس کی شرکت پر پابندی لگانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
فوج اس کوشش میں ہے کہ ایسی سویلین حکومت قائم کرے جو اس کے مکمل اختیار میں ہو، اور جس کے اندر جمہوریت کے پردوں کے پیچھے چھپ کر وہ خود حکومت کرے۔ مگر عوام اس سارے عمل سے واقف ہیں، جو دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ حالیہ ’کُو‘ کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی تحریک 1988ء کے بعد سب سے بڑی تحریک ہے۔ فوج کا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا جب وہ اقتدار پر قابض ہو رہی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 1988ء میں فوجی ’کُو‘ نے عوامی تحریک کا خاتمہ کر دیا تھا جبکہ 2021ء میں یہ ”ردّ انقلاب کا کوڑا“ ثابت ہوا، جو تحریک ابھارنے کا سبب بنا۔
پچھلے چند دنوں میں طلبہ کے احتجاج، مزدوروں کے دھرنے اور سڑکوں کے اوپر ٹکراؤ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ فوج کا خیال ہے کہ وہ ماضی کی طرح سماج پر قابض رہ سکتی ہے۔ مگر اس کی بجائے کہ یہ ’کُو‘ فوج کے مخالفین کا خاتمہ کرتا، اس نے میانمار کے سماج میں موجود تضادات کو سطح کے اوپر لا کھڑا کیا ہے۔
سرمایہ داری کے سنجیدہ محافظوں کا ابھی سے یہ کہنا ہے کہ قابو سے باہر ہوتی اس تحریک کا خاتمہ ایک ہی صورت میں ممکن ہے، یہ کہ سو چی کو اقتدار میں واپس لایا جائے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ قریبی عرصے میں ایسا ہو پائے گا یا نہیں۔ بہرحال ایک چیز یقینی ہے، اور وہ یہ ہے کہ میانمار کے اندر انقلابی تحریک ابھی اپنے پہلے مراحل میں ہے، نہ کہ اختتامی مراحل میں۔
(اس مضمون کا ایک حصّہ میانمار میں موجود عالمی مارکسی رجحان کے ہمدردوں کے ساتھ کی گئی گفتگو پر مشتمل ہے۔ میانمار پر شائع ہونے والے اگلے مضمون میں ہم موجودہ تحریک کا مزید قریب سے جائزہ لیں گے اور اس میں شامل سماجی پرتوں، حکمران اشرافیہ کی حکمتِ عملی، بڑی طاقتوں خصوصاً چین اور امریکی ریاست کے نقطہ نظر، اور میانمار کے اندر مارکس وادیوں کے فرائض پر بات کریں گے۔)