بولیویا: 26 جون کو ہونے والے فوجی کُو کی وجوہات

|تحریر: رفائل زابالاگا، ترجمہ: فرحان رشید|

وہ ملک جس نے تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی کُو (Coup) کا سامنا کیا ہے، بدھ (26 جون) کے روز ایک اور کُو کا شکار ہوا۔ اس پُر انتشار اور مختصر واقعے نے بولیویا کے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ انقلابی کمیونسٹ نیوکلئیس (بولیویا میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل) نے کُو کے دن ایک مختصر بیان جاری کیا۔ ذیل میں ہم مزید تفصیل میں بتاتے ہیں کہ کیا ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

26 جون 2024ء کو، مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل جوان جوزے زونیگا نے ایک کُو کی کوشش کی۔ ایک دن پہلے، صدر لوئیس آرسے نے زونیگا کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا تھا (لیکن ابھی تک تبدیل نہیں کیا گیا تھا) کیونکہ زونیگا نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایوو مورالس انتخابات میں کھڑا ہوا تو وہ اس کو گرفتار کرے گا۔

بدھ کی سہہ پہر، فوجیوں کو پلازا موریلو پر قبضہ کرنے کے لیے متحرک کیا گیا۔ ایوو نے خبردار کیا تھا کہ کُو ہونے جا رہا ہے اور جمہوریت کے دفاع میں عوام کو متحرک ہونے کی اپیل کی۔ آرسے نے بھی تھوڑی دیر بعد یہی کہا، اور بولیوین ورکرز سینٹر (COB) نے کُو کو روکنے کے لیے غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کا اعلان کردیا۔

زونیگا نے میڈیا کو بتایا کہ ایک نئی وزارتی کابینہ تشکیل دی جائے گی، جو کہ موجودہ حکومت کو بدلنے کے مترادف ہے۔ ایک ٹینک سے حکومتی محل کے دروازے توڑے گئے، جس کے بعد آرسے اور جنرل زونیگا کے درمیان ایک ڈرامائی ٹکراؤ ہوا۔ بغیر کسی حفاظت کے، آرسے نے زونیگا کو حکم دیا، جو کہ کئی مسلح فوجیوں کے ساتھ تھا، کہ وہ اپنی فوجوں کو غیر متحرک کرے۔ زونیگا نے انکار کر دیا، لیکن کچھ دیر بعد وہ عمارت سے واپس نکل گیا۔

اس وقت تک پلازا موریلو کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہو چکے تھے، جو آرسے کی حمایت میں اور فوجی مداخلت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اسی وقت، ملک کی تمام سیاسی شخصیات، حتیٰ کہ لوئیس فرناندو کاماچو اور جینین آنیز جیسے رجعتی سیاستدانوں نے بھی اس سب کی مذمت کی، جو کچھ ہو رہا تھا۔

کُو ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا: آرسے نے مکمل طور پر فوج کی اعلیٰ کمان کو تبدیل کر دیا، نئے چیف ان کمانڈرز کا تقرر کیا، جس نے پلازا موریلو پر قابض فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ جیسے ہی فوجی پیچھے ہٹے، ناراض عوام نے ان کا تعاقب کیا۔ اسی وقت، زونیگا ایک بکتر بند گاڑی میں فرار ہوا، لیکن زیادہ دور نہ جا سکا اور گرفتار ہو گیا۔

پھر اس نے میڈیا سے خطاب کیا اور ایک بہت ہی عجیب بیان دیا۔ زونیگا کے مطابق، آرسے نے اس سے کہا تھا کہ وہ خود ایک ”کُو“ کرے کیونکہ آرسے کی مقبولیت کم ہو رہی تھی، تاکہ اسے اپنی ”خراب“ صورتحال سے نکالا جا سکے۔

بہرحال کسی بھی طرح، اسے بحریہ اور فضائیہ کے کمانڈروں، فوجی عملے اور شہریوں کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا اور اب وہ بغاوت کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔

ہم اس سب کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

اس عجیب و غریب صورتحال کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کیا یہ واقعی خود کیا گیا ”کُو“ تھا؟ اس کے ملک پر کیا اثرات ہوں گے؟ اور سب سے اہم بات، کمیونسٹوں اور تمام باشعور طبقاتی جنگجوؤں کو اس سے کیا اسباق حاصل کرنے چاہئیں؟

JJZ Image Asamblea Legislativa Plurinacional Wikimedia Commons

شروع سے ہی، کُو میں اپنی ایک سیاسی منطق نظر آتی ہے۔

سب سے پہلے، زونیگا نے یہ بغاوت کیوں کی؟ حکمران جماعت موومنٹ فار سوشلزم (MAS) میں موجود سباقہ صدر ایوو مورالس کے حامیوں اور دائیں بازو کی اپوزیشن کے مختلف گروہوں کی قیاس آرائی یہ ہے کہ یہ واقعی خود کیا گیا ’کُو‘ تھا۔ بغاوت کے کچھ پہلو، جیسے کہ آرسے اور زونیگا کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جانا، اور جس میں آرسے غیر مسلح اور بغیر کسی حفاظت کے تھا، اس نقطہ نظر کو قائم کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ لیکن ذرا قریب سے جانچنے پر خیال قائم نہیں رہ پاتا۔

شروع سے ہی، کُو میں اپنی ایک سیاسی منطق نظر آتی ہے۔ وزارتی کابینہ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی بات سے ہٹ کر، زونیگا نے مسلح افواج کے احترام میں ہوتی کمی پر حملہ کیا، یاد رہے کہ اس کو صرف کچھ وقت پہلے ہی برطرف کیا گیا تھا، اور اس نے کہا کہ کاماچو اور آنیز جیسے ”سیاسی قیدیوں“ کو رہا کیا جائے گا۔

جب ایک دفعہ یہ واضح ہوگیا کہ وہ اس سے بچ نہیں پائے گا، تب ہی اس نے آرسے پر الزام لگایا کہ اس نے خود کُو کروایا ہے۔ لیکن ایک زخمی شیر کسی بھی طرح کی کوشش کرے گا کہ وہ بھاگ جائے، یا کم از کم گرنے سے پہلے اپنے دشمن کو اچھی طرح سے نقصان پہنچائے۔ زونیگا نے بعد میں پولیس کو دیے گئے سرکاری بیانِ گرفتاری میں اپنی کہانی کو دوبارہ تبدیل کیا اور دیگر فوجی کمانڈروں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے تفویض کردہ کردار کو پورا نہیں کیا۔

مزید برآں، موجودہ حالات میں خود کُو کرنا آرسے کے مفاد کے بالکل خلاف ہوتا۔ کُو نے معیشت اور سیاست کو واضح طور پر غیر مستحکم کرنا تھا جو اس کی پوزیشن کو مزید کمزور کرتی۔ یہ کسی بھی کُو کی کوشش کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور یہ سوچنا مشکل ہے کہ آرسے نے اس پر غور نہیں کیا ہوگا۔

ایک اور اہم نکتے کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ’خود کیے گئے کُو‘ کا نظریہ فوج کی طرف سے ادا کیے گئے انتہائی رجعتی کردار سے توجہ ہٹاتا ہے۔ فوج سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک لازمی حصہ ہے۔ جب بھی ہمارے ملک میں فوجی مداخلتیں ہوئی ہیں، ہمیشہ سامراجیت اور سرمایہ دار حکمرانوں کی خدمت میں ہوئی ہیں۔

اس پر توجہ دینا بھی اہم ہے کہ ایوو نے ایک بار پھر آرسے کے خلاف دائیں بازو کی اپوزیشن کے ساتھ خود کو منسلک کیا ہے۔ ایوو کا ابھی بھی عوام کی ایک خاص پرت پر کافی اثر و رسوخ ہے، اور یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ وہ ایک مبینہ خود کیے گئے کُو پر توجہ مبذول کر رہا ہے، بجائے اس کے کہ وہ اس واضح حقیقت کے گرد متحرک ہو کہ ایک فوجی جنرل نے جمہوری طور پر منتخب حکومت، اس کی اپنی پارٹی کی حکومت کو اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی۔

کیا سامراجی قوتیں اس میں ملوث تھیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حتمی جواب دینا مشکل ہے۔ ایک طرف یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ فوج کے اندر کوئی بھی اہم واقعہ امریکی سفارتخانے اور اس کی انٹیلی جنس سروسز کی جانکاری کے بغیر ہوتا ہے۔ بولیویا میں قیمتی معدنی وسائل ہیں، اور ان وسائل پر قبضے کے لیے امریکہ اور دیگر حریف قوتوں (چین، روس، ایران) کے درمیان تنازع موجود ہے۔

تاہم، بغاوت نے غیر ملکی حکومتوں کو حیران کر دیا اور انہوں نے اس کی مذمت کی۔ پلازا موریلو میں فوجی موجودگی کی وجہ سے سیکورٹی الرٹ جاری کرنے کے علاوہ، امریکی سفارتخانے نے خاموشی اختیار کی۔ اور جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، زونیگا کو کسی بھی شعبے سے کھلے عام حمایت نہیں ملی۔

بغاوت کیلئے درکار حالات

حقیقت یہ ہے کہ بولیویا میں اس وقت بغاوت کے لئے درکار ضروری حالات موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ کتنی تیزی سے عوام کُو کے خلاف متحرک ہو گئے۔ بولیوین ورکرز سنٹر (COB) نے فوری طور پر غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اگر فوجی کُو اس وقت ناکام نہ ہوتا، تو محنت کش طبقے کی عام تحریک نے جلد ہی انہیں اقتدار سے ہٹا دینا تھا، یا کم از کم سڑکوں پر فوج کا کھل کر مقابلہ شروع کر دینا تھا۔

bolivia coup Image Fernando6718 Wikimedia Commons

تاریخی طور پر اور عمومی طور پر، حکمران طبقہ صرف انتہائی عدم استحکام کی صورت میں فوجی آمریت کا سہارا لیتا ہے، جب اس کا نظام خطرے میں ہوتا ہے اور سیاسی تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے۔ جب محنت کش طبقہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتا ہے، اور ساتھ ہی، سرمایہ دار طبقہ بھی دوبارہ سے نظم قائم کرنے کیلئے کمزور ہوتا ہے، تو ہم بونا پارٹزم کا اُبھار دیکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں اپنے مضبوط ترین دھڑے یعنی فوج کی صورت میں ریاست سماج سے بہت بلند ہوسکتی ہے، اور حالات کو ’مستحکم‘ کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کرتی ہے۔

خطے میں بوناپارٹ ازم کی تاریخی مثالوں میں آپریشن کونڈور کے تحت قائم کی جانے والی آمریتیں شامل ہیں۔ بولیویا میں بینزر نے پاپولر اسمبلی کو کچل کر اقتدار حاصل کیا، جو کہ ایک ابتدائی سوویت تھی، یعنی ایک انقلابی صورتحال میں تشکیل پانے والا مزدوروں کے کنٹرول کا ادارہ۔

چلی میں پینوشے نے کُو کرکے علیندے کی پاپولر یونٹی گورنمنٹ اور بالخصوص عوام کو دبا دیا، جو زمین اور فیکٹریوں پر قبضہ کرکے سماج کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا آغاز کر رہے تھے۔

تاہم، دونوں معاملات میں یہ ضروری تھا کہ فوج کے کُو کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے مزدور تحریک کی توانائی کسی حد تک ختم ہو جائے۔ بولیویا میں، پاپولر اسمبلی کئی مہینوں سے موجود تھی لیکن وہ ایک بندگلی میں تھی جس نے محنت کشوں کو مفلوج کردیا تھا۔ چلی میں، محنت کشوں کی مرضی کے برخلاف علیندے کی سرمایہ داری کی حدود میں رہنے کی مسلسل ضد نے اس حد تک غیر فعالیت کو جنم دے دیا تھا کہ پینوشے بغاوت کرسکے۔

یہ واضح طور پر بولیویا کی موجودہ صورتحال نہیں ہے۔ مزدور تحریک میں بہت زیادہ ابہام موجود ہے، لیکن وہ اب بھی فوجی آمریت جیسے واضح خطرے کے خلاف متحرک ہونے کے قابل ہے۔ اس کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک کُو حکمران طبقہ کی پوزیشن محفوظ کرنے کی بجائے، خاص حالات میں ایک انقلابی تحریک کو بھی مہمیز دے سکتا ہے۔ تاہم جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ایک انقلابی قیادت جس کے پاس مارکسی پروگرام ہو، ایسی تحریک کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔

یہ واضح ہے کہ بولیویا ایک گہرے ہوتے بحران کا شکار ہے لیکن وہ نمایاں مرحلہ اب تک نہیں آیا، گو کہ چیزیں اسی جانب بڑھ رہی ہیں۔ 26 جون کے ناکام کُو میں فوج کا ایک آزاد کردار کے طور پر دوبارہ جنم دراصل اظہار ہے اس بحران کا اور اس کے گہرے ہونے کا۔ معیشت تو جو پہلے ہی خستہ حال تھی، اور اب ہچکولے کھا رہی ہے۔ ہم ابھی بھی مکمل معاشی بحران میں نہیں ہیں، لیکن ڈالروں کی کمی کی صورت میں خطرے کے ابتدائی نشانات مزید بھیانک ہو رہے ہیں۔

سیاسی طور پر بحران حکومتی جماعت MAS کے گرد پنپ رہا ہے، لیکن اگست 2025ء کے انتخابات قریب آئیں گے تو یہ اور زیادہ عمومی ہو سکتا ہے۔ مشترکہ دشمن یعنی فوجی مداخلتوں کے خلاف لڑنے کیلئے MAS کے دو دھڑوں کے درمیان کسی اتحاد کے کسی بھی قسم کا ابہام چیتھڑوں میں بکھر چکا ہے۔ پارٹی میں تقسیم صرف اور صرف مزید بھیانک ہوئی ہے۔ دائیں بازو اور سینٹر کی جماعتیں تو صرف بولیویا کے غلیظ اور خون آشام سرمایہ دار طبقے کا عکس ہیں۔ خود سے بنے ججوں کے گرد پنپتا بحران بھی دراصل ایک مخصوص اظہار ہے اس پسماندہ اور رشوت خور سرمایہ دارانہ ریاست کا جو مکمل طور پر صرف اور صرف بولیویا کا خاصہ نہیں ہے۔

فوجی مداخلت کا خطرہ کہیں نہیں گیا ہے۔ 26 جون کو جو ہوا وہ دراصل آگے آنے والے عدم استحکام کی ایک تنبیہہ ہے۔ اب ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ چلی کا 1973ء کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا ناکام کُو مستقبل میں مزید اس سے بڑی کوشش کی ایک مشق ہو سکتی ہے۔ اور بولیویا میں فوج اسی کردارکو جاری رکھ رہی ہے جو اس نے 1970ء کی دہائی کے دوران یہاں اور دیگر لاطینی امریکہ میں ادا کیا تھا۔

ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں، فوج ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی سرمائے کے مفادات کیلئے کام کرے گی۔ جب MAS اقتدار میں آئی تو اپنے وعدے کے مطابق فوج کی ڈی کالونائزیشن کرنے میں وہ ناکام رہی۔ موثر طور پر فوج کو ڈی کالونائز کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سامراجیت کے ایک اوزار کے طور پر اس کا کردار ختم کیا جائے نہ کہ کچھ علامات یا نشانات بدلے جائیں بلکہ اس کو مٹا کر اس کی جگہ عوام کو مسلح کیا جائے، اور اب فوج کی قیادت میں اشرافیہ اور رجعتی پرت کی بجائے جمہوری طور پر منتخب افسران ہوں۔

لیکن اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیادوں کے ساتھ بولیویا کی سرمایہ داری کو ملیا میٹ کرنا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں، فوجی آمریت کو دوبارہ قائم نہ ہونے دینے کیلئے سوشلسٹ انقلاب اور محنت کش طبقے کی آمریت کے ادارے قائم کرنا ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ استحصالی سرمایہ دارانہ اقلیت کے خلاف مظلوم محنت کشوں اور مزارعوں کی حکمرانی۔

بولیویا، جو نہایت کم عرصہ پہلے سرمایہ دارانہ بحران کے خلاف مدافع معلوم ہوتا تھا، اور اصلاح پسندی کی کامیابی کا چمکتا ہوا نمونہ تھا، اب عالمی سرمایہ داری کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھائی کی طرف لڑھک رہا ہے۔ اشیا کی بلند قیمتوں کے چکر، جس نے MAS گورنمنٹ کے اقتدار کی پہلی دہائی میں کسی طور استحکام بخشا تھا، کے کمزور ہونے کے سبب بحران جنم لے رہا۔

اس ملک میں کئی فوجی حکومتیں آئیں اور بہت سارے ناکام انقلابات ہوئے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوبارہ کبھی فوجی آمریت نہ دیکھنی پڑے، لیکن ہم مکمل یقین رکھ سکتے ہیں کہ انقلاب دوبارہ بولیویا اور پوری دنیا میں اُبھرے گا۔ انقلاب کی کامیابی کا واحد ضامن محنت کش طبقے میں پیوست ایک انقلابی کمیونسٹ قیادت ہے۔ ہم Núcleo Comunista Revolucionario، بولیویا میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے کامریڈز ایک ایسی پارٹی کے ابتدائی ڈھانچے کو تعمیر کررہے ہیں۔ آئیں ہمارا حصہ بنیں!

Comments are closed.