|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: ولید خان|
ایک حالیہ تباہ کن تحقیق میں سعودی عرب پر الزام لگایا گیا ہے کہ پچھلے 12 مہینوں میں سعودی یمنی سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے کئی سو تارکین وطن کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا گیا ہے۔ 73 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں عینی شاہدین، سیٹلائٹ تصاویر کے ماہرین کے تفصیلی حوالہ جات اور کئی ویڈیوز کے ساتھ سعودی سرحدی محافظین پر کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ محافظ ”دھماکہ خیز ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے قریب سے لوگوں پر گولیاں برساتے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جبکہ یہ عمل وسیع پیمانے پر مربوط انداز میں پھیلا ہوا ہے“۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد پر نہ صرف گولیاں برسائی گئیں بلکہ انہوں نے ”تارکین وطن پر دھماکہ خیز ہتھیار بھی چلائے جنہیں عارضی سعودی قید سے رہا کیا گیا تھا اور وہ واپس یمن بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے“۔
مغربی سامراج کے ساتھ گرم جوش اور طویل تعلقات کی بنیاد پر آل سعود مکمل آزادی کے ساتھ ان انسانیت سوز جرائم کا مرتکب ہوا ہے جبکہ اسے بغیر کسی رکاوٹ کے پیسوں اور ہتھیاروں کی سپلائی بھی جاری رہی ہے۔
تارکین وطن پر مظالم
رپورٹ میں زیادہ تر شناخت کردہ مظلوموں کا تعلق ایتھوپیا سے ہے۔ اس وقت اندازاً 7 لاکھ 50 ہزار ایتھوپین سعودی عرب میں موجود ہیں جن میں سے اکثر غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ غیر قانونی راستوں سے جنگ اور غربت سے جان بچا کر بھاگ کر آئے ہیں۔۔۔ان حالات کے قصوروار سامراجی خود ہیں۔
جو ملک میں کام کرنے کے لئے رہ جاتے ہیں انہیں ہولناک سماجی حالات، نسل پرستی، کنٹریکٹ غلامی اور ذلت کا سامنا ہے جس میں بدنام زمانہ کفالا نظام (سپانسرشپ) معاون ہے (سعودی عرب نومبر 1962ء میں غلامی پر پابندی لگانے والا دنیا کا آخری ملک تھا۔ لیکن جدید شکل میں غلامی کو قائم رکھنے کے لئے انتہائی سفاک اور بدنام زمانہ کفالا نظام لاگو کیا گیا ہے جس کے تحت ہر مزدور، چاہے وہ فرد ہو یا کمپنی، کا غلام ہے۔ مترجم)۔ اس وجہ سے تارکین وطن محنت کش اپنے آقاؤں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اپنی سکونت کو قانونی شکل نہیں دے پاتے۔
کورونا وباء کی انتہاء پر ایتھوپی حکومت کو کئی ہزار تارکین وطن واپس لینے پڑے تھے کیونکہ غلیظ گنجان مزدور کیمپوں سے خوفناک ٹارچر کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔ اس سال ادیس ابابا میں حکومت نے اپنی پالیسی ختم کر کے 5 لاکھ ایتھوپی خواتین کو بطور گھریلو ملازم سعودی رحم و کرم کے حوالے کر دیا ہے تاکہ ملک میں کچھ زر مبادلہ آ سکے۔
حالیہ الزامات ایک ہی عمل کا تسلسل ہیں۔ سعودی عرب میں تارکین وطن لیبر فورس کا 75 فیصد ہیں۔
اس سستی لیبر کا دہائیوں دیوہیکل منافعوں کے لئے خون نچوڑنے کے بعد اب سعودی حکمران طبقہ ”غیر قانونی تارکین وطن“ پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے انہیں مقامی سعودیوں میں بیروزگاری اور بلیک مارکیٹ کو قائم رکھنے کا سبب بتا رہا ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے سعودی عرب غیر دستاویزی تارکین وطن پر خوفناک کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں تارکین وطن کو بھیڑ بکریوں کی طرح اکٹھا کر کے ملک بدر کرنے سے پہلے مہینوں یا سالوں کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں قید رکھا جاتا ہے۔
سابق قیدیوں نے ان بھیڑ زدہ سیلوں کی بھیانک صورتحال بیان کی ہے جو ہواداری سے عاری ہیں جبکہ اشیائے خوردونوش، پانی، صفائی، معقول رہائش اور صحت کی سہولیات انتہائی مشکل یا ناپید ہیں۔ قیدیوں کو ہر وقت ٹی بی جیسی تباہ کن بیماریوں کا خطرہ رہتا ہے۔
حاملہ خواتین اور ایک مہینے تک کے نومولد بچے بھی ان سعودی قیدوں میں بند رہے ہیں جہاں مبینہ طور پر ”محافظ“ مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے اور دیگر جسمانی ٹارچر کے ذریعے اشیائے خوردونوش اور صحت کی سولیات کے فقدان پر ہونے والے احتجاجوں کو کچلتے رہتے ہیں۔
2017-22ء کے دورانیے میں 5 لاکھ سے زائد ایتھوپی تارکین وطن کو قید کیا گیا اور بعد میں ملک بدر کر دیا گیا۔ کچھ کو ان عقوبت خانوں سے زندہ نکلنا ہی نصیب نہ ہوا۔ ایک سابق قیدی حسین نے ایک ساتھی قیدی کا حوالہ دیا جو تشدد کے بعد جاں بحق ہو گیا تھا:
”اس کی پسلیوں میں شدید تکلیف تھی لیکن اسے ہسپتال نہیں لے جایا گیا۔ ہم جیل گارڈوں کی منتیں کرتے رہے کہ مرنے کے بعد اس کی لاش لے جائیں۔۔۔انہوں نے سیل سے دو دن بعد اس کی لاش نکالی“۔
رپورٹ کے مطابق کئی تارکین وطن سعودی سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
جان لیوا سفر
کئی دہائیوں سے ایتھوپی تارکین وطن (ان میں صومالیہ اور ایریٹیریا سے بھی لوگ شامل ہیں) نے ہارن آف افریقہ، خلیج عدن کے پار، براستہ یمن اور پھر سعودی عرب میں گھسنے کے لئے نام نہاد ”مشرقی“ یا ”یمنی راستہ“ اختیار کیا ہے۔
یہ جان لیوا راستہ انسانی سمگلروں کے کنٹرول میں ہے جو ان مفلوک الحال تباہ و برباد افراد کو خافناک بدسلوکی اور بھتہ خوری کا نشانہ بناتے ہیں۔ 2014ء سے کئی افراد یمن میں ہوثی فورسز اور سعودی آمریت کے درمیا ن کراس فائر، قید، بدسلوکی اور سفاک قتل کا نشانہ بنے ہیں۔
جبوتی سے کشتی کے ذریعے خطرناک سفر طے کر کے تارکین وطن یمن میں عارضی بستیوں تک پہنچتے ہیں۔ اورومیا سے تعلق رکھنے والے حمزہ کے مطابق ان میں سے ایک ال تھابت بھی ہے:
”کچھ پناہیں پلاسٹک کی بنی ہوئی ہیں۔۔۔ایک کمپاؤنڈ بنا ہوا ہے جسے تاروں سے بنایا گیا ہے۔۔۔وہاں لاکھوں تارکین وطن موجود ہیں۔ ایک مرتبہ اندر داخل ہو جاؤ تو پھر باہر نہیں آ سکتے۔۔۔ایک مرتبہ گارڈز کو ادائیگی ہو جائے تو پھر سمگلر آ کر آپ کو سرحد پر لے جاتے ہیں“۔
عینی شاہدین کے مطابق جو افراد یمنی سمگلروں کو پیسے نہیں دے پاتے انہیں 200 افراد کے گروہوں کی پہلی صف میں بطور انسانی ڈھال کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سعودی سیکورٹی گارڈز کی جانب سے حملوں میں اکثر دھماکہ خیز ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جن میں مارٹر اور راکٹ لانچر شامل ہیں۔
سرحد پار یہ سفر اتنا مشکل ہے کہ کئی تارکین وطن کو ہفتوں اور مہینوں پر محیط عرصے میں بار بار سرحد پار کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی ہرارغے سے 20 سالہ ہادیہ نے بتایا کہ:
”ہم (ال تھابت میں) تین مہینے رہے کیونکہ اس سارے عرصے میں ہم (سرحد) پار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ہم پار کرنے کی کوشش کرتے اور سرحدی گارڈز ہمیں پیچھے دھکیل دیتے پھر ہم کوشش کرتے اور پھر ہم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے اور یہ عمل تین مہینوں جاری رہا“۔
اکثر اوقات تارکین وطن کے گروہوں کا مقدر خوفناک موت ہوتی ہے۔ اکتوبر 2022ء میں ایک کوشش کا حوالہ دیتے ہوئے ہادیہ نے بتایا کہ:
”میں 170 افراد کے ساتھ تھی۔ ان میں سے کئی خواتین تھیں اور بچے بھی ساتھ شامل تھے۔ سعودی (سرحدی گارڈز) ایک گاڑی کے پچھلے حصے سے ہم پر گولیاں برسا رہے تھے۔ میں نے انہیں ایک گاڑی میں کچھ پھینکتے ہوئے دیکھا۔۔۔جب وہ (سعودی سرحدی محافظ) ہم پر گولیاں برسا رہے تھے تو لوگوں کے ہاتھ اور ٹانگیں ضائع ہو رہے تھے اور ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہم نے اپنی جان بچانی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو قتل ہوتے دیکھا۔ جب میں چل رہی تھی تو راستے میں مجھے 20 لاشیں ملیں“۔
جن تارکین وطن کو پکڑ لیا گیا انہوں نے بعد میں بتایا کہ گارڈز پوچھتے ہیں کہ جسم کے کون سے اعضاء پر گولی ماری جائے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ گارڈز انہیں پتھروں اور لوہے کے ڈنڈوں سے مارتے پیٹتے ہیں۔
یہ گھناؤنا کھلواڑ زبان زد عام ہے۔ یکم جنوری سے 30 اپریل 2022ء کے دوران اقوام متحد ہ نے الزامات رپورٹ کئے کہ ”سعودی سیکورٹی فورسزنے آرٹلری شیلنگ اور چھوٹے ہتھیاروں سے مبینہ طور پر 430 تک تارکین وطن قتل اور 650 تک زخمی کئے ہیں جن میں مہاجرین اور پناہ گزین بھی شامل ہیں“۔
ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ میں ان مظالم کے تفصیلی ثبوت فراہم کئے گئے ہیں۔ اس تنظیم نے 40 سے زیادہ سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے افراد کا انٹرویو لیا جبکہ 350 سے زائد ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ فروری 2022ء اور جولائی 2023ء کے درمیان کئی سو کلومیٹر سیٹلائٹ تصاویر و ویڈیوز کا بھی جائزہ لیا گیا۔
ان عینی ثبوتوں میں سمگلنگ راستے میں جا بجا لاشیں، زخمی، تارکین وطن کیمپ اور میڈیکل سنٹر دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ کیمپوں کے ساتھ تدفین کی جگہیں بھی ہیں۔ لیکن یہ عینی شاہدین کے بیانات ہیں جو انتہائی جہنم نما منظر کشی کرتے ہیں۔
”انہوں نے بارش کی طرح ہم پر گولیاں برسائیں“
اورومیا سے ایک 20 سالہ خاتون داہابو نے دسمبر 2022ء میں یمنی سعودی سرحد کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ:
”جیسے ہی ہم (سرحد) پہنچے، انہوں (سعودی سیکورٹی گارڈز) نے ہم پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔۔۔بہت سے لوگ قتل ہو رہے تھے۔۔۔200 تارکین وطن کے گروہ میں صرف 50 ہی زندہ بچ پائے۔ ہم پر سعودی فوجیوں نے گولیاں چلائیں۔۔۔ان کی کئی رنگوں میں وردیاں تھیں۔ سبز یا سفید یا کچھ اور۔ سب کو پتا ہے کہ یہ سعودی فوج ہے۔۔۔سمگلروں نے ہمیں بتایا۔۔۔وہ سعودی فوج ہیں، وہ سرحدی گارڈز ہیں“۔
فارنزک ماہرین نے قتل ہونے والے اور زخمیوں کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد بتایا ہے کہ ان کے زخم ”واضح طور پر دھماکہ خیز اسلحہ کی نشاندہی کرتے ہیں جو گرمی اور ٹکڑے (بم یا راکٹ میں موجود چھوٹے ٹکڑے جو پھٹنے کے بعد چاروں اطراف پھیل کر اپنے راستے میں موجود ہر چیز کو چیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔ مترجم) پیدا کرتے ہیں“ جبکہ دیگر پر ”گولیوں کے زخم دیکھے جا سکتے ہیں“۔
ایک انٹرویو دینے والے نے بتایا کہ ”(میرے گروہ میں) 150 میں سے 7 ہی بچے۔۔۔لوگوں کے اعضاء بکھرے پڑے ہیں“۔ ایک اور نے سعودی سرحد پر جا کر اپنے گاؤں کی ایک لڑکی کی لاش حاصل کی۔ اس کا کہنا تھا کہ:
”اس کی لاش 20 اور لاشوں پر پڑی ہوئی تھی۔۔۔صحیح گنتی کا اندازہ ناممکن ہے۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا“۔
خاص طور پر جون 2023ء میں سرحد پار کرنے کی کوشش کا انتہائی خوفناک واقعہ ہے جس میں تارکین وطن کو گرفتار اور پیچھے دھکیلنے کے باوجود قتل کر دیا گیا۔ اورومیا سے ایک 20 سالہ لڑکی منیرہ نے بتایا کہ:
”سعودیوں نے ہمیں دائر کے قید خانے سے اٹھایا اور ایک منی بس میں ڈال کر یمنی سرحد پر پہنچا دیا۔ جب ہم باہر نکلے تو ایک طرح کا انتشار پیدا ہو گیا، وہ ہم پر چیختے چلاتے رہے کہ ”باہر نکلو اور دفع ہو جاو“۔ انہوں نے ہمیں ایک ہی راستے میں قید کر لیا، میرا خیال ہے کہ وہ ہمیں پھیل کر دوبارہ سعودیہ کی جانب بھاگنے سے روک رہے تھے اور پھر اس وقت انہوں نے مارٹر برسانے شروع کر دیے۔۔۔تاکہ ہم ایک سیدھی لکیر میں چلیں، وہ مسلسل دائیں اور بائیں مارٹر برساتے رہے۔ جب ہم ایک کلومیٹر دور ہو گئے تب بھی سرحدی گارڈز ہمیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم اکٹھے سستا رہے تھے کیونکہ ہم بھاگ بھاگ کر تھک چکے تھے۔۔۔اس وقت انہوں نے ہمارے گروپ پر مارٹر برسانے شروع کر دیے۔ براہ راست۔ ہمارے گروپ میں 20 تھے اور صرف 10 ہی زندہ بچے۔ کچھ مارٹر پتھروں کو لگے اور پھر پتھر (کے ٹکڑے) ہمیں لگے۔۔۔ہتھیار راکٹ لانچر لگتا تھا، اس کے چھ ’منہ‘ تھے، چھ سوراخ جن سے فائر کیا جا رہا تھا اور یہ ایک گاڑی کے پیچھے نصب تھا۔۔۔اس نے ہم پر کئی دفع فائر کیا۔ انہوں نے ہم پر بارش کی طرح فائر کیا۔ جب مجھے یاد آتا ہے تو میں روتی ہوں۔۔۔میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو مدد کے لئے پکار رہا تھا، اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو چکی تھیں۔ وہ چیخ رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ ’کیا تم مجھے یہاں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ خدا کا واسطہ مجھے اکیلا نا چھوڑو‘۔ ہم اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہم خود اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے تھے۔ کئی افراد تھے جن کے جسمانی اعضاء ضائع ہو گئے“۔
جس سفاکی کا اندھا راج ہے وہ خون جما دیتا ہے۔ منیرہ کی کہانی کی ایک AFEG (انٹرنیشنل فارنزک ایکسپرٹ گروپ) پاتھولجی ماہر نے بھی تائید کی جس نے اس کے زخموں کی تصاویر دیکھنے کے بعد نتیجہ دیا کہ یہ دھماکہ خیز ٹکڑوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ قطبیر (سعدہ کا ایک ڈسٹرکٹ) کے ایک میڈیکل سنٹر میں انٹرویو دیتے ہوئے منیرہ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وہ صحت یاب ہو گی، اسے دوبارہ اس ہولناک تباہی سے گزرنا پڑے گا:
”ہم یمن میں نہیں رہ سکتے، یہاں کوئی اشیائے خوردونوش نہیں ہیں اور ہم زندہ نہیں رہ سکتے، ہم مر جائیں گے۔ آج رات یا کل ہم پھر (سرحد) پار کرنے کی کوشش کریں گے“۔
جنگ اور غربت سے برباد انسانوں کے سامنے یہی دو راستے ہیں۔۔۔سرحد کے ایک طرف بھوک سے موت یا دوسری طرف پار کرنے کی کوشش میں گولیوں اور بموں سے موت۔
سامراجی منافقت
ظاہر ہے کہ سعودی بادشاہت نے ان تمام الزامات کو رد کر دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ یہ کہانی ادھر ہی دب جائے۔ مثال کے طور پر الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک کی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں ہیومن رائٹس واچ پر تبصرہ کیا گیا تھا جسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔
اس سے پہلے سعودی عرب نے سوشل میڈیا پر اپنے ہولناک تجربات شیئر کرنے والے تارکین وطن کا منہ بند کرنے کی پوری کوشش کی۔ سعودی عرب نے 6.3 ارب ڈالر کھیلوں پر لگا دیے ہیں (پچھلے چھ سالہ دور کے مقابلے میں چار گنا سے زیادہ رقم)۔۔۔ایک ”سپورٹس لانڈری“ کھول رکھی ہے تاکہ اپنی ساکھ اور غلیظ ترین انسان سوز جرائم کو دھویا جا سکے۔
ظاہر ہے کہ اس وقت تک سعودی بادشاہت اپنے جرائم پر سزا یافتہ نہیں ہو گی جب تک مغربی اتحادیوں کی سفارتی آشیر باد حاصل رہے گی۔ اگرچہ پچھلے کچھ عرصے میں مغربی سامراج اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات میں کچھ ”ناراض“ لمحات بھی آئے ہیں جن میں سے ایک وجہ روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں لیکن سعودیہ مشرق وسطیٰ میں مغربی سامراج کے لئے ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔
یہ سعودی عرب کی یمن میں سات سالہ جنگی بربریت پر مغربی سامراج کی شرمناک خاموشی کی بنیاد ہے۔۔۔حالیہ تاریخ میں بدترین انسانی المیہ جس نے لاکھوں جانیں نگل لی ہیں۔
اس خون خرابے کو نظرانداز کرنے کے برعکس، سامراجی سعودیہ کو مسلسل ہتھیار بیچ کر منافعوں سے جیبیں بھر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس جنگ کے دوران برطانیہ اب تک سعودی اتحاد کو 27 ارب پاؤنڈ کا اسلحہ بیچ چکا ہے۔
مغربی سامراج اور ان کے سر تن سے جدا کرنے والے سعودی بادشاہوں میں محبت کی پینگیں اول الذکر کی اپنے ”جمہور دشمن“ مخالفین کے ”مظالم“ کے حوالے سے منافقانہ واویلے پر اپنا غلیظ سایہ ڈالے کھڑی ہیں۔
یوکرین میں روسی ”بربریت“ پر مغرب نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن دوسری طرف سعودی عرب پر ہتھیاروں اور پیسوں کی بارش جاری ہے۔ درحقیقت یوکرین جنگ آل سعود کو بہت محبوب ہے کیونکہ اس کے ذریعے ان کا تیل مسلسل مہنگا ہو رہا ہے۔
تارکین وطن کے قتل عام کی خبریں منظر عام پر آنے کے باوجود برطانیہ میں رشی سوناک کی حکومت حقیقی سعودی حاکم ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لئے ایک پر تکلف ریاستی دورہ منظم کر رہی ہے۔
تارکین وطن کے حوالے سے سعودی عرب کی بربریت اور پھر اس کی مغرب میں مسلسل معاونت پر کبھی کبھی دل میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا موقع ملنے پر تارکین وطن پر یہی ظلم کے پہاڑ توڑنے کا برطانوی حکمران طبقے کا دل نہیں کرتا ہو گا۔ ٹوریز نے تارکین وطن کو زبردستی روانڈا بھیجنے کی کوشش کی ہے اور قانونی لوازمات پورے کئے بغیر تارکین وطن کو بیماریوں سے بھرے جیل نما مال بردار بحری جہازوں میں ٹھونسا ہے جبکہ ”چھوٹی کشتیوں کے ذریعے پار“ کرنے کی کوششوں پر ایک طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح فرانٹیکس فورسز انتہائی جبر کے ساتھ ”یورپ کے قلعہ“ کی حفاظت کر رہی ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں مرد، عورت اور بچے سرحدیں پار کرنے کی کوششوں میں ڈوب جاتے ہیں جن میں سے کئی اثناء میں اس کی وجہ یورپی ساحلی گارڈز کے دانستہ ”پرے دھکیلنے“ والے آپریشن ہوتے ہیں۔ پھر اکتوبر 2021-22ء کے دوران امریکی – میکسیکی سرحد کو پار کرنے کی کوششوں میں 800 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔۔۔یہ ریکارڈ پر سب سے خون آشام 12 مہینے ہیں۔ بچ جانے والوں میں سے اکثر ICE (امریکی کسٹم اینڈ امیگریشن اینفورسمنٹ۔ مترجم) کے پنجروں میں قید ہو جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور مغرب کے حکمران طبقات میں یہ قدر مشترک ہے۔۔۔وہ ایک ہولناک سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں اور ان کے ہاتھ ان گنت تارکین وطن کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
سعودی سرحد پر اور باقی دنیا میں تارکین وطن کی نہ ختم ہونے والی تباہی و بربادی لینن کے الفاظ پر سچائی کی مہر ثبت کرتی ہے کہ سرمایہ داری ”ایک لامتناہی وحشت“ ہے۔
کمیونسٹ اس غلیظ نظام کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ ہمیں ہر صورت جدوجہد کرنا ہو گی تاکہ اس نظام کو سعودیہ اور اس کے سامراجی آقاؤں سمیت تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔ پھر ہی ان تمام مظلوموں کو انصاف میسر ہو گا جو ان کے جبر کا شکار ہیں۔