’’مراکش میں خوش آمدید، ہم یہاں انسانوں کا قیمہ بناتے ہیں!‘‘

morocco-protest

|تحریر: جان ڈوال، ترجمہ: ولید خان|
عوام شاہ محمد چہارم کی بادشاہت کے خلاف غصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں غم و غصے میں بپھرے ہوئے لوگ پچھلے ہفتے چھٹی کے دن سڑکوں پر نکل آئے جب ایک پچھلی فروش کو الحسیمہ میں ایک کوڑے کے ٹرک میں کچل دیا گیا۔ غریب مچھلی فروش مقامی پولیس کے قبضے میں لی گئی اپنی مچھلی چھڑانے کی کوش کر رہا تھا۔ محسن فکری کی مچھلیاں اس جمعے کو چھین لی گئیں جب مقامی انتظامیہ اس سال سوورڈ فش کی فروخت پر لگائی پابندی نافذ کر رہی تھی۔ واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر کوڑے کے ٹرک کے کمپریشن حصے کو چلا دیا ، جب محسن فکری ٹرک میں چڑھ کر اپنی مچھلیوں کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔

fishmongers-gruesome-death-sparks-protests-in-moroccoٹرک میں کچلے ہوئے جسم کی تصاویر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئیں اور لوگوں کا غصہ ایک دھماکے کی صورت میں پھٹ گیا۔ دو عرب ہیش ٹیگز ’’کچل دو‘‘ اور ’’ہم محسن فکری‘‘ ہیں اس وقت انٹرنیٹ پر آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ غصے میں مرکزی لفظ ’’ہوگرا(Hogra)‘‘ استعمال ہو رہا ہے، ایک عربی اصطلاح جس کا مطلب ریاست کے ہاتھوں تذلیل اور ناانصافی ہے۔ یہ انتہائی طاقتور احساس ہے جو کہ بے شمار غریب لوگوں کی روز مرہ زندگی کے تجربات سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔یہ اس تذلیل، استحصال اور ظلم و جبر کی حقیقت ہے جو آقاؤں، جاگیرداروں اور مالک مکانوں، مقامی اور ریجنل افسر شاہی، اعلیٰ عہدوں پر فائز اساتذہ، مذہبی لیڈروں، پولیس، سیاست دانوں اور بادشاہ کے مصاحبین کے ہاتھوں غریب عوام کو سہنا پڑتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں بذات خود آمر حکومت کے ہاتھوں یہ غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ احساس انتہائی بلند شرح بے روزگاری، کم اجرت اور بلند شرح افراط زر کی وجہ اور بھی زیادہ مجروح ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگ مچھلی فروش کے ساتھ ہونے والی سفاک زیادتی کو اپنے جذبات کی گہرائی سے محسوس کرتے ہیں۔جیسا کہ ایک احتجاجی نے کہا:’’ہر کوئی اپنے آپ کو کوڑے کے ٹرک میں کچلا ہوا محسوس کرتا ہے‘‘۔ کوڑے کا ٹرک زیادتی ظلم و جبر اور استحصال کی علامت بن چکا ہے۔ احتجاج میں ایک نعرہ یہ بھی تھا:’’محسن کو قتل کیا گیا، یہ سب ماخزن کا قصور ہے‘‘۔ ماخزن لفظ سے مراد شاہی ریاستی ادارے ہیں، مطلق العنان شاہی خاندان جو مراکشی سماج اور دولت کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ مقامی پولیس کا رویہ اپنی اصل میں ریاستی مشینری اور معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے۔
morocco-protest-we-grind-people-hereسوشل میڈیا پر سرگرم لوگ اور احتجاجی اس سرکاری دعوے کو بالکل نہیں مانتے کہ محسن فکری نے خود کشی کی ہے یا اس کی موت ایک حادثہ ہے۔ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس کو جان بوجھ کر پولیس نے قتل کیا اور ان کا مطالبہ ہے کہ پولیس کو اس کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ پولیس نے ہمیشہ کی طرح ان مطالبات اور الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

بڑے بڑے عوامی احتجاج نہ صرف شمالی الحسیمہ میں بلکہ کاسابلانکا، رباط اور دیگر شہروں میں بھی ہوئے۔ان میں سے زیادہ تر خود رو ہیں لیکن پرانی20F تحریک کے سرگرم کارکن ان احتجاجوں کو منظم کرنے میں انتہائی فعال ہیں۔ یہ احتجاج شاید 2011ء کی عرب بہار کے بعد سب سے بڑے ہونے والے احتجاج ہیں۔ شمال رِف کے علاقے میں ، احتجاجوں کا کردار نیم باغیانہ ہے اور آج پورے علاقے میں عام ہڑتال کی کال دے دی گئی ہے۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر بغاوت اور اختلاف رائے کی آماجگاہ رہا ہے۔1920ء کی دہائی کے اوائل میں عظیم عبدل کریم کی قیادت میں سامراجی اسپین اور فرانس کے خلاف لڑی جانے والی ’’رِف جنگ‘‘ ، سامراج کے خلاف تاریخ کی پہلی عوامی سرکشی تھی۔ سرکشی کی یہ روح آج بھی زندہ ہے۔ لیکن مراکشی ریاست کے استحصال کے خلاف جنگ بقیہ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے ساتھ جڑت میں ہی جیتی جا سکتی ہے۔رِف میں موجود کچھ سیاسی قوتوں کے بقول علیحدگی سے، اس مطلق العنان حکومت کے خلاف انقلابی جدوجہد ہی کمزور ہو گی۔
محسن فکری کی موت اور اس کی وجہ سے پھیلنے والا شدید عوامی رد عمل ،دسمبر 2010ء میں تیونس میں محمد بو عزیزی، ایک غریب اشیا خورد و نوش ٹھیلے فروش کی خود سوزی کے واقعے سے مماثل ہے۔ یہ قابل افسوس واقعہ عرب بہار کی پہلی چنگاری ثابت ہوا۔ مراکش میں یہ اپنی نوعیت کا اس سال کا پہلا ’’واقعہ‘‘ نہیں ہے۔ کئی لوگوں نے انتظامیہ کے ہاتھوں ظلم و جبر سہنے کے بعد سرکاری عمارتوں اور بازاروں میں خودکشیاں کی ہیں۔ غم و غصے سے بھرے اس احتجاجی لہر کا اٹھنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ عوامی رد عمل کے تمام سماجی اور سیاسی جزو پہلے ہی موجود تھے۔ بس کسی واقعے، کسی چنگاری کی دیر تھی۔ پورے مشرق وسطی کے حالات میں عرب بہار کے بعد رتی برابر بھی بہتری نہیں آئی۔ صرف اسی سال میں کٹوتیوں کی خوفناک پالیسی کی وجہ سے تیونس میں دو انتہائی متشدد عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مصر گہری ہوتی معاشی سست روی، معیار زندگی پر تابڑ توڑ حملوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے ایک نئے سماجی دھماکے کے دہانے پر کھڑاہے۔ نئے فرعون عبدل السیسی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ نئی تحریکوں کو کامیاب ہونے کیلئے اب یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی صدر یا بادشاہ کی تبدیلی تک اپنے آپ کو محدود رکھیں۔ انہیں ناگزیر طور پر پرانے ریاستی ڈھانچے کی تبدیلی، سرمایہ داری کے خاتمے اور محنت کشوں کی جمہوری ریاست اور منصوبہ بند معیشت کی طرف بڑھنا ہو گا۔
انتظامیہ عرب بہار کے طوفانی واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خوف سے گھبرائی ہوئی ہے۔ مراکشی ریاست عرب انقلابات کے طوفان میں کچھ معاشی رعائیتوں، سطحی اصلاحات اور ٹریڈ یونینوں اور احتجاجی تحریک کی قیادت کی غداریوں کی وجہ سے اپنا بچاؤ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ان وجوہات کی بنا پر ’’دانا اور ترقی پسند‘‘ بادشاہ کی چھتر چھایا میں استحکام کا تاثر دیا گیا ۔ اس کی وجہ سے مشرق وسطی میں ’’مراکشی استثنا‘‘ کے خیال کو مزید تقو یت ملی۔ان کا خیال تھا کہ انہوں نے عوام کو رام کر لیا ہے۔مراکشی مارکس وادیوں کا نکتہ نظر ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں کے واقعات نے ہمارے تجزیئے کو مراکش کے باقی تمام بائیں بازو کے شکستہ اور ہارے ہوئے تجزیات پر سچ اور برتر ثابت کیا ہے۔
شاہ محمد چہارم نے اب اپنے نمائندے کو ستم زدہ محسن کے خاندان کے پاس شاہی تعزیت کیلئے بھیجا ہے۔ ساتھ ہی اس نے تحقیقات کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انصاف اور داخلہ کی وزارتوں نے بھی یہی اعلان کیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ریاستی اداروں نے ’’بھرپور اور شفاف تحقیقات‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ریاست جھوٹی اور مکار ہے۔ تمام ریاستی اہلکار ہر ممکنہ طریقے سے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شخصیات اور ادارے اس معاملے کی وجہ سے بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ یہ سب کر کے ریاست زیادہ بڑے پیمانے پر سوالات اٹھنے کے عمل کو پہلے سے ہی روک رہی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو وقت آنے پر بپھری عوام کو ٹھنڈا کرنے کیلئے چند پولیس افسران کو قربانی کا بکرا بھی بنا دیا جائے گا۔ حکومت کوشش کرے گی کہ تحریک کو ضائع کرنے کیلئے عوامی نفرت کا شکار سیاسی پارٹیوں، دئیں بازو کے اصلاح پسندوں اور کٹر اسلامی پارٹی العدل ولاحسان کی معاونت حاصل کی جائے۔ لیکن بنیادی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔اس سے صرف یہ ہو گا کہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی ضرورت کی سوچ اور زیادہ پختہ ہو گی جو عوامی مطالبات کو پورا کرنے کیلئے انقلاب کو کامیاب کر سکے: ایک سوشلسٹ انقلاب۔ مراکشی انقلاب کا نیا باب کھل چکا ہے۔ مراکش میں عوام دوبارہ سے 2011ء کے طوفانی واقعات کے کا دھارا جوڑ رہے ہیں جب ’’عوام نے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا‘‘۔

قاتل اور استحصالی ریاست کا خاتمہ!
سرمایہ داری کا خاتمہ!
مراکش اور پورے خطے میں سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
آئی ایم ٹی کے مراکش سیکشن کا حصہ بنیں!

31اکتوبر2016ء

Comments are closed.