|تحریر: بینوئے تانگوئے، ترجمہ: ولید خان|
غزہ پٹی پر نسل کش بمباری کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لئے اسرائیلی ریاست مغربی سامراجیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ اپنے آپ کو فلسطینی ”بربریت“ کے مقابلے میں اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا امین بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکمران طبقے کے مکمل اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بہتر مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
7 اکتوبر کے دن حماس کے حملے کے بعد پورا سرمایہ دارانہ سماج اور ٹی وی اور پارلیمنٹ میں موجود اس کے پالتو کتے چیخیں مار مار شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ حماس کی جانب سے کئے گئے نام نہاد اور غیر ثابت شدہ ہولناک اعمال سے بھر گئے ۔۔۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ’’40 سر تن سے جدا ہوئے نومولود“ اور دیگر مظالم کا کوئی وجود ہی نہیں۔ فوراً پوری مغربی دنیا میں سیاست دانوں اور عوامی شخصیات نے ان خیالی جرائم کی شدید مذمت شروع کر دی۔
اسرائیلی سامراجیوں اور ان کے اتحادیوں نے موقعے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آواز ہو کر اپنے آپ کو بداخلاق فلسطینی دہشت گردوں کے مقابلے میں پاک صاف اخلاقیات کا محافظ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے X (ٹویٹر) پر لکھا کہ ”حماس سے جنگ میں اسرائیل صرف اپنی عوام کا ہی دفاع نہیں کر رہا۔ یہ جنگ ہر اس ملک کے لئے لڑی جا رہی ہے جو بربریت کے خلاف ہے“۔ 9 اکتوبر کو فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکہ کے سربراہان نے ایک مشترکہ دستخط شدہ اعلامیہ جاری کیا جس میں ”حماس کے دہشت گرد اعمال“ کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ”ان اعمال کا کوئی جواز نہیں، کوئی حیثیت نہیں اور اس کی عالمی مذمت ہونی چاہیے“۔
اس اخلاقی پشت پناہی کی بنیاد پر اسرائیل اس وقت غزہ پٹی پر اندھا دھند بمباری کر رہا ہے جس میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 4 ہزار سے زائد بچے ہیں۔ ایک اسرائیلی حکومتی نمائندے نے عہد کیا ہے کہ غزہ کو ”خیموں کا شہر“ بنا دیا جائے گا۔ پچھلے دو ہفتوں سے اسرائیلی فوج ”داحیہ ڈاکٹرائن“ پر کاربند ہے جس کے مطابق ہر وہ محلہ یا گاؤں جہاں سے ایک بھی میزائل اسرائیل کی جانب داغا گیا ہے ”شہری گاؤں نہیں ہے بلکہ ایک فوجی اڈہ ہے“ جس پر ”غیر متناسب طاقت“ کا استعمال لازم ہے۔ یہ لیفٹنٹ جنرل گادی ایزنکوٹ کے الفاظ ہیں۔
معصوم شہریوں کے اس قتل عام کو جواز فراہم کرنے کے لئے، جس میں 4 ہزار سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں (جن میں 40 نومولود سے بھی بہت زیادہ شامل ہیں)، اسرائیلی وزیر بینی گانتز نے X پر لکھا کہ ”معصوم شہریوں کے قتل عام کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا“۔ اخلاقیات کا اس سے بڑا بھونڈا مذاق نہیں ہو سکتا۔
یہاں واضح ہو چکا ہے کہ سامراجی اخلاقی غیض و غضب کو کس طرح ایک نظریاتی ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ اس کی اسرائیلی نام نہاد ”حق دفاع“ سے مماثلت ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے مغربی سامراجی اسرائیل کی غزہ پٹی کے عوام پر مسلط کردہ نسل کش جنگ کے لئے اپنی حمایت کو جائز قرار دیتے ہیں۔
اسرائیلی سامراجیوں اور ان کے امریکی، برطانوی، کینیڈین اور دیگر اتحادیوں کے لئے تشدد ہمیشہ قابل نفرت، غیر اخلاقی، بربریت زدہ، وحشی، غیر قانونی، دہشت زدہ اور ناجائز ہے جب اس کا مرتکب مظلوم ہے اور ہمیشہ درست، قانونی، قابل دفاع اور تہذیب یافتہ ہے جب اسے وہ استحصال، ذلت اور ظلم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس وحشت اور منافقت کے خلاف پوری دنیا کے محنت کش اور نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کے تمام بڑے شہروں میں ہزاروں، لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں نے سڑکوں پر غزہ میں جاری نسل کشی کی شدید مذمت کی ہے۔
اس بنیاد پر کچھ اصلاح پسند سیاست دانوں کی جان میں جان آئی ہے اور وہ نسل کشی کے حق میں موجود چیخ و پکار سے علیحدہ ہو کر ”امن“ کے لئے اپنی کمزور اور ڈرپوک آواز اٹھا رہے ہیں۔ برطانیہ میں جیرمی کوربن، امریکہ میں الہان عمر اور کیوبیک سولیدیر کے ممبران پارلیمنٹ اسی رجحان کا حصہ ہیں۔
کینیڈا میں 33 فیڈرل ممبران پارلیمنٹ، جن میں NDP (نیو ڈیموکریٹک پارٹی) کا قائد جگمیت سنگھ بھی شامل ہے، نے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو ایک خط لکھا ہے جس میں جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔ خط میں لکھا ہوا ہے کہ ”کینیڈا عرصہ دراز سے امن کی آواز ہے۔ یہ جنگ جتنی طویل ہو گی، اتنا ہی معصوم شہری اپنی جانوں کی قیمت ادا کریں گے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کینیڈا پوری دنیا میں فوری جنگ بندی کے بڑھتے مطالبے میں شامل ہو۔ کینیڈا کو فوری طور پر مزید معصوم بچوں کے قتل سے پہلے متحرک ہونا چاہیے“۔
یہ اچھا لگتا ہے اور ایک آگے کا قدم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقوام کے درمیان ”امن“ کا کھوکھلا مطالبہ کرنے والے امن پسند اکثر اوقات جارح سامراجیوں سے بہتر نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر اگرچہ خط میں فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و جبر پر دستخط شدگان نے افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن ان میں سے کئی اسرائیلی ”حق دفاع“ کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔ یعنی اسرائیل کو غزہ پر بمباری کا حق ہے، لیکن زیادہ بمباری نہیں کرنی!
دستخط شدگان حماس کی مذمت کرنا بھی نہیں بھولے۔ اس لئے یہ امن پسند ایک اخلاقی میزان تخلیق کرتے ہیں جس کے ذریعے ظالم اور مظلوم کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم چھپ جاتا ہے۔ ایک امن پسند جو آپس میں لڑنے والے مالک اور غلام دونوں کو ہتھیار پھینکنے کا کہتا ہے امن کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ وہ غلام داری کی حمایت کر رہا ہے۔ امن پسند بھی اسرائیلی سامراجیت کے حامی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کا طریقہ کار زیادہ شائستہ اور نرم خو ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ پر بمباری کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن محض جنگ بندی سے تمام مسائل حل نہیں ہو جائیں گے۔
جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو نہیں ہوا۔ حماس کا حملہ اس جنگ کا حصہ ہے جس کا آغاز 75 سال پہلے ہوا جب صیہونیوں نے فلسطینی زمین بندوق اور بموں کے زور پر چرا کر اسرائیل کی بنیاد رکھی اور چوری کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ جنگ فلسطینیوں پر تاریخی جبر کا نتیجہ ہے۔
ایک جنگ بندی اس جبر کا خاتمہ نہیں کر سکتی جس نے فلسطینیوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ یہ حملہ اس لئے ہوا ہے کیونکہ اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و جبر کو ختم کرنے کے لئے ہر راستہ عیار منصوبہ بندی سے بند کر دیا ہے۔ کسی کو یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ایک قوم کو مایوسی، جبر، استحصال اور منظم تشدد سے باندھ کر رکھ دیا جائے گا اور کسی بھی لمحے اس کا کوئی ردعمل نہیں ہو گا ۔۔۔ مظلوم کا ردعمل۔
اس لئے تشدد کی عمومی مذمت مکمل طور پر کھوکھلی ہے۔ 7 اکتوبر سے پہلے اس سال 200 فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاست اور مسلح صیہونی آبادکار انتہائی سفاکی سے قتل کر چکے ہیں۔ 7 اکتوبر سے پہلے کے ”پرامن“ سٹیٹس کو کی واپسی کا مطلب ان حالات کی واپسی ہو گا جنہوں نے اس پرتشدد دھماکے کو جنم دیا ہے۔
درحقیقت ہمارے سامراجی عہد میں، اگر لینن کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو امن دو جنگوں کے درمیان محض ایک وقفہ ہے۔ امن طاقتوں کے عبوری توازن کا اظہار ہے۔ جب تک اسرائیلی سامراجی فلسطینی عوام پر اپنا تسلط قائم رکھیں گے، اسرائیلی ریاست اس وقت تک امن برداشت کرے گی جب تک اسے فائدہ ہو گا۔ اس لئے امن کا کام صرف فلسطینیوں پر جاری جبر کی پردہ پوشی ہے۔
یہی ہمیں اوسلو معاہدے میں دیکھنے کو ملا جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اسرائیل کے جابرانہ نظام کو اس لئے قبول کر لیا کیونکہ جابر نے اس کے وجود کو قبول کر لیا اور اس جبر میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی قیام میں لائی گئی۔ اوسلو ”امن عمل“ کا دھوکہ ہی وہ بنیاد ہے جس سے حماس کا جنم ہوا ہے۔
اس لئے وہ اخلاقیات جو ”تشدد“ کو عمومی طور پر رد کرتی ہے درحقیقت سرمایہ دارانہ اخلاقیات کی غلط آئینہ دار ہیں۔ سرمایہ دارانہ میڈیا، تعلیمی نظام، سیاسی اور قانونی اداروں کو کنٹرول کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عمومی اور آفاقی اخلاقیات کی پاسدار ہے۔ لیکن یہ اخلاقیات اسی وقت استعمال ہوتی ہیں جب انہیں ان کا فائدہ ہو۔ جہاں تک امن پسندوں کا تعلق ہے تو وہ سرمایہ داروں کی باتوں پر یقین کر بیٹھتے ہیں جب وہ اخلاقیات کی بات کرتے ہیں اور اس طرح اسے اخلاقی حمایت فراہم کرتے ہوئے اس کے کھوکھلے الفاظ کو معنی فراہم کرتے ہیں۔
بطور کمیونسٹ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر صورت بورژوا اخلاقیات کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کی مذمت کریں جو ظالموں کے بدترین جرائم کو جواز فراہم کرتی ہیں جبکہ اگر مظلوم تشدد کے مرتکب ہوں تو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ غلاموں کی بغاوتوں سے لے کر روسی انقلاب تک اور بلیک لائیوز میٹر سے لے کر فلسطین تک، کہانی ہمیشہ ایک رہی ہے ۔۔۔ مظلوموں کو اپنے ظالموں کے خلاف جدوجہد کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
ٹراٹسکی نے امریکی خانہ جنگی سے متعلق لکھا تھا کہ ”تاریخ، خانہ جنگی میں شمال اور جنوب کے باسیوں کے مظالم کو مختلف انداز سے بتاتی ہے۔ ایک غلام مالک جو چالاکی اور تشدد کے ذریعے ایک غلام کو زنجیروں سے باندھ کر رکھتا ہے اور ایک غلام جو چالاکی یا تشدد کے ذریعے ان زنجیروں کو توڑ دیتا ہے ۔۔۔ نفرت زدہ بانجھ اشخاص ہمیں یہ نہ بتائیں کہ وہ دونوں اخلاقیات کی عدالت میں برابر ہیں!“۔
مجرد، لافانی، غیر تاریخی اور مطلق اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا جب جنم ہوا تو اس کے ہر پور سے خون اور دھول رس رہے تھے اور آج تک اس کی ساری تاریخ کروڑوں محنت کشوں اور مظلوموں کی لاشوں سے بھری پڑی ہے۔ سرمایہ داری کی مشینری کو زندہ رہنے کے لئے محنت کشوں کی زندگیاں درکار ہیں اور کروڑوں انسانوں کی ہڈیوں کو پیس کر ہی یہ نظام قائم و دائم ہے جبکہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے مفادات کے لئے پوری پوری اقوام تباہ وبرباد کر دی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے کسی قسم کے اخلاقی درس یا امن پسندی کی جگہ موجود نہیں ہے۔ کمیونسٹ غیر مشروط مظلوموں اور محنت کشوں کی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
فلسطین اور پوری دنیا میں امن کو یقینی بنانے کے لئے خالی اخلاقی درسوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے لئے ایک انقلاب درکار ہے جو اس نظام کا خاتمہ کرے جس کی بنیاد ہی تشدد اور ظلم و جبر ہے، یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ۔