|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف اس وقت پورے ملک میں احتجاج جاری ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کا آغاز کشمیر سے ہوا جو کہ اب پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ لوگ اپنے اپنے بل جلا رہے ہیں اور ان کی تصاویر اور وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر رہے ہیں۔ متعدد علاقوں میں مسجدوں سے باقائدہ اعلانات کرائے جا رہے ہیں کہ بل جلا دیے جائیں اور ادا نہ کیے جائیں۔ کئی شہروں میں لوگ خودرو انداز میں احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکمران بلوں میں اضافوں کا تمام تر ملبہ واپڈا ملازمین پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر رہے ہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ ملازمین بذات خود شدید استحصال کا شکار ہیں اور کم تنخواہوں اور بغیر سیفٹی کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ آئے روز ہمیں بجلی کی تاروں سے لٹکے واپڈا لائن مین نظر آتے ہیں۔ یہ واپڈا ملازمین درحقیقت محنت کش عوام میں سے ہی ہیں اور موجودہ مہنگائی کا سامنا ان کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
اسی لیے 28 اگست 2023ء کو واپڈا ورکرز نے محنت کشوں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کے تعاون سے حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافے کی مذمت کرنے اور عوام کے ساتھ اظہارِیکجہتی کیلئے لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں لاہور اور اس کے مضافاتی شہروں سے واپڈا ملازمین نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ ترقی پسند طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے دلال حکمران طبقے کی جانب سے بے تحاشہ ٹیکس اور بجلی لگاتار مہنگی کر کے تمام معاشی بوجھ عام غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے جو کہ سراسر ظلم و زیادتی ہے اورہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عام عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان سے اظہارِیکجہتی کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ قرض ڈیل کے تحت نگران حکومت بھی نام نہاد مشکل فیصلے کرتے ہوئے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھا رہی ہے۔ جولائی 2023ء سے بجلی یونٹس کی نہ صرف قیمتیں بڑھائی گئی ہیں بلکہ سلیبز ختم کرتے ہوئے کم یونٹس والے بلوں پر بھی یکساں ریٹ لگا دیا گیا ہے۔ 6 ماہ میں ایک دفعہ بھی 200 سے زیادہ یونٹس استعمال ہونے پر گھریلو صارفین کو یکساں 27 روپے کا یونٹ لگایا جائے گا۔ مگر ستم پر ستم یہ ہے کہ نہ صرف بجلی کی قیمت بڑھائی گئی ہے بلکہ بجلی کے بلوں پر تقریباً چار عدد فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس سے لے کر ٹی وی ٹیکس تک مختلف قسم کے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے صرف جون کے مقابلے میں جولائی کے بلز میں دو سے تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے 20، 25 ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والے محنت کش کیلئے 200 سے 250 یونٹس کا بل جو کہ 10 سے 12 ہزار روپے آ رہا ہے، ادا کرنا ناممکن ہے۔
اسی دوران ریاست، موجودہ اور سابقہ حکمرانوں نے عوامی غصے کو واپڈا ملازمین کی طرف موڑنے کے لیے ایک دفعہ پھر جھوٹ اور منافقت سے کام لیتے ہوئے مہنگی بجلی کا ذمہ دار واپڈا ملازمین کو ہی قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ در حقیقت واپڈا ملازمین سے بہت کم تنخواہوں پر کام لیا جا رہا ہے اور افسران اور حکمران خوب مال بنا رہے ہیں۔ پچھلی 2 دہائیوں سے واپڈا میں نئی بھرتیاں نہ کر کے ایک ورکر پر دس ورکرز کے کام کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ دہائیوں پرانے انفراسٹرکچر کو واپڈا کے لائن مین اور دیگر محنت کش اپنی جان پر کھیل کر چلا رہے ہیں۔ سیفٹی آلات اور بالخصوص بکٹ کرین مہیا نہ کرنے کی وجہ سے آئے دن 11 KV کا کرنٹ لگنے سے لائن مین کا قتل کر دیا جاتا ہے یا کام کے دوران پول سے گرنے اور اعضاء جل یا کٹ جانے کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے معزوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
حکمرانوں اور ان کے غلیظ و پالتو میڈیا کی جانب سے مہنگائی اور بیروزگاری سے ستائی عوام کے ذہنوں میں واپڈا ملازمین کو ہی تمام مسئلہ کی جڑ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کام پر جانے والے بل ڈسٹری بیوٹرز، میٹر ریڈرز اور دوسرے عملے پر تشدد کے واقعات ہونا شروع ہو گئے۔ ایسے حالات میں حکومتی پروپیگنڈے کو رد کرنا اور عوام تک واپڈا ملازمین کا موقف رکھنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے پریس ریلیز بھی جاری کی جس میں درج ذیل مطالبات تھے:
1۔ بجلی کی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے ساتھ کئے جانے والے تمام عوام دشمن معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں فی الفور ریاستی ملکیت میں لیا جائے اور انہیں وہاں پر کام کرنے والے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے تا کہ تمام عوام کو سستی بجلی مہیا کی جا سکے۔
2۔ 700 یونٹ سے کم بلوں پر عائد تمام بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور ٹیکس کا یہ سارا بوجھ سرمایہ دار طبقے پر ڈالا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں سے قرضے نہ عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔ یہ قرضے سرمایہ دار حکمران طبقے نے لئے ہیں اور ان سے انہوں نے اپنی تجوریاں ہی بھری ہیں، لہٰذا ان کی واپسی بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
3۔ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے گھروں کو بجلی مفت فراہم کی جائے۔
4۔ پانچ ایکڑ تک زرعی ملکیت رکھنے والے چھوٹے کسانوں کو بجلی مفت فراہم کی جائے۔
5۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور صنعتکاروں سمیت تمام بڑے نا دہندگان سے فوری وصولی کی جائے، بصورت دیگر انہیں بجلی کی ترسیل فوری منقطع کی جائے۔ مزید برآں تمام ریاستی افسر شاہی کو مفت بجلی کی فراہمی کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
6۔ واپڈا سمیت کسی بھی عوامی ادارے کی نجکاری نہ کی جائے۔ واپڈا میں ورک فورس کی شدید کمی کو فوراً پورا کیا جائے۔ واپڈا ورکرز کو کام کے لئے بکٹ کرین سمیت حفاظتی لباس اور دیگر آلات فوراً فراہم کئے جائیں۔