تحریر: |مقصود ہمدانی|
حفاظتی ضابطے کا پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی بھی عمل یا ہنگامی صورت حال کبھی بھی کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا جواز نہیں بن سکتی۔ اس کو اگر عملی زندگی میں دیکھیں تو پوری دنیا میں کہیں بھی غریب مزدور و محنت کش کی زندگی کی پرواہ نہیں کی جاتی بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی زندگی سے زیادہ منافع کا حصول درکار ہوتا ہے۔ محنت کش کے حالات مشکل سے مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار محلات، فیکٹریاں، جاگیریں، کارخانے اور ذاتی بینک بیلنس کو بڑھاتا چلا جا تا ہے اور دوسری طرف بھوک کی صورت میں، دوائی نہ ملنے سے، گندہ پانی پینے سے، سیلاب و زلزلے کی وجہ سے، فیکٹری و کارخانے میں آگ لگنے سے، حفاظتی سامان کی عدم دستیابی سے یا ناقص میٹیریل کی وجہ سے غریب مزدور و محنت کش کی جانوں کا ضیاع بڑھتا جا رہا ہے۔ ان سب کا ذمہ دار یہ موجودہ نظام ہے جس کا نام سرمایہ داری ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ داروں کے حق میں قانون سازی کی جاتی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے جبکہ محنت کشوں کے حق اگر کبھی کوئی قانون بن بھی جائے تو عمل نادارد۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) کنونشن کے آرٹیکل 81-155 جان و صحت کو حادثات سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں لیکن موثر عمل کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ان بھیڑیا نما سرمایہ داروں کو مزدوروں کی جان سے کوئی غرض نہیں ان کے لیے مزدور ایک پرزہ ہے جس کے ناکارہ ہونے پر دوسرا خرید لیا جاتا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جب بھی حادثاتی طور پر کسی کی جان جاتی ہے تو وہ غریب مزدور ومحنت کش ہوتا ہے۔ سیلاب چین میں آئے، بھارت میں یا پاکستان میں، زلزلہ جاپان میں آئے، انڈونیشیامیں یا پاکستان میں، کوئلے کی کان میں حادثہ امریکہ میں ہو، چین میں ہو یا پاکستان میں، فیکٹری یا سکول کی چھت گرے ، آگ لگے یا دہشت گردی ہو، پول سے گر کر کرنٹ لگنے سے جان گنوانے والے ہمیشہ غریب محنت کش اور مزدور ہی ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی سرمایہ دار طبقے میں سے کوئی اتنی بڑی تعداد میں آفات اور حادثات کا شکار ہوا ہے؟ محلات یا کسی جاگیردار کی حویلی زلزلے یاسیلاب کی نظر ہوئی ہے؟ کوئلے کی کان بیٹھ جانے سے یا کسی فیکٹری میں آگ لگنے سے کیا کبھی کسی سرمایہ دار کی موت واقع ہوئی ہے؟ بجلی کا کرنٹ لگنے سے کیا کبھی کسی واپڈا چیئرمین کی موت ہوئی ہے؟ بھوک یا دوائی نہ ملنے سے مرنے والوں میں کبھی حمزہ، مریم، بلاول یا مونس کے نام شامل ہو سکتے ہیں؟کسی بھی ادارے میں حادثات کا شکار ہونے والے محنت کشوں کی جان سے ان ظالم حکمرانوں اور ان کی ٹاؤٹ افسر شاہی کو مزدور کی جان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے( پورے پاکستان میں پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ مزدوروں کا مستقبل غیر یقینی ہے)۔ الٹا مزدوروں کی جان جانے پر مزدوروں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
اگر پاکستان کے سب سے بڑے قومی ادارے واپڈا کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سال یہ ظالم حکمران صرف واپڈا میں 200 کارکنوں کی جان لے کر 200خاندانوں کی زندگیاں اندھیری کر دیتے ہیں۔ مجال ہے ان حکمرانوں کو ان جانوں کی رتی بھر بھی پرواہ ہو۔ ان کی نظر مال لوٹنے پر ہے نہ کہ مزدور کی جان پر۔ زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ایک محنت کش کی جان کا نقصان اس کے پورے خاندان پر مالی بوجھ ڈال دیتا ہے اور حالات اس وقت اور زیادہ سنگین اور ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں جب مرنے والا گھر کا اکیلا کمانے والا ہو۔ تمام بڑے بڑے ادارے اور حکمران محنت کشوں کی حفاظت سے غافل ہیں یا جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں اور اپنی نظر منافع خوری پر رکھتے ہیں۔ایک سال میں پورے پاکستان میں بجلی کی بحالی اور تسلسل برقرار رکھنے کیلئے مصروف کار واپڈا کارکن جو کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں ان کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے اور جو زخمی ہو کر اپنے جسم کے مختلف اعضاء گنوا بیٹھتے ہیں انکی تعداد ہزاروں میں ہے۔کچھ تو زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد فیلڈ پر کام کرنے والے لائن مین کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ورکرز کی ایک بڑی تعداد پاورہاؤس اور گرڈ اسٹیشن پر بجلی کی بحالی اور درستگی کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں جو 132KVیا 11KV کی لائن سے کرنٹ لگنے یا پول سے گرنے کی وجہ سے زخمی ہوتے ہیں یا موقع پر ہلاک ہو جاتے ہیں، ان قیمتی جانوں کے ضیاع کو خدا کی کرنی کہہ کر حقائق اور وجوہات کو چھپایا جاتا ہے۔
ان محنت کشوں کی جان جانے کے واقعات کو خدا کے اوپر نہیں ڈالا جا سکتا بلکہ اس کے ذمہ داران سرمایہ دار حکمران اور کرپٹ افسر شاہی ہے۔ گرڈ سٹیشن سٹاف اور مینٹیننس میں کام کرنے والے کارکنوں کی زندگی بھی ہر وقت خطرات کا شکار رہتی ہے۔بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے والے یہ کارکن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اونچے اونچے بجلی کے پولزپر چڑھ کر کام کرتے ہیں، ان کو نہ ہی جدید آلات میسر ہیں اور نہ ہی قوانین اور اصولوں سے آگاہی دی جاتی ہے۔ مزدور روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں اور ذاتی حفاظتی سامان(PPE)اور T&Pحفاظتی سامان کی عدم دستیابی اور ناقص میٹیریل پر اگر کوئی لائن مین یا محنت کش آواز اٹھائے تو اسکا ٹرانسفر، معطلی، لیٹر بازی اور مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں اور اس بات کو سامنے آنے سے روکا جاتا ہے۔ یونین عہدیداران بھی افسران کا ساتھ دیتے ہیں اور مکمل حفاظتی سامان کی فراہمی پر توجہ نہیں دیتے اور بس جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دیتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اتھارٹی اور سیاسی دباؤ کا کہہ کر جلدی سے کام کو نبٹانے کاکہتے ہیں۔ اس دباؤ اور جلد بازی کی وجہ سے ذہن کے منتشر ہونے کی وجہ سے حادثات کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ پاور ڈسپیچ سنٹر(PDC) سے بھی یہی آرڈر آتا ہے کہ 20 سے 25 منٹ میں کام ختم کیا جائے۔ اتنا وقت توPTW(پرمٹ ٹو ورک) سے لے کر کام کی جگہ پر پہنچنے تک لگ جاتا ہے اس لیے فون پر فیڈر کو بند کروا کر جلدی کام کرنے کی کوشش میں ایک قیمتی جان چلی جاتی ہے۔
اگر تمام حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھا جائے تو زیادہ ترحادثات روکے جا سکتے ہیں۔ ایمرجنسی کام کرنے کیلئے ٹائم لمٹ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حفاظتی سامان جیسے بیلٹ، بوٹ، دستانے، ہیلمٹ، ارتھ سیٹ، ہائی وولٹیج ڈٹیکٹر یعنی چیکنگ سٹک وغیرہ نہیں ملتے اور اگر ملتے بھی ہیں تو ناقص حالت میں ہوتے ہیں اور جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مگر ذمہ داران حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑائے جانے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے لیے احتیاط اور حفاظت کے بارے میں باتیں کرنا آسان ہیں لیکن لائن مین یا ورکر کو جب حفاظتی سامان نہیں ملتا تو وہ ان کو اپنی جیب سے نہیں خرید سکتا اور حفاظتی سامان دستیاب نہ ہونے پر کام سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔
کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ رکئے، سوچئے، سلیکٹ کیجئے، دیکھئے اور کام کیجئے۔ مگر یہاں ایک ہی حکم ہوتا ہے جلدی کام کریں، جلدی کام کریں۔ کام کی زیادتی اور سٹاف کی کمی کی وجہ سے بھی بے شمار حادثات ہوتے ہیں۔ صرف پچھلے مہینے یعنی جون میں 20محنت کش شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تمام شہادتیں T&Pاور PPE کی عدم فراہمی، ناقص حفاظتی آلات کے استعمال، متعلقہ افسران کی غفلت اور لاپرواہی اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اب تک حکام بالا ان حادثات کو روکنے یا ان کا موثر حل نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اگر جان کے بدلے جان کا قانون ان حکمرانوں، کرپٹ افسران اور یونین کے سرکردہ لیڈروں کے خلاف لاگوکیا جائے اور ایک کارکن کی شہادت کے بدلے ان میں سے ایک کو پھانسی کے پھندے سے لٹکایا جائے تو ان اموات کی تعداد کم کی جا سکتی ہے۔ جب تک ورکرز کی جانوں کے ضیاع کو روکا نہیں جاتا واپڈا کے مزدوروں کو پورے ملک میں ہڑتال کی کال دینی چاہئے۔ اگر ایک افسر کے قتل ہونے پر ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی جا سکتی ہے تو ایک مزدور کے قتل پر کیوں نہیں؟
محنت کشوں میں ان ظالم سرمایہ دار حکمرانوں کے خلاف نفرت پل رہی ہے لیکن کوئی منظم اظہار نہ ملنے کی وجہ سے ایک خاموش آتش فشاں کی طرح خاموش پڑی ہوئی ہے۔ لیکن کسی بھی وقت یہ نفرت پھٹ کر ایک مزدور انقلاب کے ذریعے حکمران طبقے کو انسانی زندگی کی اہمیت تسلیم کراتے ہوئے ان سے اقتدار چھین سکتی ہے۔ جب بے رحمی، بے حسی اور بیگانگی کی یہ فصل پک کر تیار ہوگی تو بغاوت کے پھول کھلیں گے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کا یہ مطالبہ ہے کہ محنت کشوں کی جانوں کے ضیاع کو روکنے اور محنت کشوں کی حفاظت کے لئے:
1۔ تمام T&Pاور PPEکی کمی کو پورا کیا جائے۔
2۔ ناقص میٹیریل اور آلات کو جدید آلات فراہم کئے جائیں۔
3۔ سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نئی بھرتیاں کی جائیں۔
4۔ بکٹ اور سیڑھی والی گاڑی بمعہ ڈرائیور کی فراہمی ہر سب ڈویژن میں یقینی بنائی جائے۔
5۔ PTW کی ٹائم لمٹ کا خاتمہ کیا جائے۔
6۔ بااثرسیاسی شخصیات اور افسران بالا کے دباؤ اور کام میں مداخلت کو ختم کیا جائے۔
7۔ شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو تاحیات پینشن، تعلیم، علاج اور رہائش مہیا کی جائے۔
8۔ PC پول کا خاتمہ کیا جائے۔
9۔ کام کرنے والے تمام ورکرز کو تمام ضروری معلومات سے آگاہ رکھا جائے۔
10۔ کسی ورکر کی جان جانے پر چیف ایگزیکٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
11۔ لائن مین کے پاس مکمل سامان نہ ہونے پر کم از کم سرکل لیول کے افسر کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔
12۔ ورکر کو حفاظتی تربیت کے بغیر کام پر نہ لگایا جائے۔
13۔ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے کیونکہ تھکاوٹ حادثات کا موجب بنتی ہے۔
تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کر پڑے رہنا
تائید ستم گر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا
حق جس نے نہیں چھینا، حق اس نے کہاں پایا