|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
15 فروری کو آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین کی کال پر ملک بھر سے 10 ہزار کے قریب واپڈا ورکرز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور پاور پلانٹس کی مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاج کرنے ڈی چوک، اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے۔ یاد رہے کہ ہائیڈرو یونین کے پلیٹ فارم سے واپڈا ورکرز پچھلے دوماہ سے ہفتہ وار بنیادوں پرملک کے تمام بڑے شہروں میں نجکاری مخالف احتجاج کرتے آ رہے تھے مگر حکومت کی جانب سے شنوائی نہ ہونے کے سبب قیادت نے بالآخر اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہائیڈرو یونین کے دیگر مطالبات میں واپڈا ملازمین کی تنخواہوں وپنشن میں اضافہ، کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی، کمپنیوں کی تحلیل اور واپڈا کی وحدت کی بحالی اور نجکاری پالیسی و نجکاری کمیشن کا خاتمہ شامل تھے۔ احتجاج میں عمومی نجکاری مخالف ایجنڈے پر آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک کے پلیٹ فارم سے پی آئی اے، یوٹیلیٹی سٹورز، او جی ڈی سی ایل، ریڈیو پاکستان، سی اے اے اور چند دیگر عوامی اداروں کی یونین قیادتوں نے بھی شرکت کی جنہوں نے ہائیڈرو یونین کی احتجاجی کال کے بعد اپنے پہلے سے طے شدہ احتجاج کو ہائیڈرو یونین کے احتجاجی دھرنے کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دوپہر سے شروع ہو کر رات تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں واپڈا کے محنت کشوں کا جوش و خروش دیدنی تھا جس کا اظہار آئی ایم ایف کے گماشتہ مزدور دشمن حکمرانوں، نجکاری پالیسی اور سامراجی مالیاتی اداروں کے خلاف مسلسل جاری رہنے والی پر جوش نعرے بازی میں ہوا۔ ملک کے طول وعرض میں ہونے والی ہر مزدور جدوجہد کی طرح اس نجکاری مخالف احتجاجی دھرنے میں بھی ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان آغاز سے اختتام تک واپڈا ورکرز کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور اپنے مدلل موقف اور فلک شگاف نعروں کے ذریعے محنت کشوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
واپڈا ورکرز کے اس عظیم الشان اکٹھ کے دباؤ میں آکر حکومت نے شام گئے ہائیڈرو یونین کی مرکزی قیادت کو مذاکرات کے لئے بلا لیا۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان کے ساتھ ہونے والے ان مذاکرات کے بعد دھرنے کا اختتام کرتے ہوئے ہائیڈرو یونین کے مرکزی قائدین نے اعلان کیاکہ فی الحال حکومت واپڈا کے کسی حصے کی نجکاری نہیں کر رہی ہے (دوسرے الفاظ میں نجکاری فی الحال کیلئے موخر کر دی گئی ہے)، مزید برآں وفاقی ملازمین کے لئے حال ہی منظور ہونے والا 25 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس واپڈا ورکرز کو بھی ملے گا اور پاور جنریشن کمپنیوں کے 1800 ملازمین کو جبری برطرف نہیں کیا جائے گا بلکہ سرپلس ہونے کی صورت میں انہیں ان کی قابلیت کے مطابق واپڈا کے دوسرے شعبوں یا دیگر سرکاری محکموں میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔ قیادت کے اس اعلان پر محنت کشوں کی جانب سے جہاں ایک طرف مسرت کا اظہار کیا گیا وہیں دوسری طرف بہت سے جائز خدشات بھی سامنے آئے کیونکہ ایک تو حکومت نے ان تمام معاملات کے حوالے سے کوئی نو ٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تھا اور سارا معاملہ زبانی کلامی ہی طے پایا تھا۔ مزید برآں نجکاری کے متعلق صرف یہ کہا گیا تھا کہ ”فی الحال“ حکومت کا کوئی ایسا ارادہ نہیں یعنی زیادہ سے زیادہ نجکاری کا فیصلہ موخر کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2015ء میں بھی آئی ایم ایف کے ایما پر نواز حکومت نے واپڈا کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا مگر اسلام آباد میں ہونے والے ایسے ہی دھرنے کے نتیجے میں نجکاری کو موخر کر دیا گیا تھا مگر موقع پاتے ہی سامراجی گماشتہ حکمران پھر حملہ آور ہو گئے اور چونکہ یہ حکومتی دھوکے بازی محنت کشوں کے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہے لہٰذا اس بار محنت کش نجکاری کی لعنت سے مستقل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے اسلام آباد آئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ نجکاری کو محض موخر کرنے کا زبانی اعلان انہیں پوری طرح مطمئن نہ کر سکا۔
واپڈاہائیڈرو یونین کے پلیٹ فارم سے ہونے والے اس زبردست احتجاج کی ایک بڑی کمزوری یہ تھی کہ یہ ملک میں سرکاری ملازمین و محنت کشوں کے سب سے بڑے اتحاد آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کی حمایت و یکجہتی حاصل نہ کر سکا۔ اس میں جہاں ایک طرف ہائیڈرو قیادت کی مغرورانہ تنگ نظری کا ایک اہم کردار ہے وہیں دوسری طرف اگیگا قیادت کی کوتاہ نظری اور مطالباتی پروگرام کی محدودیت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگیگا کی قیادت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بنیادی مطالبے کے گرد حال ہی میں ایک نہایت ہی شاندار، دلیرانہ اور کامیاب جدوجہد کی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی مطالبات کے پروگرام کو وسعت دیتے ہوئے اب نجکاری اور جبری برطرفیوں کے خاتمے کو بھی اگیگا کے پروگرام کا حصہ بنایا جائے اور اس جدوجہدمیں مصروف مختلف عوامی اداروں کی یونینز اور ایسوسی ایشنز کے ساتھ روابط قائم کرتے ہوئے مشترکہ لڑائی لڑی جائے۔ اسی طرح آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک پر ہم پہلے بھی یہ تنقید رکھ چکے ہیں کہ اس اتحاد میں موجود زیادہ تر ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کی شمولیت محض علامتی ہے۔ یہ تنقید ایک مرتبہ پھر درست ثابت ہوئی جب ہائیڈرو یونین نے، جس کے متعلق پنشنرز و لیبر تحریک کا دعوی ہے کہ وہ ان کے اتحاد کا حصہ ہے حالانکہ ہائیڈرو یونین نے علامتی شمولیت پر مبنی اس دعوے کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا، پنشنرز ولیبر تحریک کی قیادت کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے دھرنے کی تاریخ پہلے 17 فروری مقرر کی جس پر مجبوراً پنشنرز ولیبر تحریک نے بھی اپنا 15 فروری کو طے شدہ دھرنا 17 فروری پر منتقل کر دیا۔ چند روز بعد ہائیڈرو قیادت نے ایک مرتبہ پھر پنشنرز و لیبر تحریک کو مکمل طور پر بائی پاس کرتے ہوئے دھرنے کی تاریخ 15 فروری مقرر کر دی جس پر پنشنرز و لیبر تحریک کو بھی اپنے دھرنے کی تاریخ دوبارہ بدلنا پڑی۔ مزید برآں 15 فروری کو دھرنے میں بھی پنشنرز و لیبر تحریک کے پلیٹ فارم سے زیادہ تر یونین قیادتوں و عہدیداروں پر مشتمل چند سو افراد کی علامتی شرکت ہی ہوئی اور حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مطالبات کی منظوری و دھرنے کے خاتمے کا اعلان بھی ہائیڈرو قیادت نے اکیلے ہی کیا۔
اس معاملے میں جہاں ہائیڈرو قیادت کو اپنی مغرورانہ تنگ نظری سے باہر آکر مزدور اتحاد کی طاقت و اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف پنشنرز و لیبر تحریک کی قیادت کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ایک حقیقی مزدور اتحاد دوسری یونینز کے احتجاج پر زبر دستی اپنا لیبل چسپاں کرنے کی بیکار کوششوں کی بجائے تمام عوامی اداروں، سرکاری محکموں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں میں مزدور اتحاد کے پیغام و مطالبات کی ماس کیمپئین کے ذریعے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی یونین قیادت اس عمل کے راستے میں رکاوٹ ڈالتی ہے تو اس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس رکاوٹ کو دور کرنا بھی اس عمل کا حصہ ہے۔ عام محنت کشوں سے کٹ کر چند یونین لیڈروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بننے والا اتحاد ہمیشہ علامتی ہی رہے گا اور کبھی ایک حقیقی قوت میں نہیں ڈھل سکے گا۔ مزید برآں صرف حقیقی بنیادوں پر استوار ہونے والا مزدور اتحاد ہی حکمرانوں کے دانت کھٹے کرنے والی ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کامیاب کال دے سکتا ہے جو نہ صرف گماشتہ حکمرانوں کے مزدور دشمن حملوں کے آگے ایک بند باندھے گی بلکہ ملک کی مزدور تحریک کو جدوجہد کے ایک بلندترمرحلے میں داخل کرنے کا موجب بھی بنے گی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ واپڈا سمیت ملک بھر کے تمام محنت کشوں کی ہر جدوجہد میں ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔