تحریر: | مقصود ہمدانی |
دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام اس وقت زوال کا شکار ہے۔ یہ نظام اب انسانی سماج کو آگے بڑھانے کی طاقت کھو چکا ہے۔ اس کے سیفٹی والو بھی اب آہستہ آہستہ ختم ہو چکے ہیں اور یہ زائدپیداواریت کا شکار ہو چکا ہے۔ پھر بھی یہ تمام انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہے۔ دن بدن محنت کش طبقے کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی دولت بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف 65افراد کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی آدھی دنیا کے پاس۔دولت کا ارتکاز اتنا بڑھ چکا ہے۔دوسری طرف تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ حکمران اشرافیہ ان ہی سرمایہ داروں کا سرمایہ استعمال کرکے خود حاکم بنتی ہے اور ان کے لئے ہی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ قوتِ خرید ختم ہونے سے منڈی کا حجم بھی کم ہوتا جاتا ہے اور منافع بھی۔تب ان کی نظریں ایسے عوامی اداروں پر آٹکتی ہیں جو محنت کشوں نے اپنی محنت سے بنائے ہیں اور عوام کی سہولیات کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ منافع کمانے کے لئے۔ان اداروں کو پہلے مختلف طریقوں سے برباد کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کو اونے پونے داموں اپنے ہی سرمایہ دار بھائیوں کو تھما دیا جاتا ہے۔ یونان میں 50ارب یورو سے زائد کے قومی اثاثے فروخت کے لئے پیش کئے گئے ہیں۔ اسی طرح برطانوی حکمراننیشنل ہیلتھ سروس کو پرائیویٹائز کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔پاکستان میں بھی 240کے قریب قومی اور عوامی اثاثے فروخت ہو چکے ہیں جن میں بینک، سیمنٹ کے کارخانے اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔ اب اس وقت 68کے قریب مزید اداروں کو فروخت کرنے کا منصوبہ تیار ہے جس میں سٹیل مل،OGDCL،پاکستان پوسٹ، ریلوے، PIA اور واپڈا شامل ہیں۔ اس میں PIAکے مہنگے ہوٹل اور ریلوے کی زمین کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔
واپڈا کا ادارہ جو کہ 1958ء میں معرضِ وجود میں آیاجو کہ پورے ملک کو بجلی مہیا کرتا ہے۔ اِس کے دلیر اور بہادر محنت کش اپنی جانیں دے کر اس ملک کے 110اضلاع کو روشن کرتے ہیں۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور پورے ملک کو آپس میں جوڑے رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ لیکن اس ادارے کو بھی 1998ء میں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ بعد میں ایک ایک حصے کو علیحدہ علیحدہ فروخت کیا جا سکے۔ اور اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے نام پرمختلف کمپنیوں میں بانٹ دیا گیا۔ اصل میں یہ کام محنت کشوں کی طاقت اور ان کے اتحادکو تقسیم کرنے کے لئے کیا گیا تاکہ مزدوروں کی مزاحمت سے بچا جا سکے۔ ٹریڈیونین لیڈرشپ نے بھی کمزوری دکھائی اور اس کے خلاف مزاحمت نہ کی۔
نجکاری ایک عالمی مظہر ہے ا ور اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف عوامی اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ واپڈا کی نجکاری کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ اس سے پہلے1996ء میں کوٹ ادو اور 2011ء میں کراچی الیکٹرک کمپنی(KESC)کو پرائیویٹائز کیا گیا جس میں محنت کشوں نے بھرپور مزاحمت کی اور حکومت کو مشکل میں ڈال دیالیکن ٹریڈیونین لیڈرشپ کی غداری اور کمزوری کی وجہ سے ان کو نہ بچایا جا سکا۔اور اس کے نتیجے میںKESCکے 7000مزدور بے روزگار ہوگئے۔
اس وقت بھی واپڈا کی تین کمپنیوں کو نجکاری کی لسٹ پر رکھا گیا ہے جس میں لیسکو(LESCO)، فیسکو(FESCO) اور آئیسکو(IESCO) شامل ہیں اور واپڈا کے محنت کش پچھلے دو سال سے نجکاری کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور اس دوران دو بار اسلام آباد جا کر احتجاج بھی کیا جا چکا ہے لیکن لیڈرشپ کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل اور پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک سے اکٹھے ہونے والے مزدور مایوس ہو کرواپس لوٹ گئے۔اس کے علاوہ ہر بدھ کو پورے ملک میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا گیا جس سے مزدوروں کے حوصلے پست ہوئے اور ہر دفعہ صرف تقریریں اور قراردادیں پاس کرنے کے بعد حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔
مزدوروں کے دباؤ پر ہڑتال کی کال دی گئی لیکن پھر ایک بار لیڈرشپ نے اپنی بدنیتی دکھائی اور صرف وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد ہڑتال توڑنے کا اعلان کردیا۔ حالانکہ نہ تو نجکاری کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی کوئی تحریری معاہدہ ہوا۔ اور اس پر ظلم یہ کہ ہڑتال کے دنوں کا کام صرف ایک دن میں نمٹانے کو کہا گیا جس پر محنت کش بد دل ہو کر مایوسی کے عالم میں لاتعلق ہوگئے اور یوں تحریک پیچھے چلی گئی۔ لیکن اسی اثنا میں حکومت کی طرف سے نجکاری کے تمام عمل کو مکمل کر لیا گیا ہے تاکہ مناسب موقع پر ان کمپنیوں کو بآسانی بیچا جا سکے۔
اس وقت مزدوروں کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے لیکن جو لیڈرشپ میسّر ہے اس سے محنت کشوں کے حق میں کسی قربانی کی توقع نہیں جو پچھلے 30سالوں سے اپنے عہدوں سے چمٹی ہوئی ہے اور نچلی سطح پر بھی الیکشن کی بجائے سلیکشن کی جاتی ہے اور واپڈا ورکرز کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ ان من پسند عہدیداروں میں سے کوئی لیڈرشپ سے اختلاف کرے تواس کے خلاف عدم اعتماد کروا کر اسے منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں محنت کشوں کو خود آگے بڑھ کر نجکاری مخالف کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی اور آپس میں اتحاد کو بڑھانا ہوگا۔
سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں سے کسی حمایت کی امید کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ یہ تمام تر پارٹیاں اس وقت اقتدار میں کسی نہ کسی طرح براہ راست شریک ہیں اور سبھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سامراجی مالیاتی پالیسیاں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عمران خان خیبر پختونخواہ میں ہسپتال بیچ رہا ہے اور پنجاب میں شہباز شریف سکول، کالج، یونیورسٹیاں، تمام چھوٹے بڑے ہسپتال پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر رہا ہے۔ اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری کے عمل میں مصروف ہے۔ وفاقی حکومت کی بھی یہی پالیسی ہے۔ اگر حکمران کوئی وعدہ کرتے ہیں تو ان کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر ماضی کے وعدوں کو دیکھا جائے تو معاشی بہتری، غریبوں کا معیارِزندگی، روزگار، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ صرف جھوٹ بلکہ محنت کش عوام کے ساتھ دھوکا ثابت ہوئے ہیں۔
حکمرانوں نے نجکاری کو واپس لینے کی بجائے اس کو محنت کشوں کے ردِعمل کو دیکھتے ہوئے موخر کیا ہے۔ محنت کشوں کے اجتماعی احتجاج کو توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ واپڈا ورکرز کو بھی اپنا اتحاد برقرار رکھتے ہوئے حکمرانوں اور کرپٹ مزدور لیڈروں دونوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ اور اگر کسی ایک کمپنی کو بھی بیچا جاتا ہے تو ’’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرنا ہوگا کہ سب مل کر مقابلہ کریں گے اور نجکاری کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ اب میدانِ عمل میں اترنا ہوگا اور مزدور اشرافیہ اور حکمرانوں کو یہ بتانا ہوگا کہ واپڈا کو مزدور چلاتے ہیں اور جن مزدوروں نے اپنے خون پسینے سے اس ادارے کو تعمیر کیا ہے وہ محنت کش کسی صورت بھی اس کو سرمائے داروں کے ہتھے نہیں چڑھنے دیں گے۔
واپڈا کے ان محنت کشوں کو ڈرا دھمکا کر چپ نہیں کرایا جا سکتا جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہزاروں وولٹ کی لائنز پر کام کرتے ہیں اور جہاں ان کا ایک ساتھی شہید ہوا ہوتا ہے اسی جگہ پر دوبارہ ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔وقت آنے پر اس سارے بجلی کے نظام کو جس کو یہ محنت کش چلاتے ہیں، بند کر کے حکمرانوں کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ جس کی ایک مثال 1968-69ء کی تحریک کی ہے جب واپڈا ہائیڈرو یونین کے بزرگ لیڈر کی کال پر پارلیمنٹ ہاؤس، ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس، جی ایچ کیو کی بجلی بند کر کے ایک آمر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ محنت کشوں کو ہڑتال کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا اور اس کے لئے دوسرے اداروں سے مل کر ایک متحدہ کمیٹی تشکیل دینا ہوگی جو تمام عوامی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور اس میں ان اداروں کی بھی شامل کیا جائے جو نجکاری کا شکار ہوچکے ہیں اور ایک عام ہڑتال کی طرف بڑھا جائے اور اگر واپڈا کی طرف سے اس کا اعلان ہوتا ہے تو اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کی ایک ہڑتال گذشتہ سال 2ستمبر کو ہندوستان میں 10ٹریڈ یونینوں نے مل کر کی تھی جس میں ریکارڈ 15کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا تھا اور مودی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ نجکاری کے نتیجے میں بے روزگاری، بھوک، ننگ، غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مستقل روزگار غائب ہوجاتا ہے، کام کے اوقات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مفت علاج اور پنشن جیسی دیگر سہولیات کو چھین لیا جاتا ہے۔ ان عذابوں سے بچنے کے لئے آگے بڑھ کر لڑنا ہوگا اور آنے والے کل کو روشن کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی۔ سچے جذبوں کی قسم آخری فتح ہماری ہوگی۔