واپڈا لائین مین مسلسل حادثاتی اموات کا شکار ہو رہے ہیں یا قتل؟

|تحریر: مقصود ہمدانی|

ایک لائین مین کی انتہائی قیمتی زندگی واپڈا جیسے ملک کے سب سے بڑے ادارے میں بالکل سستی ہوچکی ہے۔ آئے روز بجلی کے کھمبوں کے اوپر کسی نہ کسی لائین مین کی لٹکتی لاش اس انسانی سماج کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔

آئے روز واپڈا کے محنتی اور نڈر محنت کش موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کروڑوں عوام کے گھروں کو روشن رکھنے میں بنیادی ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی جانب سے واپڈا جیسے انتہائی اہم عوامی ادارے کو تباہ و برباد کرنے کی پالیسیوں کے نتیجے میں روشنی پیدا کرنے والے واپڈا کے ملازمین بالخصوص لائین مینوں کی زندگیاں کرنٹ لگنے سے موت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق ہو رہی ہیں۔

پچھلے سال عیدالفطر سے پہلے پیش آنے والے حادثات میں دورانِ ڈیوٹی کرنٹ لگنے سے درجن سے زائد لائین مین موقع پر ہی قتل ہوگئے تھے۔ اس سال 2022ء میں بھی اب تک تقریباً 50 لائین مین کرنٹ لگنے سے قتل ہوچکے ہیں۔ حکمرانوں اور ان کے پالتو لیبر لیڈران کی جانب سے ان اموات کو شہادتیں قرار دیا جاتا ہے تا کہ باقی ملازمین کو بغاوت اور بڑی تحریک سے روکا جا سکے اور ملازمین دشمن پالیسیاں بھی جوں کی توں جاری رکھی جا سکیں۔ کرنٹ لگنے سے وفات پانے والے تمام ملازمین کے قاتل وہ سب حکمران اور لیبر لیڈران ہیں جو پچھلے 75 سالوں میں برسر اقتدار رہے ہیں۔

اب تک کی تمام اموات کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو تقریباً 12 ہزار واپڈا محنت کش اپنی قیمتی اور انمول زندگیاں اس ملک میں ہر عام و خاص کے گھر کو روشن رکھنے کی غیر محفوظ تگ و دو میں گنوا چکے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں عوام کیے گھروں، فیکٹریوں، محلات، سرکاری عمارتوں، کرکٹ سٹیڈیمز وغیرہ میں روشی اور ہوا کے پیچھے کئی لائین مینوں کا خون شامل ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آج پاکستان میں بجلی کا پورا نظام انتہائی بوسیدہ اور زائد المعیاد ہو چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خراب اور بوسیدہ ایل ٹی (LT) سسٹم ہے جسے فوری طور پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ واپڈا لائین سٹاف سب سے زیادہ ایل ٹی (LT) اور ایچ ٹی (HT) پر کام کرتا ہے اور سب سے زیادہ حادثات ان دو لائنوں پر ہوتے ہیں۔ ان حادثات سے لائین مین کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ بکٹ کرین سمیت بین الاقوامی معیار کی ٹی اینڈ پی (T&P) مہیا کی جانی ضروری ہوتی ہے مگر 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی حکمران ایک لائین مین کو بین الاقوامی معیار کی ٹی اینڈ پی (T&P) اور بکٹ کرین ہی مہیا نہیں کر سکے جس کے ذریعے لائین مینوں کی جان بچائی جا سکے۔

پاکستان کے اندر واپڈا کا قیام 1958ء میں عمل میں آیا۔ واپڈا یعنی واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی، جس میں جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم شامل ہے، پہلے پہل مکمل طور پر سرکاری اور غیر منقسم ادارہ تھا۔ 1994ء میں آئی ایم ایف کی ایماء پر واپڈا کے ذیلی ادارے پاور ونگ کے زیر انتظام، پیپکو کے زیر نگرانی ڈسٹری بیوشن اور پاور سپلائی سسٹم 12 کمپنیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیاجس پر 1998ء میں عمل درآمد ہوا اور 12 ڈسٹری بیوشن اور سپلائی کمپنیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس میں پھر ہر ڈسٹری بیوشن اور پاور سپلائی کمپنی کا علیحدہ علیحدہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر مقرر کیا گیا جو کہ اپنی کمپنی کے تمام معاملات میں خود مختار اور صرف پیپکو کو جوابدہ ہے۔ بالکل اس طرز پر این ٹی ڈی سی (NTDC) اور جنکوز کو الگ الگ کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا اور واپڈا، جو کہ فیڈریشن کی علامت تھا، کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے نجکاری کی راہ ہموار کی گئی۔ اس طرح واپڈا کا ادارہ ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہونا شروع ہو گیا اور اس کا اثر واضح طور پر ہر کمپنی کی کار کردگی میں بھی محسوس ہونے لگا۔

واپڈا میں مہارتوں اور کام کی نوعیت کے حوالے سے مختلف ورکرز کام کرتے ہیں اور ان میں سب سے مشکل اور خطرناک کام بجلی کی لائینیں ہیں جن پر کام کرنے والے ورکرز کو لائین مین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ لائین مین نئی لائینیں بچھانے، پرانی لائینوں کی دیکھ بھال اور فالٹ کی صورت میں ان بجلی کی لائینوں میں بجلی کی بحالی کا کام سر انجام دیتے ہیں۔

اس سارے نظام کو چالو رکھنے کے لئے جن اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے اور جن کو مہیا کرنا حکومت اور اتھارٹی کی ذمہ داری ہے، مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ سب سے پہلے ورکرز کی جان کی حفاظت کا بندوست کرنا۔
2۔ کام کے لوڈ کے مطابق ورکرز بھرتی کرنا اور ورکرز کو تمام تر حفاظتی سامان مہیا کرنا۔
3۔ با حفاظت کام کرنے کا طریقہ کار طے کرنا اور تمام ورکرز کو کام کی تربیت دینا۔ نیز حفاظتی انتظامات کے بغیر ورکرز کو کام پر مجبور نہ کرنا۔
4۔ ورکرز کی جان کی حفاظت کرنے کے لیے انہیں حفاظتی بوٹس، بکٹ کرینیں اور ہینڈ گلوز مہیا کرنا۔

اگر واپڈا میں لائین مینوں کی حادثاتی اموات کے سلسلہ کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ واپڈا کے ادارے کے قیام سے لے کر آج تک ان جان لیوا حادثاتی اموات کو روکا نہیں جا سکا۔ حفاظت کے علامتی اقدامات اور یونین کی طرف سے علامتی احتجاجوں سے ان اموات کو روکنے میں بالکل کوئی کامیابی نہیں ملی اور اس دوران کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور کئی خاندان اُجڑ گئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لائین مین ڈے، بلیک ڈے، سیفٹی سیمیناروں، سیفٹی ڈے، شہدا ڈے وغیرہ منانے، شہید کا خطاب، سلوٹ پیش کرنے اور گارڈ آف آنر دینے سے مزدوروں کی اموات کے سلسلے کو روکا نہیں جا سکتا بلکہ سب سے پہلے ان اموات کو قتل قرار دیا جائے اور ان کے قاتلوں کا سراغ لگاتے ہوئے سب پر قتل کے مقدمے درج کیے جائیں۔ اس تحریر میں اوپر ہم بیان کر چکے ہیں کہ وفات پانے والے تمام ملازمین کے قاتل وہ سب حکمران ہیں جو پچھلے 75 سالوں میں برسر اقتدار رہے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی، ڈکٹیٹر، انتظامیہ اور لیبر لیڈران کے دور اقتدار میں قتل ہونے والے ہر لائین مین کے قتل کا مقدمہ ان پر درج کیا جانا چاہئیے۔

انتظامیہ ورکرز کی تعداد کی انتہائی کمی، حفاظتی سامان کی عدم دستیانی، ناقص لائینوں اور رابطہ کاری کے نظام کی خستہ حالی سے واقف ہونے کے باوجود مسلسل کئی سالوں سے ان کے تدارک کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی اور اس تمام صورتحال سے واقف ہونے کے باوجود جس کا لازمی نتیجہ حادثات کی صورت میں نکلتا ہے، لائین مینوں کو زبردستی موت کے منہ میں دھکیلتی ہے۔ انتظامیہ کے اندر بیٹھی افسر شاہی ہو یا ادارے کی باقی اشرافیہ ان کی عیاشیاں ہی ختم نہیں ہوتیں جبکہ ورکرز کی زندگی کی حفاظت کے لیے درکار سامان مہیا نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے لیے ورکرز کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔

اگر بغیر بکٹ کرین کے لائین مین کو ارتھ شدہ کھمبے پر کھڑے ہو کر کام کرنے کے لیے زبردستی کی جائے گی تو یہ لائین مین کی جانب سے خودکشی نہیں بلکہ حکم دینے والے کی جانب سے قتل کی کوشش ہوگی۔ حادثہ ناگہانی طور پر پہلی دفعہ لاعلمی کی صورت میں ہوتا ہے لیکن یہاں تو سب کو علم ہے کہ ان حالات میں بھاری کرنٹ لگنے سے موت یقینی ہے یا دوسری صورت عمر بھر کی معذوری ہے۔ اس لیے ان اموات کو حادثاتی اموات یا شہادتیں کہنے کا مطلب ہے کہ اصل قاتل اور مجرموں کو بری الذمہ قرار دے کر چھوڑ دیا جائے۔

لائین حادثات کی بنیادی وجوہات اور مسائل کو ہم اوپر زیرِ بحث لا چکے ہیں اور دیکھ چکے ہیں کہ واپڈا کے محنت کشوں کی اموات کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ اور حاکموں پر عائد ہوتی ہے لیکن انتظامیہ بڑی ہوشیاری سے اس جرم سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی حادثے کا شکار ہونے والے محنت کش پر ہی الزام ڈال دیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی لاپرواہی سے حادثہ ہوا تو کبھی لائن سپریٹنڈنٹ، گرڈ سٹیشن کے عملے یا کسی دیگر چھوٹے افسر پر سارا الزام ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل سے انتظامیہ اپنی نااہلی اور اپنے نظام کی عوام دشمنی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔

مطالبات:
1۔ بکٹ والی گاڑی اور کرین بمعہ ڈرائیور ہر سب ڈویژن کو فوراً مہیا کی جائے۔ بکٹ کرین کے بغیر HT اور LT لائین پر کام کرنے پر سخت پابندی عائد کی جائے۔
2۔ سٹاف کی شدید کمی کو یارڈ سٹک کے مطابق جلداز جلد پور ا کیا جائے۔
3۔ تمام زائد المعیاد پرانی اور ناکارہ انسٹالیشن کو فی الفور تبدیل کیا جائے۔
4۔ کم از کم تنخواہ ایک تو لہ سونے کے برابر کی جائے۔
5۔ موزوں حفاظتی آلات PPE اور T&P عالمی معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر فوراً فراہم کیے جائیں۔ غیر معیاری آلات کو فوراً تلف کیا جائے۔
6۔ ہائی وولٹیج ڈیٹیکٹر فوراً مہیا کیے جائیں۔
7۔ جدید ارتھنگ سیٹ ہر لائین مین کو مہیا کیا جائے۔
8۔ افسران کی جانب سے دباؤ، جلد بازی، ٹینشن، کام کی زیادتی، توجہ ہٹانے جیسے خطرناک کاموں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
9۔ کام کے دوران موبائل فون کے استعمال کو سختی سے ممنوع قرار دیا جائے۔
10۔ چمڑے کے دستانے، ربڑ کے دستانے، سیفٹی بیلٹ، سیفٹی بوٹس، ہیلمٹ، ٹارچ اور پلاس سمیت تمام ضروری آلات حفاظت کے عالمی معیار کے مطابق مہیا کیے جائیں۔
11۔ ورکروں کو مطلوبہ ٹریننگ کے بعد ہی کام کی ذمہ داری سونپی جائے۔

ان مطالبات کو منوانے اور جان لیوا حادثات کو روکنے کیلئے واپڈا ہائیڈرو یونین کی مرکزی قیادت کو دوسرے اداروں کے مزدوروں کو ساتھ ملا کر حکمرانوں کی بجلی بند کرنے سمیت ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینی چاہیئے۔

اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ایک سوشلسٹ معیشت کی بنیاد پر تمام تر آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس، نجی بجلی گھر) کو سرکاری تحویل میں لے کر اور بجلی کے شعبے کو از سر نو تعمیر نہیں کیا جاتا تب تک لائین مینوں کی اموات سے لے کر لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی جیسے مسائل کا مستقل حل نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں آج کسی بھی شعبے میں اصلاح کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایک سوشلسٹ معیشت کیلئے آج پاکستان کے محنت کشوں کو سوشلسٹ انقلاب کرنا ہوگا۔ ایک ایسا انقلاب جس میں تمام بینکوں، نجی صنعتوں اور بڑے نجی اداروں جیسے آئی پی پیز کو مزدور ریاست کی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا۔

ہم واپڈا سمیت تمام مزدوروں اور کسانوں کی ملک بھر میں موجود تمام یونینوں اور محنت کشوں کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا حصہ بننے کیلئے ریڈ ورکرز فرنٹ میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.