”آزاد“ کشمیر: لاٹھی گولی ہار گئی، عوامی طاقت جیت گئی!

|تحریر: آدم پال|

”آزاد“ کشمیر کی عوامی تحریک کی کامیابی نے پورے خطے میں ایک سیاسی زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ اس خطے کے حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں کو ایک بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور عوام کی طاقت کی بالادستی نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ عوام کے سیلاب نے اس خطے کے حکمران طبقات کی تمام تر دانش، سیاست اور حکمت عملی کو ایک ہی ریلے میں بہا دیا ہے اور حکمرانوں کی تمام تر طاقت تنکوں کی طرح بہہ رہی ہے۔

لاکھوں کی تعداد میں محنت کش عوام بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل احتجاج کر رہے تھے اور مختلف ہڑتالوں، لاک ڈاؤن اور پہیہ جام کر کے حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ عوام کے خون پسینے سے لوٹ کر جو خزانے تم نے بھرے ہیں اس میں سے کچھ واپس کر دو۔ لیکن حکمران اس کو ایک مذاق سمجھ رہے تھے اور مختلف حیلے بہانوں سے اس تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کبھی مذاکرات کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور کبھی ان کو کہیں دورسے لالی پاپ کے سہانے سپنے دکھا کر قومی گرڈ اوراربوں روپے کے ریلیف پیکج کے نام پر تحریک ختم کرنے کا حکم د یا جا تا رہا۔ اس دوران تحریک پر بدترین الزامات کی بوچھاڑ بھی کی جاتی رہی اور کارکنان کو گرفتار کرنے، ان پر جھوٹے مقدمات بنانے اور ان کو انڈیا کا ایجنٹ قرار دینے جیسے بہتان لگانے کا عمل بھی مسلسل جاری رہا۔ اس دوران پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو بھی مسلسل تیار کیا جاتا رہا کہ وقت پڑنے پر وہ عوام کی تحریک کو بدترین تشدد کے ذریعے شکست دے سکیں۔

لیکن آخر کار یہ تمام حربے مکمل طور پر ناکام ہوئے اور عوام سستی بجلی اور آٹے کے مطالبے سے بالکل بھی دستبردار نہیں ہوئے اور آخر کار لاکھوں کی تعداد میں مظفرآباد تک ایک لانگ مارچ کا کامیابی سے انعقاد کر کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

اس دوران عوام کی یکجہتی کا تاریخی نمونہ دیکھنے میں آیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عوام ایک خاندان کی طرح آپس میں متحد ہوچکے تھے۔ ہزاروں کے قافلے ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے تھے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ، رہائش اور خوراک سمیت تمام تر ضروریات مقامی لوگ اپنی جیبوں سے ادا کر رہے تھے۔ سب ایک دوسرے کے مہمان بھی تھے اور میزبان بھی۔ سب لیڈر بھی تھے اور کارکن بھی۔ سب مل کر ایک کارواں کی صور ت میں آگے بڑھ رہے تھے اور دشمن کے ہر حملے کا جواب دیتے جا رہے تھے۔

حکمران طبقے کی کشمیر کی آزادی کے نعرے سے غداری تو بہت پہلے ہی خاص و عام پر عیاں ہو چکی ہے لیکن اس تحریک میں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھ گیا کہ موقع پڑنے پر یہاں کے حکمران بھی کشمیر میں رہنے والوں پر اتنا ہی بد ترین جبر اور تشدد کرتے ہیں جو انڈیا کا حکمران طبقہ مقبوضہ کشمیر میں کرتا ہے۔اس تحریک کو کچلنے کے لیے جہاں پولیس کی جانب سے بدترین لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکی گئی اور کارکنان کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کیا گیا وہاں پنجاب اور پشتونخواہ سے ریزرو پولیس منگوا کر بھی تشدد کروایا گیا۔ اس سے بھی خون کے پیاسے حکمرانوں کا جی نہیں بھرا تو بدنام زمانہ رینجرز کو زبردستی کشمیر بھجوایا گیا جنہوں نے بد ترین مظالم کیے جس کے باعث تین نوجوان شہید ہوگئے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔پاکستان اور ”آزاد“ کشمیر کے حکمرانوں کے ان مظالم کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے اور اس کے خلاف تمام محنت کشوں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنی ہو گی تاکہ ان شہیدوں کے خون کا حساب لیا جا سکے۔

دوسری جانب ”آزاد“ کشمیر کے عوام نے جس جرات اور دلیری سے ان تمام حملوں کا جس طرح مقابلہ کیا اور جس طرح ان خون کے پیاسے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو شکست دی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ سستی بجلی اور آٹے کے مطالبے کے لیے متحرک ہونے والے لاکھوں عوام اس جبر کے مقابلے میں کمزور پڑنے کی بجائے مزید طاقتور ہوتے چلے گئے اور حکمرانوں کا ہر حملہ انہیں زیادہ جرات اورلڑنے کا حوصلہ دیتا گیا۔ 9 مئی کو میر پور کے قریب ڈڈیال میں پولیس کے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے جس طرح ریاستی اہلکاروں کو عوام نے سبق سکھایا وہ پوری تحریک کے لیے ایک مثال بن گیا اور اس عمل کو ہر جگہ پر زیادہ شدت کے ساتھ دہرایا گیا۔ ایسے ہی 11 مئی کو شروع ہونے والے لانگ مارچ کے رستوں میں پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو جس طرح ہٹایا گیا وہ بھی اجتماعی جدوجہد کی عمدہ مثال ہے۔ پولیس نے درختوں کو کاٹ کر سڑک پر گرایا، بڑے بڑے پتھر پھینک دیے اور سڑکوں پر مٹی کے ڈھیر لگا دیے لیکن عوام کے جذبے کے سامنے یہ سب کچھ بہت چھوٹا لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عوام کا جوش و خروش ہمالیہ کے پہاڑوں کو بھی اکھاڑ پھینکے گا اور رستے کی ہر رکاوٹ کو توڑ کر عبور کر لے گا۔

سب سے زیادہ جرات مظفرآباد کے عوام نے دکھائی جنہوں نے لانگ مارچ کے پہنچنے سے پہلے ہی مقامی پولیس اور سیکورٹی اداروں کو شکست دی اور شہر میں ایمرجنسی لگنے کے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ سب سے بڑا حملہ رینجرز کی جانب سے کیا گیا لیکن مظفرآباد کے نوجوانوں کے انقلابی جوش و جذبے کے سامنے رینجرزجیسی ظالم اور جابر قوت کو بھی دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ پہلے کوہالہ پل پر انہیں کشمیر میں گھسنے سے روکا گیا اور پھر جب وہ برار کوٹ کے نسبتاً کم استعمال کیے جانے والے رستے کے ذریعے چوروں کی طرح داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے تب بھی انہیں مقامی افراد نے پوری قوت کے ساتھ روکا۔ اس دوران رینجرز کی فائرنگ سے عوام کی شہادتیں ہوئیں جبکہ رینجرز کو حفاظت سے لے جانے کے لیے اضافی پولیس اور دیگر نفری منگوائی گئی جس نے بدترین آنسو گیس اور شیلنگ کا استعمال کیا جس کے باعث بھی زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ لیکن نوجوانوں نے اپنا خون بہا کر تحریک کو اس جبر اور تشدد سے محفوظ رکھا اور لانگ مارچ کو پر امن انداز میں مظفرآباد میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا۔

لانگ مارچ کے شرکاء کا مظفرآباد پہنچنا ایک اہم کامیابی تھی جسے روکنے کے لیے ریاستی ادارے اور حکمران ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ یہاں تک کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پر بھی بد ترین دباؤ ڈالا گیا کہ ہم تمام مطالبات منظور کر لیتے ہیں لیکن لانگ مارچ کے شرکاء کو شہر میں داخلے سے روکا جائے۔ حکمران نہیں چاہتے تھے کہ اس تمام تر کامیابی کا سہرا لانگ مارچ کو جائے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مذاکرات اور سازشی حربوں کو ہی کامیابی کا سہرا پہنایا جائے اور عوامی طاقت کے اظہار کو غیر اہم قرار دیا جائے۔ لیکن حکمرانوں کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح لاکھوں افراد کی عوامی تحریک نے حکمرانوں کے خونی جبڑوں سے اپنا حق چھین کر حاصل کیا۔

اس کامیابی نے حکمرانوں کے دل دہلا دیے ہیں اور ان کے جسموں پر ہی نہیں بلکہ ان کے خواب و خیال پر بھی اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ حکمران طبقہ عوامی طاقت سے خوفزدہ ہوچکا ہے اور اپنا خوف توڑنے کے لیے اب مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ تحریک کی قیادت پر جھوٹے مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں اور شہیدوں کے خون کے انصاف میں رخنے ڈالے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عوام پر مزید جبر کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ان پر پہلے ہی انڈیا کا ایجنٹ ہونے سمیت بد ترین الزام لگائے جا چکے ہیں اور پرامن احتجاج کرنے والوں کو تشدد پسند قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تمام تر قتل و غارت اور جبر و تشدد پولیس، رینجرز اور سیکورٹی اداروں نے کیا ہے۔

اس صورتحال میں عوام کے سامنے سادہ سا سوال ہے کہ حکمران اور ان کی پولیس اور رینجرز یہ سب کچھ کیوں کر رہی تھی۔ عوام نے ایسا کیا جرم کر دیا تھا؟ انہوں نے کس قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی تھی جس کی پاداش میں ان کے خلاف اتنا بڑا ظلم اور جبر کیا گیا۔ عوام تو صرف جینے کا حق مانگ رہے تھے۔ عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیے گئے ہیں۔ ان سے روزگار چھین لیے گئے ہیں۔ کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، کاشت کاری کی صورتحال بدتر ہو چکی ہے جبکہ حکمران طبقات کی عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں عوام نے جب اپنے لیے چند بنیادی حقوق مانگے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جو اس ملک کے دشمنوں یا بد ترین مجرموں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ کیا سستے آٹے اور بجلی کا مطالبہ کرنا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک، کشمیر پر حکمرانوں کے مؤقف اور ”آزاد“ کشمیر کی نام نہاد الگ حیثیت کو ہی روند ڈالا گیا۔ رینجرز جیسی ظالم قوت کو میدان میں اتار دیا گیا جنہوں نے یہ بنیادی مطالبات کرنے والے نوجوانوں کا خون ناحق کر ڈالا۔ درجنوں ابھی بھی زخمی ہیں اور زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں۔ اسی طرح بہت سے کارکنان کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان سب کا جرم یہی تھا کہ وہ عوام کے لیے زندہ رہنے کے چند مطالبات لے کر احتجاج کر رہے تھے۔

یہیں سے اس نظام اور اس پر مسلط حکمران طبقے کا حقیقی کردار سامنے آتا ہے۔ یہ پتا چلتا ہے کہ یہ پولیس، رینجرز اور فوج کے ادارے کس طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔ یہ عدالتیں، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کس طبقے کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح قانون، آئین اور دیگر تمام لوازمات بھی کس طبقے کے مفادات کے لیے بنائے گئے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام تر ریاست ہی سرمایہ دارانہ اور سامراجی ریاست ہے اور یہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ اور عوام پر جبر کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ اسی طرح جب حکمران طبقہ کشمیر کی آزادی، عوام کی فلاح و بہبود، مہنگائی، بیروزگاری کے خاتمے جیسے نعرے لگاتا ہے تو وہ صرف دکھانے کے دانت ہوتے ہیں جبکہ کھانے کے دانت کہیں اور ہیں جہاں سے عوام کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں، ان کی پیدا کردہ دولت لوٹ کر اپنی جیبوں میں بھری جاتی ہے یا سامراجی طاقتوں کو بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔

اس تحریک نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ بجلی اور آٹے کی قیمتیں کم بھی ہو سکتی ہیں اور اتنی کم قیمتوں کے ساتھ بھی ملکی معیشت پہلے کی طرح جاری و ساری رہ سکتی ہے۔ اس تحریک سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ اگر عوام کو سستی بجلی اور آٹا مل گیا تو دنیا رک جائے گی، سٹیٹ بینک زمین بوس ہو جائے گا، ملکی کرنسی غرق ہو جائے گی اور قیامت کا سماں ہوگا۔ لیکن بجلی کا یونٹ تین روپے ملنے کے باوجود یہ سب کچھ نہیں ہوا اور آٹا بھی سستا ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ حکمرانوں کے معیشت کے حوالے سے تمام تر بیانات جھوٹ اور فراڈ پر مبنی ہیں اور ان کے پاس تمام تر وسائل موجود ہیں کہ عوام کو سستی بجلی اور آٹا فراہم کیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت اس تحریک نے پاکستان کے تمام محنت کشوں کو یہ اسباق پہنچا دیے ہیں اور ہر گھر میں یہی بحث شروع ہو چکی ہے کہ اب کشمیر کے عوام کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے اور ان ہی کی طرح منظم ہوتے ہوئے بجلی، آٹے، پٹرول اور دوسری ضروری اجناس کی قیمتوں میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی لڑائی کے بغیر یہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے اور ان عوام دشمن حکمرانوں سے اپنا حق چھین کر حاصل کرنا ہوگا۔

اس تحریک نے تمام سیاسی پارٹیوں کی عوام دشمن حقیقت بھی کھل کر بے نقاب کر دی ہے۔ تحریک انصاف سمیت کسی بھی پارٹی نے عوام کے مطالبات کی حمایت نہیں کی اور تمام پارٹیاں حکمران طبقے اور پولیس کے ساتھ ہی کھڑی نظر آئیں۔ لیکن یہ بھی واضح ہو گیا کہ بڑے بڑے ناموں، پارٹیوں اور دہائیوں سے مسلط سیاستدانوں کے بغیر بھی تحریکیں چلائی جا سکتی ہیں اور انہیں کامیاب بھی کروایا جا سکتا ہے۔ یہ اس تحریک کا انتہائی اہم کارنامہ ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ تحریک کو کامیابی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کی ضروت نہیں اور نہ ہی کسی دولت مند کی فنڈنگ تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ بلکہ اس تحریک کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی تھی کہ اس تحریک کی فنڈنگ عوام خود کر رہے تھے۔ کھانے پینے کے انتظامات سے لے کر سفر کے، ٹرانسپورٹ کی فراہمی تک تمام تر انتظامات لوگوں نے مل کر کیے اور کسی جگہ بھی کسی سرمایہ دار یا اسٹیبلشمنٹ کے دلالوں کی فنڈنگ پر انحصار نہیں کیا۔ درحقیقت تمام تر سیاسی پارٹیاں، ان کے لیڈر اور ریاستی مشینری تو انتظامات کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور یہی دشمنی عوام کو زیادہ جوش و جذبہ بھی دے رہی تھی۔

اس تحریک کا ایک انتہائی خاص پہلو خواتین کی بڑے پیمانے پر براہ راست شرکت تھی۔ اکتوبر میں خواتین نے اس تحریک کی حمایت میں ہزاروں کے جلوس نکال کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی تھی۔ اس کے بعد بھی فنڈنگ سے لے کر کھانے پینے کی فراہمی تک اور اس تحریک کی کمزوریوں پر تنقید سے لے کے اس کو ہمت و حوصلہ فراہم کرنے تک خواتین نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ آنے والے عرصے کی تحریکوں کے لیے یہ ایک اہم سبق ہے اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئندہ بھی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اس تحریک نے پارلیمنٹ، عدالتوں اور دیگر ریاستی اداروں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ خاص طور پر الیکشنوں کے ڈھونگ کا پول کھول دیا۔ واضح ہو گیا ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے براہِ راست جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن، پارلیمنٹ یا مقدمے بازی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی طاقت عوام کے احتجاج اور تحرک میں ہے اور جتنی بڑی تعداد میں عوام منظم ہو کر باہر نکلیں گے اتنے ہی بڑے مطالبات حاصل کر سکیں گے۔ اس تحریک نے عوام کے اکٹھ اور اتحاد کی طاقت کو بھی واضح کیا ہے۔ حکمران طبقہ ہمیشہ عوام کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ قبیلے، علاقے، قوم، مذہب اور زبان کی بنیاد پر عوام کو ایک دوسرے سے لڑوا کر حکمران طبقات اپنی حاکمیت جاری رکھتے ہیں۔ اس تحریک نے ثابت کیا ہے کہ حکمران طبقے کو شکست دینے کے لیے تمام تعصبات کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور صرف طبقے کی بنیاد پر ہی جڑت بنانی ہو گی۔ اس تحریک میں نظر آیا کہ ایک قوم کے اندر بھی دو طبقات موجود ہوتے ہیں اور کس طرح اسی قوم کا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کے دفاع کے لیے اپنی قوم کے محنت کشوں کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس سے لے کر رینجرز کو بلانے تک پورے عمل میں اسی قوم کے حکمران براہ راست شریک تھے جس قوم کے عوام احتجاج کر رہے تھے۔ درحقیقت اس تحریک نے ایک نسبتاً پسماندہ اور دیہی علاقے کے اندر بھی طبقاتی تفریق کی موجودگی اور اس کے باہم متصادم حقیقی کردار کو عیاں کر دیا ہے۔

اس تحریک نے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے منظم ہونے اور جمہوری انداز میں ان اداروں کے چلانے کی اہمیت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ ایکشن کمیٹیاں اس تحریک کا بنیادی ڈھانچہ تھیں جس پر یہ پوری تحریک رواں دواں تھی۔ عام طور پر تحریکیں لیڈروں کی شخصیت کے گرد ہی بنتی اور ابھرتی ہیں اور وہ شخصیات تحریک کے ابھار میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔ جب تک تحریک کا دباؤ موجود ہوتا ہے وہ شخصیات انتہائی جذباتی اور انقلابی تقریریں کرتی نظر آتی ہیں لیکن جیسے ہی تحریک کا دباؤ کم ہوتا ہے اور حکمران طبقے کے حملوں میں شدت آتی ہے تو مفاہمت کی جانب سفر ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ پچھلے عرصے کی مختلف تحریکوں میں نظر آیا ہے جو پاکستان کے مختلف خطوں میں ابھرتی رہی ہیں۔ لیکن اس تحریک میں انفرادی قیادت کا کردار ثانوی تھا اور ایکشن کمیٹیوں کے فعال ڈھانچے اور وہاں جمہوری انداز میں ہونے والے فیصلوں نے کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آنے والے عرصے میں اس کردار کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ان ایکشن کمیٹیوں میں ریاستی حملوں کی صورت میں دفاع کے طریقہ کار پر بھی بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دیگر بنیادی ایشوز کو سامنے لاتے ہوئے ان کے گرد عوام کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایکشن کمیٹیوں کو یونین کونسل کی سطح تک باقاعدگی سے منظم کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے فعال، متحرک اور دیانتدار افراد کو قیادت میں لانے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے عین وقت پر تذبذب کا مظاہرہ کیا یا لانگ مارچ کے رستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی وہ کسی بھی طرح ان اداروں میں رہنے کے اہل نہیں ہو سکتے۔

سب سے بڑھ کر ضرورت ہے کہ اس تحریک کو پورے خطے میں پھیلایا جائے اور اس تحریک کے تجربات اور اسباق پورے خطے کے محنت کشوں تک پھیلائے جائیں۔ اس حوالے سے کشمیر میں موجود تحریک کے ہر کارکن پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ پاکستان کے تمام مزدور، کسان اور طلبہ اس تحریک کے تمام پہلوؤں کو نہ صرف سننا چاہتے ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہاں بھی مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف کامیاب لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی عمران خان سمیت تمام سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے مظالم بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے احکامات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ کسی بھی حکمران کے پاس نہیں اور نہ ہی آنے والے عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں کوئی کمی ہونے جا رہی ہے۔

اس صورتحال میں کشمیر کی تحریک پورے پاکستان کے مستقبل کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ یہاں بھی لاکھوں لوگ سڑکوں پر باہر نکلیں گے اور اپنے حقوق کے لیے اسی طرح احتجاج کریں گے۔ اس تمام تر تحریک میں کشمیر کی تحریک کے تجربات کلیدی کردار ادا کریں گے اور حکمران طبقے کی سازشوں، جابرانہ ہتھکنڈوں اور الزامات کی بوچھاڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے رستہ دکھائیں گے۔ اس لیے کشمیر کی تحریک کے ہر کارکن کو فوری طور پر پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو انہی بنیادوں پر منظم ہونے اور جدوجہد کرنے کا سبق دینا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس تحریک کو صرف چند معاشی مطالبات تک محدود رکھنا بھی جرم ہوگا۔ اس تحریک کو فوری طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کی تیاری کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمران طبقے کے مظالم اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ نظام اور اس کی پروردہ یہ ریاست موجود ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس نظام اور اس سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور حکمران طبقے کے تمام تر جبر کا بھی مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس انقلاب کی کامیابی ہی خطے میں ہر طرح کے قومی جبر کا بھی مکمل خاتمہ کرے گی اور ہر شخص روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم بھی مفت حاصل کرسکے گا اور ہر قسم کی غلامی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اعلان کیا ہے کہ یہ سب ناممکن نہیں اور ایسا انقلاب نہ صرف برپا کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے کامیابی سے ہمکنار بھی کیا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.