گلگت بلتستان: گندم سبسڈی کے خاتمے، بجلی بحران اور ناجائز ٹیکسوں کے خلاف شاندار عوامی مزاحمت کی کامیابی اور اس کے اثرات

|تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ|

گلگت بلتستان میں ماہ جنوری، فروری میں گندم سبسڈی کے خاتمے، شدید ترین بجلی لوڈ شیڈنگ، ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ، عوامی اراضی پہ ریاستی قبضوں، اس خطے کے پہاڑوں سے نکلنے والی معدنیات پہ بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کے قبضوں، دیامر بھاشا دیم اور داسو ڈیم کی رائلٹی میں حصہ داری، مرکزی حکومت کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ طرز کے معاہدے اور دیگر عوامی ایشوز پہ ابھرنے والی عوامی جدوجہد دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست عوامی مزاحمتی تحریک میں بدل گئی اور پورے گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔

اس تحریک کی قیادت نے ریاست پہ عوامی دباؤ بڑھانے کیلئے انقلابی حکمت عملی کے تحت 27 جنوری کو تمام دیگر اضلاع اور قصبوں سے عوام کو لانگ مارچ کے ذریعے دو بڑے شہروں گلگت اور سکردو میں اکٹھا ہونے کی کال دی جس کے نتیجے میں دونوں شہروں میں دو لاکھ سے زیادہ کا اجتماع ہوا۔ عوامی مزاحمت کا رنگ انقلابی شکل اختیار کرنے لگا تو گلگت بلتستان میں قائم تحریک انصاف، نون لیگ اور پی پی پی کی مخلوط حکومت اور اسلام آباد میں قائم نگران حکومت عوامی مزاحمت کا دباؤ برداشت نہ کر سکی اور مذاکرات پہ مجبور ہو گئی اور مذاکرات کے نتیجے میں گندم کی قیمت واپس 22 روپے فی کلو مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ہیلتھ کارڈ بحال کرنے اور علاج معالجے کی بنیادی سہولیات بحال کرنے، بجلی بحران حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پہ کام کرنے، تمام غیر آباد اور بنجر زمینوں پہ عوام کی ملکیت تسلیم کرنے، دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کی رائلٹی جیسے مطالبات حل کرنے کے لئے عوامی ایکشن کمیٹی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا۔ باقی ماندہ عوامی مطالبات کیلئے اسلام آباد میں نئی منتخب وفاقی حکومت کے قیام تک کا وقت مانگ لیا، اس کے نتیجے میں عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنی عوامی تحریک کو عارضی طور پہ مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا۔

گلگت بلتستان میں ابھرنے والی یہ عوامی تحریک اچانک سے نہیں ابھری بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کی سرمایہ دار قبضہ گیر ریاست کی پچھلی کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان میں جاری جبر و استبداد اور لوٹ کھسوٹ کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف یہاں کے محکوم و کچلے ہوئے عوام کے اندر بڑھتا ہوا غم و غصہ تھا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کی طرف سے سرمایہ دارانہ بحران کا سارا بوجھ محنت کش عوام پہ ڈالنے سے غربت و بے روزگاری میں مسلسل اضافے کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت جیسے عوامل کا عمل دخل بھی تھا۔یہ تحریک اس تمام غصے کا عملی اظہار تھی جو ایک لاوے کی شکل میں میں پھٹ پڑا۔ اس عوامی غم و غصے اور نفرت کو ایک منظم عوامی مزاحمتی تحریک کی شکل دینے میں یہاں کی مختلف سیاسی،سماجی تنظیموں اور سرگرم نوجوانوں کا کردار تھا مگر ان سب کو جوڑ کر اس تحریک کو مختلف مصلحتوں، سمجھوتہ بازیوں کی نذر ہونے سے بچانے اور سخت ریاستی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس عوامی مزاحمت کو انقلابی لائحہ عمل دیتے ہوئے اسے کامیابی کی منزل تک لے جانے میں انقلابی سوشلسٹ نظریات سے لیس آئی ایم ٹی کے کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا اور اس عوامی تحریک کی قیادت بھی آئی ایم ٹی اور ریڈ ورکرز فرنٹ،گلگت بلتستان کے راہنما کامریڈ احسان علی ایڈووکیٹ کے ہاتھ میں تھی جو عوامی ایکشن کمیٹی کے چیف کوآرڈینیٹر تھے۔

گلگت بلتستان میں چلنے والی اس کامیاب عوامی تحریک میں عوام کی بھرپور شرکت کی ایک بڑی وجہ سال 2014ء میں گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ کامیاب عوامی تحریک کے حوصلہ افزا تجربات کا بھی بڑا دخل تھا۔ سال 2014ء میں گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک کامیاب عوامی تحریک گندم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ابھری تھی اور پہیہ جام ہڑتال اور تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی دھرنوں کے ذریعے سال 2014 ء میں گلگت بلتستان میں پی پی پی کی حکومت اور اسلام آباد میں براجمان نواز لیگ کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کیا تھا اور گندم کی پرانی قیمتوں کو بحال کرایا تھا۔ اس کامیاب عوامی تحریک سے یہاں کے عوام کو ایک بڑا واضح سبق ملا تھا کہ عوام کی منظم تحریک کے آگے کوئی طاقت زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی۔

یہاں کے محنت کش عوام کے ذہنوں میں سال 2014 ء کی کامیاب عوامی تحریک کے خلاف ریاست اور اسکے اداروں کی طرف سے عوامی جدوجہد کو تقسیم کرکے اسے ناکام کرنے کے مختلف ہتھکنڈوں کے تجربات بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ تھے۔ وہیں پہ عوامی مزاحمت کو منظم کرکے اسے پھیلانے کیلئے تحصیل سطح سے ڈسٹرکٹ سطح تک عوامی ایکشن کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے عوامی تحریک کو گراس روٹ لیول تک منظم کرنے کے کامیاب تجربات بھی ابھی عوام کو بخوبی یاد تھے۔ سال 2014ء کی گندم سبسڈی تحریک اور سال 2017 ء کی اینٹی ٹیکس موومنٹ کی کامیابی سے حاصل ہونے والے اسباق نے موجودہ عوامی مزاحمتی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس لئے یہاں سال 2014 ء کی عوامی تحریک کے بارے میں کچھ ذکر کرنا ضروری ہو گا۔

گلگت بلتستان کی تاریخ

گلگت بلتستان اکتوبر 1947ء تک ریاست جموں کشمیر کا ایک صوبہ تھا۔ 31 اکتوبر 1947ء کی رات کو مہاراجہ کشمیر کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف گلگت سکاؤٹس کی بغاوت کے ذریعے گلگت میں تعینات مہاراجہ کشمیر کے گورنر بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اس خطے کو کشمیر سے الگ کیا گیا۔ 16 نومبر 1947 کو گلگت سکاؤٹس کے انگریز کمانڈنٹ میجر براؤن کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان سے رابطہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان نے 16 نومبر کو اپنا ایک پولیٹکل ایجنٹ بھیج کر گلگت بلتستان کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس وقت سے یہ خطہ ریاست پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہ خطہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر کے ساتھ اس خطے کے باشندوں نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا خودمختار ریاست کے طور پہ اپنی الگ ریاست قائم کرنی ہے۔ اس رائے شماری کے انعقاد تک یو این سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے منقسم تینوں حصوں کے باشندوں کو مکمل اندرونی خودمختاری دینے کا وعدہ کیا گیا مگر نہ ہندوستان نے اور نہ ہی پاکستان نے اپنے زیر کنٹرول خطوں کے باشندوں کو اندرونی خودمختاری دی ہے۔

پاکستان اور ہندوستان نے اپنے زیر کنٹرول کشمیر کے دونوں حصوں کے باشندوں کوبد ترین ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ نام نہاد ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ آئینی حقوق دیے ہیں مگر گلگت بلتستان کے باشندوں کو ریاست پاکستان نے بغیر کسی آئینی تحفظ اور بغیر بنیادی انسانی جمہوری اور معاشی حقوق دیے اپنے زیر کنٹرول رکھا ہے اور اسلام آباد سے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے یہاں کا نظام حکومت چلایا جا رہا ہے۔ اس انتظامی حکم نامے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے تحت قائم اسمبلی ایک بے اختیار نمائشی اسمبلی ہے۔ اس اسمبلی کے پاس عوامی حقوق سے متعلق قانون سازی کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے گلگت بلتستان کے عوام اپنے تمام معاشی،انتظامی، مالی اور سیاسی حقوق کے لئے اسلام آباد کے حکمرانوں کے محتاج ہیں اور اسلام آباد کے حکمران اس خطے پہ اپنی گرفت مضبوط کرنے اور یہاں کے وسائل اور دولت کی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ، علاقائی، لسانی اور قبائلی بنیادوں پہ لوگوں میں تقسیم ڈال کر اس معدنی دولت سے مالامال خطے پہ اپنی حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

گندم سمیت متعدد اشیائے ضرورت پہ سبسڈیز یہاں کے عوام پہ کسی حکومت کی مہربانی سے نہیں بلکہ سال 1971ء میں یہاں کے عوام کی خطے پہ مسلط ایف سی آر جیسے کالونیل قانون کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ملی تھیں اور سال 1972ء میں بھٹو حکومت نے اقتدار میں آکر عوامی بغاوت کو ٹھنڈا کرنے کیلئے گندم پہ سبسڈی،ہوائی سفر اور پبلک ٹرانسپورٹ پہ رعایت، ہر سطح کے طلبہ کے لئے سکالرشپ اور تیل و خشک دودھ پہ سبسڈی کا اعلان کیا تھا۔اسی طرح یہاں پہ اپنی انتظامی گرفت مضبوط کرنے کیلئے ایف سی آر کی مختصر انتظامیہ کی جگہ سول و ملٹری افسرشاہی کا مضبوط ڈھانچہ کھڑا کیا گیا،دو اضلاع کی جگہ پانچ اضلاع قائم کیے گئے اور بعد ازاں ان اضلاع کی تعداد غیر ضروری طور پہ بڑھاتے بڑھاتے دس اضلاع قائم کرکے افسرشاہی کی گرفت کو مضبوط کیا گیا۔ اسی تناسب سے پولیس اور خفیہ اداروں کی تعداد تیزی سے بڑھائی گئی لیکن فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الباطل کی مارشل لائی حکومت میں گندم کے علاوہ باقی ساری سبسڈیز ختم کر دی گئیں۔

سال 2012ء میں گندم کی سبسڈی بھی ختم کر دی گئی تو گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں عوامی احتجاج کا آغاز ہو گیا اور سال 2013ء میں راقم سمیت چند سماجی کارکنوں نے مل کر ان الگ الگ عوامی احتجاجات کو آپس میں جوڑنے کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور مختلف سیاسی، سماجی تنظیموں کو عوامی ایکشن کمیٹی میں شامل کرکے اسے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد میں بدل دیا اور ضلعوں اور تحصیلوں کی سطح تک عوامی ایکشن کمیٹیاں قائم کر دی گئیں۔ فروری 2014ء سے گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز کر دیا گیا اور 10 مارچ 2014 ء کو گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام اضلاع میں ایک ساتھ عوامی ایشو پہ ایک انتہائی کامیاب پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کیا گیا اس کے بعد تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز میں دھرنے شروع کئے گئے مگر گلگت بلتستان میں قائم پی پی پی حکومت اور مرکز میں نون لیگ کی حکومتوں نے عوامی مطالبے پہ غور کرنے کی بجائے عوامی تحریک کو دبانے کیلئے تحریک کی لیڈرشپ پہ مقدمات درج کرکے تحریک پہ حملہ شروع کیا تو عوامی تحریک کی قیادت کے پاس حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لئے ایک اور مؤثر آپشن لانگ مارچ کا تھا۔ چنانچہ تمام اضلاع سے گلگت شہر کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں حکومت سخت دباؤ میں آ گئی اور گندم کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لیکر گندم کی سبسڈی بحال کر دی گئی۔

گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف حالیہ تحریک

جی بی عوام کی حالیہ عوامی مزاحمتی تحریک بھی سال 2014ء کی تحریک کے طریقہ کار اور حکمت عملی کے مطابق شروع کی گئی۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کو تحصیل سطح تک منظم کرکے عوامی احتجاجات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔حکومت نے تحریک میں دراڑیں ڈال کر اسے تقسیم کرنے کی پوری کوشش کی۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پہ غیر ملکی ایجنٹ ہونے اور عوامی تحریک کیلئے دشمن ریاستوں سے فنڈز وصول کرنے جیسے بیہودہ الزامات لگائے گئے مگر مزاحمت میں شریک عوام پہ ان الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ مقامی عوام نے مزید جوش و خروش سے عوامی تحریک کا ساتھ دیا۔

شروع شروع میں ہر ضلع میں احتجاجی جلسے اور مظاہرے شروع کئے گئے مگر حکومت نے مشروط مذاکرات کی آفر کرکے عوامی تحریک میں دراڑیں ڈالنے کی پوری کوشش کی۔ اس پہ تحریک کے اندر کچھ نیم سیاسی نیم مذہبی عناصر نے حکومتی آفر قبول کرتے ہوئے تحریک ختم کرنے کیلئے تحریک کے اندر تقسیم ڈالنے کی کوشش کی مگر تحریک کی قیادت نے حکومتی آفر کو ایک چال قرار دے کر اس آفر کو مسترد کیا اور تحریک کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے تسلیم کئے جانے تک عوامی مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت پہ مزید دباؤ ڈالنے کیلئے بلتستان کے چاروں اضلاع سے سکردو شہر تک لانگ مارچ کرنے جبکہ دیگر پانچ اضلاع سے حکومتی ہیڈ کوارٹر گلگت شہر تک لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس نئی انقلابی حکمت عملی کی وجہ سے حکومت پہ زبردست دباؤ پڑا اور اس کے نتیجے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پہ بات چیت کے لئے حکومت غیر مشروط مذاکرات کرنے پرمجبور ہو گئی اور مذاکرات کے نتیجے میں گندم سبسڈی کو بحال کرکے گندم کی قیمت 22 روپے فی کلو مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد ٹیکسوں کے نفاذ کے لئے تیار کردہ فنانس ایکٹ 2023 ء معطل کرنے،ہسپتالوں میں صحت کارڈ بحال کرنے اور بنجر و غیر آباد اراضی کے لئے مقامی دستور کے مطابق قانون سازی کرنے اور معدنیات کی لیز کا اجراء مقامی باشندوں کے حقوق کے تحفظ سے مشروط کرنے کا اعلان کیا گیا۔ دیگر بڑے مطالبات دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کی بجلی میں حصہ داری اور رائلٹی، سی پیک معاہدے میں بطور تیسرے فریق شریک کرنے جیسے مطالبات کے لئے نئی آنے والی منتخب حکومت کے قیام تک تحریک کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔


عوامی مزاحمتی تحریک کی اس شاندار کامیابی کے نتیجے میں یہاں کے محنت کش عوام اور خاص کر نوجوانوں میں زبردست جوش و خروش پیدا ہو گیا ہے۔ ریاست کی طرف سے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دوسرے کالے قوانین کے ذریعے پیدا کردہ خوف اور ڈر کا جو ماحول پیدا کیا گیا تھا وہ عوام کے دل و دماغ سے اتر گیا ہے۔ تحریک کی قیادت نے تحریک کے اگلے راؤنڈ کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے۔ گلگت شہر اور دوسرے اضلاع میں از سر نو کمیٹیاں منتخب کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے، نیز نوجوانوں کو الگ طور پہ منظم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی کی تنظیم میں موجود موقع پرست اور سمجھوتہ باز عناصر کو مرکزی کور کمیٹی سے ہٹایا جا رہا ہے اور انکی جگہ آزمودہ اور جرات مند کارکنوں کو آگے لایا جا رہا ہے۔ رمضان کے مہینے کے بعد تحریک کا اگلا راؤنڈ شروع کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہے۔ یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ تحریک کے اگلے راؤنڈ کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ سخت تیاریوں کی ضرورت ہو گی۔ تحریک کے اندر یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ آئندہ ابھرنے والی تحریک کی کامیابی کے لئے پاکستان کے مختلف حصوں میں ابھرنے والی عوامی مزاحمتی تحریکوں سے گلگت بلتستان کی تحریک کا رشتہ جوڑنا پڑے گا۔ نیز اس بات کا بھی احساس بڑھ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل کی جڑ موجودہ بحران زدہ سرمایہ داری نظام ہے اور اس سرمایہ داری کے خاتمے کیلئے پاکستان بھر کے محنت کش طبقے اور عوام کیساتھ مل کر ایک ملک گیر انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی تحریک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.