|تحریر: آری سافران اور جان پیٹرسن؛ ترجمہ: ولید خان|
کئی ہفتے جارج فلائڈ کے قتل پر نسل پرستی اور پولیس تشدد کے خلاف جنم لینے والے احتجاج پورے امریکہ کو جھنجھوڑتے رہے۔ سماج کی ہر پرت نے اس تحریک کی حمایت کی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی یعنی تقریباً 2 کروڑ 50 لاکھ افراد نے کسی نہ کسی احتجاج میں کم از کم ایک مرتبہ شرکت کی۔ اگرچہ کچھ شہروں میں عوامی احتجاج ابھی بھی جاری ہیں لیکن زیادہ تر ملک میں عوامی سیلاب کا ریلا ختم ہو گیا ہے کیونکہ انہیں اس سے انقلابی راستہ نہیں ملا۔۔ فی الحال۔
انگریزی میں یہ تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سیاہ فاموں کے حقوق کی تحریک (بلیک لائیوز میٹر) کا احیا لاکھوں کروڑوں افراد کے لئے انتہائی اہم درس گاہ ثابت ہوا ہے۔ انہیں نہ صرف متحرک عوام کی طاقت کا ادراک ہوا بلکہ انہوں نے پہلی مرتبہ بے مثال پولیس بربریت کا سامنا بھی کیا۔ شدید معاشی اور سماجی بحران میں تحریک کے پھیلاؤ اور حجم نے حکمران طبقے کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں اور وہ دوبارہ سے سٹیٹس کو بحال کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے۔
سیاہ فاموں کے حقوق کی تحریک (بلیک لائیوز میٹر) کا احیا لاکھوں کروڑوں افراد کے لئے انتہائی اہم درس گاہ ثابت ہوا ہے۔
کئی مقامات پر، قانونی طور پر احتجاجیوں کو بغیر کسی الزام کے قید میں رکھنے کی مقررہ میعاد ختم کر دی گئی ہے۔ پورٹ لینڈ شہرسے کئی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں بھاری اسلحے سے لیس نا معلوم افراد گمنام گاڑیوں میں احتجاجیوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک رہے ہیں۔ بعد میں کئی صحافیوں کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے کئی افراد DHS اور بارڈر کنٹرول کے فیڈرل ایجنٹ تھے اور ممکن ہے کہ ان میں کرائے کے سپاہی بھی شامل تھے۔ 28 جولائی کو اسی حکمت عملی پر گامزن نیو یارک پولیس ڈیمارٹمنٹ کے وارنٹ سکواڈ نے ایک گمنام گاڑی اور سادہ لباس پولیس افسروں کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاتون کو ایک احتجاج سے اٹھا لیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ محض ”پولیس املاک کو نقصان پہنچانے“ کے حوالے سے پہلے سے ایک جاری کردہ وارنٹ کی تکمیل کر رہے تھے۔
پورٹ لینڈ، آریگون ریاست کا شہر ہے جہاں تقریباً 70 دنوں سے مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں اور یہ اس وقت طوفان کا مرکز بن گیا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے گمنام فیڈرل ایجنٹوں کو ”امن بحال“ کرنے کے لئے تعینات کر دیا۔ درحقیقت ان شر پسندوں نے تشدد کو بے تحاشہ بڑھاوا دیا تاکہ میڈیا میں دکھایا جائے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے کنٹرول والے شہروں میں ”انارکسٹ اور لٹیرے“ آزاد گھوم رہے ہیں اور اسی لئے نومبر انتخابات میں ایک ”قانون اور نظم و ضبط“ پسند صدر کی ضرورت کے ٹرمپ کے بیانیے کو ذرائع ابلاغ میں تقویت دی جا سکے۔ اسی طرح پورٹ لینڈ کے ڈیموکریٹ میئر ٹیڈ ویلر نے اس معاملے کو سیاسی ڈرامے بازی کے لئے استعمال کیا۔
لیکن اب مشہور زمانہ ”ماؤں کی دیوار“ اور ”تجربہ کار سپاہیوں کی دیوار“ کے پردے میں گمنام افراد کے حملوں اور تشدد کے مناظر نے جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور حقیقی مجرموں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ہر طرف سے شدید دباؤ کے نتیجے میں اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ ان ایجنٹوں کو شہر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اور اس وقت سے احتجاج پر امن ہیں۔
حکمران طبقے کی جمہوریت
جبر میں کئی گنا اضافے نے حکمران طبقے کی جمہوریت اور تحریک کے مستقبل پر کئی سنجیدہ سوال اٹھا دیے ہیں۔ کچھ لوگ تو جمہوری حقوق کے مکمل خاتمے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال اس وقت یہ بنتا ہے کہ آخر جمہوری حقوق ہیں کیا؟
گمنام اور رو پوش پولیس والوں کی جانب سے ”ماؤں کی دیوار“ پر ہونے والے حملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے جبر کے استعمال کیلئے کون کس کو اکسا رہا ہے۔
حتمی تجزیے میں سماج کو کچھ مخصوص ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے منظم کیا جاتا ہے۔ آج اس نظم کی بنیاد سرمایہ داری ہے جو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا نظام ہے۔ اس استحصالی نظام کے بطن میں محنت کش طبقے اور حکمران طبقے کے درمیان جنگ کی بنیادیں موجود ہیں اس سوال پر کہ محنت کش طبقے کی پیدا کردہ دولت پر کس کا حق ہوگا۔ ان سماجی تعلقات کو امریکی آئین اور اس کے بعد منظور ہونے والے لاتعداد بلوں میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ لیکن آئین اور قوانین محض اپنے لکھے گئے وقت پر موجود طبقاتی طاقتوں کے توازن کا مجسم اظہار ہوتے ہیں، ایک ناپائیدار مصالحت جس میں عوامی امنگوں اور حکمران طبقے کی مجبوریوں میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ٹرمپ اور اس کے ریپبلیکن بھیڑیے، محنت کش طبقے کے دشمن ہیں لیکن ہمارے جمہوری حقوق پر حملے کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہے، اگرچہ سرمایہ داری کے لبرل محافظ کبھی اس کا ذکر نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر پہلے ڈیموکریٹ پھر ریپبلیکن اور اب پھر ڈیموکریٹ میئر مائیکل بلومبرگ نے 2004ء میں ریپبلیکن کنونشن کے دوران نیو یارک شہر میں ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کروا دیا تھا۔ اب کیونکہ بلومبرگ ٹرمپ کا مخالف ہے اس لئے بنیادی انسانی حقوق کی اس حق تلفی کا ذرائع ابلاغ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔
حالیہ واقعات کی روشنی میں نام نہاد لیفٹ پر موجود کئی افراد کو ”بڑھتی فسطائیت“ یا ”استبدادیت“ کا بھوت نظر آ رہا ہے۔ ٹرمپ کی ٹاسک فورس کا نازی گسٹاپو سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ آئین سے بالاتر حکومت کرنا چاہتا ہے اور ہنستے کھیلتے ہر اس شخص پر اپنے بدمعاشوں کا حملہ کروا دے گا جو اس کی مخالفت کرتا ہے۔۔اگر ایسا ممکن ہو۔ لیکن سماج میں طبقاتی قوتوں کا توازن فیصلہ کن طور پر محنت کش طبقے کے حق میں ہے جس وجہ سے ٹرمپ کے لیے اپنی خواہشات پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ درحقیقت مٹھی بھر فیڈرل ایجنٹوں کے ذریعے بدمعاشی کرانا سرمایہ دار ریاست کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری کا اظہار ہے۔
بے پناہ عوامی دباؤ کے نتیجے میں سیاسی پارٹیوں کے اندر اور باہر حکمران طبقے کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اس کا اظہار اس تحریک کے آغاز میں اس سوال پر ہوا کہ تحریک سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے۔۔مان کر یا مار کر۔ لیکن اس وقت کئی فیڈرل پولیس فورسز میں بھی شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں بدنامِ زمانہ جے ایڈگر ہوور کی قیادت میں FBI شدید مرکزیت پر مبنی ایجنسی تھی۔ آج ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں بٹ کر اس ایجنسی کی اکائی پارہ پارہ ہو چکی ہے۔
پھر ریاست کی تمام قوتوں پر انحصار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ واشنگٹن ڈی سی جیسے مقامات پر نیشنل گارڈ کا مورال بالکل گر چکا تھا اور وہ اکثر اپنے افسران کے حکم کے برعکس مظاہرین کے ساتھ خاموش حمایت میں کھڑے رہے۔ ریاستی ڈھانچے میں دراڑیں اور نیشنل گارڈ پر عدم اعتماد کے نتیجے میں مختلف ایجنسیوں سے پیوند کاری کر کے یہ ایک فیڈرل فورس بنائی گئی تاکہ ٹرمپ کے غلیظ احکامات کی تعمیل ہو سکے۔
اگر حکمران طبقہ رسمی جمہوریت سے بالاتر ہو کر کوئی اقدامات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو محنت کش طبقے کا دیو ہیکل حجم اور انقلابی امکانات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ہم نے دیکھا کہ کئی شہروں میں کرفیو لگانے کی کوشش کی گئی لیکن عوام نے ان کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہ تمام کام بغیر کسی متحد طریقہ کار اور مدافعتی پروگرام کے کیا گیا۔
حقوق مقدس یا ابدی نہیں ہوتے اور جب عوام، سرمایہ داروں کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتی ہے توان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ”نظم و ضبط“ دوبارہ قائم کیا جائے تاکہ طبقاتی استحصال کو مقرر کردہ حدود میں جاری رکھا جا سکے۔ جب تک سرمایہ دار سماج کو چلاتے رہیں گے اس وقت تک محنت کشوں کو اپنے بنیادی ترین حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن لبرلز کے برعکس مارکس وادی ان حقوق کو منزل کے بجائے راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ جدوجہد کا بنیادی جزو ہیں لیکن بنیادی جمہوری حقوق کی جدوجہد محض سوشلسٹ انقلاب کی وسیع جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔
محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں پر حقوق کے تحفظ اور ان میں بڑھوتری کی ہر ممکن جدوجہدلازم ہے۔ لیکن مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور دفاعی حکمت عملی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی، طبقاتی جدوجہد سے لیس یونینز، انقلابی قیادت اور پروگرام کی عدم موجودگی کے باوجودمحنت کشوں نے حکمران طبقے کی بربریت اور خوف پھیلانے کی تمام تر سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ اگر ہم اگلے تاریخی دور کے لئے اپنے اہداف متعین کریں اور جدوجہد کے لئے درکار اوزار تیار کر لیں تو ہمارے لئے کسی بھی پولیس یا فوجی آمریت کے قائم ہونے سے پہلے کامیابی کے بے شمار مواقع موجودد ہوں گے۔
محنت کش طبقے کا نامیاتی اتحاد
امریکی سامراج اس کرۂ ارض پر سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن قوت ہے جس کے ہاتھ پوری دنیا میں کروڑوں انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ کئی اقوام انکل سام کے سائے تلے سانس لینے پر مجبور ہیں لیکن اس قسم کی ننگی بربریت غرباء، سیاہ فام، لاطینی، ریڈ انڈینز اور تارکینِ وطن کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ اب بے مثال عوامی تحریک کا سامنا کرتے ہوئے بربریت کو عمومی طور پر سماج پر مسلط کیا جا رہا ہے، اور حکمران طبقے کی جمہوریت پوری دنیا کے سامنے ننگی ہو رہی ہے۔
لبرلز اور نام نہاد لیفٹ میں یہ رجحان مقبول ہے کہ وہ سیاہ فام، تارکینِ وطن، LGBTQ وغیرہ پر جبر کو علیحدہ ”ڈھانچوں“ کے طور پر دیکھتے ہیں جو کسی ایک فرد پر ”اثر انداز“ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ان کی نظر میں بیرونِ ملک سامراجی جبر ایک ضروری برائی (Necessary Evil) ہے یا پھر منتخب نمائندوں کی غلط پالیسیاں۔
اس طرح کی بکھری سوچ کا لازم حاصل یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت میں جابر ہے یا مجبور۔ اسی طرح ہر جدوجہد کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور دیگر جبر کے شکار افراد یا گروہوں کو ”حامیوں“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ رجعتی طریقہ BLM تحریک میں ان افراد کے حوالے سے واضح تھا جن کا موقف یہ تھا کہ اس تحریک میں سفید فام کا کردار محدود کیا جائے۔۔یہ طریقہ کار ناگزیر طور پر حکمران طبقے کی ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ پالیسی اور حکومت کے ”بیرونی شر پسندوں“ کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔
اس کے برعکس مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ مختلف گروہوں پر جبر اگرچہ ٹھوس شکل میں موجود ہے لیکن یہ نامیاتی طور پر سرمایہ دارانہ سماجی رشتوں میں پیوست ہے۔۔پورے نظام کا لڑکھڑاتا انجن۔ اس وجہ سے مارکس وادی محنت کشوں کے کلیدی کردار پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ محنت کشوں کی محنت ہے جو سرمایہ داروں کا منافع ہے اور ہمارے سماج کی کل طاقت کی اصل بنیاد ہے۔ اشیاء اور خدمات سرمایہ داروں کے بغیر بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔۔ لیکن محنت کشوں کے بغیر نہیں۔
کئی دیگر جبر کی شکلوں کے برعکس طبقہ ہمیشہ سماجی سطح پر ایک شناخت کے طور پر موجود نہیں ہوتا۔ محنت کش طبقے کی ہر پرت کی تاریخ یکساں نہیں ہوتی، نہ ہی ان سب کا ایک ہی طریقے اور حد سے استحصال ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں ایک جیسے جبر کا سامنا ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کئی قوتوں کے دوش پر چلتی ہے جو شعوری کنٹرول میں نہیں ہوتے اور سطح سے نیچے موجود معاشی ڈھانچے ہمیشہ واضح بھی نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے عام حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تقریباً لا محدود انفرادی تجربات کے ساتھ ہر شخص کے اس دنیا میں اپنے کردار کے حوالے سے خیالات موجود ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والی تفریقیں اور تناؤ سماج پر حکمرانی کرنے والوں کے لئے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔
ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کے پاس کھلی چھوٹ ہوتی ہے کہ عمومی ردِ عمل کے خوف سے بالاتر ہو کر وہ عوام کی مخصوص پرتوں پر جبر کے نئے سے نئے اوزار سے تجربات کرتے ہوئے انہیں نکھارتا رہتا ہے۔ اوزار جیسے ربڑ کی گولیاں جن سے اب امریکی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد روشناس ہو رہی ہے، نو آبادیات پر سامراجی تسلط کی باقیات ہیں۔ جس طرح سے امریکی ریاست تمام قانونی قدغنوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افراد کو غائب کر رہی ہے اس کی شروعات ”بیرونی دشمنوں“ اور غیر دستاویزی تارکینِ وطن پر مشق کر کے ہوئی تھی۔ لیکن جب ایک مرتبہ سٹیٹس کو کو قائم رکھنے کے لئے اوزار تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ سماج کی مخصوص پرتوں تک محدود نہیں رہتے۔
اس لئے تمام جبر کے شکار عوام کی امریکہ اور پوری دنیا میں آزادی کی جدوجہد زندگی اور موت کا سوال ہے، چاہے فی الحال ہم پر کوئی اثرات پڑیں یا نہ پڑیں۔۔اور صرف انقلاب سے ہی یہ آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ عمومی بحران کے عہد میں مٹھی بھر افراد کا مراعتوں سے لطف اندوز ہونا اتنا ہی عارضی ہے جتنا ہماری نوکریاں اور گھر۔ ایسے عہد میں ہمارے باہمی طبقاتی مفادات بھی ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور ہمیں آخرکار ان تمام تلخ تجربات کے نتیجے میں یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر ہمیں ایک نیا سماج جیتنا ہے تو اس کی جدوجہد مشترکہ ہی ہو سکتی ہے جو موجودہ نظام کی آخری اینٹ تک اکھاڑ دے۔ حالیہ ہفتوں میں چھوٹے اور بڑے شہروں میں نظر آنے والی یکجہتی مستقبل کی صرف ایک جھلک ہے اور یقینا ہم سب کو ایک انقلابی مستقبل کیلئے پر امید اور تیار ہونا ہوگا۔