تحریر: |جان پیٹرسن|
ترجمہ: |ولید خان|
سوشل میڈیا اور ٹی وی پر خوفناک تصاویر کی نہ رکنے والی بھرمار چل رہی ہے: گاڑیوں کا پھٹ کر تباہ ہونا، نائٹ کلبوں میں قتل و غارت کی درندگی، قاتل پولیس اور پولیس کے قاتل۔ یہ سب کچھ وہی سرمایہ داری ہے جس کی لینن نے وضاحت کی تھی’’نہ ختم ہونے والی خوفناکی‘‘۔۔نہ ختم ہونے والی۔ نہ صرف ’’بہت دور‘‘ بہت دور عراق، افغانستان اور میکسیکو میں بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک کے سب سے خوشحال شہربھی ہمیں تباہی کی لپیٹ میں نظر آ رہے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کے بحران کا مکروہ چہرہ ہے، ایک ایسا بحران جو اپنے ساتھ پوری نسلِ انسانی کوبرباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
To read this article in English, Click here
روسی انقلاب کے تقریباً ایک صدی بعد، جب یہ انقلاب انسانی مستقبل کیلئے مشعلِ راہ بن گیا تھا، آج تہذیب ایک بند گلی میں کھڑی ہے۔ کمیونسٹ منشور میں، مارکس کے شاعرانہ الفاظ کے مفہوم میں انسانیت نے سماجی محنت کی کوکھ سے نا قابلِ یقین تکنیک اور پیداوار حاصل کی ہے۔کمال بہتات کی نئی دنیا ہماری پہنچ میں ہے۔ آج کیا کچھ ممکن ہے اور اس کے باوجود ہم روازانہ غلامانہ محنت کی تذلیل اور بربریت جھیلنے پر مجبور ہیں۔سرمایہ داری ایک حقیقی انسانی سماج کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اپنی بنیاد میں، سماج میں بڑھتی پولرائزیشن طبقات کے درمیان بڑھتی خلیج کی عکاسی ہے لیکن کسی واضح راستے اور منزل کی عدم موجودگی میں بڑھتے تناؤ کا اظہار غم و غصے، خلفشار اور تشدد میں ہو رہا ہے۔ 2016ء کے اوائل سے لے کر اب تک پولیس 500افراد کو قتل کر چکی ہے۔ دو سال پہلے مائک براؤن (Mike Brown) اور ایرک گارنر (Eric Garner) کے قتل کے بعد شروع ہونے والی ’’سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت ہے‘‘(Black Lives Matter) تحریک، بھڑکتے جذبات اوربڑھتے غم و غصے کے باوجود ابھی تک کسی ایک بھی پولیس اہلکار کو سزا نہیں ہوئی۔ باتون روگ (Baton Rogue) میں آلٹن سٹرلنگ (Alton Sterling) اور ٹوئن سیٹیز (Twin Cities) میں فلانڈرو کاسٹیل (Philandro Castile) کے سفاک قتل وہ الم ناک چنگاریاں ثابت ہوئے جن کی وجہ سے Black Lives Matter تحریک کو نئی مہمیز ملی ہے۔دوبارہ سے سارے ملک میں اچانک احتجاج ابھر رہے ہیں اور کئی سو لوگ گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ ڈیلاس (Dallas) میں ایک امریکی فوجی، جو جاری افغان جنگ کا تجربہ یافتہ ہے، پولیس کے سفاک قتل عام سے غصے میں آ کر Black Lives Matterکے ایک احتجاجی مظاہرے کے اختتام پر اس نے پانچ باوردی پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر قتل اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔ لیکن انفرادی دہشت گردی، چاہے وہ سرمایہ دارانہ ریاست کی منظم دہشت گردی کے خلا ف ہی کیوں نہ ہو، صرف رجعتی ردِ عمل کو مضبوط کرنے کا موجب بنتی ہے۔ اس عمل سے استحصال کرنے والے طبقے اور استحصال کی چکی میں کچلے جانے والے طبقوں کے درمیان رشتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی۔ لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ’’ انفرادی دہشت گردی ہماری تسکین نہیں کرتی۔ سرمایہ داری کے ساتھ ہم نے جو حساب کتاب کرنا ہے وہ ایک ریاستی اہلکار کی اوقات سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
لبرل سیاست دانوں اور اور سرمایہ داری کے خوشامدیوں کے پاس جھوٹے آنسوؤں، اتحاد اور عدم تشدد کی کھوکھلی اپیلوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ قوم کے ’’بکھر جانے‘‘ کا ماتم کرتے ہیں، پولیس اور عوام، جس کی ’’خدمت‘‘ پر پولیس معمور ہے، ان کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی اضطرابی کیفیت میں خوفزدہ ہو کر ملک کو ’’بارود کے ڈھیر‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ سر سے پاؤں تک اسلحے سے لیس، ہتھیاروں کی فروخت سے اربوں کھربوں ڈالر کماتے ہوئے، ساری دنیا میں ڈرون حملے کرواکر اور محنت کش طبقے کو غیر مسلح کرنے کی قانون سازی کرنے کے بعد پارسائی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ تمام زندگیوں کی اہمیت ہے‘‘۔۔جس میں جارج اورویل (George Orwell) اضافہ کرتا کہ’’ لیکن کچھ زندگیوں کی اہمیت باقی سب سے زیادہ ہے!‘‘۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد عمومی طبقاتی امن، ’’عمومی‘‘ اس لئے کہ ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ غریبوں کے خلاف یکطرفہ خانہ جنگی رہی ہے، پہلے کبھی نہ دیکھے جانے والے سرمایہ دارانہ ابھار کی وجہ سے تھا۔ خوشحالی نے سرمائے کی آمریت کے جبر کو عوام کے ایک بڑے حصے کیلئے کند کر دیا تھا۔ لیکن یہ ہمیشہ ایسے ہی نہیں چل سکتا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام اندر سے گل سڑ رہا ہے۔ وہ لوگ جو اس نظام سے مستفید ہو سکتے ہیں ان کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے۔ نام نہاد امریکی ’’درمیانہ طبقہ‘‘ جو براہِ راست طبقاتی کشمکش میں حائل تھا اسے بے رحمی سے گھائل کر کے برباد کیا جا چکا ہے۔ سامنے کھڑے ہو کر ایک فیصدی طبقے کی ذاتی ملکیت کا دفاع بھاری اسلحے سے لیس پولیس کر رہی ہے جو کہ طبقاتی امن کی کوششوں میں ایک گھناؤنا مذاق ہے۔ ریاست کی طرف سے غریب علاقوں میں دہشت کا تسلط بہت ضروری ہے کیونکہ محنت کش اور غریب بے پناہ اکثریت میں ہیں۔ جیسے جیسے پولیس کا خوف اور بالادستی بکھرتے جا رہے ہیں ویسے ویسے سرمایہ دار ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی مد میں کئے گئے اقدامات کے نتائج سے خوفزدہ ہوتے جا رہے ہیں۔۔اپنی دولت اور طاقت کے دفاع کیلئے وہ شدید اقلیت میں ہیں۔
پنجرے میں قید بھوکے چوہوں والے سلوک کے نتیجے میں انسان ویسے ہی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ہر ایک کے پاس روزگار ہو، صحت، تعلیم، محفوظ اور سستی رہائش ہوتو انسانوں کے درمیان رشتے تبدیل ہو جائیں: جب کسی چیز کیلئے پولیس کی ضرورت نہیں رہے گی تو پھر پولیس کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔لیکن قلت کے ساتھ ساتھ وسائل کی ناہموار تقسیم بھی لازم ہے۔ ہمیں جس واہیات تضاد کو ختم کرنا ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ قلت مصنوعی ہے۔ تمام لوگوں کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ منافع کا حصول ۔۔پیداوار، تقسیم اور تبادلے کے ایک منطقی نظام جو ماحولیات سے ہم آہنگ ہو، میں رکاوٹ ہے۔
محنت کش طبقے میں یہ طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ سرمایہ داری کو ہمیشہ کیلئے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔۔اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس وہ قیادت موجود ہو جو ہمارے طبقے کی وسیع تر قوتوں کو بروئے کار لا سکے۔ایسی قیادت کی عدم موجودگی میں ناپائیدار تعطل سالوں اور بعض اوقات دہائیوں جاری رہ سکتا ہے۔اس تعطل کا الزام آخری تجزیے میں سرمایہ داری کی حامی لیبر قیادتوں کے سر آتا ہے جو انقلابی آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ضرور ہیں لیکن محنت کشوں کی اس بے پناہ قوت کو آزاد کرنے سے انکاری ہیں۔ ایک نئی قیادت کی تعمیر وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔
اب جبکہ ہم ، جیسے کہ ایک ریپبلیکن سینیٹر نے کہا تھا ’’کچرے کے ڈھیر میں آگ‘‘، انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں، طبقاتی کشمکش اور افراتفری اور بڑھے گی۔ برنی سینڈرز (Bernie Sanders) سے دھوکہ کھانے کے بعد اس کے حمایتی دو پارٹی نظام کے ڈھکوسلے اور اصلاح پسندی کے دھوکے سے باہر مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ لاکھوں کروڑوں ’’آزاد‘‘ ووٹر، جو یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کونسی ’’کم برائی‘‘ کو ووٹ ڈالنا ہے، پچھلے پچھتر سالوں کی بلند ترین شرح 39فیصد پر کھڑے ہیں۔ان حالات میں ایک آزاد سوشلسٹ پارٹی بڑی تیز ی سے پھیلتے ہوئے سیاسی طاقت حاصل کر سکتی ہے۔
بطور مارکسسٹ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس گردی، نسل پرستی، تشدد، غربت، استحصال اور جبر سے آزادی کا ایک ہی طریقہ کار ہے اور وہ یہ کہ سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جائے۔ ہم وضاحت کرتے ہیں کہ طبقاتی آزادی کے ساتھ سیاسی اور معاشی جدوجہد ہی سرمایہ داروں اور ان کے محافظین پر فتح پانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ایسی بہت ساری قوتیں متحرک ہیں جن کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح سے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو توڑا جائے۔ خوش قسمتی سے ان کا مقابلہ ان سے زیادہ بے پناہ طاقتور قوتیں کر رہی ہیں جو ہمیں ہمارے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے اکٹھا ہونے پر مجبور کر رہی ہیں۔لیکن طبقاتی جڑت کا اعلان سیاسی و معاشی میدان کے کنارے پر کھڑے ہو کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ صرف مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ہی بن سکتی ہے۔ یہی آنے والے وقت کا تقاضہ ہے۔
ایک ایسی تنظیم کی تعمیر جو ٹھوس نظریات اور لائحہ عمل سے لیس ہو، آسان اور خود رو عمل نہیں ہے لیکن پرانی امریکی عملیت پسندی کے مطابق ’’ہر مسئلے کا حل موجود ہے‘‘ اور ’’ہر کام کیلئے ایک اوزار موجود ہوتا ہے‘‘۔ مسئلہ سرمایہ داری ہے اور اوزار ایک عوامی انقلابی پارٹی ہے جس کی جڑیں ہر کام کی جگہ، ہر گلی محلے اور ہر تعلیمی ادارے میں موجود ہوں۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ IMT میں شمولیت اختیار کر کے انقلابی پارٹی کی تعمیر میں ہمارا ساتھ دیں۔