|تحریر: ریوولوشنری کمیونسٹس آف امریکہ، ترجمہ: عرفان منصور|
اسرائیل کے امریکی حمایت یافتہ نسل کش حملوں کے خلاف ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج بڑھ رہے ہیں۔ 17 اپریل کو، نیو یارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے ”غزہ یکجہتی کیمپ“ قائم کیا، جس میں یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل اور ان کمپنیوں سے دستبردار ہو جائے جو قتل عام سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اتفاق سے یہ احتجاج کولمبیا یونیورسٹی کی صدر منوش شفیق کی اس کانگریسی سماعت میں شرکت کے وقت ہوا، جس کا مقصد فلسطین یکجہتی تحریک کو یہود مخالف قرار دینا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلے دن، شفیق نے نیو یارک پولیس (NYPD) کو بلالیا۔ فسادات پر قابو پانے والی پولیس کی ایک ٹکڑی نے کیمپوں پر دھاوا بول دیا، جس میں 100 سے زیادہ طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ اپریل اور مئی 1968ء میں نیو یارک پولیس کے ذریعے ویتنام جنگ کے خلاف احتجاج کو کچلنے کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں ایسا جبر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ طلبہ کو یونیورسٹی کی جانب سے سزائیں بھی دی گئیں، جن میں معطلی بھی شامل ہے۔ جبر نے الٹا طلبہ کو اور زیادہ متحرک کردیا ہے اور طلبہ کیمپس کے جنوبی لان پر قابض ہیں۔ 22 اپریل کو، شفیق نے کلاسز کو منسوخ کر دیا اور سینکڑوں کی تعداد میں تعلیمی عملے نے شفیق اور پولیس کے حملے کے خلاف مظاہرہ کیا۔
احتجاج پھیل رہے ہیں کیونکہ ملک بھر کے ہزاروں طلبہ نے اپنے کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ شفیق کے کولمبیا کو آن لائن منتقل کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد، کنیٹیکٹ میں ییل یونیورسٹی (Yale university) میں ایک کیمپ کو اکھاڑ دیا گیا اور 47 طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ طلبہ کا جذبہ نہیں توڑ سکے اور طلبہ قریبی چوراہے پر مظاہرہ کرتے رہے۔
اسی طرح کی کارروائیاں بوسٹن علاقے میں میساشوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT)، ٹفٹس (Tufts) اور ایمرسن میں بھی ہوئی ہیں۔ یکجہتی احتجاجوں کی توقع کرتے ہوئے، ہارورڈ کے نئے عبوری صدر، ایلن گاربر نے جمعہ، 26 اپریل تک کیمپس بند کر دیا ہے اور فلسطین یکجہتی کمیٹی کو معطل کر دیا ہے۔ مزید مظاہرے براؤن، پرنسٹن، نارتھ کیرولینا یونیورسٹی چیپل ہل، میامی یونیورسٹی، اوہایو سٹیٹ، نارتھ ویسٹرن، ٹیمپل، سی یو این وائی، اور نیواڈا-لاس ویگاس یونیورسٹی میں بھی ہوئے ہیں۔ (نوٹ: حالیہ اطلاعات کے مطابق 47 سے زائد یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے جاری ہیں۔)
آئیوی لیگ (Ivy League) کی منافقت بے نقاب
کولمبیا یونیورسٹی جیسے آئیوی لیگ کے معتبر ادارے، لبرل فضیلت اور آزاد جانچ پڑتال کے مثالی نمونے بننے کا دعوی کرتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے جاری حالیہ قتلِ عام کے آغاز سے بنیادی جمہوری حقوق پر مسلسل حملوں نے ان کی منافقانہ عیاری کو بے نقاب کر دیا ہے۔ طلبہ اور مزدوروں کی ان اداروں کو چلانے کی فیصلہ سازی میں کوئی شمولیت نہیں ہوتی ہے۔ سات اعداد میں تنخواہ پانے والے انتظامیہ کے لوگ ہر چیز کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بدلے میں، یہ انتظامیہ ارب پتی عطیہ دہندگان کی وفادار خدمت گار ہوتی ہے جو یونیورسٹیوں کو اپنی ذاتی کھلونا سمجھتے ہے۔
نومبر میں کولمبیا کی انتظامیہ نے یہودی طلبہ کی حفاظت کے نام پر فلسطین کے حق میں طلبہ کی تنظیموں جیوش وائس فار پیس اور سٹوڈنٹس فار جسٹس ان پیلسٹائن پر پابندی لگا دی تھی۔ کولمبیا میں واقعات کے پیش نظر، قاتل جو بائیڈن نے کہا: ”یہ صریح یہود مخالفت قابل مذمت اور خطرناک ہے، اور اس کے لیے ہمارے کالج کیمپسوں یا ہمارے ملک میں کہیں بھی کوئی جگہ نہیں۔“
ستم ظریفی دیکھیے کہ بہت سے یہودی طلبہ کو فلسطین کی یکجہتی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے کے سبب بہت زیادہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک یہودی طالب علم نے سی این این کو بتایا کہ:
”کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ جو فلسطین کے ساتھ یکجہتی میں منظم ہو رہے ہیں، بشمول یہودی طلبہ، نے ہراسانی، ڈوکسنگ، اور اب نیو یارک پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا سامنا کیا ہے۔ یہی کولمبیا کے یہودی طلبہ کی حفاظت کے لیے اصل خطرہ ہیں۔۔۔یہ کہنا کہ طلبہ مظاہرین یہودی طلبہ کے لیے خطرہ ہیں، ایک خطرناک الزام ہے۔“
اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے خلاف احتجاج کا سامی نفرت سے رتی بھر کا بھی تعلق نہیں ہے۔ نوجوان اپنے بچوں کی بے جان لاشوں پر روتے ہوئے والدین کے دردناک مناظر دیکھ کر صبر کھو بیٹھے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے 34 ہزار سے زائد لوگوں کا قتل عام کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ صیہونی ریاست کی طرف سے منظم کیا گیا قحط اور بیماری تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
اور سامراجی طاقتیں اس ناقابل بیان اذیت کا کیسے جواب دے رہی ہیں؟ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے، اور اپنے الفاظ کو اربوں ڈالر کے ساتھ تقویت دے کر۔ طلبہ کی نفرت کالج انتظامیہ کی شرمناک ملی بھگت سے اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ جو سرمایہ دارانہ ریاست اور کارپوریٹ میڈیا کے مقاصد کے تکیمل کے لیے اپنی جبر سے بھرپور کمپیئنز چلا رہی ہیں۔
سات مہینوں پر محیط مارچ اور مظاہرے خونریزی کو ختم کرنے میں ناکام رہے، لہٰذا طلبہ نے سامراجی قتلِ عام کے خلاف لڑائی کو تیز کرنے کے لئے کیمپ لگانے اور قبضوں کا رُخ کیا ہے۔ وہ تنہا نہیں ہیں۔ اسی دن جب نیو یارک پولیس نے کولمبیا یونیورسٹی پر دھاوا بولا، گوگل کمپنی کی اسرائیلی فوج کی مدد کرنے کے خلاف احتجاج کے طور پر 28 گوگل مزدوروں نے نیو یارک اور کیلیفورنیا میں دفاتر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کے سبب انہیں نکال دیا گیا۔
صرف کمیونزم ہی اس ہولناکی کا خاتمہ کر سکتا ہے
اسرائیل کا قاتلانہ حملہ ایک دفعہ پھر لینن کے مقولے کی تصدیق ہے کہ، ”سرمایہ دارانہ سماج ایسی ہولناکی رہا ہے اور ہے کہ جس کا کوئی انجام نہیں ہے۔“ اسرائیل کے لئے حمایت ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن سیاستدانوں، اور تمام سرمایہ دارانہ اداروں میں پائی جاتی ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ کے قیمتی وسائل اور مارکیٹوں پر کنٹرول رکھنے میں امریکی سامراجیوں کے لیے اسرائیل کا اہم کردار ہے۔
فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد، جس نے لاکھوں مزدوروں اور نوجوانوں کو متاثر کیا ہے، امریکی اور عالمی سرمایہ داری کے مرکز پر وار کرتی ہے۔ امریکہ میں، کالج کے کیمپسز احتجاجی تحریک کے لئے ایک مرکزی جدوجہد کا نقطہ بن گئے ہیں، جن میں 1960ء اور 70ء کی دہائی میں ویتنام جنگ کے خلاف طلبہ اور مزدوروں کے عظیم ابھار کی گونج سنی جاسکتی ہے۔
تاریخ نے ایک بار پھر طلبہ کی انقلابی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ صلاحیت تب ہی بارآور ثابت ہوگی ہے جب طلبہ محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنائیں گے۔ حالیہ دنوں میں، مزدوروں اور طلبہ نے ملتے جلتے حربے اختیار کیے ہیں لیکن، اب تک، ان کی کوششیں اتنی تنہا اور غیر منسلک ہیں کہ سنجیدہ ضرب لگا سکیں۔ ایک کمیونسٹ پارٹی کی فوری ضرورت ہے تاکہ طلبہ اور مزدوروں کو بینکاروں اور ارب پتیوں کا تختہ الٹنے کی پرعزم جدوجہد کے لیے منظم کیا جا سکے۔
اگر تنظیم موجود ہو تو پھر کرہ ارض پر محنت کش طبقے سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔ صرف محنت کش ہی پیداوار کو بند کرنے، معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے، اور اسرائیلی جنگی مشین کو ناکارہ بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ہندوستان، اٹلی، یونان، ترکی، سپین اور جنوبی افریقہ کے ڈاک ورکرز نے اسرائیل کے نسل کش حملے کی مدد کرنے والے کارگو کے لیے کام کرنے سے انکار کرکے راہ دکھائی ہے۔
امریکہ میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی تیاری ہی فلسطین کی آزادی کے لئے امریکی طلبہ اور مزدوروں کا سب سے بڑا قدم ہے۔ یہ طلبہ اور مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تحت تعلیمی اداروں کو جبر کی قوتوں سے حقیقی آزادی اور سیکھنے کی قوتوں میں تبدیل کر دے گا۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ محنت کش طبقے کو ایک کمیونسٹ پارٹی میں منظم کیا جائے اور پھر اس دیو ہیکل طاقت کے ذریعے امریکہ سمیت پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کا خاتمہ کیا جائے۔
فلسطین کا نعرہ۔۔۔آزادی!
طلبہ، مزدور اتحاد۔۔۔زندہ باد!
عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھو!
فتح تک انتفادہ!