|تحریر: جان پیٹرسن، ترجمہ: عرفان منصور|
”تاریخ کا خاتمہ اور آخری بشر“ کی اشاعت کو تیس سال گزر چکے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام پر تمسخر اڑاتے ہوئے امریکی ماہر سیاسیات محترم فرانسس فوکویاما نے حیران کن دعویٰ کیا کہ انسان تا ریخ کے خاتمے تک پہنچ چکا ہے کیونکہ انسان کا نظریاتی ارتقاء منہاج پر پہنچ چکا ہے اور مغربی لبرل جمہوریت کو عالمی پیمانے پر رائج کرنا ہی، انسانی طرزِ حکومت کی معراج ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
امریکی سامراج سرد جنگ جیت چکا تھا اور امریکی سامراجیت کے پرچم تلے انسانیت کا شاندار مستقبل انتظار میں بے تاب ہورہا تھا۔ اب تک صرف تین دہائیاں ہی گزری ہیں، جو کہ انسانی تاریخ میں ایک لمحے کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر سرمایہ داری کے قصیدہ خواں ایک بہت مختلف راگ الاپ رہے ہیں۔ ایک ابدی فرماں روائی کا خواب ہوا ہوجانے کے بعد وہ اُلٹی قلابازی لگاتے ہوئے امریکی جمہوریت کے زوال پر اپنا سینہ پیٹ رہے ہیں۔ دہائیوں پر پھیلے ہوئے جھوٹے وعدوں اور ناکام منصوبوں کے بعد، سوشلزم کی دھماکہ خیز مقبولیت، ٹرمپ ازم کے ابھار اور ان کے اقتدار کے اداروں پر اعتماد کے بحران نے ان کو حواس باختہ کردیا ہے۔ سٹیٹس کو کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی محنت سے تشکیل دئیے گئے، دو پارٹیوں کے نظام، آئین اور سپریم کورٹ آج اپنے اُلٹ میں بدل چکے ہیں۔
2008ء اور 2020ء کو ”زندگی میں صرف ایک بار“ وقوع پذیر ہونے والے واقعات سمجھا جا رہا تھا، اور اب ایک اور تباہ کن ترین تنزلی چند دنوں کے فاصلے پر ہے یا شاید شروع ہوچکی ہے۔ کئی سالوں پر محیط ”بے قدر دولت“، صفر کے قریب شرح منافع اور معیشت میں اربوں جھونک دینے کی پالیسی کے بعد، فیڈرل ریزرو کے ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف آگ اور اب وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کے لیے شرحِ منافع بڑھانے پر مجبور ہوچکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے ڈوب رہی ہے اور اس کے تمام اشاریے پہلے ہی ”کوریکشن ٹیریٹری“ میں موجود ہیں۔ ”Let the Wild Rumpus Begin“ نامی رپورٹ میں ہیج منیجر جیریمی گرینتھم نے یہ تنبیہ کی ہے کہ سٹاکس ”سپر ببل“ کی کیفیت میں ہیں جس کا نتیجہ بالکل اچھا نہیں ہوگا۔ لاکھوں عام محنت کش اپنی چھوٹی سی رقوم کو ڈوبتا دیکھیں گے اور بڑے مگرمچھ اپنے آپ کو پہلے ہی نکال کر بچا لیں گے، اور شارٹ-سیل جوا بازی کرکے خوب مال بنائیں گے۔
ریٹائرمنٹ کی موہوم سی سرمایہ کاریوں سے ہاتھ دھونا حرفِ آخر نہیں ہے بلکہ 2020ء کی آفت انگیزی کے بعد افراطِ زر ان کی اجرتوں میں تھوڑے تھوڑے اضافوں کو بھی نگل چکا ہے۔ آخری بارہ مہینوں میں اشیاء کی قیمتیں اوسطاً 7 فی صد کے لحاظ سے بڑھی ہیں جو کہ 1982ء کے بعد تیز ترین اضافہ ہے اور توانائی کی قیمتیں 29.3 فی صد تک پہنچ چکی ہیں۔ قیمتوں کے بڑھنے کے سبب سٹیگ فلیشن کا واضح خطرہ موجود ہے، معیشت سست روی کا شکار ہورہی ہے اور حکومت کی پٹاری میں کوئی شعبدہ بازی موجود نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ 2021ء میں معیشت میں 64 لاکھ نوکریوں کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 1939ء کے بعد ریکارڈ اضافہ ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ ننانوے ہزار کا اضافہ دسمبر میں ہوا جب اومیکرون بڑھ رہا تھا اور آبادی میں اضافے کو خاطر میں لائے بغیر، ابھی بھی وباء سے پہلے کے مقابلے میں 36 لاکھ نوکریوں کی کمی ہے۔ یہ سب کچھ 3.9 فی صد سرکاری بیروزگاری کی شرح کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ مگر ابھی تک، لیبر فورس کا صرف 61.9 فی صد معیشت میں استعمال کیا جارہا ہے جبکہ لاکھوں افراد لیبر مارکیٹ سے دور ہیں۔ بیس سال اور اس سے ذائد عمر کی خواتین کی لیبر فورس میں شرح صرف 57.8 فی صد ہے کیونکہ بچے پالنے کا بوجھ زیادہ تر محنت کش خواتین پر ہی پڑتا ہے۔
تمام ورکرز کی زندگی کی بہتری کے لیے مل کر جدوجہد کرنے والی یونینز کی عدم موجودگی میں بہت سارے محنت کش انفرادی کاوشوں کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کی مسلسل بڑھتی ہوئی دولت میں سے کچھ ٹکڑے حاصل کرنے کے لیے ورکروں نے ماضی کی اجرتوں اور حالات کے مطابق کام کرنے سے انکار کردیا اور صرف نومبر میں 45 لاکھ محنت کشوں نے اپنی نوکریاں چھوڑی ہیں۔
کارپوریٹ منافعے صرف اپنی قدروں کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ معیشت میں اپنی شرح کے لحاظ سے بھی تاریخی طور پر سب سے زیادہ ہیں۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باوجود 2019ء کے آخری سہ ماہی کے مقابلے میں 2021ء کی تیسری سہ ماہی میں بعد ازاں ٹیکس، کارپوریٹ منافعے 39 فیصد تک پہنچ چکے تھے۔ اسی دورانیے میں اجرتوں میں صرف 4.7 فیصد کا اضافہ ہوا، جوکہ شرح افراطِ زر سے کہیں کم تھا۔ قرضوں کا بوجھ جلتی پر تیل ہے۔ مورٹ گیج قرضہ جات اور کرایہ جات کی قمیتوں میں شدید اضافے کے سبب دسمبر تک امریکی کرایہ جات کا قرضہ 14.89 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا جو کہ 2005ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
جہاں تک بائیڈن کا تعلق ہے، تبدیلی کے سب وعدے ریزہ ریزہ ہوئے پڑے ہیں۔ اپنی پارٹی کی اندرونی لڑائیوں سے اپاہج ہوکر یہ ممکن ہے کہ وہ مڈٹرم الیکشنز میں کانگریس پر اپنا کنٹرول ہی کھو بیٹھے۔ امریکی آج بھی عملیت پسند ہیں اور اس فرسودہ دو پارٹی سسٹم کی سیاست میں گیس کی قیمتوں پر بھی الیکشن جیتے اور ہارے جاسکتے ہیں۔ اقتدار میں موجود پارٹی سے عدم اطمینان کے باعث، ووٹ دہندگان کی معمولی حرکتیں بھی دوسری پارٹی کو اقتدار دے سکتی ہیں۔ منتخب کرنے کے لیے صرف اور صرف ”بڑی برائی“ اور ”کمتر برائی“ کے آپشنز کی صورت حال میں لاکھوں لوگ خود کو سیاسی طور پر بے یارو مددگار، بغیر کسی نمائندگی کے اور رنجیدہ محسوس کرتے ہیں اور یہ مظہر سیاسی اور سماجی ساخت میں مزید دراڑیں ڈال رہا ہے۔
سنجیدہ حل کی بجائے، لبرلزم کے افتادہ نظریہ دان لوگوں کو ”ایک دوسرے کی عزت کرنے“، ووٹ دینے (ڈیموکریٹس کو)، پُرامن مظاہروں کے ذریعے غصہ ذائل کرنے، اور مذہبی، قصبہ جاتی و دیگر مختلف رضاکارانہ تنظیموں میں خدمات انجام دے کر ”کمیونٹی کی بہتری“ کی تجاویز دے رہے ہیں۔ اپنے طور پر، ری پبلیکنز، باریک پردوں میں ملبوس نسل پرستی اور دائیں بازو کے پاپولزم کے ملغوبے اور بلیو کالر لیبرٹیرین ازم کو استعمال کرکے انتہائی چالاکی سے اپنا سیاسی چہرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ارب پتیوں کے نمائندوں کی بجائے، ٹرمپ، ڈی سینٹیز، کروز اور نیوم محنت کش طبقے کے حقیقی نمائندے ہیں۔ محنت کشوں کے راہنماؤں کی محنت کشوں کی پارٹی کی تشکیل میں ناکامی کا اس سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا ہے۔
انسانیت کی لیے ایک واضح خطرے کے صورت میں موجود ماحولیاتی آفتیں صورتحال کو اور تشویشناک بنا رہی ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران موسمی آفتوں کے نتیجے میں امریکہ کو 750 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یونین آف کنسرنڈ سائینٹسٹس سے جڑے ہوئے راچل لکر نے سی این این کو بتایا کہ وہ ان خطروں کے بارے میں بہت پہلے سے جانتے تھے اور ان کو اس طرح تباہ کن ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ خطرناک روایت کو بدلنے کی بجائے، بائیڈن کے دور حکومت میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں 19 فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔
کئی لوگوں کا ناامیدی، اخلاقی ابتری اور مستقبل میں محرومی کے خوف کا شکار ہوجانا حیران کن امر نہیں ہے۔ دباؤ اور تناؤ پورے کرہ ارض پر راج کررہے ہیں اور Don’t look up اور Squid Game جیسی فلمیں اور ٹی وی شوز عروج پارہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں ڈیوڈ بروکس نے ”امریکہ ٹکڑوں میں بکھرتا جارہا ہے“ کے عنوان سے مضمون لکھا جس میں وہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ جرائم بڑھ رہے ہیں، خیراتی عطیات کم ہورہے ہیں، اور چرچ کی رکنیت پہلی دفع اکثریت سے کم ہوچکی ہے۔ علاوہ ازیں، ”جہازوں پر لڑائی جھگڑوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے، شہروں میں قتل کی شرح بڑھ رہی ہے، نشے کی مقدار بڑھ رہی ہے، امریکی زیادہ شراب پی رہے ہیں، نرسیں یہ گلہ دے رہی ہیں کہ مریض زیادہ گالیاں بکنے والے بن گئے ہیں اور اسی طرح کا اور بہت کچھ۔ بطور ایک کالم نگار، مجھے ان کے جواب آنے چاہئیں۔ لیکن، اس وقت میں نہیں جانتا ہوں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ حالت بہت تشویشناک ہے“۔
انقلابی مارکس وادی نہ صرف اس بے ثمر مایوسی، فراریت اور فنائیت کو رد کرتے ہیں بلکہ سٹیٹس کو کے نمائندوں کی جھوٹی امیدوں کو بھی رد کرتے ہیں۔ ہم ادراک رکھتے ہیں کہ ان ابتریوں کی اصل جڑ سرمایہ دارانہ نظام کے طریق پیداوار میں موجود ہے اور طریق پیداوار میں تبدیلی اتنی ہی پرشور اور پیچیدہ ہوتی ہے جتنی شگفتگی سے معمور۔ اُفق سے پرے طبقاتی غصے سے معمور ایک لہر اُبھر رہی ہے اور جب یہ سونامی کی شکل اختیار کرے گی تو سب کچھ بدل کر رکھ دے گی۔
طبقاتی سیاست، بڑی ہڑتالیں، قبضے اور بالآخر ایک سوشلسٹ انقلاب اب کسی مستقبل بعید کی باتیں نہیں رہیں۔ پچھلے سال کی ہڑتالیں اور یونینوں کی تشکیل کے ساتھ اس سال طلبہ کے احتجاج اور محنت کشوں اور طلبہ کے لیے محفوظ ماحول کے مطالبے کے لیے شکاگو کے اساتذہ کی تحریک، یہ سب مستقبل کی کچھ جھلکیاں ہیں۔
ہماری زندگی میں سوشلزم کا نعرہ ایک خواب نہیں بلکہ ایک انقلابی تناظر اور عمل کے لیے راہنما اصول بن چکا ہے۔ خاتمہ قریب ہے۔۔۔سرمایہ داری کا خاتمہ۔ یقیناً اگلے ہفتے نہیں، اور درحقیقت اگلی دہائی یا دو دہائیوں میں بھی نہیں۔ مگر معروضی اور موضوعی قوتیں اپنی اپنی جگہ منظم ہورہی ہیں اور تاریخ ختم ہونے سے بہت دور ہے۔ یہ آج کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے کندھوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ سرمایہ داری کو ایک حقیقی انسانی اور منصفانہ نظام یعنی عالمی سوشلزم سے بدلنے کے لیے بنیادیں تعمیر کریں۔