|تحریر: آری سافران اور انتونیو بالمر، ترجمہ: یار یوسفزئی|
پچھلے ہفتے ٹرمپ اپنے حامیوں کو بھڑکاتا رہا اور آخرکار انہوں نے امریکی پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا، جس کے بعد ٹرمپ پر ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر بڑے پلیٹ فارمز کی جانب سے پابندی لگا دی گئی۔ اگرچہ یہ ایک تسکین بخش ستم ظریفی تھی مگر مارکس وادیوں کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ سرمایہ دارانہ ٹیکنالوجی کے اس اقدام کے دور رس اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ میں ہونے والے ہنگامے کے دو دن بعد، جبکہ ٹرمپ کے دور حکومت ختم ہونے میں چند ہی دن باقی تھے، ٹویٹر اور فیس بک کے سی ای اوز نے ایک انوکھا قدم اٹھا کر امریکی ریاست کے صدر کے اکاؤنٹس کو غیر فعال بنا دیا۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے کہا، ”آخر میں یہ کیلیفورنیا کے دو ارب پتی تھے جنہوں نے ٹرمپ کا منہ بند کر دیا اور اس بات کو واضح کر دیا کہ ہمارے ڈیجیٹل سماج میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔“ کچھ دنوں بعد یو ٹیوب نے بھی اس عمل کی تائید کرتے ہوئے ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو غیر معینہ مدت تک معطل کر دیا۔
سنسرشپ کے یہ غیر معمولی اقدامات خاص کر ایک ایسے صدر کے لیے بہت بڑی بات ہے جو پچھلے چار سالوں سے مین سٹریم میڈیا کی تحقیر کرتے ہوئے براہِ راست ٹویٹر کے ذریعے اپنے حامیوں سے مخاطب رہا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ اس ستم ظریفی کا مزہ لیتے ہوئے ”ٹویٹر کے مجاہد“ کا منہ بند ہونے کا جشن منا رہے ہیں، مگر سوشلسٹوں کو چاہیئے کہ اس بات پر غور کریں کہ سلی کون ویلی (کیلیفورنیا کا وہ خطہ جہاں سے کئی ٹیکنالوجی کی عالمی کمپنیوں کا آغاز ہوا، جیسا کہ ایپل، فیس بک اور گوگل) کے ارب پتیوں کے ان اقدامات کے آنے والے عرصے میں کیا نتائج نکلیں گے اور ان کے طبقاتی جدوجہد پر کیا اثرات پڑیں گے؟
سوشل میڈیا اور پولرائزیشن
پچھلے چند سالوں سے لبرلز سوشل میڈیا پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ یہ لوگوں کو ”انتہا پسند“ بناتا ہے اور جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے۔ البتہ جیسا کہ ہم نے اپنی پچھلی تحریروں میں ذکر کیا ہے، سوشل میڈیا دنیا بھر میں شدید ہوتے پولرائزیشن (متضاد نظریات کے رجحانات میں اضافہ) کی اصل وجہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آبادی کی ایک بڑی اکثریت کا میڈیا، سیاسی اشرافیہ اور وفاقی حکومت جیسے اداروں کے اوپر اعتماد نہیں رہا، مگر اس کی وجہ سوشل میڈیا پر پڑھی جانے والی تحریریں اور پوسٹس نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ سرمایہ داری کا نامیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں کے اندر جنم لینے والی بے چینی ہے جو انہیں رائج الوقت نظام کو مسترد کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد سے بہت پہلے ہی پولرائزیشن، انقلاب اور رد انقلاب نے انسانی سماج کو بارہا تبدیل کیا ہے۔
آج کل یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ سماج بند گلی میں پھنس چکا ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے جبکہ مٹھی بھر اشرافیہ ایک بڑی اکثریت کا استحصال کرتے ہوئے اپنی دولت میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ یہ بالکل درست اندازہ اور صحیح تجزیہ ہے! البتہ محنت کش طبقے کی ایک عوامی پارٹی کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے ذاتی مفاد کی خاطر اشرافیہ مخالف رویہ اپنایا ہے اور رجعتی طریقے سے اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ لبرل سیاست دانوں اور میڈیا کے ہاتھوں تحقیر سے اس کی حمایت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان کی جانب سے مسلسل حملوں نے ٹرمپ ازم کو کمزور نہیں کیا بلکہ مزید مضبوط کیا ہے اور ٹرمپ کے حامی ان حملوں کے نتیجے میں اس بات پر مزید قائل ہوئے ہیں کہ ”ان“ کا صدر اکیلے ہی ”روایتی قوتوں“ کے خلاف لڑ رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگنے سے ٹرمپ ازم کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا۔ فیس بک اور ٹویٹر نے ہزاروں کی تعداد میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے اکاؤنٹس ختم کر دیے ہیں۔ ایمازون اور گوگل سمیت دیگر اداروں نے بھی یہی اقدامات اٹھائے ہیں۔ مگر جب تک ان لاکھوں لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن موجود ہوں، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انتہائی جذباتی عقیدت رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے متبادل ذرائع ڈھونڈ نکالیں گے۔ ٹرمپ ازم کو جڑ سے اکھاڑنے میں سنسرشپ کا طریقہ مکمل ناکام رہے گا۔
مثال کے طور پر پارلر ایک ایپ ہے جو انتہا پسند رجعتیوں میں کافی مقبول ہوئی ہے اور نومبر الیکشن کے بعد اس کے صارفین کی تعداد دو گناہ بڑھ کر ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اب اس ایپ کو ایمازون کے ویب ہوسٹنگ سروسز سے ہٹا دیا گیا ہے اور دو اجارہ دار ایپ سٹورز (گوگل اور ایپل) سے بھی۔ پارلر پر دیے جانے والے اشتہارات میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور اسے ہوسٹنگ خریدنے میں بھی شدید دقت کا سامنا ہے۔ اسی طرح کی دیگر ایپس نے بھی فیس بک اور ٹویٹر کی جگہ لی ہے اور یوٹیوب کی جگہ نشریات کے متبادل پلیٹ فارمز نے۔ ٹرمپ کے حامی اب خبروں کے معاملے میں فاکس نیوز کی جگہ نیوز میکس جیسی ویب سائٹس اور دیگر ”ٹرمپ میڈیا“ کے اوپر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
”دہشت گردی“ کا خطرہ اور مزدور تحریک کو لاحق خطرات
ہم سوشلسٹ سرمایہ دارانہ سنسرشپ کے طریقوں کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف انتہائی دائیں بازو کی بڑھوتری کو روکنے کے لیے مکمل طور پر غیر مؤثر ہیں بلکہ ان طریقوں سے بائیں بازو اور بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کو ایک واضح خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ لبرل ارب پتیوں کی جانب سے ایسے خیالات پر پابندی لگانا جن کو وہ ”انتہا پسند“ اور ”شدت پسند“ گردانتے ہیں، کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے عرصے میں بلیک لائیوز میٹر کے کارکنان، مزدوروں اور سوشلسٹوں پر اس سے زیادہ سخت پابندیاں لگیں گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جارج فلوئڈ کے قتل کے خلاف ابھرنے والی تاریخی بغاوت کے کچھ مہینوں بعد جب ٹرمپ نے ”اینٹی فا“ کو ایک علاقائی دہشتگرد تنظیم قرار دینے کا وعدہ کیا، تو فیس بک نے منظم طریقے سے ان پیجز کو نشانہ بنا کر بند کرنا شروع کیا جو احتجاجوں اور پولیس تشدد کے حوالے سے خبریں اور ویڈیوز پوسٹ کر رہے تھے۔ ستمبر کے مہینے میں فیس بک نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اس قسم کے ایک ہزار گروپس اور پانچ سو پیجز ہٹا دیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بعض ہیش ٹیگز پر بھی پابندی عائد کی۔ مختلف اکاؤنٹس جیسا کہ اٹس گوئنگ ڈاؤن، کرائمتھ انک ایکس ورکرز کولیکٹیو، پیسیفک نارتھ ویسٹ یوتھ لبریشن فرنٹ، اینف از اینف اور کئی دیگر سرگرم کارکنان، انارکسٹوں اور اینٹی فاشسٹوں کے اکاؤنٹس کو بغیر کسی وارننگ کے ہٹا دیا گیا۔
اسی طرح ایک ہی وقت میں کیو اینن کی سازشی تھیوری (جس کے مطابق ٹرمپ عیسائیوں کا مسیحا ہے) پر یقین رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے سینکڑوں پیجز اور گروپس کو بھی ہٹا دیا گیا۔ ان متضاد اقدامات کے لیے وہ یہ جواز پیش کر رہے تھے کہ چونکہ فاشسٹوں اور اینٹی فاشسٹوں دونوں میں پر تشدد لوگ موجود ہیں، اس لیے دونوں پر پابندی لگانی ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جب 2017ء میں شارلٹس ویل کے اندر ہونے والی انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں کی ریلی (جس کے خلاف بھی ایک ریلی نکلی تھی اور دونوں کے مابین جھڑپ ہوئی تھی) کے معاملے میں ٹرمپ نے ”دونوں کو قصوروار ٹھہرایا“۔ یہ مؤقف انارکسٹوں اور سوشلسٹوں کو بھی نسل پرستوں اور نیو نازیوں کی صف میں لا کھڑا کر دیتے ہیں اور ان سب کو ”پر تشدد انتہا پسند“ قرار دے دیتے ہیں۔ اس امر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ امریکی ریاست کے اندر ہونے والے سیاسی تشدد کے واقعات میں بیشتر اوقات انتہائی دایاں بازو ملوث ہوتا ہے۔
جو بائیڈن نے 6 جنوری کو پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کو ”ڈومیسٹک دہشتگردی“ (جب دہشتگرد ریاستی باشندہ ہو) قرار دیا، جس کے بعد ڈیموکریٹس اور نام نہاد سوشلسٹ اس حملے کو قانوناً ڈومیسٹک دہشتگردی کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اس میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دی جا سکے اور اس میں ٹرمپ کو بھی اشتعال انگیزی کے لیے سزاوار ٹھہرایا جا سکے۔ یہ سب اس غلط خیال میں مبتلا ہیں کہ ریاستی قوت کے ذریعے ٹرمپ ازم کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔
2020ء میں ابھرنے والی عوامی تحریک کو دیکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کے لیے جو چیز خطرے کا باعث ہو، وہ کس طرح اسے اپنے ذاتی مفاد کے لیے ”دہشتگردی“ قرار دیتے ہیں۔ بلیک لائیوز میٹر کے کارکنان اور مظاہرین کے اوپر پر امن جلسے منظم کرنے اور اس میں شرکت کرنے کی پاداش میں دہشتگردی کی دفعات لگا کر ان کے لیے قید کی بے تکی سزائیں مقرر کی گئیں۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد نافذ کیے جانے والے قوانین (پیٹریئٹ ایکٹ) کے تحت، بائیڈن جس کی حمایت کرتا رہا ہے، بے قصور مسلمانوں اور ان کی تنظیموں پر دہشتگردی کا الزام لگا کر انہیں ریاستی نگرانی میں رکھا گیا اور ڈرایا دھمکایا گیا۔ اس دوران دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو اس قسم کے نتائج کم ہی بھگتنے پڑے ہیں جبکہ وہ کھلے عام نسل پرستانہ واقعات میں ملوث ہوتے ہیں، جیسا کہ چارلسٹن چرچ کا واقعہ، جس میں نو سیاہ فاموں کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ”ڈومیسٹک انتہا پسندوں“ کے خلاف کارروائی کرے گا، مگر پارلیمنٹ پر حالیہ حملے میں دیکھا جا سکتا تھا کہ پولیس افسران مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے اور جو اس وقت ڈیوٹی پر نہیں تھے وہ مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی اہل نہیں ہے۔ دوسری جانب اسی واشنگٹن ڈی سی کے اندر بلیک لائیوز میٹر تحریک کے احتجاجوں کے دوران سیکورٹی اداروں نے ان مظاہرین کو مارا پیٹا، ان کے اوپر آنسو گیس پھینکے اور جیل خانوں میں ڈالا جنہوں نے نہ کسی کو قتل کیا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ پارلیمنٹ پر رجعتی بھیڑ کی جانب سے حملے کا بہانہ بناتے ہوئے اقتدار میں آئے ڈیموکریٹس ”ڈومیسٹک دہشتگردی“ کے حوالے سے نیا قانون منظور کرائیں گے، جو سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی سیکورٹی فورسز کو نگرانی کا مزید اختیار دے گا اور عوام کے بنیادی جمہوری حقوق میں کمی کرے گا۔ اس کی مثال ماضی میں موجود ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد جارج بش کی حکومت نے ہوم لینڈ سیکورٹی ایکٹ لاگو کیا، جس کے تحت بڑے پیمانے پر ان لوگوں کی ذاتی زندگیوں کی بھاری نگرانی کی جانے لگی جو کسی جرم کے مرتکب بھی نہیں تھے۔ ہوم لینڈ سیکورٹی کے شعبے نے بہانہ تو ملک کو دہشتگردی سے محفوظ کرنے کا بنایا، مگر اس کی آڑ میں جنگ مخالف سیاسی کارکنان پر نظر رکھنے لگے، اور حالیہ عرصے میں بلیک لائیوز میٹر کے کارکنان پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
میڈیا کے مالکان
ہوا کی لہریں ویسے تو ”مفت“ ہوتی ہیں مگر سرمایہ داری نے انہیں بھی نجی ملکیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ بڑے نیٹ ورک، کیبل ٹی وی سسٹم اور ریڈیو سٹیشنوں سے لے کر ٹیکنالوجی کی بڑی اجارہ داریوں تک، جیسا کہ گوگل، ٹویٹر اور فیس بک، میڈیا کی ہر شکل پر سرمایہ دار طبقہ سختی سے قابض ہے۔ ٹرمپ پر پابندی لگنے کے بعد سب پر واضح ہو چکا ہے کہ میڈیا کس کی ملکیت ہے اور اس کے اوپر کس کی مرضی چلتی ہے۔
سرمایہ داری کے عروج کے عرصے کی خاصیت یہ تھی کہ سماجی پیداوار میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ محنت کش طبقے کی پیدا کردہ دولت پر نجی ملکیت کا قبضہ بھی بڑھ رہا تھا۔ آج کے دور میں اس تضاد کو سوشل میڈیا ایک نئے مرحلے پر لے کر آیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم دنیا کی آدھی آبادی سوشل میڈیا پر موجود ہے، اس سے پہلے عالمی سطح پر انسان آپس میں کبھی اس طرح نہیں سے جڑے ہوئے نہیں تھے، مگر اس کے باوجود بھی سماجی رابطے کے یہ ذرائع آج بھی چند افراد کی نجی ملکیت ہیں اور ان پر محض ان کے مالکان کی مرضی چلتی ہے۔
ٹیکنالوجی روزمرہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے مگر اس کی بڑی کمپنیاں سرمایہ دارانہ ادارے ہیں، جن کی اولین ترجیح منافعے ہوتے ہیں اور یہ محض اپنے شراکت داروں کو جوابدہ ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا کی کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں، اس لیے اس کے صارفین امریکی ریاست کے آئین کے پہلے آرٹیکل میں درج آزادی اظہارِ رائے کے حق سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ آئین در حقیقت ایک مخصوص طبقے کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو دی گئی ہے اور نتیجتاً آزادی اظہارِ رائے کا حق بھی محض سرمایہ داروں کو حاصل ہے، جو اپنے اس حق میں کسی دوسرے کو مکمل حصّہ دار نہیں بناتے، چاہے وہ امریکی صدر ہی کیوں نہ ہو!
اس کے علاوہ ”جھوٹی خبروں“ کے عرصے میں سلی کون ویلی کے سرمایہ دار ایسے قادر مطلق جج بن گئے ہیں جو اس بارے میں فیصلے کرتے ہیں کہ کیا ”غلط بیانی“ ہے اور کیا نہیں اور اس بارے میں وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ ان اختیارات کی آڑ میں وہ سرمایہ داری کو للکارنے والے خیالات کو نشانہ بناتے ہیں اور امریکی سامراجیت، جس کو لوگوں کے سامنے جائز بنا کر پیش کیا جاتا ہے، کے ناقدین کو بھی۔ حالیہ برسوں میں وینزویلا حکومت کے حامیوں کے ٹویٹر اکاؤنٹ ہزاروں کی تعداد میں بغیر کسی وارننگ کے غیر فعال بنا دیے گئے تھے، جس میں حکومتی عہدیداروں کے بھی بے شمار اکاؤنٹ شامل تھے۔ پچھلے سال جنوری میں ٹویٹر نے وینزویلا میں عالمی مارکسی رجحان (Lucha de Clases) کے کامریڈوں کے اکاؤنٹ بھی غیر فعال بنا دیے تھے، جو تسلسل سے سوشلسٹ پروگرام کے تحت بڑی صنعتوں میں مزدور جمہوریت قائم کرنے کا پیغام عام کر رہے ہیں۔
یہ بات تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ طبقاتی جدوجہد کے میدان میں مستقبل کے اندر یہ پابندیاں کیا کیا شکلیں اختیار کریں گی۔ آج ٹرمپ اور اس کے رجعتی حامیوں کو منظر عام سے ہٹایا جا رہا ہے، ایسا محنت کش طبقے کے مطالبات یا دباؤ کی وجہ سے نہیں کیا جا رہا بلکہ اس لیے کہ ٹرمپ اس نظام اور اس کے اداروں کے استحکام کے لیے ناقابلِ برداشت خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مگر کل کو سلی کون ویلی کے ارب پتی یہی فیصلہ ہڑتال کرتے مزدوروں، مظاہروں کے منتظمین یا دنیا بھر کے محنت کش طبقے کی تحریکوں کے بارے میں خبریں اور معلومات فراہم کرنے والے پیجز کے بارے میں بھی کر سکتے ہیں۔
جیسے ہی طبقاتی جدوجہد میں شدت آئے گی، ”غلط بیانی“ کا لیبل انقلابی سوشلسٹ خیالات کے اوپر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے، بلکہ ایسا ضرور ہوگا۔ ایسا حالیہ عرصے میں بھی دیکھنے میں آیا ہے جب بعض سیاسی کارکنان کا سوشل میڈیا پر دیے جانے والے ان پوسٹوں کو ہٹا دیا گیا جس میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیا گیا تھا۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہ مؤقف جھوٹی خبروں کے زمرے میں آتا ہے!
اظہارِ رائے کی حقیقی آزادی اور جمہوری میڈیا
”آزادی اظہارِ رائے“ کی منافقانہ بورژوا حقیقت کا خاص کر میڈیا کے نظام میں صاف پتہ چلتا ہے جس پر مٹھی بھر ارب پتیوں کی اجارہ داری ہے۔ سرمایہ دار طبقہ بظاہر اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت تو کرتا ہے مگر در حقیقت اس کی آڑ میں حکمران طبقے کی آمریت پر پردہ ڈال کر لوگوں کو تنقید کرنے کی آزادی اور جمہوری حقوق کا سراب دیا جاتا ہے۔
مارکس وادی اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں ہیں مگر ایسی آزادی جو حقیقی ہو، اور ہم سمجھتے ہیں کہ سارے بنیادی جمہوری حقوق کی طرح اس حق کو بھی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم فاشسٹوں کو بھی یہ حق دلانا چاہتے ہیں۔ تو پھر فاشزم کی غلاظت کو ختم کرنا کس کی ذمہ داری بنتی ہے؟ بڑے کاروباروں کی؟ سرمایہ دارانہ ریاست کی؟ فاشزم جیسے مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سرمایہ دارانہ عناصر پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے برعکس تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے، سرمایہ دار ان رجعتی گروہوں کو محنت کش طبقے میں پھوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جب حکمران طبقے کے لیے اپنا نظام مزید برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے تو انقلابی قوتوں کو شکست دینے کے لیے وہ فوجی آمریت کو بطورِ آخری دفاع استعمال کرتے ہیں، وہ محنت کش طبقے کو کسی بھی صورت اقتدار دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ٹراٹسکی نے میکسیکو کے حوالے سے 1938ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس کے اندر رجعتی پریس کے خلاف لڑائی کے سوال پر بحث کی گئی تھی۔ اس میں خبردار کیا گیا تھا کہ یہ مسئلہ سرمایہ دارانہ ریاست کی مداخلت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان قوتوں کو وہ خود مزدور تنظیموں کے خلاف استعمال کرتی ہیں، چنانچہ ہمیں اس قسم کے مطالبات سے باز رہنا چاہیئے:
”یہ بہت ضروری ہے کہ رجعتی پریس کے خلاف ناقابلِ مصالحت لڑائی لڑی جائے۔ مگر مزدوروں کو یہ جنگ بورژوا ریاست کے جبری آلے کے بلبوتے پر نہیں بلکہ اپنی تنظیموں اور اپنے پریس کے ذریعے لڑنی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ آج حکومت مزدور تنظیموں کو برداشت کرے۔ مگر کل کو ہو سکتا ہے، بلکہ ناگزیر طور پر ایسا ہی ہوگا، کہ ریاست بورژوازی کے رجعت ترین عناصر کے قبضے میں آ جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں جبر کے موجود قوانین کو محنت کشوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اس خطرے سے خود کو بچانے میں ناکام ہونے والے صرف مہم جو ہو سکتے ہیں، جن کا دھیان مستقبل کو نظر انداز کر کے محض حال پر مرکوز رہتا ہے۔ بورژوا پریس کے خلاف لڑنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ محنت کشوں کے پریس کو پروان چڑھایا جائے۔“
(لیون ٹراٹسکی، پریس کی آزادی اور محنت کش طبقہ، اگست 1938)
ہم سمجھتے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے خلاف طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ انتہائی دائیں بازو کی غلاظت اور ان کے جلسے جلوسوں کا مقابلہ عوام اور محنت کش طبقے کو متحرک کر کے کیا جائے۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی ”وار آن ٹیرر“ اور بورژوا ریاست پر انحصار کرنے کی بجائے ہم محنت کشوں کے اپنے دفاعی مراکز قائم کرنے پر ترجیح دیتے ہیں تاکہ دائیں بازو کے تشدد اور نسل پرست پولیس کی ریاستی دہشتگردی کو حقیقی معنوں میں شکست دی جا سکے۔ جارج فلوئڈ تحریک کے زیر اثر منیاپولس میں عوام نے محلوں کی سطح پر جو نگرانی اور حفاظتی کمیٹیاں بنائی تھیں، ان کو دیگر شہروں تک پھیلا کر مزدور تحریک کے کارکنان جمہوری طور پر منظم کر سکتے تھے۔ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے محنت کش، جیسا کہ گوگل کے محنت کش جو یونین کے اندر متحد ہونا شروع ہو گئے ہیں، اپنے مالکان کی منتیں کیے بغیر حالات کو اپنے قابو میں لے کر انتہائی دائیں بازو کو خاموش کرا سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایمازون، گوگل، ٹویٹر، فیس بک اور دیگر سارے متعلقہ اداروں کو قومیا کر اکثریت میں موجود محنت کش طبقے کے جمہوری اختیار میں لینے کی ضرورت ہے۔ مزدور حکومت کے تحت یہ ممکن ہوگا کہ سرمایہ دارانہ سنسرشپ کا خاتمہ کرتے ہوئے میڈیا کی وسعت میں اضافہ کیا جائے۔ بلاشبہ میڈیا کی ایک سماجی ضرورت پائی جاتی ہے مگر منافعوں اور اشتہارات کی ہوس کی وجہ سے ہر کوئی میڈیا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا اور یہ ضرورت ٹھیک طرح پوری نہیں ہو پاتی۔ مزدور حکومت کے تحت معاشرہ اس بات کا جمہوری فیصلہ کرنے کے قابل ہوگا کہ میڈیا تک رسائی کس کس کو دی جائے، اور پر تشدد رجعتی پراپیگنڈے کا کیا کیا جائے۔ صرف اسی صورت اظہارِ رائے کی آزادی منافقانہ اور جھوٹی نہیں رہے گی، بلکہ ایک حقیقت بن جائے گی۔
روس میں مزدوروں کا اقتدار قائم ہونے کے بعد مذکورہ باتوں کی وضاحت روسی کمیونسٹ پارٹی کے 1919ء کے پروگرام میں اچھی طرح کی گئی تھی:
”بورژوا جمہوریت میں تمام شہریوں کے لیے سیاسی حقوق اور آزادی کو رسمی طور پر اجتماع کے حق، انجمن کے حق اور پریس کی آزادی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ بورژوا جمہوریت میں انتظامی امور ہمیشہ اقلیت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور محنت کشوں کی معاشی غلامی برقرار رہتی ہے، جس کی وجہ سے محنت کش ان حقوق اور آزادیوں کا حقیقی استعمال نہیں کر پاتے۔
اس کے بر عکس مزدور جمہوریت ان حقوق اور آزادیوں کا جھوٹا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ ان کو سب سے پہلے ان طبقات کو مہیا کرتی ہے جو سرمایہ داری میں جبر کا شکار رہے ہوں، یعنی مزدور اور کسان۔ سوویت حکومت اسی مقصد کی خاطر عمارتیں، پرنٹنگ پریس اور کاغذ کے گودام بورژوازی سے چھین کر انہیں محنت کشوں اور ان کی تنظیموں کے مکمل اختیار میں دیتی ہے۔
سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کا یہ فریضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ محنت کشوں کے لیے جمہوری حقوق اور آزادی سے مستفید ہونے کا اہتمام کرے اور ایسا کرنے کے لیے مادی مواقع پیدا کرے۔“
آج ”پرنٹنگ پریس اور کاغذ کے گودام“ کی جگہ ویب سرور، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اور ایپس نے لے لی ہے، مگر اس پروگرام کے بنیادی خیالات اب بھی سچ ہیں۔
ٹرمپ ازم کا مقابلہ طبقاتی جدوجہد سے ہی کیا جا سکتا ہے، بورژوا قوانین و سنسرشپ سے نہیں!
سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی اس بات کا اظہار ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخی مدت پوری کر چکا ہے، جس کا نتیجہ دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات میں اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ لبرلز اور میڈیا میں موجود سرمایہ داروں کے ترجمان اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ”معتدل غیر جانبداری“، سیاسی ”شرافت“ اور مخالف پارٹیوں میں اتفاق کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ عمل زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سوشلزم کی جانب متوجہ کر رہا ہے، خاص کر محنت کشوں کی نوجوان نسل کو۔
اس کے باوجود طبقاتی بنیادوں پر منظم بائیں بازو کی اپوزیشن کا فقدان ہے، جس سے دائیں بازو کو موقع ملتا ہے کہ سماج میں موجود غصّے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے۔ اس صورتحال کو محنت کش طبقے کی قیادت کے بحران کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹوں کا کام بنتا ہے کہ اس خلا کو دو طریقوں سے پر کریں۔ پہلا یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے علیحدگی کا فوری اور کھلے عام مطالبہ کریں، جس کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ سرمایہ داروں کی نمائندہ پارٹی ہے۔ اس اصلیت کی وجہ سے یہ اس اہل نہیں کہ محنت کش طبقہ اسے ٹرمپ ازم کے خلاف لڑائی میں بطورِ ہتھیار استعمال کرے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی صفوں میں ”سوشلسٹ“ امیدواروں کو کھڑا کرنے کا لائحہ عمل بری طرح ناکام ہو چکا ہے، جو ایک ایک کر کے سارے روایتی قیادت کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ آگے کا لائحہ عمل سرمایہ دار طبقے کی دونوں پارٹیوں سے لڑنے کا ہونا چاہیئے، جو محنت کشوں کو منظم کر کے عوامی سوشلسٹ پارٹی کے ذریعے ممکن ہے، جس کا آغاز بڑے شہروں کے اندر آزاد سوشلسٹ امیدواروں کو کھڑا کرنے کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹوں کو چاہیئے کہ دونوں پارٹیوں کی بیان بازیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے صبر اور دلائل کے ساتھ بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں کو قومیانے کا پروگرام لے کر آگے بڑھیں تاکہ محنت کش طبقے کے معیار زندگی کو تیزی کے ساتھ بہتر کیا جا سکے۔ اگر امریکی ریاست میں موجود 500 بڑی کمپنیاں محنت کش طبقے کے جمہوری اختیار میں لے کر معیشت کی شعوری طور پر منصوبہ بندی کی جائے، تو کم از کم ہفتہ وار اجرت ایک ہزار ڈالر مقرر کی جا سکتی ہے، بے گھری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، رہائش اور صحت کا بہتر انتظام کیا جا سکتا ہے، طلبہ کے قرضوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، نا برابری اور جبر کی جڑیں اکھاڑ کر ماحولیاتی بحران سے نپٹا جا سکتا ہے تاکہ محنت کشوں کی زندگی محفوظ بنائی جائے۔
دوسرا اقدام، جو ٹرمپ ازم کے خلاف لڑائی میں برابر اہمیت کا حامل ہے، یہ ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی بے باک اور انقلابی پروگرام سے لیس ہونی چاہیئے جو طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کے مسائل کا حل پیش کرے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی میں موجود اس کے خوشامدیوں کے ساتھ محنت کشوں کے غیر مقدس اتحاد میں جانے کے مواقع ختم کیے جا سکتے ہیں۔ اس دوران جبکہ ڈیموکریٹس کھلے عام سرمایہ داروں کی نمائندگی کر رہے تھے، ان رجعتیوں نے ذاتی مفاد کی خاطر خود کو اشرافیہ مخالف اور ”محنت کشوں کے ساتھی“ کے طور پر پیش کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ٹرمپ اور اس کے حامیوں پر لگنے والی پابندی پر خوش ہونے کی بجائے، چاہے یہ عناصر جتنے بھی رجعتی ہوں، سوشلسٹوں کو یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ سرمایہ دار طبقہ اور اس کے ادارے انتہائی دائیں بازو کی آفت سے ہمیں چھٹکارا نہیں دلا سکتے۔ صرف منظم محنت کش طبقہ ہی اس خطرے کے خلاف ایک کامیاب جدوجہد سر انجام دے سکتا ہے۔
(یہ آرٹیکل 14 جنوری کو socialistrevolution.org پر شائع کیا گیا تھا۔)