|تحریر: ایڈیٹوریل بورڈ سوشلسٹ ریولوشن|
برنی سینڈر دوڑ سے باہر ہو چکا ہے۔ یہ ان لاکھوں لوگوں کے لیے دھچکا ہے جنہیں امید تھی کہ اس کی کیمپئین امریکہ پر حکمرانی کرنے والے ارب پتیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ایک آگے کا راستہ فراہم کرے گی۔ لیکن یہ ایک اہم موڑ بھی ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک آخری تنکا ثابت ہوگا۔ یہ آخری بار ہوگا کہ انہوں نے سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے دو پارٹی نظام کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہا۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیوں اب لاکھوں لوگ انقلابی راستے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ عظیم کساد بازاری، تاریخی کی لمبی مگر کمزور ترین بحالی، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب اور اب کرونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شدید معاشی گراوٹ نے امریکی محنت طبقے کے حالاتِ زندگی اور شعور پر ہتھوڑے برسائے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں، جہاں عوامی بنیادیں رکھنے والی محنت کش طبقے کی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں ہے، برنی سینڈرز نے ہر عمر اور ہر پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حمایت حاصل کی جو ایک انقلابی تبدیلی کی خواہش رکھتے تھے۔
اس کے ہمہ گیر صحت کے نظام، تعلیم اور اجرتوں میں اضافے کے نعرے لا تعداد محنت کشوں اور نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن گئے۔ خود کو ”ڈیموکریٹک سوشلسٹ“ کہنے والے اس شخص نے ”ارب پتی طبقے کے خلاف سیاسی انقلاب“ کا نعرہ لگایا۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا کہ ایک مختلف قسم کی دنیا اور ایک مختلف قسم کی سیاست ممکن ہے۔
نتیجتاً، وہ لاکھوں لوگ جو اس سے قبل سیاست سے لا تعلق تھے، فعال کارکن بن گئے۔ وہ لاکھوں لوگ جو سوشلزم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، خود کو سوشلسٹ کہنا شروع ہو گئے۔ اور خاص طور پر نوجوانوں میں، ایسے لاکھوں نوجوان موجود ہیں جو خود کومارکسسٹ اور حتیٰ کہ کمیونسٹ کہتے ہیں۔
ہمیں اس بارے میں بھی واضح ہونا چاہیے کہ بد قسمتی سے برنی سینڈر نے بہت سے مبہم اور متضاد خیالات پیش کیے۔ وہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور ارب پتیوں سے لڑنا چاہتا تھا لیکن اس نے حکمران طبقے کی اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک کے اندر رہتے ہوئے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ اس نے یہ درست نشاندہی کی کہ دولت کی غیر مساوی تقسیم غیر اخلاقی ہے لیکن اس نے مکمل حقیقت کو بیان نہیں کیا کہ ان آٹھ سالوں کے دوران بھی سماجی نا برابری نئی انتہاؤں تک پہنچنے کو گئی، جب حالیہ عرصے میں ڈیموکریٹس وائٹ ہاؤس پر قابض تھے۔
اور ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان سالوں کے دوران جوبائیڈن نامی شخص نائب صدر تھا۔ اب برنی سینڈرز نے اپنی انتخابی مہم ختم کر چکا ہے۔ اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ، اپنے ہی خلاف کھڑے نظام کی مسلط کردہ حدود و قیود میں رہ کر تبدیلی کی کوشش کے بعد، جب اسٹیبلیشمنٹ نے اس کے تمام راستے مسدود کر دئیے تو اس کے پاس شکست تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
برنی نے کہا کہ ”متحد اور اکٹھے رہتے ہوئے ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دیں گے۔۔۔“ دوسرے الفاظ میں یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کی حمایت کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی طرف جائے گا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہی پارٹی ہے جس نے پہلے بھی ٹرمپ کی جیت کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ بس بہت ہو گیا۔
نومبر میں ٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے جو بھی جیتتا ہے، چیزیں کسی معیاری بہتری یا استحکام کی طرف نہیں جائیں گی۔ درحقیقت، اگلے چند سالوں کے دوران محنت کشوں کی بھاری اکثریت کے لیے حالات بد سے بدترین ہونے کی طرف جائیں گے بالخصوص خواتین، سیاہ فام اور لاطینی محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے۔ ہزاروں لاکھوں کارکنان جو ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن کے بڑے کاروباریوں کی حمایت نہیں کرنا چاہتے وہ آگے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ نظام کے تضادات محنت کشوں اور نوجوانوں کو میدان عمل میں دھکیلیں گے۔ پہلے ہی ہم کام سے انکار اور ہڑتالوں کی صورت میں محنت کش طبقے کے جوابی اقدام کی متاثر کن شروعات دیکھ رہے ہیں اور ہم آنے والے مہینوں میں اس طرح کی مزید لڑائیاں ہوتی دیکھیں گے۔
نظام محنت کش طبقے کے لیے سیاسی میدان میں طبقاتی آزادی کے خیال کو بھی تقویت دے گا۔ ہمیں ڈیموکریٹک پارٹی کے اتحاد کی نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ امریکی محنت کش طبقے کو اپنی پارٹی، مزدور یونینوں اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں پر مشتمل ایک آزاد عوامی سوشلسٹ پارٹی کی ضرورت ہے جس کا وہ مستحق بھی ہے۔
1915ء میں جب سرمایہ داروں نے ایک مزدور رہنما جو ہِل کو قتل کروایا تو اس نے اپنے حامیوں سے کہا: ”روئیں نہیں، منظم ہوں!“ یہ بہت شاندار نصیحت ہے۔ ہم اس کے اندر یہ اضافہ کریں گے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر منظم ہونا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب محنت کشوں کو ایک سنجیدہ بیلنس شیٹ بنانی چاہیے۔
سرگرمی برائے سرگرمی صرف ناامیدی اور تھکاوٹ کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ ہمیں ایک سنجیدہ حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد یہ ہو کہ سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے مفادات ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہیں۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ محنت کش طبقے کی عوامی پارٹی عوامی قوتوں کے ساتھ ہی بنائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ایسی کسی تحریک کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے مگر ایسے واضح مقاصد رکھنے والی کوئی حقیقی عوامی تحریک ابھی وجود نہیں رکھتی۔ تو کیا کیا جائے؟
ہمیں آج اس بنیاد کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس پر مستقبل کی سوشلسٹ عوامی پارٹی تعمیر ہوسکے۔ ہر فیکٹری، دفتر، گودام، اسٹور، بس اور ٹرین ڈپو اور ہر کیمپس میں موجود سرگرم سوشلسٹ انقلابیوں پر مشتمل ایک نیٹ ورک۔ ہمیں ان کارکنان کو محنت کش طبقے کی، یعنی ہمارے طبقے کی تاریخ و روایات، طریقہ کار اور فتوحات اور شکستوں کے ساتھ مارکسی نظریات اور تھیوری سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ٹی کے امریکی سیکشن نے اس کام کے سلسلے میں شاندار آغاز کیا ہے۔ ہم لگ بھگ چالیس علاقوں میں موجود ہیں اور ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں ہماری برانچز موجود ہیں۔ لیکن ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آج ایک بڑی مارکسی تنظیم کی تعمیر سے ہم مستقبل میں اس سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ آپ کا اس میں اہم کردار بنتا ہے۔ آج جو کوئی ایک پرعزم اور تربیت یافتہ مارکس وادی بنتا ہے، کل وہ درجنوں اور کو جیتنے اور ان کی تربیت کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔
ہم ایک ساتھ مل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گلے سڑے نظام سے نجات پا سکتے ہیں اور نئی دنیا تعمیر کر سکتے ہیں۔۔۔ بہتات پر مبنی دنیا جس میں انسانوں کی ضرورت مقدم ہو گی اور یہ منافع خور نظام کی ماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گا۔