|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|
امریکی اور ایرانی حکومت کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے گرما گرمی چل رہی ہے۔ پچھلی رات (20جون کی رات) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر میزائل حملوں کا حکم دیا لیکن اچانک یہ فیصلہ واپس بھی لے لیا۔ یہ واقعہ (ابھی تک) ان دونوں حکومتوں کے درمیان ہفتوں سے جاری کشیدگی کا نقطۂ عروج تھا۔ میزائل حملے کے احکامات واپس لینے کا فیصلہ آبنائے ہرمز کے قریب ایران کی جانب سے امریکہ کا فوجی ڈرون گرائے جانے کے واقعے کے بعد سامنے آیا تھا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ڈرون بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا، لیکن ایرانی حکام کے مطابق جب ڈرون کو نشانہ بنایا گیا تب وہ ایران کی فضائی حدود کے اندر تھا۔
ڈرون جہاں بھی تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کا فوجی ڈرون ایرانی سرحد کے قریب کر کیا رہا تھا؟ ڈرون ایران کی حدود میں داخل ہوا تھا یا نہیں، یہ بات واضح ہے کہ ڈرون ایران کے خلاف ایک بلا اشتعال فوجی مشن کا حصہ تھا۔
بلکہ امریکہ کی سرحد سے ہزاروں میل دور خلیج اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جنگی بحری جہاز، بحری بیڑے، بمبار طیارے اور ہزاروں کی تعداد میں فوجی کیا کر رہے ہیں؟ ایران کے ارد گرد کا علاقہ امریکی فوجی اڈوں اور بحری دستوں سے بھرا پڑا ہے۔ پچھلے کچھ ماہ کے دوران عسکری قوت میں ہزاروں فوجیوں اور نئے ساز و سامان کا اضافہ ہوا ہے، اور بڑھتا ہوا گشت اور جاسوسی ایران کو کھلم کھلا جنگ کی دھمکی دینے کے مترادف ہے۔ اگر ایران، یا کوئی بھی اور بیرونی طاقت، کینیڈا، میکسیکو یا کیریبین سمندر میں اپنے فوجی اڈے بنانے لگے تو امریکی حکومت کا کیا ردِ عمل ہو گا؟
ہفتوں کی کشیدگی کے بعد تندوتیز بیان بازی میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران چار آئل ٹینکر دھماکوں کا نشانہ بنے، اور امریکی حکام الزام ایران کے سر تھوپ دیا۔
ایک آدھ دھندلی سی ویڈیو کے علاوہ، جن میں کچھ بھی واضح نظر نہیں آتا، ایران کے ملوث ہونے کے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ تباہ ہونے والے جہازوں میں ایک جاپانی ٹینکر بھی تھا جسے اس وقت نشانہ بنایا گیا جب جاپان کا وزیر اعظم شن زو ایبے ایک ایسے دورے پر تہران میں موجود تھا جس کی امریکی اور اس کے مشرق وسطیٰ کے اتحادی شدید مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ ایبے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک اور آئل ٹینکر جسے نشانہ بنایا گیا، اس کے عملے میں سے کچھ روسی افراد بھی شامل تھے۔ روسی ملاحوں کی جان خطرے میں ڈالنا، ان تعلقات کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا جو ایران نے بہت احتیاط سے قائم رکھ کر رکھے ہیں۔ ایرانی حکومت نے اپنے نایاب اور قیمتی عالمی تعلقات کو خطرے میں ڈال کر کیا حاصل کرنا تھا، جبکہ اس کی تمام تر کوششیں دہائیوں پر مبنی تنہائی دور کرنے پر مرکوز ہیں؟
جارح کون ہے؟
ایرانی حکومت عوام میں تو مغرب کو برا بھلا کہہ رہی ہے، مگر ہمیشہ سے اس کا اصل مقصد نام نہاد عالمی برادری کے لیے قابل قبول بننا رہا ہے، تا کہ انہیں عالمی سرمایہ داری کے بڑوں کر ساتھ میز پر بیٹھنے کی جگہ مل سکے۔ اس مقصد کے لیے پچھلے کچھ سالوں میں انہوں نے خود کو قابل اعتبار اور بھروسہ مند ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ انہوں نے کوئی بلا اشتعال کارروائی نہیں کی اور امریکہ، اسرائیل اور یورپ کی جانب سے اشتعال انگیزی پر صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ نے کبھی بھی ایران کے ساتھ 2015ءمیں ہونے والے جوہری معاہدے پر پوری طرح عمل نہیں کیا، مگر ایران اب تک اس معاہدے پر حرف بہ حرف قائم رہا ہے، جس کی تصدیق عالمی جوہری توانائی کے ادارے نے بھی کی ہے۔ چار سال کے تعطل کے بعد اب آ کر محض چند ہفتے پہلے ایرانیوں نے افزودگی معاہدے میں موجود حد سے بڑھانے کی دھمکی دینا شروع کی ہے۔
اسی دوران، امریکہ نے کبھی بھی معاہدے پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے معاہدے کو پھاڑ کر پھینکتے ہوئے ایران پر تاریخ کی بدترین پابندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ پابندیاں، جو کسی طور بھی معاشی جنگ سے کم نہیں ہیں، پہلے سے ہی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ پچھلے سال کی نسبت ریال کی قدر میں 60 فیصد کمی آ چکی ہے۔ درآمدات میں شدید کمی آرہی ہے اور افراط زر میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جس میں افراط زر کو بہت کم کر کے بتایا گیا ہے، گوشت کی قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، انڈوں اور دودھ کی مصنوعات کی قیمتوں میں 40 فیصد، سبزیوں کی قیمت میں 50 فیصد اور رہائش اور ادویات کی قیمتوں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب دہائیوں سے موجود افراط زر اور محنت کش عوام کی قوت خرید میں کمی کے علاوہ ہے، جس کی بڑی وجہ ملک پر دہائیوں تک امریکہ کی جانب سے مسلط پابندیاں ہیں۔
مغربی میڈیا کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایرانی حکومت نے پورے خطے میں آگ لگا رکھی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کو جارح قرار دینے کی کوشش میں مصروف ہیں، مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ حقائق کو جتنا مرضی توڑ مروڑ کر پیش کر لیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ایران نے حالیہ وقتوں میں کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ مگر اس کے خلاف معاشی جنگ کے علاوہ امریکہ نے ایران کے دو ہمسایہ ممالک، افغانستان اور عراق، پر تباہ کن جنگ مسلط کی جس کے نتیجے میں دس لاکھ افراد مارے گئے اور کروڑوں لوگوں کی آنے والی نسلیں تک تباہ ہو گئیں۔ شام میں بھی امریکہ نے اپنے مغربی اتحادیوں، خلیج کے مطلق العنان بادشاہوں، ترکی اور اردن کے ساتھ مل کر شام کے انقلاب کو یرغمال بناتے ہوئے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا آغاز کیا۔ شام میں ہونے والی تباہی دہائیوں تک شامیوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گی۔
اسی دوران امریکہ اور برطانیہ یمن کے خلاف وحشیانہ سعودی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں قحط کا شکار ہیں۔ یمن کی ہی طرح سعودی سوڈان کی بھاڑے کی فوجوں، جن میں زیادہ تر کم عمر فوجی شامل ہیں، کی حمایت کر رہے ہیں جو سوڈان میں انقلابیوں کا قتل اور بلادکار کر رہے ہیں۔
اور یقیناً اسرائیلی حکومت بھی ہے جو نسلوں سے فلسطینیوں پر ظالمانہ جبر کر رہی ہے، ان پر بمباری کر رہی ہے اور ان کی جانیں لے رہی ہے۔ اس نے کئی مرتبہ لبنان پر بھی حملہ کیا ہے اور حال ہی میں شام کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
ایرانی حکمرانوں کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مغرب کے قابل اعتبار ساتھی بن سکتے ہیں، اگر مغرب خطے میں ان کا اثرو رسوخ قبول کرے اور ملک میں ان کے اقتدار کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ ایرانی حکومت مغرب کے ساتھ ایک سمجھوتہ کرنا چاہتی ہے، خاص طور پر سرمایہ کاری کو اپنی جانب کھینچے کے لیے۔ ایسے موقع پر فوجی کشیدگی ایران کی تنہائی بڑھانے اور اس کی گرتی ہوئی معیشت کو مزید تباہ کرنے کا کام کرے گی۔ وہ آئل ٹینکروں پر بلاوجہ حملہ کر کے اس سب کو خطرے میں ڈالنے اور خلیج میں حالات کشیدہ کرنے کی کوشش کیوں کریں گے؟
فائدہ کس کو ہے؟
اس موقع پر اس قسم کی جارحیت ایرانی حکومت کے کسی مفاد میں نہیں ہے۔ لیکن کچھ اور ہیں جن کے مفاد ات وابستہ ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سالوں سے سعودی عرب اور اسرائیل ایران پر حملے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جسے وہ اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔
عراق پر چڑھائی اور عراقی حکومت اور فوج کا خاتمہ کر کے امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا۔ اس سے نہ صرف ایرانی فوج پر قدغن کا خاتمہ ہوا بلکہ عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں بھی ڈرامائی اضافہ ہوا۔ شام میں بھی ایران اور اس کے اتحادیوں کا اثر و رسوخ بڑھا ہے، جبکہ مغربی اور سعودی حمایت یافتہ قوتوں، جیسے کہ القاعدہ سے منسلک ھیئت تحریر الشام اور داعش، کو شکست ہو چکی ہے اور اس کے ذمہ دار صرف امریکی ہیں۔
حتیٰ کہ داعش کے معاملے میں، جو سی آئی اے اور خلیجی بادشاہتوں کا ایک پیادہ تھا، امریکہ کو یوٹرن لینا پڑا، جب یہ گروہ پورے خطے کے استحکام کے لیے ہی ایک خطرہ بن گیا۔ اس مقصد کے لیے اسے ایرانی اور کرد طاقتوں کا سہارا لینا پڑا، جس سے اسے اپنے روایتی حلیفوں، سعودیوں اور ترکوں، کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر سعودی یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ امریکہ زمینی فوج کی مدد سے مداخلت کرے، مگر افغانستان اور عراق کی تباہ کن جنگوں کی وجہ سے، جس میں کھربوں ڈالر کے علاوہ بے شمار سیاسی سرمایہ بھی ضائع ہوا اور اس کا نتیجہ شکست کی صورت میں نکلا، یہ راستہ بند ہو چکا تھا۔ اوباما کانگریس سے شام پر بمباری تک کی منظوری نہیں لے سکا تھا۔ امریکی عوام جنگوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور کسی قسم کی مہم جوئی سے بڑی جنگ مخالف تحریکوں کا آغاز ہو سکتا ہے، جو امریکہ کے سیاسی نظام میں عدم استحکام کا باعث ہو گا۔ ٹرمپ نے خود اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ سے نکلنے کو ایک کلیدی انتخابی وعدے کے طور پر پیش کیا ہے۔
ایران کا ابھار سعودی عرب کے لیے ایک وجودی خطرے کے مترادف ہے۔ نہ صرف خطے میں اس کے سامراجی عزائم کے لیے، بلکہ عسکری اور اندرونی طور پر بھی، سلطنت کے تیل سے مالامال مشرقی حصوں میں ابھرنے والی شیعہ تحریک کے ممکنہ سرپرست کے طور پر۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سعودیوں نے جواباً یمن پر حملہ کر دیا، لیکن وہ حوثیوں کے مقابلے میں اتنی کامیابی سے آگے نہیں بڑھ پا رہے جتنا حوثی سلطنت کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ 12 جون کو حوثیوں نے سعودی عرب کے جنوبی علاقے میں واقع ابہا ایئرپورٹ پر میزائل داغے اور کل (از وقتِ تحریر) جزان صوبے میں اہم اہداف کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ حوثی براہ راست ایرانیوں کے ہاتھ میں تو نہیں ہیں، مگر انہیں سعودی عرب کے خلاف ایران کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی جارحیت کے خلاف جاری ان کا کامیاب دفاع سلطنت میں عدم استحکام کی ایک بہت بڑی وجہ ہے، جو تاریخ کے گہرے ترین بحران سے گزر رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت کے لیے بھی ایران کا ابھار ایک سنگین خطرہ ہے۔ اپنی پوری تاریخ کے دوران اس غارتگر سامراجی ریاست نے اپنی عسکری برتری کو استعمال کرتے ہوئے نئے علاقوں پر قبضے کے ذریعے مسلسل توسیع کی ریت اپنائے رکھی ہے۔ لیکن لبنان اور شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس سلسلے کا مزید چلنا دشوار ہے۔ اس کے علاوہ ایک ممکنہ ایٹمی قوت ایران اسرائیل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہو گی جس نے مشرق وسطیٰ پر ایٹمی قوت کی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔
ان حالات میں ایران اور امریکہ کے درمیان اوباما دور میں چلنے والی بات چیت، جو رسمی شکل میں ایران جوہری معاہدے کے طور پر سامنے آئی، سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان گہرے تناؤ کا باعث بنی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے انتخابات میں کھلے عام ریپبلکنز کی حمایت کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران اوباما حکومت نے اسرائیل میں حزب اختلاف کی حمایت کی۔
ٹرمپ کا نظریہ
ٹرمپ کی نظر میں دوسری بہت سی چیزوں کی طرح خارجہ پالیسی کا محور بھی اس کی اپنی ذات ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں کسی نئی عسکری مہم جوئی کے خلاف ہے، مگر اس سے ہٹ کر وہ خطے کی زیادہ پروا نہیں کرتا۔ اس کی دلچسپی خارجہ پالیسی کے امریکہ اور اس کی ذات پر مرتب ہونے والے اثرات میں ہے۔ اس نے سعودی ولی عہد اور نیتن یاہو کے ساتھ قریبی اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ یہ دونوں اس کی سیاسی اور مالی امداد کرتے ہیں۔ دراصل ان تینوں نے اپنے اپنے ملکوں کے حکمران طبقات میں اچھوت کا درجہ حاصل کر لیا ہے، اور یہ ایک دوسری کی حمایت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے نتین یاہو کی حمایت میں اسرائیلی انتخابات میں بڑی مداخلت کی اور یہاں تک کہ اس نے جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا، جبکہ وہ پہلے ہی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اشتعال انگیز قدم اٹھا چکا تھا۔ سعودی عرب میں بھی ٹرمپ اور اس کے داماد جیرڈ کشنر نے ولی عہد محمد بن سلمان کی حالیہ اقدار پر قابو پانے کی مہم میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس کے بدلے میں محمد بن سلمان نے ٹرمپ اور اس کے کاروباری منصوبوں پر پیسوں کی بارش کر دی۔
مزید یہ کہ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں موجود جنگی جنونیوں کی جانب جھکنے پر مجبور ہے، جن کی اسے اگلے انتخابات میں اور اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے حمایت درکار ہے۔ ان لوگوں میں اس کا قومی سلامتی کا مشیر جان بولٹن بھی شامل ہے، جو ایک ثابت شدہ جنگی جنونی ہے، جو کئی سالوں سے ایران پر فضائی حملوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ بولٹن امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے والوں میں سرفہرست تھا اور اس نے 2015ءمیں ایک آرٹیکل بھی لکھا جس کا عنوان ”ایرانی بم کو روکنے کے لیے ایران پر بمباری کرو“ تھا، جس میں اس نے امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی ایٹمی قوت روکنے کے لیے اس پر بمباری کا مشورہ دیا۔ اس نے حال ہی میں پینٹاگون کو حکم دیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں کو مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا جائے۔ فوجی مہم جوئی کے حق میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں کو اپنی مرضی سے منتخب کر کے پیش کرنا اس کا پرانا طریقہ کار ہے، جو اس نے عراق کے معاملے میں بھی استعمال کیا، اور اب وہ اس طریقہ کار کو ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔
اسی دوران اعلیٰ عہدوں پر فائز ٹرمپ کے دیگر اہلکار، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پینٹاگون سے ہے، ایران کے ساتھ جنگ کے نتائج سے متعلق تنبیہ کر رہے ہیں۔ ایرانی فوج عراقی فوج کی طرح نہیں ہے۔ یہ لاکھوں افراد پر مشتمل ایک طاقتور قوت ہے، جن میں سے بہت سے حال ہی میں شام اور عراق میں لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس مزید لاکھوں لوگوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ ان وجوہات اور ملک کے قدرتی دفاع کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایران پر چڑھائی خارج از امکان ہے۔ اگر امریکہ نے ایران میں اپنی زمینی فوج اتارنے کی کوشش کی تو اس کے مقابلے میں عراق اور افغانستان کی جنگیں بہت بڑی فتوحات معلوم ہوں گی۔ تو پھر فضائی حملہ ہی بچتا ہے، جس سے مسائل کا کوئی طویل مدتی حل نہیں نکلتا اور جو آسانی سے امریکہ کو ایک زمینی جنگ کی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران با آسانی آبنائے ہرمز بھی بند کر سکتا ہے، جہاں سے ہو کر پوری دنیا کا 20 فیصد تیل گزرتا ہے، جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور کمزور عالمی معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خطے میں موجود امریکی افواج، خاص طور پر عراق میں موجود امریکی افواج کو لاکھوں مقامی جنگجوؤں سے خطرہ ہو گا، جو ایران کے وفادار ہیں اور عراق سے لے کر شام اور لبنان تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ اس کھائی میں نہیں گرنا چاہتا۔ یہاں تک کہ جب ایرانیوں نے امریکی ڈرون گرایا تو وہ اس واقعے کو یہ کہہ کر معمولی ثابت کر رہا تھا، ”مجھے لگتا ہے کہ ایران نے غلطی کی ہے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کوئی جرنیل تھا یا کوئی اور تھا جس نے اس ڈرون کو گرانے کی غلطی کی ہے (۔۔۔) یہ کوئی ڈھیلے دماغ کا مالک یا کوئی احمق شخص ہو سکتا ہے۔“ صبح کے منسوخ شدہ حملے کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ اسے ایران کا سامنا کرنے کی ”کوئی جلدی نہیں ہے“ اور یہ ”ایک بغیر پائلٹ کا ڈرون گرائے جانے کے مساوی نہ ہوتا۔“
یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ ایران میں ایک مہنگی اور ممکنہ طور پر تباہ کن مہم جوئی میں دلچسپی نہیں رکھتا، جس پر اس کے اتحادی اسے مجبور کر رہے ہیں۔ بولٹن اور اس کے ساتھیوں کی تھوڑی بہت خوشنودی کے لیے وہ ایران جوہری معاہدہ ختم کرنے اور پابندیاں لگانے پر راضی ہو گیا تھا۔ ٹرمپ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اگر اس کے اتحادی پابندیوں سے خوش ہوتے ہیں، اس کی سیاست کی حمایت کرتے ہیں، اس کی مہم میں پیسہ لگاتے ہیں اور اس کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ اب وہی لوگ اسے مزید آگے دھکیل رہے ہیں۔ وہ اس کی ایک کبھی ہار نہ ماننے والا طاقتور اور بدمعاش آدمی نظر آنے کی خواہش کو دیکھتے ہوئے اس پر لعن طعن کے ذریعے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرے جس سے حالات خراب ہوں اور بالآخر بات فوجی لڑائی تک جا پہنچے۔
ٹرمپ کا سیاسی طریقہ کار بہت سادہ ہے، بڑا تماشا لگاؤ، غضب ناک اور بے قابو نظر آؤ اور پھر بیٹھ کر معاہدہ کر لو۔ شام میں اس نے دو موقعوں پر خالی فضائی حدود میں بمباری کی جس کے بعد اس نے روس کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔ شمالی کوریا کے معاملے میں بھی اس نے ملک پر ”غیظ و غضب“ ڈھانے کی باتیں کیں اور پھر گفت و شنید کا آغاز کر دیا۔ لیکن ایران کے معاملے میں اس نے شروع سے ہی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی سامراج بھلے ہی اس سیارے کی سب سے طاقتور قوت ہے، مگر پھر بھی قادر مطلق تو نہیں ہے، اس لیے وہ ایران میں فوجی مداخلت نہیں کر سکتا۔ اوباما حکومت کو بھی اسی مسئلے کا سامنا تھا، جسے ٹرمپ کمزور کہا کرتا تھا۔
اوباما کے برعکس ٹرمپ کو لگتا ہے کہ وہ ایران پر ہمیشہ کے لیے پابندیاں جاری رکھ سکتا ہے اور اس طرح ملک کا خون نچوڑ کر اسے ادھ موا کر سکتا ہے۔ مگر اسرائیل، سعودی عرب اور واشنگٹن میں موجود جنونیوں کی مسلسل دھمکیوں کے نتیجے میں ایران کو یہ بھی لگ سکتا ہے کہ ایٹم بم بہر حال ایک برا خیال نہیں ہے۔ شمالی کوریا جیسے چھوٹے ملک کو امریکی سامراج کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرتے دیکھ کر ملاں اسے مغرب کے ساتھ سمجھوتے کی موجودہ کوششوں کی نسبت ایک محفوظ راستہ تصور کر سکتے ہیں۔ اگر ایران اس راستے پر چلنے کا تہیہ کر لے تو اس کے حریفوں کے پاس اسے روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ اس سے خطے میں ہتھیاروں کی ایک تباہ کن دوڑ کا آغاز ہو جائے گا اور اس کے بعد سعودی عرب اور ترکی جوہری قوت حاصل کرنے کو تیار ہوں گے، جس سے عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔
ایرانی حکومت کو کمزور کرنے کی بجائے ٹرمپ نے اسے ایک نئی سیاسی زندگی عطا کردی ہے۔ پچھلا سال اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز سال تھا، جس میں سال کے آغاز سے ہی بڑے بڑے احتجاج دیکھنے میں آ رہے تھے، اور اس کے بعد پورے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں کی تعداد میں محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی ہڑتالیں اور احتجاج دیکھنے میں آئے۔ مگر جوں ہی پابندیاں لگیں اور جنگ کے طبل بجنے لگے، تو عوام امریکی سامراج کے خلاف حکومت کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا دشمن ہے جس سے وہ ملاؤں سے بھی زیادہ نفرت کرتے ہیں۔
امریکی سرمایہ داری کے عمومی ضعیفانہ زوال کی بدولت خارجہ پالیسی کوتاہ نظری کا شکار ہو چکی ہے۔ اس معاملے میں ٹرمپ بھی امریکہ کے دوسرے چوٹی کے سیاستدانوں سے مختلف نہیں ہے۔ انہیں صرف عراق اور افغانستان کی جنگوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ امریکی سامراج دہائیوں کی منصوبہ بندی کیا کرتا تھا، مگر اب وہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کے جال میں پھنس چکا ہے، اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مگر آج ڈیموکریٹ، ریپبلکن اور ان پارٹیوں کے اندر موجود دھڑے کھلے عام ایک دوسرے کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس سے نئے بحرانات جنم لے رہے ہیں۔ امریکی سیاست میں سعودیوں اور اسرائیلیوں کی مداخلت جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔
یہ تمام تر اشتعال انگیزی عالمی سطح پر مزید عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ جیسے جیسے یہ نظام بحران کے اندر دھنستا چلا جارہا ہے، سرمایہ دار اور ان کے سیاسی نمائندے یہ دکھا رہے ہیں کہ وہ اپنے تنگ نظر اور ذاتی مفادات کی خاطر پورے سماج کو بربریت میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی لڑی جائے۔
ایران کے خلاف جنگ نامنظور!
امریکی سامراج مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!