|تحریر: آدم پال|
امریکہ کا پہلا دورہ اس ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کیا تھا۔ برطانوی سامراج سے نام نہاد آزادی کے بعد امریکی سامراج کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے میں زیادہ دیر نہیں کی گئی۔اس وقت سے لے کر آج تک یہ ملک اور اس کے تمام حکمران امریکی سامراج کی گماشتگی ہی کرتے آئے ہیں اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ غلامی کی یہ زنجیریں آج بھی اس ملک میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر سامراجی آقاؤں کی تجوریوں میں بھر دیتی ہیں اور اس گھناؤنے عمل میں اس ملک کے حکمران اپنا کمیشن وصول کر کے پر تعیش زندگیاں گزارنے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ اس سامراجی غلامی نے آج تک عوام کو غربت اور ذلت میں ہی دھکیلا ہے جبکہ حکمرانوں کی دولت اور جائیدادوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کا مالیاتی نظام امریکی سامراج کے اشاروں پر ہی ترتیب دیا گیا ہے اور اسی سامراجی طاقت کے مفادات کے تحت اس کی تمام تر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں پر دیے جانے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامراجی قرضوں کا مقصد کبھی بھی یہاں پر ترقی اور خوشحالی لے کر آنا نہیں رہا بلکہ شروع سے ہی ان کا مقصد اس ملک اور یہاں کے عوام کو اپنا غلام بنانا تھا اور ان محنت کش عوام کی پیدا کی گئی دولت کی بے دریغ لوٹ مار تھی۔
اس ملک کا حکمران طبقہ کبھی بھی آزادانہ کردار ادا نہیں کر سکا اور نہ ہی سامراجی طاقتوں کے سامنے کبھی اپنی گردن اٹھا سکا ہے۔ جھکی ہوئی گردن اور سامراجی قرضوں کا طوق پہنے یہ حکمران ہمیشہ بھکاری کی حیثیت سے ہی سامراجی طاقتوں کے در پر حاضری دیتے رہے ہیں اور سامراجی احکامات کے تحت اپنے ہی عوام کی گردن پر چھری چلا کر ان کی قربانی وصول کرتے رہے ہیں۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ عمل پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے اور محنت کش عوام کو ایک بار پھر عالمی منڈی میں پہلے سے بھی کم نرخ پرفروخت کیا جارہا ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ نہ تو یہاں پر کسی بھی صنعت کو ترقی دے سکا اور نہ ہی زرعی پیداوار میں مکمل طور پر خود کفیل ہو سکا۔ سروسز سیکٹر میں بھی کوئی جدت، کوئی ترقی اس حکمران طبقے کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئی۔ یہاں کے صنعتکار، بینکار، سرمایہ دار اور جاگیر دار سب سامراجی غلامی کو ہی زندگی کا اولین مقصد سمجھتے رہے اور انہی سامراجی طاقتوں کے ٹکروں پر پلتے رہے۔ جب ان سامراجی طاقتوں نے کسی باعث ان پر پابندیاں عائدکیں اور ان کے ٹکڑوں میں کمی کی تو یہ اپنے آزادانہ کردار کی جانب مائل ہونے کی بجائے ان ٹکڑوں کے لیے گڑگڑانے لگے اور ان طاقتوں کے در پر ماتھا رگڑنے لگے کہ کسی طرح یہ بھیک کا سلسلہ دوبارہ جاری ہو جائے۔ یہی اس ملک کے حکمرانوں کی تاریخ ہے جو ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے جس میں یہاں کے محنت کش عوام کا معاشی قتل عام گزشتہ سات دہائیوں سے جاری و ساری ہے جبکہ حکمرانوں کی آسودہ اور پر آسائش زندگیاں بھرپور انداز میں گزر رہی ہیں۔ اس دھرتی کا بوجھ اورسامراج کے تلوے چاٹنے والے ان بھکاریوں کی محفلوں میں شرم کے تمام لبادے اتار کر بلندقہقہے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہر سال سینکڑوں ارب ڈالر کی دولت پیدا کرنے والے خود دارمحنت کش عوام کی زندگیاں آہوں اور سسکیوں سے بھری ہوئی ہیں۔
اس ملک کے حکمرانوں نے صرف یہاں کے عوام کی پیدا کردہ دولت ہی سامراجی خداؤں کو بھینٹ نہیں کی بلکہ ان کی زندگیوں کی بھی سامراجی جنگوں اور تنازعات میں کئی دفعہ بلی چڑھائی گئی ہے۔ سوویت یونین کیخلاف افغانستان میں ”ڈالر جہاد“ ہو یا پھر انہی قوتوں کیخلاف نام نہاد”دہشت گردی کی جنگ“ ہو یہاں کے غریب عوام کا خون انتہائی سستے داموں فروخت کیا گیا اور بار بار کیا گیا۔ اسی طرح جہاں عالمی سطح پر امریکہ کی گماشتگی کو یہاں کے حکمرانوں نے فرض اولین کے طور پر نبھایا وہاں مقامی سامراجی طاقتوں کی غلامی کا طوق بھی ہنسی خوشی پہنا جاتا رہا۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد پہلے پہل ایران کے حکمران شاہِ ایران کو سامراجی خدا کے نائب کا درجہ دیا گیا اور اس کی کاسہ لیسی کی گئی اور جب حالات نے کروٹ بدلی اور امریکہ نے خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو سامراجی مفادات کے تحت اپنا نائب مقرر کیا تو فوراً ہی ان کی بیعت بھی کر لی گئی۔ آج سعودی عرب اور اسرائیل جیسی سامراجی اور انسان دشمن صیہونی ریاست کی دوستی استوار ہو رہی ہے اس لیے ممکن ہے کہ عنقریب اس ملک کے عوام کو اس حوالے سے بھی سرکاری مؤقف میں ”تبدیلی“ نظر آئے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کے تمام تر تعلقات امریکی آشیر باد کے باعث ہی استوار ہوئے تھے۔ چین میں ماؤ کی قیادت میں آنے والے سوشلسٹ انقلاب کے فوری بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے اور سرحدی تنازعات بھی ابھر رہے تھے۔ آغاز میں پاکستان نے ماؤ کی قیادت میں بننے والی سوشلسٹ ریاست کو تسلیم کرنے کی بجائے چیانگ کائی شیک کی رجعتی اور ردِ انقلابی ریاست کو ہی حقیقی چین تسلیم کیا تھا جس کی سرپرستی امریکی سامراج کر رہا تھا۔ لیکن جب سوویت یونین اور سوشلسٹ چین کے اختلافات ابھرنا شروع ہوئے تو امریکی سامراج کے ایما پراس دراڑ کو خلیج میں بدلنے کے لیے پاکستان نے چین کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ امریکہ اور چین کے تعلقات کو قریب لانے میں بھی امریکی سامراج کے ایماپر پاکستان کی ریاست نے ڈاکیے کا کردار ادا کیاجس کا نتیجہ امریکی صدر نکسن اور ماؤ کی تاریخی ملاقات پر نکلا۔ لیکن چین میں منصوبہ بند معیشت کے خاتمے اور سرمایہ داری کی استواری کو امریکہ سمیت تمام سرمایہ دارانہ ممالک نے خوش آمدید کہا جس سے انحراف پاکستان کے حکمرانوں کے بس میں نہیں تھا۔ اس سرمایہ دارانہ چین کو عالمی منڈی کا حصہ بنانے کے لیے خودامریکہ نے بہت بڑی مراعات دیں اور وہاں موجود سستی مگر ہنر مند لیبر سے بھرپور استفادہ حاصل کیا۔ اس تمام عمل میں چین ایک سامراجی طاقت کے طور پر ابھرا اور اسی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہوتے ہوئے اس کے دوسری سامراجی طاقتوں سے تنازعات ابھرنے لگے جس میں امریکہ سر فہرست ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کا خیال تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حصے کے طور پر وہ دونوں سامراجی طاقتوں کی ایک ہی وقت میں غلامی کر سکتا ہے اور دونوں سے بھیک مانگ کر اپنی دولت میں زیادہ اضافہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس عمل نے تضادات کم کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیے اور عالمی سطح پر موجود معاشی بحران نے بھی اثرات مرتب کرتے ہوئے اس ریاست اور یہاں کے حکمران طبقات کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دیں۔
موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے وقت ماضی کے دیگر حکمرانوں کی طرح بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ بھیک نہیں مانگیں گے اور سامراج کی کاسہ لیسی نہیں کریں گے۔ یہ اعلان اس سے پہلے ایوب خان سمیت بہت سے حکمران کر چکے ہیں۔ ایوب خان نے کہا تھا کہ ہم امریکہ کی غلامی نہیں دوستی چاہتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نظامِ زر میں دوستی سمیت تمام تعلقات اور رشتے آخری تجزیے میں روپے پیسے کے رشتے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی ہے اور امریکی سامراج کے ساتھ اس غلام ریاست کے بنیادی رشتے کو دوبارہ منظر عام پر لے آئی ہے۔ ایک دفعہ پھر واضح ہو چکا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے یہاں صنعت اور زراعت کو ترقی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی یہاں کے حکمران طبقے میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ معمولی قسم کا بھی ترقی پسندانہ کردار ادا کر سکے۔ بلکہ یہ بھی ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ یہاں کا حکمران طبقہ سامراجی طاقتوں کے مفادات سے الگ کسی آزادانہ مفاد کی تکمیل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اس کو حاصل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
آج ایک بار پھراس ملک کے حکمران خطے میں امریکہ کو اس کے سامراجی مفادات کے حصول کی یقین دہانی کروا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی حکمران کم سے کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ کام کروانا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اب وہ دنیا بھر میں تھانیدار کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا اور اگر کسی ملک کو امریکی افواج کی ضرورت ہے تو اسے اس کے لیے مناسب رقم ادا کرنی ہوگی۔ اس تمام عمل میں پاکستان سمیت بہت سی ایسی کاسہ لیس ریاستوں کے لیے مشکلات پیش آ رہی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح وہ امریکہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اس کا تھانیدار کا کردار انتہائی ضروری ہے۔
درحقیقت پوری دنیا ایک بہت بڑی بنیادی تبدیلی سے گزر رہی ہے جس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا گیا ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے جبکہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں۔ امریکی سامراج کی بنیادیں ہل چکی ہیں اور وہ ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہورہا ہے۔ ایسے میں اس سامراجی طاقت کے لیے ماضی کی طرز پر اخراجات کرنا اور جنگیں کرنا ممکن نہیں رہا۔ ٹرمپ نے افغانستان سے بھی فوجوں کے جلد از جلد انخلا کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد امریکی سامراج کا کردار خطے سمیت عالمی سطح پر مزید محدود ہو جائے گا۔ ایران کے ساتھ تنازعے میں بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ امریکہ ایران سے جنگ کرنے کی خواہش نہیں رکھتا لیکن خلیجی ممالک کے عرب حکمران اسے اس جنگ پر اکسا رہے ہیں جس میں ان کا اپنامفاد پوشیدہ ہے۔ خلیج فارس میں امریکی سامراج کی پسپائی یا کمزور ی خلیجی عرب ریاستوں کے لیے موت کا اعلان بن سکتی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر یہ جنگ تمام فریقین کی خواہشات کے بر عکس بھڑک بھی سکتی ہے۔
اس تمام ترصورتحال میں پاکستان کے محنت کش عوام ایک دفعہ پھر آگ اور خون کی کھائی میں دھکیلے جا سکتے ہیں۔ مغربی سرحد پر واقع افغانستان میں امریکی سامراج کی طویل ترین جنگ بھی کوئی امن نہیں لا سکی اور نہ ہی اس کا انخلا یہاں کوئی امن لاسکے گا۔ دوسری جانب مشرقی سرحد پربھارت کا حکمران طبقہ بھی معاشی بحران کے باعث بیرونی جنگوں کی جانب مائل نظر آتا ہے۔ امریکی سامراج سے قریبی تعلقات استوار ہونے کے باوجود بھارت کو امریکہ کی جانب سے کچھ تجارتی پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ چین کے ساتھ سامراجی مفادات کا ٹکراؤ اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسے میں مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات میں سے کوئی بھی تنازعہ پہلے سے زیادہ شدت سے بھڑک سکتا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی جبر اور استبداد کی ایک طویل تاریخ رقم کی جا چکی ہے لیکن اب اس میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے اور مزید فوجی وہاں بھجوائے جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد وہاں موجود آزادی کی تحریک کو بوٹوں تلے کچلنے کے ساتھ ساتھ اس اقدام کے لیے بھی حالات تیار کرنا ہیں جس میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر کے مخصوص اسٹیٹس کو ختم کر دیا جائے گااور وہاں آبادی کے تناسب کو کشمیریوں کے خلاف بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔ ٹرمپ کے اس حوالے سے ثالثی کرانے کے بیانات بھی مکاری، دھوکے اوربے ایمانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پہلے ہی یہ عوام دشمن شخص فلسطین کے تنازعے کو حل کرنے کا اعلان کرکے اسرائیل کے جبر میں کئی گنا اضافہ کروا چکا ہے اور فلسطین کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسی طرح افغانستان کے مسئلے کا ایک حل وہاں پر بمباری کر کے تمام آباد ی کو قتل کرنا قرار دے چکا ہے۔ ایسے شخص سے پاکستانی ریاست کی جانب سے اگر ثالثی کی امید لگائی جائے تو یہ کشمیر کے عوام کی توہین کے سوا کچھ بھی نہیں۔
امریکی سامراج کیخلاف حقیقی لڑائی صرف اس خطے کے عوام ہی لڑ سکتے ہیں۔ اس لڑائی میں انہیں کسی دوسری سامراجی طاقت یا حکمران طبقے پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے قوت بازو پر انحصار کرنا ہوگا اور دنیا بھر میں موجود محنت کش طبقے کی یکجہتی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ امریکی سامراج کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی جائے۔ امریکی سامراج سے لڑائی صرف اس کی عسکری قوت یا سیاست سے لڑائی نہیں بلکہ اس کے مالیاتی نظام سے لڑائی ہے جو آج یہاں موجود بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دیگر سرمایہ دارانہ اداروں کی شکل میں سماج کی رگ و پے میں سرایت کر چکے ہیں۔ اس ملک کے محنت کش طبقے کو ان تمام اداروں سمیت ذرائع پیداوار پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہوگا اور جمہوری انداز میں ایک مزدور ریاست کے تحت انہیں چلانا ہوگا۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو چلانے کے لیے ریاستی ادارے بھی از سرِ نو ترتیب دینے ہوں گے اور حکمران طبقے کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قائم کردہ تمام تر اداروں کو بھی ختم کر نا ہوگا۔ صرف ایسے ہی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے یہاں کے گماشتہ حکمران طبقے کو بھی شکست دی جا سکتی ہے اور سامراجی غلامی کا طوق بھی ہمیشہ کے لیے اتار کر پھینکا جاسکتا ہے۔ اسی انقلاب کے ذریعے ہی یہاں پیدا ہونے والی تمام دولت کی ملکیت یہاں کے عوام کو منتقل کی جا سکتی ہے اور یہاں سے غربت، بھوک، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرتے ہوئے حقیقی خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔