|تحریر: جان پیٹرسن، ترجمہ: سائرہ بانو|
امریکہ میں یہ سال صدارتی انتخابات کا سال ہے جس کے حوالے سے بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اپوزیشن میں موجود ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوارکومنتخب کرنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے جس میں تمام امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران حصہ لیں گے اور اس دوڑ میں شامل درجن سے زائد امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔ یہ صدارتی امیدوار نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ٹرمپ کا مقابلہ کرے گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے امیدوار کے انتخاب کے عمل کا آغاز روایتی طور پر آئیوا کی ریاست سے کر دیا ہے۔ آئیووا میں صدارتی امیدوارکے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوران دھاندلی کے شرمناک واقعے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا اصل چہرہ ایک بار پھر نمایاں ہوگیا ہے کہ یہ امریکی حکمران طبقے کی پارٹی ہے جس کے مفادات مزدوروں اور نوجوانوں کے مفادات سے براہ راست متصادم ہیں۔ زیر نظر مضمون امریکی مارکسسٹوں کے اخبار ’سوشلسٹ ریوولوشن‘ کا ایک اداریہ ہے جو 24 جنوری 2020ء کو شائع ہوا تھا۔ قارئین اس سلسلے میں 2016ء کے صدارتی انتخابات کے دوران آئیووا کاکس پر شائع ہونے والا مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں، جو اب تک مکمل طور پر برمحل ہے۔(ایڈیٹر)
مواخذے کی تحریک کے پس منظر میں، جو کہ دراصل توجہ بھٹکانے کا ایک عمل ہے، کے ساتھ ساتھ انتخابات کا عمل زوروشور سے جاری ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ دوبارہ جیت جائے؟ اس کا کوئی بھی حتمی جواب نہیں۔ جنگ کی طرح انتخابی مساوات بھی نہایت پیچیدہ ہوتی ہے لہٰذا نومبر تک بہت کچھ ہوسکتا ہے اور ہوگا۔ ڈیموکریٹس کامیاب انداز میں ناکامی حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر انہیں اپنا امیدوار لائق نہ لگا تو وہ ٹرمپ کوچھوٹی برائی سمجھتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کی جیت کے امکان کو ختم کرسکتے ہیں۔
آئیووا کاکس اور نیو ہمپشائر پرائمری اب صرف چند ہفتوں کی دوری پر ہیں، اور ایسی صورت میں سی این این اور دیز موائنز رجسٹر کے پولز کے حالیہ نتائج امریکہ کے حکمران طبقے کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہیں کیونکہ اس طبقے کے مفادات اس نتیجے پر منحصر ہیں۔ اس بار پہلی مرتبہ برنی سینڈرز آئیووا کاکس، نیو ہمپشائر بلکہ پورے ملک میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ جو بائیڈن سے زیادہ ووٹ لے رہا ہے گوکہ یہ برتری اتنی بڑی نہیں۔ برنی سینڈرزکو ایلزبتھ وارن اور پیٹ بتیجیگ کے مقابلے میں اچھی برتری جبکہ مائیکل بلومبرگ، ایمی کلوبچر اور اینڈریو یینگ کے مقابلے میں دگنی برتری مل رہی ہے۔سینڈرز کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ ووٹرز کے زیادہ تر مسائل پر ان کے ساتھ دیگر امیدواروں سے زیادہ متفق ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج انتخابات ہوجائیں تو وہ ٹرمپ کو یقینی طور پر شکست دے سکتا ہے۔
کئی سالوں سے ان چھوٹی اور دیہی ریاستوں کے حوالے سے، جن کا الیکٹورل کالج میں حصہ بہت محدود ہے، یہ ابتدائی مقابلے بہت اہمیت کے حامل تصور کیے جارہے ہیں۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ اگر سینڈرز کو برتری حاصل ہوئی تو یہ اس فتح کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ فتح یا کم از کم ایک مستحکم پوزیشن سینڈرز کی مہم کو وہ زور عطا کرے گی کہ وہ 3 مارچ کو ہونے والے ’سپر ٹیوزڈے‘ میں پہنچ جائے گا جہاں کیلیفورنیا، ٹیکساس، ورجینیا اور نارتھ کیرولینا سمیت 14 ریاستیں اس بات کا فیصلہ کریں گی کہ کس کو بحیثیت ڈیموکریٹک امیدوار سپورٹ کیا جائے۔ اگر سینڈرزبہتر نتائج حاصل کرتا ہے تو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے اسے راستے سے ہٹانا مزید مشکل ہو جائے گا۔
حکمران طبقے کی سینڈرز مخالفت
یہی وجہ ہے کہ سینڈرز کی مخالفت عروج پر ہے اور اس کی سب سے بڑی مخالف ہیلری کلنٹن ہے۔ ہالی ووڈ رپورٹر نامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیلری نے سینڈرز کے پروگرام کو احمقانہ قراردیا۔ ہیلری نے کہا کہ اسے کوئی پسند نہیں کرتا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ ڈیموکریٹک امیدوار نامزد ہو بھی جاتا ہے تو میں نہ تو اس کی توثیق کروں گی اور نہ اس کی مہم چلاؤں گی۔اس حوالے سے نیو یارک ٹائمز نے بہت چالاکی سے یہ کہہ کر وارن اور کلوبچر کی توثیق کردی ہے کہ ’اب ایک خاتون صدر کا وقت ہے‘۔ یہ دونوں خواتین، نیویارک ٹائمز کے خیال میں صاف ستھرا پس منظر رکھتی ہیں اور لبرل ہیں۔ سرمایہ دارانہ مفادات کی بہتر طریقے سے نگہبانی کرسکتی ہیں۔
سینڈرز نے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کے امکان کو یہ کہتے ہوئے سختی سے رد کیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حتمی امیدوار کی ہی حمایت کرے گا، جن میں مائیکل بلومبرگ بھی شامل ہے۔ اگر سینڈرز ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرلیتاہے جو ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں تو حکمران طبقہ آخری آپشن کے طور پر نیویارک شہر کے سابقہ مئیر اور ارب پتی بلومبرگ کو بطور آزاد امیدوار بھی کھڑاکرسکتا ہے۔
سینڈرز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی اس خوف اور نفرت کی عکاس ہے جو اسے سینڈرز کی پشت پناہی کرنے والے مزدوروں، نوجوانوں اور غریبوں سے ہے۔اگر اس عوامی تحریک کی وجہ سے سینڈرز صدر بن جاتا ہے تو لاکھوں عام امریکی اس سے بھی زیادہ کا مطالبہ کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے بھی آگے بڑھ کر معاملات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیں۔
یہ سب کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ سب سے پہلے تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سوشلسٹ نظریات میں عوامی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور یہ کہ خود کو سوشلسٹ کہنے والا شخص ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔یہ بات بذات خود بے حد علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ مگر کیا یہ عمل ڈیموکریٹک پارٹی میں کام کرنے کا جواز پیش کرتا ہے؟ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس، یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور لبرل اسٹیبلشمنٹ کی انتہائی رجعت پسند فطرت کو ظاہر کرتا ہے جو امریکہ اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے والے اہم ستون ہیں۔
جیکوبن میگزین کی طرح کے اصلاح پسندجو سرمایہ دارانہ نظام کے پنجرے میں رہنا چاہتے ہیں، ان کا بیہودہ خیال ہے کہ سینڈرز کو بطور ڈیموکریٹ ملنے والی سپورٹ دراصل وہ سب سے آخری حد ہے جہاں تک امریکی اس وقت حمایت دینے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اس کے بر عکس گزشتہ چند برسوں میں ہم نے شعور میں انتہائی تیزی سے ہونے والی حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ مارکسسٹ ان سماجی عوامل کے جنم اور سمت کا جدلیاتی تجزیہ کرتے ہیں، یہ عوامل جامد نہیں بلکہ ہر لحظہ تبدیل ہورہے ہیں۔ ہم پر اعتماد انداز میں یہ پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ ان واقعات اور اپنے تجربات سے متاثر ہوکر لاکھوں امریکی مزدور مزیدبائیں جانب جاسکتے ہیں اور جائیں گے۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو ڈیموکریٹس کی اندر سے اصلاح کرنے کی کوشش کررہے ہیں آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ مثلاً، امریکی پارلیمنٹ کی نیویار ک سے منتخب ہونے والی نوجوان ممبر اور خود کو سوشلسٹ کہلوانے والی الیگزنڈریا اوکاسیو کورٹیز نے حال ہی میں کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی ”ضرورت سے زیادہ بڑی“ ہے اور کسی دوسرے ملک میں وہ اور جو بائیڈن کبھی بھی ایک سیاسی جماعت میں نہ ہوتے۔ یہ بالکل درست ہے۔ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر امریکہ میں ایک عوامی سوشلسٹ لیبر ورکرز پارٹی موجود ہوتی تو وہ اس پارٹی کے اصلاحی دائیں بازو کی طرف ہوتی بجائے سرمایہ دارانہ ڈیموکریٹک پارٹی کی ممبر ہونے کے۔ حال ہی میں الیگزنڈریانے یہ بھی کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی”سنٹرسٹ یا رجعتی سنٹرسٹ“پارٹی ہے اور یہ کہ اس وقت ملک میں کوئی بائیں بازو کی پارٹی نہیں۔وہ بالکل درست کہہ رہی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی بڑے کاروباروں کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ ملک میں مزدورں کی اکثریت کی نمائندگی کرنے کے لیے کوئی پارٹی نہیں۔
ٹرمپ کے منتخب ہونے کی طرح، سینڈرز کو ملنے والی حمایت بھی اس غصے کی نشاندہی کرتی ہے جو عوام کے اندر اسٹیٹس کو کے خلاف پایا جاتا ہے اور اس سے آگے کے حل کے متلاشی ہیں۔ اس وقت واحد کمی ایک دلیر قیادت کی ہے جو اس بڑھتی ہوئی بے چینی کو سماج کو تبدیل کرنے والے انقلاب کی شکل میں ڈھال دے اور اس کا آغاز ڈیموکریٹس سے علیحدگی اور ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی بنانے سے ہو سکتا ہے۔ سینڈرز اور الیگزنڈریا جیسے افراد اور جیکوبن جیسی مطبوعات اگر چاہیں تو اس عمل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس طرح کی پارٹی شروعات میں اصلاحی فطرت کی حامل ہوگی لیکن وہ محنت کش طبقے کو اعتماد دے گی اور مارکسی نظریات اور پروگرام کو فروغ دینے کے لیے ایسا ماحول فراہم کرے گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔
بدقسمتی سے بہت سے اصلاح پسند سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی اور محنت کشوں کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے کام کرنے کی وکالت کرتے ہیں لیکن ان کے خیال میں یہ ایک مختصر مدت کے لیے ہوگا جس کے بعدوہ اس سے الگ ہو جائیں گے۔ ”ایکرمین تھیسس“ میں بھی یہی پوزیشن ہے جس کی جیکوبن میگزین وکالت کرتا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ طبقات کے درمیان مصالحت کی کوشش ہے اور سراسر بے ایمانی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں دھوکے کوفروغ دیتے ہوئے یہ کہنا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے آسان حل کی تلاش ممکن ہے، دراصل ان کے ”سوشلسٹ“ہونے پر سوالیہ نشان ہے جو صورتحال کو بدتر کر رہا ہے۔مستقبل میں لاکھوں مزدوروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آج اپنے طبقاتی مؤقف پر سختی سے قائم رہا جائے اور اپنی سیاسی شناخت کو واضح اور صاف رکھا جائے۔
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سینڈرز کی انقلابیت پسندی یا اس کے ’ارب پتیوں کے خلاف سیاسی انقلاب‘ کے نعرے سے متاثر ہونے والے لاکھوں افرادسے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ان ریلیوں میں شریک ہو کر ان لوگوں سے دوستانہ مباحث نہیں کرنے چاہئیں جو اصل انقلابی نظریات کے منتظر ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ صرف وہ لوگ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ان مزدوروں اور نوجوانوں سے کٹے رہیں گے جو”انقلابی طہارت“کی آڑ میں در اصل غلیظ فرقہ واریت کے قائل ہیں۔
یہ فطری اور معمول کی بات ہے کہ لوگ ابتدا میں ان مسائل کا حل باہر دیکھنے کے بجائے نظام کے اندر تلاش کریں گے اورمکمل اتفاق نہ ہونے کے باوجود وہ پہلے موجودہ پارٹیوں اور سیاستدانوں کی طرف دیکھیں گے۔ہمیں سماج کی ان پرتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے ہوں گے اور ان کو سیاسی بحث میں شریک کرکے حقائق، اعدادوشمار اور دلائل کی مدد سے یہ باور کروانا ہوگا کہ سوشلسٹ انقلاب ہی نظام کے اس بحران کا واحد حل ہے۔
امریکی مزدوروں کو ایک مزدوروں کی پارٹی کی ضرورت ہے!
ہمیں لوگوں کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ اگر سینڈرز صدر بن بھی جاتا ہے تو اس کی حکومت بحرانوں کا شکار رہے گی۔ اگر وہ صدارتی احکامات کے ذریعے کچھ سطحی تبدیلیاں کر بھی لے تو اس کی اپنی پارٹی اور امریکی کمپنیاں اسے مفلوج کردیں گی۔ اگر اس نے سرمایہ داروں کے مفادات پر انگلی بھی اٹھائی توا مریکہ کا قدامت پرست اور لبرل میڈیا اس کو وحشیانہ تنقید کا نشانہ بنا ئے گا۔ اس کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، امریکہ کا حکمران طبقہ اپنے منصوبوں کے نفاذ اور اس نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لیے سینڈرز پر شدید ترین دباؤ ڈالے گا تا اس نظام کو اپنے آپ ہی سے بچایا جا سکے۔
دوسری جانب محنت کش طبقے کے دباؤ کے تحت سینڈرز شاید لفاظی کی حد تک اپنے موجودہ مؤقف سے آگے بڑھ جائے۔ لیکن عمل میں اس کے پاس واحد راستہ یہی ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے محنت کشوں کو اس نظام کے خاتمے کے فیصلہ کن اقدام اور انقلاب کی جدوجہد کے لیے متحرک کرے۔تاہم تاریخی طور پر اصلاح پسندوں کی بیچارگی دیکھتے ہوئے واضح ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ غالب امکان ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے دباؤ میں آکر کٹوتیوں کی پالیسی لاگوکرے گا اور اس عمل کے دوران سوشلزم کا نام بری طرح بدنام کرے گا۔
اگر سینڈرز یا الیگزنڈریا جیسے افراد ڈیموکریٹس سے الگ ہوجائیں، آزادانہ مہم چلائیں، ایک نئی پارٹی قائم کریں اور مزدور یونینوں کو اپنی حمایت کے لیے پکاریں تو امریکہ کی سیاست کا رخ بالکل تبدیل ہوجائے گا اور ان کی امیدواریت کے بارے میں ہمیں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ لاکھوں افراد برنی سینڈرز کی اس لیے حمایت نہیں کرتے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ممکنہ امیدوار ہے بلکہ اس تلخ حقیقت کو جاننے کے باوجود اس کی حمایت کر رہے ہیں۔اگر سینڈرز آزادانہ انتخابات لڑے اور ایک نئی پارٹی بنالے تو بہت سے ایسے محنت کش بھی اس کی حمایت کریں گے جو ابھی خود کو ریپبلکن کہتے ہیں، تاہم اس کے ابھی زیادہ امکانات نہیں۔
جیسے جیسے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ’ٹرمپ کے سوا کوئی بھی،‘ تو ہمیں اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہتے ہوئے مستقبل سے پرامید رہنا چاہیے۔ انقلابی مارکس وادی اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ 2020 ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اندرونی انتخابات، پرائمریز یا عام انتخابات پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب کرسکیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں اس سال کے دوران اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں احساس تناسب ہو۔ ہمیں نہایت تحمل کے ساتھ مزدوروں کو یہ سمجھانا ہے کہ جن مسائل کا انہیں سامنا ہے ان کا تعلق نظام سے ہے۔ لہٰذا وائٹ ہاؤس میں چاہے ڈیموکریٹ ہو یا ریپبلکن ان کے حالات نہیں بدلیں گے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم محنت کشوں کی جدوجہد کا تاریخی حافظہ ہیں اور ہمارا کردار سب سے منفرد اور کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کی تیاری کے لیے ہمیں کوئی شارٹ کٹ نہیں تلاش کرنا چاہے کیونکہ ایسا کوئی راستہ وجود نہیں رکھتا۔ بعض اوقات دو نقاط کے درمیان فاصلہ طویل ہوتا ہے اور کبھی کبھی شارٹ کٹ آپ کو کسی بند گلی میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں مزدوروں پر یقین رکھنا ہوگا۔ لاکھوں مزدورآخر کارانقلابی نظریات اور ایک انقلابی پارٹی کی تلاش میں لازمی نکلیں گے۔ اصل سوا ل یہ ہے کہ کیا ہم اس وقت تیار ہوں گے؟ 2020ء کے دوران ہماری سرگرمیاں اس سوال کا جواب دینے میں اہم کردار ادا کریں گی۔