|تحریر: جان پیٹرسن، ترجمہ: ولید خان|
الیکشن کسی بھی لمحے میں سماج کی کیفیت کا ایک اہم لیکن ناقص عکس ہوتے ہیں۔ اگرچہ سطح سے نیچے موجود محرکات کی وہ بھرپور عکاسی تو نہیں کرتے لیکن بہرحال ان کے ذریعے اہم نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ وہ عوامل جو خاموشی سے سالوں اور دہائیوں میں پنپ رہے ہوتے ہیں الیکشن میں اچانک سطح پر نمودار ہو کر ٹھوس شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ انتخابات کے نتائج سے کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ آبادی کی شماریات، معاشی، سماجی اور نظریاتی تبدیلیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو سماجی سطح سے نیچے چل رہے ہوتے ہیں جن کا حتمی اثر ہمیں الیکشن میں نظر آتا ہے۔
to read this article in English, click here
کچھ وقتوں میں نسبتاً جمود کی کیفیت چل رہی ہوتی ہے جس کے بعد اچانک حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان جو بظاہر غیر متغیر اور ناگزیر لگ رہے ہوتے ہیں، اپنی تاریخی افادیت کھو دیتے ہیں اور تاریخ کے سٹیج سے ان کا صفایا ہو جاتا ہے جس کے بعد ان کی جگہ نئے مظاہر ابھرتے ہیں جو پھر ابھار اور گراوٹ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ کبھی کبھی پرانی سیاسی پارٹیوں کے خالی ڈھانچے نئے سماجی مواد سے بھر جاتے ہیں۔۔۔ نام وہی رہتے ہیں۔۔۔ لیکن جن سماجی قوتوں کی وہ نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں وہ تبدیل ہو جاتی ہیں۔ حتمی تجزیئے میں، سیاسی پارٹیاں مختلف طبقات یا طبقات کی مختلف پرتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حاکمیت کی معاشی بنیادوں کی تبدیلی اور بحران کے ساتھ نظام کی سیاسی اورنظریاتی شکلوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اور میکانکی کے بجائے ایک پیچیدہ اور تضادات سے بھرپور عمل ہے۔ بہرحال، ان بحرانات کی جڑیں سماج کے معاشی ڈھانچے میں پیوست ہیں۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلکن، دونوں سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور گزشتہ 150سالوں سے امریکی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی اجارہ داری محنت کش طبقے کی حمایت سے قائم کر رکھی تھی جس میں ایک پرت کو دوسرے کی مخالفت میں استعمال کر لیا یا کچھ کو چند ٹکڑے ڈال دیئے جبکہ باقی کو خوفناک جبر سے دبا دیا تاکہ ایک انتخابی حمایت کی بنیاد کی کوئی شکل و صورت برقرار رکھی جا سکے۔ یہ طریقہ کار اکیسویں صدی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کے معاشی ابھار، سماجی جمود اور لیبر قیادت کی غداریوں کی بنیاد پر چلتا رہا جنہوں نے ان پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے محنت کشوں کے ایک سیاسی متبادل کو پنپنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے واضح انکار کر دیا۔ لیکن معاشی ابھار اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ پے درپے بحرانات کے نتیجے میں اب مال و دولت کی فاضل چربی گھل چکی ہے، جمود ٹوٹ چکا ہے اور لوگوں کا نظام پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ 2008ء کے بحران نے اس عمل کو تیز تر کر دیا۔ آٹھ نومبر کو ہم نے بحران کی سب سے نئی سیاسی عکاسی دیکھی۔ یہ پھر واپس معاشی اور سماجی بحران پر اثر انداز ہو گا اور یہ عمل مزید آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ پچھلی چند دہائیوں کا عمومی استحکام اب مر کر دفن ہو چکا ہے۔
سچائی کی تلاش
بحران سے باہر نکلنے کے راستے کی تلاش میں ایک اہم منزل مروجہ سیاسی پارٹیوں اور قیادت کا امتحان ہے۔ محنت کشوں کی روائتی عوامی پارٹی کی عدم موجودگی میں، امریکی محنت کشوں کو اس تجربے کی ایک عجیب و غریب اور مخصوص شکل سے گزرنا پڑے گا۔ لیبر قیادت کے بھگوڑے ہونے کی وجہ سے انہیں اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے پڑیں گے جس کی وجہ سے چوٹیں بھی لگیں گی۔ بالآ خر، روشنی ضرور ہو گی اور اس حقیقت کا ادراک کہ انہیں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے انہیں بالکل مختلف حل کی تلاش میں لے جائے گا۔ ایک مرتبہ جب امریکی محنت کش اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ انہیں نئی سیاسی پارٹیوں، قیادت اور جدوجہد کے نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے تو پھر سرمایہ داری کا چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ جائے گا۔
چند مہینوں میں ہمارے سامنے جیب بش اور ہیلری کلنٹن کو شدید ہزیمت اٹھانی پڑی جنہیں ان کے امریکی سیاست میں مورچہ بند سیاسی شاہی خاندانوں نے وارث کے طور پر بڑی احتیاط سے چنا تھا۔ ہم نے برنی سینڈرز کے حیرت انگیز ابھار اور گراوٹ کا بھی مشاہدہ کیا۔ جس نے ڈیموکریٹس سے ناطہ توڑ کر بطور آزاد امیدوار الیکشن نہ لڑ کر اپنے آپ کو اندھی کھائی میں گرا دیا اور آخر میں ہمیں انتہا کے نو دولتیے ڈونلڈ ٹرمپ کی حیرت انگیز پانسہ پلٹ جیت بھی دیکھنے کو ملی۔ اگرچہ ٹرمپ اور سینڈرز نے اپنے طریقے سے مزیدایک الیکشن میں اپنی سیاسی پارٹیوں کی افادیت برقرار رکھنے میں مدد کی لیکن جن قوتوں کو وہ بے لگام کر چکے ہیں وہ حتمی تجزیئے میں سرمایہ دارانہ حاکمیت کے ان ستونوں کو پاش پاش کر دیں گے۔ حکمران طبقے کے لبرل دائیں بازو کو آٹھ سال ملے کہ وہ محنت کشوں کے مسائل حل کر سکیں لیکن وہ ناکام رہے۔ یہ مایوسی، الیکشن میں عدم شرکت، الیکٹورل کالج اور شہری دیہاتی محنت کشوں کی ایک پرت کا ٹرمپ کی حمایت میں متحرک ہوناجس کی وجہ سے چند ایک کلیدی ریاستوں میں نتائج پلٹ گئے، یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے قدامت پسند دائیں بازو کی فتح ہوئی۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے، اس کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ ٹرمپ اس وقت اپنی کابینہ کو تشکیل دے رہا ہے جس میں رجعتیت کے علمبردار اور بینکار شامل ہیں جیسے سٹیفن بینن، نیوٹ گنگرچ، روڈی جولیانی، سٹیفن منوچن اور دیگر لوگ۔ اس حوالے سے ہم مستقبل میں اس لفنگے کی کابینہ پر تفصیل سے لکھتے رہیں گے۔ فی الحال یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ ’’چوروں کا ٹولہ‘‘، ’’فتح یاب‘‘ پارٹی کے انحطاط کو مزید تیز کرے گا جو کہ اس وقت کانگریس میں بھی اکثریت میں ہے۔ ٹرمپ کے پاس اپنے بے جا داخلی اور امور خارجہ کے وعدوں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا جن میں سے بہت سارے تضادات سے بھرپور ہیں اور اس کی اپنی پارٹی کے منشور کے خلاف ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ کلی یا جزوی طور پر بھی سرمایہ داری کے تحت ان پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔
پورے نظام اور اس کے تمام اداروں پر اعتماد پہلے ہی تاریخ میں سب سے کم تر سطح پر ہے اور اگرچہ کچھ لوگ اس کو شروع میں ایک موقع بھی دیں گے، ٹرمپ حتمی تجزیئے میں نظام میں اعتماد کی کمی اور زیادہ بربادی کا سبب بننے گا۔
’’مجھے ووٹ نہ دینے پر کوئی پچھتاوا نہیں‘‘
یہ عدم اعتماد الیکشن کے دن پوری طرح واضح تھا کیونکہ ووٹروں کی شرکت شدید کمی کا شکار رہی، باوجود اس کے کہ دونوں اطراف سے سراسیمگی کی کیفیت میں ووٹ ڈالنے کی اپیلیں جاری رہیں۔ صرف 58.4فیصد ووٹ دینے کے اہل لوگوں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت کی جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے کم ہے، یہاں تک کہ ترکی اور میکسیکو کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے؛ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی کیونکہ ان کی سیاسی جبلت انہیں بتا رہی تھی کہ ان کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فتح کس کی ہوتی ہے کیونکہ کام کی زیادتی، کم اجرت، قرضہ، ذہنی تناؤ اور عدم تحفظ بڑھتا جائے گا۔ اس سال کے حالیہ دنوں میں انتہائی قابل نفرت امیدوار ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے رہے جس میں اور کچھ نہیں بلکہ ’’دوسرے‘‘ امیدوار کو ہرانے کیلئے صرف منفی آپشن ہی موجود تھے۔ معیاری ووٹنگ مشینوں اور طریقہ کار کی عدم موجودگی میں۔۔۔ اور یہ کہ الیکشن کا دن منگل کا دن تھا جو کہ کام کا دن ہے۔۔۔ کروڑوں نے ووٹنگ کو خیر آباد ہی کئے رکھا۔ لیکن 58.4فیصد بھی جھوٹ ہے۔ میڈیا نے صرف ’’ووٹ دینے کے اہل‘‘ کی ہی رپورٹنگ کی۔۔۔ پوری آبادی میں ووٹنگ کے اہل کی نہیں۔۔۔ تاکہ اعدادو شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکے۔ 2016ء میں 23.1کروڑ ووٹنگ کے اہل لوگ موجود تھے۔ لیکن اس میں امریکہ میں موجود 2کروڑ ووٹنگ کی عمر کے لوگوں کا ذکر نہیں ہے جو کہ سزا یافتہ مجرم ہیں یا اپنی ہجرت کی قانونی کیفیت کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں رکھتے جبکہ وہ کام بھی کر رہے ہیں اور ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق، OECD کے 35 ممالک میں ووٹنگ کے قابل عوام کے ووٹ ڈالنے کی شرح کے حوالے سے امریکہ کا 31واں نمبر ہے۔ آخر میں صرف 24.7فیصد لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔۔۔ یہ 25.4فیصد سے بھی کم ہے جنہوں نے ہیلری کلنٹن کو ووٹ ڈالا۔۔۔ یہ کوئی مینڈیٹ نہیں۔ کسی بھی امیدوار نے ڈالے گئے ووٹوں میں واضح برتری حاصل نہیں کی سوائے واشنگٹن ڈی سی کے جو کہ ریاست بھی نہیں ہے اور جس نے ہیلری کلنٹن کو 90فیصد ووٹ ڈالا جو کہ بذات خود بڑا معنی خیز ہے۔ صرف چھ ریاستوں میں بشمول واشنگٹن ڈی سی ووٹروں نے کسی ایک امیدوار کو اتنے ووٹ ڈال کر جتایا جو کہ ووٹ نہ ڈالنے والوں سے زیادہ شرح تھی؛ آیووا اور وسکانسن میں ٹرمپ؛مین، میساچوسیٹس، منی سوٹا، نیو ہیمپشائر اور واشنگٹن ڈی سی میں ہیلری۔ حالیہ تاریخی حوالے سے صورتحال کو اور زیادہ واضح کرنے کیلئے پچھلے تین الیکشنوں میں فتح یاب امیدوارکو ڈالے گئے ووٹوں کی فہرست مندر جہ ذیل ہے:
2008ء (اوباما) 6.95کروڑ
2012ء (اوباما )6.59کروڑ
2016ء (ٹرمپ)6.19کروڑ
’’فتح یاب‘‘ امیدوار کیلئے ڈالے گئے ووٹوں میں گراوٹ اور بھی زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بھی مد نظر رکھا جائے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں آبادی میں 2.1 کروڑ کا اضافہ ہو ا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ 14 ریاستوں میں، سیاسی جھول والی ریاستوں کے بشمول، اس سال نئی ووٹنگ قدغنیں لگائی گئیں جس کی واضح وجہ یہ تھی کہ اقلیتوں میں سے ووٹنگ کے اہل لوگوں کو کم سے کم الیکشن کے عمل میں شامل کیا جائے۔ جب یہ تمام معاملات مد نظر رکھے جائیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خیال کہ یہ انتخابات ’’عوام کی منشا‘‘ کے عکاس ہیں ایک کھوکھلی بکواس ہے۔ نتائج کو سمجھنے کیلئے کلیدی طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ چار سال پہلے کے الیکشن کے مقابلے میں اس سال 90لاکھ کم ووٹ پڑے ہیں اور جتنے ووٹ ڈیموکریٹس کو 2012ء میں ملے تھے اس سے 70لاکھ کم ہیں۔ اگرچہ تقریباً 1.9 کروڑ نے ڈیموکریٹس کے بجائے ریپبلکن کو ووٹ ڈالے، ان میں سے بہت سارے گھر پر ہی رہے۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز اخبار نے لکھا کہ ’’یہ الیکشن جتنا ووٹ ڈالنے والوں کی وجہ سے اہم تھا اتنا ہی نہ ڈالنے والوں کی وجہ سے بھی اہم تھا۔ ‘‘
کچھ مثالیں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ گزشتہ 30سالوں میں محنت کش طبقے کی گراوٹ اور ’’محنت کشوں کے دوست‘‘ ڈیموکریٹس کے دھوکوں کے انتخابات پر کیا اثرات پڑے ہیں:
الیکشن سے پہلے بریگیڈ نامی ایپلیکیشن کی رائے شماری کے مطابق، 2فیصد رجسٹرڈ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں نے کہا کہ وہ ہیلری کو ووٹ ڈالیں گے جبکہ 40فیصد رجسٹرڈڈیموکریٹ پارٹی کے حامیوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ ڈالیں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹروں میں خواتین کی مردوں سے زیادہ تعداد تھی جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
پچھلے الیکشن میں اوباما کو ووٹ ڈالنے والی 700کاؤنٹیوں میں سے ایک تہائی نے اس مرتبہ ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔
ڈیموکریٹک قلعے ڈیٹرائٹ میں اوبامہ کے مقابلے میں کلنٹن کو 129000 کم ووٹ پڑے جبکہ کلنٹن 61000کل ووٹوں سے یہ ریاست ہار گئی۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک اور قلعے مِلواکی ریاست میں اوباما کے مقابلے میں ہیلری کو 95000کم ووٹ ڈالے گئے اور وہ 73000 کل ووٹوں سے اس ریاست میں ہار گئی۔ جیسا کہ ایک ملواکی کے حجام نے کہا کہ’’مجھے افسوس نہیں ہے۔ مِلواکی تھک چکا ہے۔ دونوں ہی منحوس تھے۔ وہ (حکمران طبقہ) ویسے بھی ہمارے لئے کبھی کچھ نہیں کرتے۔ ‘‘
لاطینی ووٹروں میں سے 29فیصد، جبکہ 26فیصد لاطینی خواتین نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔
53فیصد سفید فام خواتین نے کلنٹن کے بجائے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔ کل خواتین ووٹروں میں سے صرف 1فیصد خواتین ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف آئیں۔ یہ واضح ہے کہ بہت ساری خواتین کیلئے ہیلری ایسے نظام کا دفاع کرتے ہوئے الیکشن جیتنے کی صورت میں تاریخ بنانے کی لفاظی کر رہی تھی جو محنت کش خواتین اور تمام محنت کشوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھتا ہے۔
نیویارک ٹائمز اخبار نے ووٹروں کی ووٹ ڈالنے کے بعد رائے شماری کی جس کے مطابق نوجوان ووٹر مثبت5 فیصد کی شرح سے ریپبلکن پارٹی کی جانب مائل ہوئے اور پورے ملک میں تمام اقلیتی قومیں ریپبلکن پارٹی کی جانب مثبت1فیصد کی شرح سے مائل ہوئی؛ مثبت1فیصد سفید فام، مثبت7فیصد سیاہ فام، مثبت8فیصد لاطینی۔
50فیصد ٹریڈ یونین ممبران نے اپنی قیادت کی کلنٹن کوووٹ ڈلوانے کی مضطرب کوششوں کے باوجود ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔
اوبامااپنی صدارت کے اختتام پر ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس سینیٹ میں 11اور ایوان نمائندگان میں 60 سے زیادہ نشستیں، کم از کم 14گورنرشپس اور ریاستوں کی پارلیمانوں میں 900 سے زیادہ نشستوں کے نقصان کے ساتھ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو گا۔ 2008-10ء تک کانگریس کا کنٹرول ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس تھا اور انہوں نے کیاکیا؟ 2008ء میں ہی وہ بنیادیں تعمیر ہو رہی تھیں جن کی بنا پر پہلے سے حکومت میں موجود پارٹی کی بربادی کی راہیں ہموار ہو رہی تھیں۔
امریکی طرز کی جمہوریت
اس مسئلے کا کیا بنا کہ درحقیقت کلنٹن نے ٹرمپ سے 17 لاکھ ووٹ زیادہ لئے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ’’فتح یاب‘‘ امیدوار صدارتی کرسی پر کم ووٹ لے کر بیٹھ سکتا ہے؟
جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا تھاکہ’’ہمیں الیکٹورل کالج کو نہیں بھولنا چاہئے۔ جمہوریت اور اکثریتی رائے کے شور شرابے کے باوجود، 8نومبر کو ایک بھی امریکی، امریکی صدر کیلئے ووٹ نہیں ڈالے گا۔ الیکٹورل کالج ان بہت سارے تحفظاتی اقدامات میں سے ایک ہے جو کہ امریکی آئین کا حصہ ہیں تاکہ عوام واقعی جمہوریت کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لیں۔ اس کا جھکاؤ زیادہ قدامت پسند دیہی علاقوں کی جانب ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹر دراصل ان غیر منتخب’’انتخاب کرنے والوں‘‘کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں جن پر کوئی قانونی ذمہ داری نہیں کہ اپنے ڈسٹرکٹ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کیلئے ووٹ کریں۔ یاد رکھیں؛ یہ بورژوازی کیلئے جمہوریت ہے، محنت کشوں کیلئے نہیں۔ ‘‘وائٹ ہاؤس کی کنجی حاصل کرنے کیلئے ایک امیدوار کو کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ چاہئیں۔ انتخاب کرنے والوں کی شرح کانگریس کے ممبران کے برابر ہوتی ہے جس میں ہر ریاست میں ہر سینیٹر کیلئے دو الیکٹورل ووٹ ہوتے ہیں اور ممبران ایوان نمائندگان کی تعداد کے مطابق باقی انتخاب کنندگان موجود ہوتے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کو بھی تین انتخاب کنندگان الاٹ ہوتے ہیں حالانکہ یہاں سے کانگریس میں کوئی نمائندہ موجود نہیں ہوتا۔ اس مضمون کے لکھتے وقت تک ایک بھی شخص نے امریکی صدر کیلئے ابھی تک ووٹ نہیں دیا۔ درحقیقت 538 انتخاب کنندگان ووٹ کرنے کیلئے 18 دسمبر سے پہلے اکٹھے نہیں ہوں گے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ کلنٹن نے اُف تک کئے بغیر شکست تسلیم کر لی اور اب عوام کی نظروں سے غائب ہے؟ جنہوں نے امیدواروں کے درمیان منعقد مباحثے دیکھے ہیں انہیں یاد ہو گا کہ ٹرمپ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یہ کہے کہ وہ الیکشن کے نتائج تسلیم کرے گا، جن کے بارے میں اس نے بارہا کہا کہ ان میں دھاندلی ہوتی ہے۔ آخر کار اس نے مان لیا کہ وہ الیکشن کے نتائج تسلیم کرے گا، اپنی فتح کی صورت میں۔ اپنی کامیابی میں مکمل اعتماد کی وجہ سے کلنٹن نے کہا کہ وہ تمام قانونی اصولوں کو مانے گی اور اب وہ ان کی وجہ سے بندھ چکی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کلنٹن نے چند سال پہلے الیکٹورل کالج کے خلاف بیانات دیئے لیکن اس نے اس کو ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اب کلنٹن اور امریکی حکمران طبقہ جو ٹرمپ کے مقابلے میں اس کی بھرپور حمایت کرتا تھا، اس فرسودہ ادارے کے کڑوے پھل چکھنے پر مجبور ہیں۔ 1820ء سے لے کر اب تک یہ پانچویں مرتبہ ہوا ہے کہ عوامی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار صدارت سے محروم رہا (1824ء، 1876ء، 1888ء اور 2000ء)۔ سب سے حالیہ واقعے میں جارج بش جونیئر کو امریکہ کا 43 واں صدر بنا دیا گیا جبکہ ال گور سے اس نے 540000کم ووٹ حاصل کئے تھے۔ کسی بھی بڑے تنازعہ سے بچنے کیلئے ال گور نے شکست تسلیم کر لی جب غیر منتخب سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ مسترد کئے گئے ووٹوں کی بنیاد پر بش ریاست فلوریڈا میں کامیاب ہوا ہے۔
الیکٹورل کالج جنوبی جاگیروں میں غلاموں کے مالکان اور شمالی کاروباریوں اور بینکاروں کے درمیان بہت ساری مفاہمتوں میں سے ایک تھا جنہوں نے امریکی آئین کو تشکیل کیا۔ کیونکہ جنوبی ریاستوں کی آبادی شمالی ریاستوں کے مقابلے میں کم تھی اور ان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بغیر حقوق کے غلاموں پر مشتمل تھا، انہیں ایک طریقہ کار چاہئے تھا جس کے ذریعے فیڈرل حکومت میں اپنی آواز کو یقینی طور پر مؤثر بنایا جائے۔ اس کا ایک نتیجہ 3/5 کی مفاہمت میں نکلا یعنی امریکی قوم کے ’’آباؤاجداد ‘‘ نے یہ حل نکالا کہ ایک سیاہ فام غلام کو 3/5 انسان کے برابر تصور کیا جائے گا۔ اس سے جنوبی ریاستوں کی مردم شماری میں اتنا استحکام آگیا کہ ان کے کانگریس اور الیکٹورل ووٹوں میں نمائندگی زیادہ ہو جائے۔ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ امریکہ کے پہلے پانچ میں سے چار صدر غلام دار ریاست ورجینیا سے تھے اور امریکہ کا دارالحکومت نیویارک اور فلاڈیلفیا سے ورجینیا کے سامنے پوٹوماک دریا کے پار ایک ملیریا زدہ دلدل میں منتقل کر دیا گیا۔ اگرچہ غلام داری کا اختتام ہو چکا ہے لیکن شہری محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے حجم کا متوازی مقابلہ کرنے کیلئے حکمران طبقے نے الیکٹورل کالج کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ دیہی علاقے عام طور پر زیادہ قدامت پسند ہوتے ہیں اور خاص طور پر 1930ء کی دہائی میں لیبر تحریکوں کے بعد ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ کا غیر جمہوری اطلاق برقرار رکھا گیا ہے اس کے باوجود کہ دیہی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ویومنگ اور کیلیفورنیا دونوں ریاستوں سے دو سینیٹر آتے ہیں۔ لیکن ویومنگ میں ہرسینیٹر تقریباً 291000 لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے جبکہ کیلیفورنیا کا سینیٹر1.92 کروڑ لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ویومنگ سے صرف ایک نمائندہ ایوان نمائندگان میں آتا ہے جبکہ کیلیفورنیا سے یہ تعداد 53 ہے۔ لیکن پھر بھی دیہی قدامت پسند ویومنگ کی طرف توازن کا بھاری جھکاؤ ہے جس میں ایک الیکٹورل ووٹ 194000 رہائشیوں پر مشتمل ہے جبکہ کیلیفوررنیا کا ایک الیکٹورل ووٹ 697000رہائشیوں پر مشتمل ہے۔ اس کو ملک کے طول و عرض کے بے پناہ دیہی علاقوں سے ضرب دیں تو پھر اعدادو شمار کے مطابق قدامت پسند ووٹر الیکشن میں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ آئین میں موجود بہت سارے ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ میں سے ایک ہے جس کا مقصد صرف ایک ہے؛محنت کشوں کی اکثریتی طاقت کو قابو میں رکھنا۔
یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ نو منتخب صدر ٹرمپ خود اتفاق کرتا ہے کہ الیکٹورل کالج نظام کا ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اس نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ میں لکھا کہ’’الیکٹورل کالج جمہوریت کیلئے تباہی ہے۔ ‘‘اب جبکہ وہ اسی نظام اور طریقہ کار کے تحت الیکشن جیت چکا ہے، اس نے CBSکی لیزلی سٹاہل کو بتایا کہ وہ ابھی بھی 2012ء میں کئے گئے اپنے ٹویٹ سے متفق ہے، ’’میں اپنی رائے صرف اس وجہ سے تبدیل نہیں کروں گا کہ میں جیت گیا ہوں۔۔۔ میں زیادہ حامی اس بات کا ہوں کہ عام ووٹوں کے ذریعے یہ معاملہ طے کیا جائے۔ تمہیں پتہ ہے، تم 10کروڑ لے سکتی ہو اور کوئی 9کروڑ ووٹ لے کر بھی جیت سکتا ہے۔ ‘‘ اگرچہ ٹرمپ کہتا ہے کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتا، ٹرمپ ہمیشہ کی طرح امرا اور طاقتوروں کے قوانین کے مطابق کام کرنے کو تیار ہے جو امرا اور طاقتور کیلئے لکھے گئے ہیں، چاہے وہ ٹیکس دینے کا وقت ہو یا الیکشن میں ووٹ لینے کا۔
آئینی بحران؟
یہ خیال کہ یہ دھاندلی کا نظام ہے کسی وجہ سے زبان زد عام ہے۔ کروڑوں امریکیوں کو نظر آ رہا ہے کہ نظام میں امرا کے حق میں دھاندلی ہے۔ اگر الیکٹورل کالج کو ختم بھی کر دیا جائے اور صدر کو عوام کے اکثریتی ووٹ سے منتخب بھی کر لیا جائے، تب بھی محنت کشوں کیلئے کوئی آپشن موجود نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے نہ کلنٹن کی حمایت کی اور نہ ہی ٹرمپ کی، حالانکہ ڈیموکریٹ ’’کم تر برائی‘‘ کا راگ الاپتے رہے۔ اس لئے ہمارا بھرپور اصرار ہے کہ ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی کی اشد ضرورت ہے جو محنت کش طبقے کی نمائندگی کرے۔
لیکن الیکٹورل کالج کی وجہ سے ہونے والے ان مسائل نے دنیا کی سب سے قدیم ترین ریپبلک کے لمبے عرصے تک فعال رہنے پر اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں بار بار ہوا ہے، ایک سماجی ساخت جب بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے قانونی ڈھانچے پر دباؤ پڑتا ہے، سوالات اٹھتے ہیں اور پھر بالآخر وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ 3/5 والی مفاہمت کے ساتھ ساتھ اصل امریکی آئین میں خواتین، بے شمار سفید فاموں، دیسی امریکیوں (ریڈ انڈینز)، بہت سارے آزاد کئے گئے غلاموں، مہاجرین وغیرہ کیلئے ووٹ کرنے کا حق سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ یہ دو صدیوں کی محنت کشوں کی تحریکوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آئینی ترامیم کر کے آج، کم از کم کاغذوں میں، ہم سب برابر ہیں۔ لیکن سب کو پتہ ہے کہ درحقیقت ایسا نہیں۔ کلنٹن کی خاموشی کے ساتھ اپنی تذلیل آمیز شکست تسلیم کرنے کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ الیکٹورل کالج اور اسی طرح کی دیگر آئینی قباحتوں کی جانب عوام کی توجہ مبذول نہیں کرانا چاہتے جسے اکثریت نے پڑھا تک نہیں ہے۔ وہ ٹرمپ کو دوسرے طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوششیں کریں گے۔ اگر وہ لوگوں کو سڑکوں پر عوامی اکثریتی ووٹ کے دفاع میں سڑک پر لے آئیں گے تو معاملات تیزی کے ساتھ بے قابو ہو سکتے ہیں۔ ایک آئینی بحران، یہاں تک کے خانہ جنگی کی کچھ اشکال کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، امریکی آئین حریت پسندی اور مرکزیت کے طرز حکومت کے تضادات کا عجیب و غریب مرکب ہے۔ ان تضادات کی جڑیں اس ملک کے انقلابی اور رد انقلابی تخلیقی مواد میں پیوست ہیں۔ تھامس جیفرسن، جس نے امریکی قرار داد آزادی لکھی، بذات خود بے تحاشا تضادات کا حامل انسان تھا۔ لیکن آئین کے حوالے سے اس کے خیالات بالکل واضح تھے جیسا کہ اس نے جیمز میڈیسن کو 1789ء میں ایک خط میں لکھا؛’’ہر آئین اور ہر قانون فطری طور پر 19سالوں بعد غیر فعال ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو زیادہ لمبا چلانے کی کوشش کی جائے تو پھر یہ حق کے پیرائے سے نکل کر جبر کے پیرائے میں آ جاتا ہے۔ ‘‘دہائیوں بعد، 1813ء میں اس نے اسی قسم کی بات جان وین ایپس کو ایک خط میں کی؛’’ لوگوں کی نسلوں کو اداروں یا کارپوریشن سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ ہر نسل کو اپنی بقا کے دوران اس دنیا سے استفادہ حاصل کرنے کا حق ہے۔ جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو یہ حق اگلی نسل میں منتقل ہو جاتا ہے، آزاد اور بغیر کسی قدغن کے اور پھر یہ ہر آنے والی نسل کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ ہم ہر نسل کو ایک علیحدہ اور واضح قوم کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس کے پاس اکثریتی رائے کے ساتھ یہ حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو تو بندھنوں میں باندھ رکھیں لیکن اگلی نسل کو نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح کسی دوسرے ملک کے باسیوں کو اپنے ساتھ باندھنے کا کوئی حق نہیں۔ ‘‘تھامس جیفرسن نے اپنے عہد میں پچھلی اور اگلی نسل کے درمیانی وقفے کے حوالے سے انیس سال کا ہندسہ استعمال کیا۔ کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے تو ایک نئی نسل کے حوالے سے آئین کے اطلاق کے 227سال بعد اب بہت وقت گزر چکا ہے اور ہمیں ان قانونی شقوں کو دیکھنا ہو گا جو ہم پر ابھی بھی حاکم ہیں۔ جب ایک چھوٹی آبادی نے آئین کا اطلاق کیا، اس وقت سے اب تک کچھ چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ کی ایک چھوٹی سابقہ کالونی سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور معاشی اور سامراجی طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے، اس کی حدود و رقبہ بے پناہ بڑھ چکا ہے اور اس کی آبادی 35لاکھ سے بڑھ کر 32کروڑ ہو چکی ہے۔ اپنے تئیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک حقیقی جمہوریت میں اکثریت رکھنے والے محنت کشوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کریں جس میں آئین میں ترمیم یا از سر نو تبدیلی کا حق بھی شامل ہے جسے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے لاگو کیا جاسکے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی آئین کے آرٹیکل 5 کے مطابق ایک آئینی کنونشن بلایا جا سکتا ہے۔ کئی ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں نے پہلے ہی علامتی طور پر اس حق کو استعمال کرنے پر ووٹ دے دیا ہے۔ اب تک آئین میں تبدیلی کرنے کی زیادہ تر کوششیں جنوبی ریاستوں کے قدامت پرستوں کی طرف سے کی گئی ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ ان کے ملک کا آئین ضرورت سے زیادہ لبرل ہے۔ جب تک امریکیوں کی بھاری اکثریت اس طرف نہیں چل پڑتی، اس وقت تک ہماری مجبوری ہے کہ ہم ان شقوں کے زیر سایہ زندگی بسر کریں۔ لیکن ہمارے پاس بے شمار خیالات ہیں کہ نیا آئین کیسا ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر:
امریکہ میں رہنے والے تمام لوگوں کیلئے مساواتی تحفظ، ووٹنگ اور شہریت کا حق۔
موجودہ حقوق کے بل کی روشنی میں تمام لوگوں کیلئے شہری حقوق۔
منتخب شدہ کونسلوں کے ذریعے براہ راست جمہوریت میں شرکت کا حق، تمام منتخب نمائندوں کو فوری واپس بلانے کا حق اور کسی بھی نمائندے کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔
’’اتنی بڑی کہ ناکام ہی نہیں ہو سکتی‘‘ والی تمام کمپنیوں کو ضبط کر کے قومی تحویل میں دیا جائے اور جمہوری ایڈمنسٹریشن کے تحت چلایا جائے۔ اس کی شروعات امیر ترین 500 کمپنیوں سے کی جائے۔
معیاری روزگار جس میں یکساں اجرت اور تحفظ ملے یا تعلیم کی آئینی گارنٹی۔
صحت، سیفٹی اور ماحولیات کیلئے ٹھوس اور مضبوط تحفظ۔
تمام لوگوں کیلئے مفت اور بہترین معیار کی صحت اور تعلیم کی سہولیات، محفوظ اور قابل استطاعت رہائش اور تسلی بخش سفری سہولیات۔
کام کے اوقات کار میں نمایاں کمی، چھٹیاں اچھی تنخواہ کے ساتھ اور بچے کی پیدائش پر والدین کیلئے تعطیلات۔
جیسا کہ ہم نے کئی بار وضاحت کی ہے، ہم امیروں کی جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں اپنی آواز اٹھانے کا ظاہری حق دیا جاتا ہے کیونکہ ننگے جبر کے بجائے نام نہاد جمہوریت کے ذریعے عوام کو قابو میں رکھنا آسان ہے اورحکمرانوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ ہم سب کو جبر کے ذریعے دبا کر رکھ سکیں۔ مستقبل میں، ایک سوشلسٹ آئین نئے ضوابط واضح کرے گا کہ ہماری اس دنیا میں زندگی گزارنے کی کیا توقعات ہیں۔
کوئی مینڈیٹ نہیں!
جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ٹرمپ عوام کی ایک چھوٹی اقلیت کے ذریعے منتخب ہوا ہے جن میں سے بہت سارے اسے رائج صورتحال کے خلاف احتجاجی ووٹ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ اس وقت اس کی پسندیدگی صرف 42فیصد پر کھڑی ہے اور یہ دوسری عالمی جنگ(جب سے یہ ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا) کے بعد سے کسی بھی نئے صدر کے پہلے دور حکومت کیلئے سب سے کم اشارئیے ہیں۔ بہر حال، یہ کیمپین کے دوران میں پسندیدگی کے اعداد و شمار سے زیادہ ہی ہیں کیونکہ بہت سے لوگ الیکشن کی تھکن کا شکار ہو کر ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے کیلئے زیادہ لمبا انتظار نہیں کرنا پڑے گا کہ وہ کیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ کروڑوں لوگ جو الیکشن کے عمل سے بیگانہ تھے اب نہیں ہیں۔ لاکھوں لوگ ابھی سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور آنے والے سالوں کی تکالیف اور دباؤ میں اپنا کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگرچہ بہت سارے لوگ سماج کے اس بحران کی وجہ سے وحشت کا شکار ہیں، مارکس وادی تاریخ کو دور اندیشی سے دیکھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس وقت ایک نئے سماج کی پیدائش کی تکالیف سہہ رہے ہیں۔ سرمایہ داری اس وقت یکسر مختلف طریقے سے انسانی پیداوار کی ترتیب، تقسیم اور تبادلے کی ضرورت سے حاملہ ہے۔ سوشلزم کیلئے مادی بنیادیں 1920ء کی دہائی سے موجود ہیں لیکن درکار مضبوط اور محنت کش طبقے کی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم دہائیوں سے سرمایہ داری کے تضادات میں پس رہے ہیں۔ تبدیلی کی ضرورت اپنی مدت سے بہت آگے جا چکی ہے، جیسے ایک بچہ پیدائش کیلئے معیادِ زچگی سے زیادہ وقت لے جائے اور اس وجہ سے اس عمل کا ایک مخصوص قسم کا مسخ شدہ کردار بن چکا ہے۔ مارکسی انقلابیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس پیدائش کے عمل کو جتنا تیز کر سکتے ہیں کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس عمل میں پرانا اور نیا سماج دونوں ہی دم توڑ جائیں۔
ہم پر اعتماد ہیں کہ آج کی نسل اس بدحالی کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتی ہے۔
محنت کشوں کی سوشلسٹ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرو جس میں اکثریت کی حقیقی حکمرانی ہے۔
IMT کے ممبر بنواور اس عمل کو تیز تر کرنے میں ہماری مدد کرو!