|تحریر: ہینڈز آف وینزویلا کمپین|
وینزویلا کا بولیوارین انقلاب اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ امریکی سامراج کی حمایت یافتہ دائیں بازو کی حزب اختلاف حکومت کی تبدیلی کے لئے مسلسل انقلاب دشمن کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پچھلے دو ماہ میں پرتشدد مظاہروں میں50 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اپوزیشن کے ان حملوں کے جواب میں شاویز کے حمایتی، جو کہ اکثریت میں ہیں، انقلاب اور اس کی حاصلات کو بچانے کے لئے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ حزب اختلاف کو امریکی سامراج کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور وہ مادورو حکومت کو ہٹانے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ مغربی میڈیا نے وینز ویلا کے حالات سے متعلق جھوٹ اور منافقت پر مبنی خبروں کا بازار گرم کر رکھا ہے اور کھل کر محنت کش دشمن قوتوں کی حمایت اور مظلوم ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مادورو حکومت کے خلاف پچھلے دو ماہ میں ہونے والے حزب اختلاف مظاہروں کو انتہائی پرامن مظاہرے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ دکھایا جا رہا ہے کہ یہ مظاہرین ’جمہوریت‘ کے لئے لڑ رہے ہیں جبکہ حقیقت اس سے کئی مختلف ہے۔ اکثر موقعوں پر یہ مظاہرے انتہائی متشدد تھے اور مظاہرین اور ان کے ساتھ موجود مسلح افراد نے پولیس کے خلاف دھماکہ خیز مواد، آتشیں اسلحے اور راکٹ لانچر سمیت ہر چیز کا استعمال کیا اور ان کے نشانہ عام لوگ اور سرکاری املاک بھی بنیں۔ کئی مظاہروں میں مجمع کی جانب سے پولیس پر اندھا دھند فائرنگ بھی کی گئی۔ یہ مظاہرے کسی طور بھی پرامن نہیں ہیں اور نہ ہی یہ مظاہرین جمہوریت اور الیکشنوں کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد مادورو حکومت کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مظاہرے پورے ملک یا پورے دارالحکومت میں نہیں ہو رہے بلکہ یہ اپوزیشن کے حمایت یافتہ علاقوں تک محدود ہیں جو کہ درمیانے طبقے اور اشرافیہ کے علاقے ہیں ۔ حزب اختلاف محنت کشوں کے علاقوں میں کوئی بھی خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ حالانکہ معاشی بحران کا سب سے زیادہ شکار یہ محنت کش ہی ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بولیوارین انقلاب کے دفاع کو تیار ہیں۔ مغربی میڈیا بولیوارین انقلاب اور اس کی حاصلات کے دفاع میں نکلنے والے شاویز کے حمایتی محنت کشوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کر رہا ہے۔ 19 اپریل اوراس کے بعد یوم مئی پر لاکھوں لوگ انقلاب کے دافع میں نکلے مگر کسی مغربی چینل نے یہ مناظر نہیں دکھائے۔ مغربی ذرائع ابلاغ وینزویلا کے معاشی بحران کو بنیاد بنا کر مسلسل سامراجی پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کو سوشلزم کی ناکامی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مادورو حکومت بھی مسلسل سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کو رعایتیں دے رہی ہے جو کہ بحران کی شدت کو بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ گوکہ وینزویلا کے محنت کشوں کی اکثریت ابھی تک بولیوارین انقلاب کے دفاع میں کھڑی ہے مگر ان میں مادورو حکومت کی پالیسیون کے خلاف شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ مگر مادورو کی حکومت اپنی طاقت سے کوئی کام سرانجام نہیں دے رہی اور نہ ہی اس کی کوئی حکمت عملی ہے۔ رواں سال اپریل کے مہینے میں نکولس مادورو نے ایکسپو وینزویلا پوٹینشیا 2017ء کے تجارتی میلے میں کچھ ایسی باتیں کیں جن کے نتیجے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ اس کی حکمت عملی عالمی اورقومی سرمایہ داروں کو رعایتیں دیتے جانا ہے۔ اْس نے اس بات کی تردید کی کہ ’’ایک گھٹیا کمپیئن ہمارے خلاف چلائی جا رہی ہے کہ ہمارا معاشی نظام کمیونسٹ ہے اور ہم نجی تجارت کو رد کرتے ہیں۔ ‘‘ اس کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے ’’90فیصد معیشت نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ‘‘ (دراصل وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ 90فیصد کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں جو کہ بہرحال معیشت کا ایک بہت چھوٹا حصہ بنتا ہے )۔ پھر ساتھ ہی اس نے مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں کیلئے مزید مراعات کا اعلان کر دیا جن میں بولیوارین اور ڈالر کرنسی دونوں میں ریاستی بینکوں سے قرضوں کی فراہمی شامل ہے اور فارن کرنسی ایکسچینج کے ضابطوں میں مزید نرمی شامل ہے جس سے نجی کمپنیوں کو ڈالروں تک زیادہ آسان رسائی حاصل ہو گی(وہ ڈالر جو تیل کی صنعت کے منافعوں سے حاصل کئے جاتے ہیں)۔
ہمیں 2002ء میں واقعی کْو کرنے والے تمام عناصر کی اس ریا کاری پر مبنی کمپین کی سخت مخالفت کرنا ہو گی جو اب مادورو کو اقتدار سے برطرف کرنا چاہتے ہیں اور وینزویلا میں بیرونی مداخلت کے مشتاق ہیں۔ اگر یہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں اس کامیابی کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہے: بولیوارین انقلاب کی تمام حاصلات کو تباہ کر دیا جائے گا، تمام سماجی فلاح کے کاموں کو ختم کر دیا جائے گا، قومیائی ہوئی اجارہ داریوں اور بڑی جاگیروں کو دوبارہ ان کے سابقہ مالکوں کو واپس کر دیا جائے گا، لیبر قانون کو ختم کر کے ریاستی اور نجی اداروں میں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو روزگار سے فارغ کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی، بعد از ریٹائرمنٹ پنشن میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی جائیں گی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کرتے ہوئے بنیادی جمہوری حقوق پر حملوں کی راہیں ہموار کی جائیں گی۔ اگر کسی کو اس تجزئیے پر کوئی شک و شبہات ہیں تو آپ کو صرف ارجنٹینا اور برازیل میں بر سر اقتدار آنے والی دائیں بازو کی حکومتوں کے ابتدائی اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وینزویلا میں یہ ہولناکی دس گنا زیادہ ہو گی۔
اس معاشی بحران سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں: ایک تو یہ کہ تمام پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ منڈی کو ’’معمول‘‘ کے مطابق کام کرنے دیا جائے جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقہ بحران کی تمام تر قیمت ادا کرے گا۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر مادورو حکومت شروع سے چل رہی ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں سے تمام تر ملکیت چھین لی جائے، معیشت کو جمہوری پیداواری طرز پر منظم کیا جائے جس سے عوام کی ضروریات کی تکمیل ہو اور ساتھ ہی خطے کے محنت کشوں اور کسانوں کو ایک عالمی اپیل کی جائے کہ وہ انقلاب کی مدد کو آئیں اور اسے برباد کرنے کی اپنے حکمران طبقے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرمایہ دار اس بحران کی قیمت ادا کریں گے۔