لاہور: لیون ٹراٹسکی کی تصنیف ”انقلابِ مسلسل اور نتائج و امکانات“ کے اردو ترجمے کی تقریبِ رونمائی

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور|

9دسمبر 2024ء کو انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے ”لال سلام پبلیکیشنز“ کی جانب سے شائع کردہ، انقلاب روس کے عظیم قائد لیون ٹراٹسکی کی تصنیف ”انقلابِ مسلسل اور نتائج و امکانات“ کے اردو ترجمے کی تقریبِ رونمائی لاہور پریس کلب میں منعقد کی گئی، جس کا عنوان تھا ”عہد حاضر میں نظریہ انقلابِ مسلسل اور سامراج کے خلاف جدوجہد“۔ یاد رہے کہ ٹراٹسکی کی اس شہرہ آفاق تصنیف کا یہ پہلا اردو ترجمہ ہے جو یاسر ارشاد نے کیا ہے۔ یہ تقریب انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی دو روزہ تاسیسی کانگریس کے بعد منعقد کی گئی تھی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنے والی انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا پاکستان سیکشن ہے۔

 

تقریب میں تاسیسی کانگریس میں شرکت کے لیے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، اٹلی اورسری لنکا سے آنے والے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے غیر ملکی مندوبین سمیت انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبران اور کمیونسٹ نظریات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما پارس جان نے ادا کیے۔ اس تقریب کی صدارت برطانیہ سے آنے والے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے مرکزی رہنما راب سیول نے کی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی برطانیہ سے فیونا لالی، اس کے علاوہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور کتاب کے مترجم یاسر ارشاد، آدم پال اور آفتاب اشرف نے اس پر بات کی۔

تقریب کے آغاز میں پارس جان نے لیون ٹراٹسکی کی انقلابی جدوجہد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انقلابِ روس کے بعد سوویت یونین میں پروان چڑھنے والی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی طرف سے لیون ٹراٹسکی اور اس کی تصانیف کو شجرِ ممنوعہ قرار دینے کے بعد یہاں کبھی بھی بائیں بازو نے نہ تو لیون ٹراٹسکی کی انقلابی جدوجہد کے بارے میں جانا اور نہ ہی اس کی تصانیف و آرٹیکلز کو پڑھا۔ مارکسزم میں کلاسیکل اہمیت رکھنے والی اس کتاب کو نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے میں پہلی بار اردو میں شائع کیا گیا ہے۔ پارس جان نے مزید کہا کہ ٹراٹسکی نے جس وقت نظریہ انقلابِ مسلسل پیش کیا تھا، اس وقت اس کی عمر محض 24 برس تھی۔ اس نے روس کے انقلاب کے کردار کی سائنسی تشخیص کی تھی جسے 1917ء کے انقلابی واقعات نے بالکل درست ثابت کیا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور کتاب کے مترجم یاسر ارشاد نے کہا کہ جب روس میں یہ بحث جاری تھی کہ روس کے انقلاب کا کیا کردار ہو گا تب 1905ء میں ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ روس کا سرمایہ دار طبقہ اپنی تاخیر زدگی اور خصی پن کے کارن اپنے تاریخی فرائض ادا نہیں کر سکتا اور روس جیسے پسماندہ ملک میں محنت کش طبقے کو کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے بورژوا جمہوری فرائض ادا کرنے ہوں گے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ صرف یہاں پر ہی نہیں رکے گا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے سوشلسٹ اقدامات کے ذریعے سماج کی سوشلسٹ تنظیم نو کا آغاز بھی کر دے گا۔ مزید برآں روس کا مزدور انقلاب عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سلسلے کی محض پہلے کڑی ہو گا۔

1917ء کے انقلابی واقعات نے ٹراٹسکی کا مؤقف بالکل درست ثابت کیا جبکہ لینن نے بھی اپنے راستے سے یہی نتائج اخذ کیے جس کا اظہار ہمیں اس کے مشہور ”اپریل تھیسز“ میں ملتا ہے۔ یوں ان دونوں عظیم مارکسی قائدین نے سیاسی و تنظیمی طور پر متحد ہو کر انقلاب روس کی قیادت کی۔ بعد ازاں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد بھی انہی اسباق پر رکھی گئی۔ یاسر ارشاد نے پاکستان سمیت دیگر مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ نظریہ انقلابِ مسلسل تمام پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مزدور جدوجہد کے آگے بڑھنے اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا واحد راستہ ہے۔

اس کے بعد برطانیہ سے فیونا لالی نے بات کی جو کہ برطانیہ میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں مرکزی سطح پر فلسطین یکجہتی کمپئین کی آرگنائزر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سامراجیت کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سامراج کے بارے میں جانیں کہ وہ ہے کیا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عظیم انقلابی اساتذہ لینن اور ٹراٹسکی کا مطالعہ کریں۔

فیونا نے حاضرین کو برطانیہ میں فلسطین یکجہتی کیمپئین کے حوالے سے اپنے تجربات سے آگاہ کیا اور کہا کہ برطانیہ جہاں خود ایک سامراجی ملک ہے اور پوری دنیا میں تباہی و بربادی پھیلا رہا ہے، وہیں برطانیہ کے اندر محنت کش طبقے کا خوفناک استحصال بھی جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم نوجوانوں اور محنت کشوں کو کمیونسٹ نظریات سے مسلح و منظم کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد میں مزید شدت لائیں تاکہ پورے کرہ ارض سے سرمایہ داری و سامراج کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمگیر غیر طبقاتی سماج تعمیر کیا جا سکے۔

اس کے بعد انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما آفتاب اشرف نے پارٹی اور نظریات پر بات کی اور کہا کہ ضیاء آمریت کے بعد سیاسی جماعتیں صرف زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں اور شخصیات کے گرد گھومتی رہی ہیں جبکہ اس سے پہلے کسی حد تک یہ رجحان موجود تھا کہ سیاسی جماعتیں نظریات کے گرد بنتی تھیں۔ لیکن دہائیوں کی نظریاتی، سیاسی و تنظیمی تیاری کے بعد اب ہم نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی لانچ کی ہے جو واضح طور پر مارکسزم، لینن ازم یا کمیونزم کے انقلابی نظریات پر کھڑی ہے اور اس کا واشگاف اعلان ہے کہ ہم نے پاکستان کے اندر محنت کش طبقے کی طاقت کے بلبوتے پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے اور مزدور ریاست و منصوبہ بند معیشت قائم کرتے ہوئے یہاں کے محنت کش عوام کو تمام دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلانی ہے۔ مزید برآں انہوں نے آج پاکستان، انڈیا اور دیگر پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیاب جدوجہد کے لیے ٹراٹسکی کے نظریہ انقلابِ مسلسل کی ضرورت و اہمیت پر بھی تفصیلی بات رکھی۔

اس کے بعد انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما آدم پال نے پاکستان میں ہونے والے 68-69ء کے انقلاب پر بات کی اور اس وقت کی سٹالنسٹ اور ماؤاسٹ پارٹیوں کی نظریاتی غداری اور مرحلہ وار انقلاب کے رد انقلابی نظریے پر بات کی جس کے تحت ان پارٹیوں نے انقلاب پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا۔

آدم پال نے مزید کہا کہ اس وقت ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ آپ کا نظریہ درست ہو اور آج انہی درست نظریات کے گرد پاکستان میں ہم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کر رہے ہیں تاکہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر میں ایک رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کو قائم کر سکیں اور ٹراٹسکی کی تصنیف کا اردو ترجمہ اس انقلابی جدوجہد میں تاریخی کردار ادا کرے گا۔

تقریب کے آخر میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے مرکزی قائد راب سیول نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ راب سیول کا کہنا تھا کہ نظریہ انقلابِ مسلسل کے ابتدائی خدوخال مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ 1850ء میں مارکس اور اینگلز نے ”کمیونسٹ لیگ کی سنٹرل کمیٹی سے خطاب“ میں 1848ء میں یورپ میں برپا ہونے والے انقلابات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے جرمن لبرل بورژوازی کے غدارانہ کردار کے بارے میں لکھا تھا اور ساتھ ہی محنت کش طبقے کے آزادانہ کردار اور انقلاب کو مسلسل بنائے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

ٹراٹسکی نے روس کے مادی حالات کے جدلیاتی تجزیے اور مارکس و اینگلز کی ان بحثوں کی روشنی میں نظریہ انقلابِ مسلسل کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد پر روس میں اکتوبر 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا گیا۔ آخر میں راب سیول کا کہنا تھا کہ مارکس وادیوں کے لیے یہ اہم سوال نہیں ہے کہ انقلاب ہو گا یا نہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب کامیاب ہو گا یا نہیں اور اس کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور انٹرنیشنل کی تیز تعمیر انتہائی لازمی اہمیت کی حامل ہے۔ آخر میں محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر تقریب کا اختتام کیا گیا۔

Comments are closed.