|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|
بلوچستان یونیورسٹی کے تمام ملازمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام پچھلے ایک مہینے سے اپنے بنیادی مطالبات کی منظوری کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ کے لیکچررز، پروفیسرز، اکیڈمک سٹاف، کلیریکل سٹاف اور دیگر ملازمین پر مشتمل ایک اتحاد ہے جس کا مقصد اپنے مطالبات کیلئے اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنا ہے۔ تا حال حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ملازمین کے مطالبات کی حتیٰ کہ شنوائی تک نہیں کی گئی۔ 31 مارچ 2021ء بروز بدھ ان کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں پہلے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور بعد میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ملازمین مندرجہ ذیل بنیادی مطالبات کی منظوری کیلئے سراپا احتجاج ہیں:
1۔ ملازمین کو ہاؤس ریکوزیشن اور دیگر الاؤنسز سمیت مکمل تنخواہ دی جائے۔
2۔ تمام پنشنرز کو بر وقت پنشن ادا کی جائے۔
3۔ جامعہ کے 87ویں اور 88 ویں اجلاس میں کئے گئے فیصلے کے مطابق گروپ انشورنس، ہیلتھ کارڈ، بینوولنٹ فنڈ، افسران کی پروموشن، شعبہ کیمسٹری اور پشین کیمپس کے مستقل آرڈرز، فوت ہوچکے ملازمین کے لواحقین کی تعیناتی، ملازمین کے اوور ٹائم اور اساتذہ کے ایم فل اور پی ایچ ڈی امتحانات کے بلز کی فوراََ ادائیگی کی جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی واحد یونیورسٹی ہے جہاں سرکاری ہونے کی وجہ سے تعلیم مفت فراہم کی جاتی تھی لیکن جوں ہی سمیسٹر سسٹم متعارف کرایا گیا تو طلبہ سے فیسیں بٹورنے کا عمل شروع ہوا اور ساتھ ہی سیلف فنانس کورسز بھی متعارف کرائے گئے تاکہ ان کی مد میں بھی مال بٹورا جا سکے۔ اتنی فیسیں لینے کے باوجود جامعہ بلوچستان 1 ارب بیس کروڑ سے زائد کی قرض دار ہے اور بدستور مالی بحران کا شکار ہے۔ لہٰذا اس مالی بحران کا سارا بوجھ طلبہ اور ملازمین پر ڈالا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے فیسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، اور ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے اور ان کی بروقت ادائیگی نہیں کی جا رہی۔ اس کے خلاف ملازمین نے 22 مارچ 2021ء کو یوم سیاہ منایا اور 24 اور 25 مارچ کو احتجاجی مظاہرے اور ریلی کا انعقاد کیا۔ ریلی آرٹس فیکلٹی کے سامنے سے شروع ہوئی اور مختلف ڈپارٹمنٹس کے سامنے سے ہوتے ہوئے ایڈمن بلاک کے سامنے پہنچ کر ایک جلسے کی شکل اختیار کرنے کی صورت میں اختتام پزیر ہوئی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں اور روز اول سے ملازمین کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے مالی بحران کی ذمہ دار جامعہ کی کرپٹ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی ہے جو عالمی مالیاتی سامراجی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر سامراجی قوتوں کے گماشتہ ہیں اور ان کا کام ان عالمی سامراجی قوتوں کی بنائی گئی پالیسیوں کو اس ملک میں لاگو کرنا ہے۔
ان مزدور دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں آج تمام سرکاری اداروں اور نجی اداروں کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔ بالخصوص حالیہ عرصے میں سرکاری اداروں کے محنت کشوں کے چند ملکی سطح کے اتحاد بھی تشکیل پائے ہیں جنہوں پچھلے سال کے اواخر میں اور 2021ء کے آغاز میں ملک گیر سطح کے دیو ہیکل احتجاج بھی کیے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے حالیہ مالی بحران اور اس کے اثرات کے نتیجے میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام جاری احتجاجی تحریک فی الوقت صوبے بھر میں جاری دیگر احتجاجی تحریکوں اورمزدور تنظیموں سے الگ تھلگ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جامعہ کے ملازمین کو چاہئیے کہ وہ اس جدوجہد میں دیگر اداروں کے ورکرز سے یکجہتی کی اپیل کریں اور ان کی جدوجہد میں بھی ان کا ساتھ دیں۔ اسی طرح صوبے میں جاری دیگر احتجاجی تحریکوں میں شامل محنت کشوں کو بھی جامعہ کے ملازمین کے ساتھ یکجہتی کرنی چاہئیے تا کہ اکٹھے ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اسی میں سب کا فائدہ ہے۔ اسی طرح ملک گیر مزدور اتحاد قائم ہوگا جو اس عام ہڑتال جیسے اقدام کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک وقت آنے پر سرمایہ دارانہ نظام کا بھی تختہ الٹ ڈالے گا۔