|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
یونائیٹڈ ٹیچرز کونسل کی زیر قیادت گذشتہ روز پنجاب بھر سے آئے اساتذہ نے سکولوں کی نجکاری اور پنجاب حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف پنجاب اسمبلی سے سیکرٹریٹ تک احتجاجی ریلی نکالی اور پنجاب سول سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دیا۔ دھرنے میں پنجاب بھر سے آئے مرد و خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ مظاہرین نے حکومت کی نجکاری اور تعلیم و اساتذہ دشمن پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
احتجاجی اساتذہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں نے اساتذہ کا جینا اجیرن کر دیا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب میں آج بھی استاد کا سکیل اور مرتبہ ایک کلرک سے کم ہے، بار ہا تحریری اور زبانی وعدوں کے باوجود تا حال اساتذہ کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کی بجائے تعلیمی اداروں کی PEF کو حوالگی اورسنٹر آف ایکسیلنس کے نام پر نجکاری کا عمل شروع کر کے محکمہ ایجوکیشن کی بساط لپیٹنے کی کوشش بھرپور طریقے سے جاری ہے اور پنجاب کے کئی سکولوں کو پیف اور دانش اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ہتھکنڈوں اور مانیٹرنگ ٹیموں سے اساتذہ پر جبر کیا جا رہا ہے اور ان کو ذہنی اذیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ آؤٹ آف سلیبس PEC امتحانات اور ڈراپ آؤٹ کی آڑ میں اساتذہ کرام اورہیڈماسٹروں کی تنخواہوں سے کٹوتی اور دور درازعلاقوں میں ٹرانسفر جیسی سزائیں دے کر ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اسٹوڈنٹس کی غیر حاضری کا مورد بھی اساتذہ کو ٹھہرایا جا تا ہے۔ ہفتے میں ملنے والی ایک چھٹی غیر تدریسی ڈیوٹیاں لگا کر ہڑپ کر لی جا تی ہے۔ یہ حکمران نہیں چاہتے کہ اس ملک کے بچے پڑھ لکھ سکیں۔ کئی اساتذہ اس مستقل ذہنی اذیت سے تنگ آکر ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ کنٹریکٹ پر بھرتی کئے گئے ہزاروں اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جا رہا۔
اساتذہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت نے جبر کے اس سلسلے کو بند نہ کیا تو وہ سکولوں کی تالابندی کریں گے اور اپنے مطالبات کی منظوری تک تعلیمی بائیکاٹ کریں گے۔ دیگر مطالبات میں تمام کنٹریکٹ ٹیچرز کی فوری مستقلی اور آئندہ کے لئے اساتذہ کی مستقل بنیادوں پر بھرتی، تمام ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو بلاتفریق ہائر کوالیفیکیشن الاؤنس کی ادائیگی اور میونسپل ٹیچرز و ہیڈ ٹیچرز کی زیر التواء سنیارٹی، پروموشن اور ٹیچرز پیکیج کا فی الفور اجراء شامل ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان اس احتجاج میں اساتذہ کے شانہ بہ شانہ شامل رہے اور اس احتجاج کو اپنے فیس بک پیج پر لائیو نشر بھی کیا۔
اس دوران اساتذہ قیادت کو ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن نے مذاکرات کے لئے بلایا۔ مذاکرات کے دوران اساتذہ نے ایجوکیشن سیکرٹری کے دفتر کے باہر بارش کے باوجود احتجاج جاری رکھا۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والے مذاکرات نتیجہ خیر ثابت نہ ہو سکے جس کے بعد یونائیٹڈ ٹیچرز کونسل کے مرکزی کنوینر طارق محمود نے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے 2 فروری سے تعلیمی بائیکاٹ کا علان کر دیا ہے اور 28فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے پنجاب بھر کے اساتذہ اپنے مطالبات کی منظوری تک دھرنا دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب ایجوکیشن کمیشن کے تحت ہونے والے پانچویں اور آٹھویں کے امتحانوں کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
اساتذہ کے ان مطالبات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صرف اساتذہ ہی ان مسائل سے دوچار نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل پاکستان کے ہر سرکاری و غیر سرکاری ادارے کے تمام محنت کشوں کے مسائل ہیں۔ پی آئی اے، واپڈا، سوئی گیس، ریلوے، سٹیل مل ، ڈاکٹرز، ٹیچرزاور دیگر سرکاری ادارے سب نجکاری اور دیگر مطالبات کے لئے پورے پاکستان میں سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف نجی اداروں کے محنت کشوں کو تو کوئی پرسان حال نہیں۔ ان نجی اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ استحصال اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ٹھیکیداری نظام نے محنت کشوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ گڈانی کا سانحہ ہمارے سامنے ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے آج قریباً ہر ادارے کے محنت کش بکھرے ہوئے احتجاجوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آئے روز ہونے والے یہ احتجاج اور اس کے بعد قیادت کی غداریاں ان کے شعور میں انقلابی تبدیلیاں مرتب کر رہے ہیں۔ ان تمام تحریکوں کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو سب کے نتائج تقریباً ایک جیسے ہی ہیں، یعنی صرف وقتی وعدے اور پھر کچھ نہیں۔ مستقبل قریب میں ان شکستوں اور غداریوں سے اسباق حاصل کرتے ہوئے یہ محنت کش علیحدہ علیحدہ جدوجہد کی بجائے یک جان ہو کر اپنے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد میں اتریں گے۔