رپورٹ: | ولید خان |
یونائیٹڈ ڈیٹرجنٹ فیکٹری (UD) قلعہ ستار شاہ سٹاپ، شیخوپورہ پر واقع ہے جس کا کام یونی لیور پاکستان کیلئے Surf Excel, Vim اور Sunlight بنانا ہے۔ فیکٹری تقریباً بیس سال سے کام کر رہی ہے۔ یومیہ پراڈکشن تقریباً ڈیڑھ سو سے دو سو ٹن ہے۔ یہاں تین ٹھیکیداروں کے ذریعے تین شفٹوں میں مجموعی طور پر پانچ سو فیکٹری ملازمین ہیں جبکہ کچھ پرے ہٹ کر یونٹ دوم میں تقریباً سو ملازمین ہیں۔
2010ء تک ملازمین فیکٹری کے زیرِ انتظام تھے جبکہ اسی سال اچانک ایک رات میں سب کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں کسی لیبر قانون کا کوئی اطلاق نہیں۔ پچھلے سال ستمبر اکتوبر میں فیکٹری ملازم عامر خان کی قیادت میں ملازمین نے ایک یونین بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ یونین رجسٹر تو ہو گئی مگر فیکٹری کی واحد یونین ہونے کے باوجود لیبر افسر CBA لیٹر دینے سے انکاری تھا۔ لیبر افسر کی ملی بھگت کے ساتھ فیکٹری مالک میاں طاہر نے رجسٹرڈ یونین کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے ٹوڈیوں کے نام ڈال کر ایک نام نہاد یونین کی درخواست سے دی۔ معاملہ لیبر کورٹ میں چلا گیا اور ہمیشہ کی طرح فیکٹری مالک، لیبر افسر اور کورٹ کی ملی بھگت سے کیس التوا کا شکار ہو گیا۔ اس دوران نام نہاد لیبر لیڈر چوہدری اشرف جو خود یونین کا جنرل سیکرٹری بننا چاہتا تھا مالک کے ساتھ ہر کاسہ لیسی میں برابر کا شریک رہا۔ اسی دوران میاں طاہر کی شہ پر ٹھیکیداروں نے ملازمین کو ہراساں کرنا شروع کر دیا کہ کسی طرح وہ یونین کا ساتھ چھوڑ دیں۔ اس میں حاضریاں نہ لگانا، دیہاڑی میں کٹوتیاں کرنا، فیکٹری گیٹ بند کرنا وغیرہ کی طرز پر ہتھکنڈے شامل تھے۔ مزدوروں نے ان ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر اور کسی لیبر مراعت کی عدم موجودگی کی وجہ سے 20جنوری 2016ء کو اپنے حقوق اور ان تادیبی کاروائیوں کے خلاف ہڑتال کر دی۔
ہڑتال صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک جاری رہی جس کے بعد مالک میاں طاہر، انتظامیہ، لیبر افسر شاہد ڈوگر اور یونین قیادت نے لیبر قوانین کے اطلاق کا معاہدہ کیا۔ معاہدہ ہونے کے باوجود میاں طاہر اپنی چالبازیوں سے باز نہ آیا اور اس نے رات کے اندھیرے میں ٹھیکیداروں کو ساتھ ملا کر مزدوروں کو دھوکا دیتے ہوئے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوائے اور دستخط کروائے۔ اس سازش میں بدنامِ زمانہ دیہاڑی باز لیبر لیڈر چودھری اشرف ، مالک کے ٹوڈی مزدور اور بدنامِ زمانہ دیہاڑی باز لیبر افسر نعیم شامل تھے۔ اسٹام میں یہ بعد میں لکھا گیا کہ فیکٹری کے مزدور یونین قیادت پر اعتماد کھو چکے ہیں اور ان کی جگہ غداروں کو یونین کے عہدے دئے جائیں۔ساتھ ہی حاضریوں کا نہ لگنا، فیکٹری گیٹ کا بند کرنا ، ڈیلی ویجز کے پرانے ملازمین کی جگہ نئے ملازمین وغیرہ معاملات چلتے رہے۔ معاہدہ کے مطابق لیبر قوانین کے اطلاق کی بات بھی آئی گئی ہو گئی۔ لیبر کورٹ نے اپنے روائتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے یونین کے CBA لیٹر کے کیس میں مالکان کے ساتھ ساز باز کر کے تاریخ پر تاریخ کی روش اختیار رکھی۔ مزدوروں نے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے، زیادتیوں اور وعدوں کی خلاف ورزیوں پر 20 مارچ کو مکمل ہڑتال کی کال دے دی۔
ہڑتال کے آغاز سے ہی مالکان اور مقامی انتظامیہ نے ہڑتال توڑنے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔ پہلے رات کے اندھیرے میں پولیس سے فیکٹری گیٹ پر موجود مزدوروں پر لاٹھی چارج کروایا جس کی قیادت بدنامِ زمانہ انسپکٹر خضر کر رہا تھا۔ حملے میں میں چاقوؤں کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ پانچ مزدور لاٹھیوں اور چاقوؤں سے شدید زخمی ہوئے جبکہ پولیس قیادت کو حوالات لے گئی۔
اگلے دن 23 تاریخ کو فیکٹری مزدوروں نے شیخوپورہ روڈ، قلعہ ستار شاہ اسٹاپ پر بلاک کر دی جس کی وجہ سے میلوں لمبا ٹریفک جام ہو گیا۔ مقای انتظامیہ، گاؤں کے سر پنچ، برادریوں کے سر براہ، کونسلر وغیرہ سڑک کنارے کھڑے بے بسی سے ہاتھ ملتے رہے۔ ارد گرد کی آبادیوں اور فیکٹریوں سے مزدوروں کا جمگھٹا لگ گیا اور آخری اطلاعات پر تقریباً دو ہزار لوگ اکٹھے تھے۔ مزدوروں نے انتظامیہ، فیکٹری مالکان اور پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور قیادت کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بے بس ہو کر ایک گھنٹہ کے اندر انتظامیہ قیادت کو حوالات سے واپس لے آئی۔ مزدوروں نے سڑک چھوڑ دی اور ہڑتال پہلے سے زیادہ جوش اور ولوے سے چلتی رہی۔ مزدوروں کی اکثریت قریب کے دیہی علاقے سے ہے۔ میاں طاہر نے پانی کی طرح پیسہ بہانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اس نے مقامی اٹھائی گیروں، بدمعاشوں اور نام نہاد سیاسی لوگوں کو ساتھ ملایا جن میں جج بھٹی ،گل آغا، چودھری نور سرا، میاں شفی جو نواز شریف کا ہم زلف ہے، میاں شہباز شریف کا بیٹا سلمان شریف اوررانا پرویز وغیرہ شامل تھے۔ ان کے ذریعے گاؤں کی برادریوں کے سربراہان کو سیاسی لالچ، پیسے وغیرہ دے کر مقامی مزدوروں کو توڑا گیا۔ مزدوروں کے اندر سے لوگوں کو شدید دھمکیاں، جسمانی تشدد اور گھروں کو برباد کرنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ پیچھے ہٹنے کی صورت میں روپیہ پیسے کا لالچ دیا جاتا رہا۔
ہڑتال کو چلتے آٹھ دن ہو چکے تھے۔ میاں طاہر کسی طرح مذاکرات پر آنے کو تیار نہیں تھا۔ مزدوروں پر اپنی برادریوں کے سر پنچوں کا بے پناہ دباؤ تھا۔ ہتھیاروں سے لیس غنڈے کھلے عام فیکٹری کے اندر گھوم پھر رہے تھے اور ہتھیار دکھا دکا ڈرا دھمکا رہے تھے۔ایسی صورتحال میں مذاکرات کی آخری کوشش ایمکو ٹائلز اور شیرِ بنگال لیبر کالونی کے اہم بزرگ مزدور رہنما چودھری رشید کی کاوشوں سے ڈسٹرکٹ لیبر آفیسرنعیم، جو شروع سے میاں طاہر کے ساتھ ساز باز کر رہا تھا، کے آفس پر ہوئی جس میں لیبر افسر، یونین قیادتچودھری رشید اور میاں طاہر بیٹھے۔ تمام تادیبی کاروائیوں کو بند، تمام مزدوروں کی فیکٹری میں واپسی اور لیبر قوانین کے اطلاق کا معاہدہ کیا گیا۔ تحریری معاہدے پر لیبر افسر نعیم، فیکٹری مالک طاہر ، یونین صدر عامر خان اور جنرل سیکرٹری راشد کے دستخط موجود ہیں۔تحریری معاہدہ ہونے کے بعد مزدوروں نے ہڑتال ختم کر دی اور واپس آ کر کام شروع کر دیا۔ تاحال میاں طاہر اور لیبر افسر نعیم نے معاہدہ پر عملدار آمد نہیں کیا ۔ ساتھ ہی چھ مزدور جس میں ساری یونین قیادت شامل ہے ان پر فیکٹری گیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ مزدور پھر دوبارہ دھوکے پر شدید غم و غصے میں ہیں اور قیادت کے ساتھ پر اعتماد ہو کر اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔