عمر کوٹ: ڈاکٹر شاہنواز کا ریاستی قتل، ملائیت بمقابلہ عوامی مزاحمت

|تحریر: علی عیسیٰ|

مملکت خداداد پاکستان کا جنم ہی برطانوی سامراج کے خطے میں مسلط کردہ ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ کی پالیسی کے تحت مذہب کے نام پر بے شمار معصوم لوگوں کے قتل، عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں، محنت کش عوام کو تقسیم کیے رکھنے اور مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کے انکار پر ہوا تھا۔ جسے دو قومی نظریہ کا نام دے کر سامراجی قوتوں اور ان کے پالتو پاکستانی حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ یہاں تک کہ یہاں توہینِ مذہب کے قوانین بھی برطانوی سامراج کی طرف سے متعارف کروائے گئے۔

مختصراً یہ کہ 1947ء سے لے کر اب تک ریاست پاکستان کا سرسری سا جائزہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ مذہبی جنونیت، رجعت اور وحشت ہمیشہ سے ہی ریاست پاکستان اور یہاں کے حکمران طبقے کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک رہے ہیں۔ اسی طرح مذہب کو بطور اوزار استعمال کرتے ہوئے محنت کش عوام کی جدوجہد کو منتشر کرنے کا کام لیا گیا۔ کسی عوامی تحریک یا مزاحمت کے امکانات تک کو دبانے کے لیے مذہبی ملاؤں سے بھلا کوئی دوسرا بہتر تنخواہ دار کون ہو سکتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے یہی ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جہاں ایک طرف گلگت، کشمیر، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں عوام اپنے بنیادی حقوق اور ریاستی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ تو دوسری جانب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑے ہی منظم طریقے سے ریاستی آشیر باد سے جڑانوالہ میں مسیحی اقلیت کے گھروں کو جلانا، سوات میں سیالکوٹ کے رہائشی کو توہین مذہب کے نام پر قتل کرنا، کرم اور گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانا، پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ پر گستاخی کے فتوے لگوانا، کشمیر کی عوامی تحریک پر الحادکے الزامات لگانا وغیرہ سے لے کر کوئٹہ اور عمر کوٹ میں پولیس کی تحویل میں شہریوں کا قتل ہونا شامل ہیں۔ یہ تمام واقعات وہ ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں اور ایسے دیگر نہ جانے کتنے ہی سانحات اقلیتی برادریوں کو در پیش ہیں۔

ویسے تو اس حوالے سے کوئی خاص اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ چند ایک سروے موجود ہیں جن کے مطابق یہاں مذہبی آزادی کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کے مطابق 2020ء سے لیکر 2022ء تک 64 افراد کو توہین مذہب کے مقدمات کا سامنا تھا جو کہ 2022ء میں بڑھ کر 213 اور جون 2024ء تک 705 تک آن پہنچے ہیں، جن میں اکثریت کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ سی آر ایس ایس نامی ویب سائٹ پر ایک ریسرچ پیپر میں ان وحشت ناک واقعات کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہوئے یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستانی کے درندہ صفت آمر ضیاء الحق کے دور حکومت سے 2021ء تک ان واقعات کی شدت میں 1300 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جن میں 1098 واقعات پنجاب میں، 177 سندھ میں، اسلام آباد میں 55، خیبرپختونخواہ میں 33، بلوچستان میں 12 اور پاکستان کے زیر تسلط کشمیر میں 11 ایسی رپورٹیں درج ہوئی ہیں۔

ان کیسز میں 70 فیصد مسلمان نوجوانوں ہیں جن پر توہینِ مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ کم و بیش یہی رپورٹ ہیومن رائٹس واچ کی بھی ہے۔ کلونی فاؤنڈیشن آف جسٹس نامی ادارے کی جانب سے توہین مذہب کے 24 کیسز پر چھ ماہ مسلسل نگرانی کے بعد ایک رپورٹ ترتیب دی گئی ہے۔ جس کے مطابق ان تمام مقدمات کی سنوائی انتہائی یک طرفہ ہوتی ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کیسز کی مجموعی طور پر 252 سماعتیں مقرر ہوئی ہیں جن میں 217 منسوخ کی جا چکی ہیں۔ اسی طرح بیشتر لوگوں پر توہین مذہب کے الزامات کے شواہد بھی موجود نہیں یہاں تک کہ جو ان کیسز کے مدعی بن کر سامنے آتے ہیں وہ واقعات کے شاہد یا گواہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔

درج بالا رپورٹس اور سروے اس خوفناک سچائی کو بیان کرنے کی محض ایک مختصر سی جھلک پیش کرتے ہیں۔ یہ واقعات ریاست پاکستان اور پاکستانی حکمران طبقے کے رجعتی کردار کی وضاحت کرنے کے لیے کافی ہیں اور دوسری جانب حکمرانوں کی آپسی لڑائی کے سبب ریاست اپنی داخلی بحران کے زد میں ہے جو ریاست کے کھوکھلے پن کو عیاں کرتی جا رہی ہے۔ جس کا اظہار عوام کے اعلیٰ مزاحمتی شعور میں ہو رہا ہے۔

کشمیر کی تحریک پر ریاست کے رجعتی ملاؤں کے حملے کا عوام کی جانب سے بھرپور جواب دیا گیا جس پر ملاؤں کو فتویٰ واپس لینا پڑا۔ اسی طرح سندھ میں انتہائی غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب بغیر کسی شواہد و تحقیقات کے ڈاکٹر شاہنواز نامی شخص کو پولیس کی تحویل میں قتل کر کے اس کی لاش کو چند درندہ صفت گدھ نما ملّاؤں کو نوچنے کے لیے دے دیا گیا۔ تو وہاں پریمو کولہی نامی ایک ہندو محنت کش نے اس لاش کو اپنے کندھوں پر رکھ کر ان وحشیوں سے بچایا۔ یہ محنت کش طبقے کی اعلیٰ انسانی اقدار کا ثبوت ہے۔

دوسرے دن سندھ بھر سے ترقی پسند کارکنان، فنکاروں اور محنت کش عوام کی جانب سے رقص اور موسیقی کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہنواز کو دفن کیا گیا جو نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کے منہ پر زور دار تھپڑ کی مانند ہے بلکہ یہ ریاست پاکستان کی رجعتی پالیسیوں کے خلاف بھی اعلان جنگ ہے۔ اسی طرح ابتدا میں سندھ حکومت کی جانب سے ملزمان کو بچانے کے لیے بھرپور کوشش کی گئی۔ پہلے حکومت نے محض پولیس افسران کو برطرف کر کے معاملے کو دبانے اور عوامی غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر عوامی غیض و غصب کے سامنے سندھ پر مسلط پیپلز پارٹی کی سرکار کو جھکنے پر مجبور ہونا پڑا اور وزیر داخلہ کی جانب سے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا۔

جہاں محنت کش طبقے نے اس واقعے پر مزاحمت کا مظاہرہ کیا وہیں دوسری طرف اس واقعے کے فوری بعد بالخصوص ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پیرا میڈیکس ایسو سی ایشن کی جانب سے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی گئی بلکہ ڈاکٹر شاہنواز کے گھر پر جاکر اظہارِ تعزیت بھی کیا گیا۔

یعنی محنت کش عوام کا شعور اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ انہیں اب کسی بھی قسم کی گھٹیا سازشوں اور جھوٹ کے ساتھ مزید بیوقوف نہیں رکھا جا سکتا، لہٰذا حکمران طبقے کا رجعت پرست پالیسی مسلط کرنے کا ہر ارادہ بھی ان کے اپنے گلے کا طوق بن کر عوامی مزاحمت میں اضافے کا باعث بنے گا۔

اس واقعے نے جہاں ملاؤں کی غنڈہ گردی اور ان کی پشت پر بیٹھی پیپلز پارٹی اور ریاستی قوتوں کو بے نقاب کیا ہے، وہیں عوامی مزاحمت میں واضح پروگرام کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے لبرل بیوپاری، سول سوسائٹی اور فورمز کی جانب سے ریاست، ریاستی اداروں اور بالخصوص پی پی پی سرکار سے امیدیں باندھ کر بیٹھے ہیں جو کہ بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ریاست پاکستان کا وجود ہی مذہب کے نام پر ہوا ہے اور مذہبی انتہا پسندی کی پشت پناہی اس کی رگ رگ میں خون کی طرح رچ بس چکی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کا خاتمہ کرنے کا مطلب کیا ہو گا؟
ایسا کرنا ریاست کی جانب سے اپنی تخلیق کی وجہ سے انکار کرنا بلکہ محنت کش عوام کو تقسیم رکھنے اور مظلوم قومیتوں کی تحریکوں پر حملے کرنے کے ایک اہم ترین اوزار کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ بھلا پاکستان کے حکمران طبقے کی جانب سے اس طرح کی بیوقوفی کی جا سکتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اسی طرح فوجی جرنیلوں کی جانب سے افغانستان میں مسلسل مداخلت کے لیے بھی مذہبی انتہا پسندی ضروری ہے۔ اسی طرح ہندو دشمنی، دو قومی نظریہ وغیرہ کا خاتمہ مذہبی انتہا پسندی سے منسلک ہے جس کا خاتمہ نہ صرف پاکستان کے جواز کا خاتمہ ہے، ساتھ ہی ساتھ فوجی و دفاعی بجٹ یا فوجی دھندے کے جواز کا بھی خاتمہ ہو گا۔

دوسری جانب عدلیہ سے عدل و انصاف کی امید رکھنا یا جوڈیشل کمیشن کو اس مسئلے کا حل گرداننا، ان شہدا بالخصوص ڈاکٹر شاہنواز کے خون سے غداری ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں میں اقتدار کی لڑائی کے گرد بننے والا حالیہ عدالتی بحران بھی اس بات کا اعلان ہے کہ یہ عدالتیں اس ملک کے حکمر ان طبقے اور چند جرنیلوں کی رکھیل ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور یہ ساری انتہا پسندی ا نہی ریاستی اداروں کی دین ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ”جمہوریت کی چمپئن“ پیپلز پارٹی ہی مسیحا کا کردار ادا کرے گی، لیکن سندھ سمیت پاکستان بھر کے محنت کش پیپلز پارٹی کی مزدور دشمنی اور رجعتی کردار سے بخوبی واقف ہے۔ جس پیر (مولوی) کے اشارے پر نہ صرف ڈاکٹر شاہنواز کا قتل ہوا ہے بلکہ اس سے قبل نہ جانے کتنے ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا گیا ہے، ان تمام واقعات میں ملوث ان پیروں کی پناہ گاہ پیپلز پارٹی ہی رہی ہے۔

مختصراً، پارلیمان کی جانب سے کوئی اصلاحی قانون، عدلیہ کی جانب سے انصاف اور پیپلز پارٹی سے امیدیں نہ صرف دیوانے کا خواب ہیں بلکہ ملائیت کے خلاف مزاحمت کرنے والی عوام کی توہین بھی ہیں۔

حل کیا ہے؟

آج عالمی سرمایہ دارنہ نظام دنیا بھر میں ناکام ہو چکا ہے جس کے سبب اس کا رجعتی پن صاف دکھائی دے رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک تباہ کن نامیاتی بحران کی زد میں ہے۔ یہ ایک سماجی نظام کا اپنی حدود کو پہنچ کر ترقی پسند کردار ادا کرنے سے قاصر ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ ایسے میں کوئی بھی سماجی نظام سوائے بھوک، بدحالی، غربت اور رجعتیت کے علاوہ عوام کو کچھ بھی مہیا نہیں کر سکتا۔

انڈیا میں مودی سرکار کا مذہبی تعصب کو فروغ دینا، فرانس میں مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی اور عوامی تحریکوں کو زائل کرنے کے لیے تمام مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے فروغ سمیت دنیا بھر میں حکمران طبقے کے اقدامات ایسے ہی رجعتی اقدامات کو فروغ دے رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی محض کسی ریاست، حکمران یا اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ حتمی تجزیے میں یہ سرمایہ داری کے بحران کا نتیجہ ہے۔

مختصراً، پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ صرف چند جرنیلوں یا کسی ایک ادارے کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ نامیاتی طور پر پاکستانی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا اس کے خاتمے کے لیے پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کرنا ہو گا، جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے سوا لبرل ازم اور قوم پرستی پر مبنی باقی تمام نام نہاد حل محض دھوکہ دہی اور فریب پر مبنی ہیں جو سوائے عوام کی تکلیفوں میں مزید اضافے کرنے کے اور کچھ بھی دینے کے اہل نہیں ہیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی، مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے درج ذیل مطالبات و پروگرام پیش کرتی ہے:


1: ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کو سزائے موت دی جائے۔
2: ڈالر جہاد میں ملوث جرنیلوں اور دیگر افراد سمیت سامراجی ایجنڈے پر مذہبی بنیاد پرستی پھیلانے والے تمام افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔
3: ملاؤں کی ریاستی پشت پناہی اور مذہبی اشرافیہ کی تمام سرکاری مراعات کا خاتمہ کیا جائے اور عبادت گاہوں کوعلاقے کی مزدور یونینوں کے اجتماعی کنٹرول میں دیا جائے۔
4: ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا جائے۔
5: برطانوی سامراج کی مسلط کردہ سرمایہ دارانہ رجعتی ریاست، اس کے اداروں اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔

Comments are closed.