یوکرین: امریکہ-روس تنازعہ شدت اختیار کر گیا! امریکی تنصیبات خطرے میں

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: عرفان منصور|

”کیا کوئی نفس آگ کو سینے میں سمو سکتا ہے اور اس کے کپڑے نہ جلیں؟ کیا کوئی دہکتے کوئلوں پر چل سکتا ہے اور اس کے پاؤں جھلس نہ جائیں؟“ (امثال: کتاب 6:27-29)

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

24جون کو روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے امریکی سفیر کو طلب کیا گیا جہاں اسے ایک دستاویز پیش کی گئی جسے سفارتی زبان میں ”ڈیمارش“ کہا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں بات کریں تو یہ صرف جنگ کے اعلان سے کم سخت ترین انتباہ ہوتی ہے۔ یہ واضح نشانی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مکمل ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں۔

اس انتباہ کا فوری سبب گزشتہ اتوار کو پیش آنے والا واقعہ تھا جس میں امریکی ساختہ ATACM گائیڈڈ میزائلوں کے ذریعے کریمیا پر حملے کے نتیجے میں سیواسٹوپول کے پُر ہجوم ساحل پر ایک دھماکہ ہوا جہاں لوگ مقدس تثلیث کا قدیم تہوار منا رہے تھے۔

ایسا لگتا ہے کہ میزائل ہوا میں ہی پھٹ گیا جس کے نتیجے میں کلسٹر بم بارش کی مانند گرے اور بچوں سمیت کئی لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔

حملے کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ مگر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ، امریکی فوج کی فعال شمولیت کے بغیر یہ حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ روسی حکومت کا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ یہ کریمیا کے باشندوں پر یوکرین کا سوچا سمجھا حملہ تھا۔

روسی وزارتِ دفاع کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے کلسٹر وار ہیڈز کے ساتھ امریکی آپریشنل میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔ حملے کے دوران کریمیا کے ساحل پر ایک جاسوسی ڈرون بھی موجود تھا اور امریکی فوجی عملے نے آف لائن ڈیٹا بھی اکٹھا کیا۔

جنگی اوقات میں کلسٹر وار ہیڈز کا استعمال خصوصی طور پر منع نہیں ہے لیکن اقوامِ متحدہ کے مطابق اگر کلسٹر وار ہیڈز کو شہریوں پر حملے کے لیے استعمال کیا جائے، چاہے وہ حملہ غفلت کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہو، تو یہ جنگی جرم تصور کیا جائے گا۔

چاہے یہ شہری ہدف پر سوچا سمجھا حملہ تھا یا ایک مجرمانہ غفلت، اسے یقیناً ایک جنگی جرم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نے روس میں غم و غصے کی لہر کو جنم دیا ہے اور ایک جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

یہ حملہ کیف حکومت کی خدمات حاصل کرتے ہوئے واشنگٹن کی طرف سے ہونے والی متعدد اشتعال انگیزیوں کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہے جو میدانِ جنگ میں تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنے کے سبب پیدا ہونے والی بے چینی کا اظہار بھی ہے۔

یوکرین کی شکست: ایک اٹل حقیقت!

کریمیا پر ان بے مقصد میزائل حملوں کا مقصد کیا ہے؟ فوجی نقطہ نظر سے ایسی کاروائیوں کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ ان کا وسطی ڈونباس، بلکہ جتنا عمومی طور پر سمجھا جا رہا ہے اس سے بھی کم، خارکیف محاذ پر لڑی جا رہی جنگ پر، کوئی اثر نہیں پڑتا۔

خار آلود ہی سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ یوکرین جنگ ہار چکا ہے اور اسے جیت میں نہیں پلٹا جا سکتا۔ یوکرینی افواج بھاری نقصان اٹھا رہی ہیں جس کا مداوا کرنے سے کیف حکومت قاصر ہے۔

بھرتی کے نئے قوانین بھی متوقع نتائج نہیں دے پائے۔ نوجوان فوجی بھرتی سے بچنے کے لیے یا ملک سے فرار ہونے کے لیے شہروں کو چھوڑ چکے ہیں۔

یوکرین پے در پے شکست کا سامنا کر رہا ہے اور روسی افواج، جو کہ اب پہلی بار تعداد میں یوکرینیوں سے زیادہ ہیں، ایک کے بعد ایک تزویراتی مقام پر قبضہ کرتے ہوئے ایک سست مگر پختہ رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔

یہ ناخوشگوار حقیقت کہ اب جنگ میں ہار ہی نوشتہ دیوار ہے، واشنگٹن میں بیٹھے کند ذہنوں کے سوا سب کو آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے۔

صرف شاہانہ عظمت کے بے وقوفانہ خوابوں سے چمٹے ہوئے لندن کے احمق اور ان وجوہات کی بنا پر جن کا صرف اسے ہی علم ہے، خود کو نپولین بوناپارٹ کا نیا جنم سمجھنے والا خود پسندی کا شکار بدمست میکرون ہی اس بے بنیاد یوکرینی حملے کے خوابوں میں مگن ہے جو روسی لشکر کو واپس ماسکو تک دھکیل دے گا۔

لیکن حقائق ایک مختلف کہانی بیان کر رہے ہیں۔ زیلنسکی کی جانب سے سوئٹزرلینڈ میں بلائی گئی ”امن“ کانفرنس مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ زیادہ تر ممالک نے شرکت نہیں کی۔ حتیٰ کہ بائیڈن نے بھی شرکت نہ کرنے کے لیے ایک کمزور سا بہانہ ڈھونڈ لیا۔

ایک کمزور سی قرارداد پر دستخط کرنے کے لیے اتنے کم ممالک تیار تھے کہ منتظمین کو آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کا نام فہرست میں شامل کرنا پڑا (گو کہ وہ کسی ریاست کا سربراہ بھی نہیں ہے)۔ پوپ کا نام ہی شامل کر دیتے کم از کم اس کے پاس ویٹیکن سٹی تو ہے!

اس طرح، وہ کرتب جو کیف حکومت کی بڑھتی ہوئی عالمی حمایت ظاہر کرنے کے لیے دکھایا گیا، بالکل برعکس ثابت ہوا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یوکرین کے لیے حمایت کمزور ہو رہی ہے اور یہ کہ امریکی سامراج دوسری عالمی جنگ کے بعد کبھی اتنا تنہا نہیں رہا جتنا کہ آج ہے۔

روس کے خلاف اقتصادی جنگ بھی ناکام ہو چکی ہے۔ پابندیوں نے روسی معیشت کو کمزور کرنے کی بجائے اسے مزید فروغ دیا ہے۔ جن بدمعاش سرمایہ داروں (Oligarchs) کو مغرب میں سرمایہ کاری سے روکا گیا تھا وہ اب روس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور معیشت پانچ فی صد کی صحت مند شرح سے بڑھ رہی ہے۔

امریکی پابندیوں نے مطلوبہ نتائج نہیں دیے۔ روسی تیل اور گیس کی فروخت عروج پر ہے اور مغرب میں فروخت کی کمی کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پورا کر لیا گیا ہے۔

فوجی محاذ پر روسی فوج جنگ کے آغاز کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ پیوٹن کے مطابق، اس وقت یوکرین میں سات لاکھ روسی موجود ہیں جبکہ حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ یوکرین کے برعکس، وہاں لڑنے کے لیے رضاکاروں کی کمی نہیں ہے۔ بائیڈن نے سوچا کہ روسی فوج جدید امریکی ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ انہیں ”گیم چینجر“ کہا جا رہا تھا۔ انہیں منظم طریقے سے روسیوں نے تباہ کر دیا ہے، ان کے پاس اب مکمل فضائی کنٹرول ہے اور توپ خانے، میزائل، ڈرون، ٹینک اور دیگر تمام بنیادی ہتھیاروں میں زبردست برتری ہے۔

روس کی مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا گیا ہے جو امریکہ یا نیٹو کے کسی بھی ہتھیار سے زیادہ مؤثر ہیں۔

سوویت یونین سے وراثت میں ملی طاقتور اسلحہ سازی کی صنعت بڑی تعداد میں ٹینک، طیارے اور توپ خانے پیدا کر رہی ہے جس کی رفتار سے مغرب مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔

یوکرینی گولہ بارود اور دیگر اسلحہ کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں جبکہ روس کے پاس ان دونوں کی بہتات ہے اور یہ پیوٹن کے شمالی کوریا کے دورے کے بعد مزید بڑھ جائے گی۔

مغرب کا نعرہ: آخری یوکرینی تک جنگ جاری رہے!

یہ سب مغربی دارالحکومتوں میں افراتفری جیسا ماحول پیدا کر رہا ہے۔ تاہم، جنگ ختم کر کے رہی سہی عزت کو سمیٹ کر یوکرین کے مسئلے سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لینے کے لیے کوئی سفارتی فارمولا تلاش کرنے جیسے منطقی حل کی بجائے، واشنگٹن اور لندن کے جنگ پسندوں کی زنبیل سے ایک ہی حل نکل رہا ہے: آخری یوکرینی تک لڑتے رہو!

چونکہ ان کے پاس میدانِ جنگ کے تباہ کن رجحان کو پلٹنے کے لیے کوئی واضح مربوط فوجی حکمت عملی نہیں ہے تو یہ خواتین و حضرات اپنا دماغ لڑا رہے ہیں کہ روس کو نقصان پہنچانے کے ایسے طریقے اور ذرائع تلاش کر سکیں جو اس طرح کے نقصان کا سبب بنیں کہ ماسکو کسی طرح ہتھیار ڈال دینے کے مترادف شرائط پر راضی ہو جائے۔

اس نام نہاد حکمت عملی میں حکمت عملی جیسی کوئی شے نہیں ہے۔ یہ بگڑے ہوئے بچے کے نخرے کی طرح ہے جسے اس کے پسندیدہ کھلونے سے محروم کر دیا گیا ہو اور دائیں بائیں، ہر طرف چیزیں توڑتا پھرے اور پورا گھر الٹ پلٹ دے۔

لیکن افسوس کہ ایسے شریر بچے مطلوبہ پسندیدہ کھلونا حاصل کرنے کی بجائے، مار کھا بیٹھتے ہیں۔ یہی واشنگٹن اور لندن کے بگڑے ہوئے خواتین و حضرات کی قسمت ہو گی۔

انہوں نے روس کو نقصان پہنچانے کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے، اس سے دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچا کر، مغرب کی آبادی کو بڑھتی ہوئی غربت کی سطح پر پہنچا کر، اور نیٹو جیسے مجرم سامراجی گروہ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے والے مغربی پورپ کے چھوٹے سے مراعات یافتہ گروہ کے سوا پوری دنیا کو مخالف بنا کر اپنے ہی پر جلائے ہیں۔

امریکیوں نے امن کے لیے ہونے والی ہر کاوش کو منظم طریقے سے سبوتاژ کیا ہے۔ انہوں نے چالاکی سے یوکرینیوں کو ایک تباہ کن حملے میں دھکیلا جو یوکرین کے لیے ایک مکمل شکست اور بے پناہ نقصانات کا سبب بنا۔

وہ کبھی بھی اس کا مداوا نہیں کر پائے۔ پھر بھی واشنگٹن کے جنگ پسند اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

لیکن کوئی بھی امریکی فوجی نہیں مارا جانا چاہیے اور اب بھی بائیڈن کی انتظامیہ پر مضبوط اثر رکھنے والے پاگل گروہ کے سوا بہت کم لوگ طاقتور فوج اور جوہری ہتھیار رکھنے والے روس کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوں گے۔

ناخوشگوار نتائج

چند دن پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی پر کھلا حملہ کرتے ہوئے کہا: ”اس نے چار دن پہلے 60 ارب ڈالر لیے اور گھر گیا۔ گھر جاکر اعلان کیا کہ اسے مزید 60 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ وہ مانگتا ہی چلا جا رہا ہے۔“

یہ بالکل سچ ہے۔ وہ امریکہ سے جتنا بھی لے جائے، مزید مانگنے دوبارہ آ جاتا ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ وہ جنگ ہار چکا ہے اور امریکی امداد کی کوئی بھی مقدار اب میدانِ جنگ کی تباہ کن صورتحال بدل نہیں سکتی ہے۔

اس نے طویل فاصلے والے بیلسٹک میزائلوں کا مطالبہ کیا۔ پہلے پہل، روسی ردعمل کے خوف سے امریکہ نے انکار کیا۔ لیکن، جیسا کہ اکثر اوقات ہوا ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اس کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ چانچہ، مارچ میں خاموشی سے، امریکہ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ATCAMS میزائلوں کو فوجی امدادی پیکج میں شامل کیا اور یوکرین کو بھیج دیا۔

یہ جدید طویل فاصلے والے بیلسٹک میزائل روسی علاقوں کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کتابی طور پردیکھا جائے تو انہیں تباہ کرنا تقریباً ناممکن تھا۔

تاہم، عملی طور پر، جیساکہ دیگر ”جادوئی ہتھیاروں“ کے ساتھ بھی ہوا ہے، روس نے جلد ہی ان کا سراغ لگانے اور انہیں تباہ کرنے کے طریقے نکال لیے اور واقعتاً ایک بڑی تعداد پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر جو صرف انہی کو ہی معلوم ہیں، یوکرینوں نے کریمیا پر حملوں میں ان ATACMS میزائلوں کی بڑی تعداد استعمال کر لی ہے۔ ان حملوں کی فوجی اہمیت بہت کم تھی، جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔ ان کی وقعت پراپیگنڈا کارروائیوں سے زیادہ نہیں ہے تاکہ کیف کے مغربی حمایتیوں کو متاثر کیا جا سکے اور اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ وہ جنگ جاری رکھنے کے لیے مزید ہتھیار اور پیسے بھیجیں۔

لیکن تازہ ترین واقعے نے ایسے نتائج کو جنم دیا ہے جو غیر متوقع تھے اور امریکہ کے لیے ناخوشگوار بھی۔ جس کے نتیجے کے طور پر روس میں غصّے کی لہر نے جنم لیا اور امریکہ کو باضابطہ انتباہ جاری کی گئی ہے۔

اسے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔

اپنے معمول کے طریقہ کار کے مطابق، زیلنسکی نے ATCAMS میزائل حاصل کرنے کے بعد، ان میزائلوں کے استعمال کو جنگ کے میدان تک محدود رکھنے کی امریکی پالیسی کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا۔

زیلنسکی نے اصرار کیا کہ اسے روسی فیڈریشن کے اندر اہداف پر حملہ کرنے کی اجازت درکار ہے، حالانکہ حقیقت میں، اس کی افواج کم از کم 12 ماہ تک روسی شہر بیلگوروڈ کے پار سرحدی گولہ باری کرتی رہی تھیں۔

کیف میں بیٹھے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے، بائیڈن نے آخرکار روس کی سرحدوں کے اندر حملوں کی اجازت دے دی لیکن صرف خارکیف محاذ کے قریبی علاقے میں۔

یہ باعث حیرت نہیں ہے کہ کیف میں بیٹھے لوگ اس سے خوش نہیں ہوئے اور انہوں نے فوراً روس کے اندرونی علاقوں تک طویل فاصلے تک بیلسٹک میزائل داغنے کے حق کا مطالبہ کیا۔

یہ روسیوں کے لیے خطرے کی نشانی تھی۔ پیوٹن نے امریکیوں کو خبردار کیا (جیسا کہ اس نے پہلے فرانسیسیوں اور برطانویوں کو کیا تھا) کہ روس کے پاس بھی طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ہیں جو دنیا میں کہیں بھی اہداف کو نشانہ بنانے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔

تازہ ترین پیشرفت انہیں واقعات سے ابھرتا ہوا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس تک امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی سالوں سے جاری مسلسل اشتعال انگیزی اور جلتی پر تیل ڈالنے کی پالیسی کا راستہ لاتا ہے۔

یہ سوچنا کہ وہ روس کے کافی اندر تک میزائل حملے شروع کر سکتے ہیں اور روس خاموشی سے بیٹھا رہے گا، حماقت کی انتہا تھی۔ لیکن حماقت آج کل مغربی سفارتکاری اور بالخصوص امریکی سفارتکاری کا خاصہ ہے۔

امریکیوں کے لیے ان واقعات میں اپنے کردار سے انکار کرنا بے سود ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ سرکاری بیان سے بالکل واضح ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیواسٹوپول کے ہولناک واقعے کے پیچھے کون تھا۔

یہ اس پاگل پن پر مبنی رویے کا واحد منطقی نتیجہ ہے، جو کہ انتہائی مشکوک شکل میں شکست خوردہ پاگل پن کی خیالی پالیسی معلوم ہونے لگتا ہے۔

امریکہ اور پوری دنیا کے لیے اس کے نتائج ممکنہ طور پر انتہائی سنگین ہیں۔

امریکہ کی کیف حکومت کو، بشمول ATACM میزائل جن میں کلسٹر وار ہیڈ تھے اور جن کو سیواسٹوپول میں معصوم لوگوں پر استعمال کیا گیا، جدید ترین ہتھیار فراہم کرنے کے فیصلے نے کریملن کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔

روس نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ ”یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے حق“ کے بہانے کا استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف ایک ”ہائبرڈ جنگ لڑ رہا ہے“۔ اور یہ بات پہلے سے ہی بہت واضح ہے۔

اب زیادہ سے زیادہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ وہ پراپیگنڈے کے گرد و غبار کے پار دیکھتے ہوئے سمجھ چکے ہیں کہ امریکی سامراج روس کے خلاف ایک پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، جس میں یوکرین کے بدقسمت لوگ ایک بڑی طاقتوں کی لڑائی کے بے رحم کھیل میں محض مہرے ہیں۔

سنگین کشیدگی

روس کے بیانات اعلانِ جنگ سے صرف ایک قدم دور ہیں اور اعلانِ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے بائیڈن انتظامیہ اور لندن حکومت میں موجود پاگل جنگ پسندوں کے گروپ کے علاوہ ہر کوئی ٹالنا چاہتا ہے۔

یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے سنگین صورتحال ہے اور یہ ان بہت ساری چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا دروازہ کھول دیتا ہے جو چند سال پہلے تک ناممکن لگتی تھیں۔

سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ روسیوں نے اب عوامی طور پر کہا ہے کہ وہ اب خود کو امریکہ کے ساتھ حالتِ امن میں نہیں سمجھتے ہیں۔

یہ ابھی تک جنگ کا کھلا اعلان نہیں ہے لیکن یہ اس سے صرف ایک قدم دور ہے۔ پہلے ناقابلِ تصور سمجھی جانے والی چیزیں اب ممکن ہو جاتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ روسی امریکہ پر حملہ کر دیں گے۔ وہ تیسری عالمی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ان کے پاس کئی اور راستے موجود ہیں۔

مثال کے طور پر، روسی امریکہ کے دشمنوں اور مخالفین کو جدید ہتھیار فراہم کرنا شروع کر رہے ہیں۔ دراصل، پیوٹن کے حالیہ شمالی کوریا اور ویتنام کے دورے سے واضح ہے کہ وہ پہلے ہی ایسا کر رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن پیوٹن کے پیانگ یانگ کے دورے کی خبر پر حیران ہے۔ بظاہر، یہ ایک غیر متوقع اور انتہائی ناخوشگوار پیش رفت تھی۔ لیکن ایسا کیوں ہونا چاہیے، یہ ایک مکمل معمہ ہے۔

چونکہ واشنگٹن کے نزدیک روس اور شمالی کوریا دونوں ”مردود ریاستیں“ ہیں اس لیے اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ انہیں ایک مشترکہ اور مزید جنگی ہوتے مخالف کے سامنے قریبی تعلقات میں دھکیل دیا جائے۔

چونکہ امریکہ نے دونوں ہی ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اس لیے یہ بھی بالکل حیران کن نہیں ہے کہ وہ ان پابندیوں کو نظر انداز کر کے قریبی تجارتی روابط کا دروازہ کھولنے کا انتخاب کریں۔

امریکی خوف میں ششدر رہ جاتے ہیں جب انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا یوکرین میں روسی جنگ میں مدد کرنے کے لیے توپ خانے کے گولے بھیج سکتا ہے (نہ کم نہ زیادہ پورے پانچ لاکھ)۔ لیکن انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ کئی سالوں سے کیف حکومت کو ہر قسم کے تباہ کن ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

حسب معمول، امریکہ کے لیے ایک قانون ہے جبکہ باقی دنیا کے لیے، دوسرا اور بالکل مختلف۔

”قانون کی بالا دستی پر مبنی نظام“

 

لیکن ”قانون کی بالادستی پر مبنی بین الاقوامی نظام“ کہے جانے والے اس مضحکہ خیز کھیل سے باقی دنیا کافی تھک چکی ہے۔

اگر امریکی اپنے یوکرینی کٹھ پتلیوں کو ہتھیاروں سے لیس کر کے روس کے خلاف پراکسی جنگ لڑ سکتے ہیں، تو روسیوں کو بھی اسی طرح کیوں نہیں کرنا چاہیے؟

اس میں شبہ نہیں ہے کہ بہت جلد روسی امریکہ کے دشمنوں کو دنیا کے مختلف حصوں میں جدید ہتھیار فراہم کریں گے۔

ماسکو ایک ایسے وقت میں ایران اور دیگر عناصر کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرے گا کہ جب مشرق وسطیٰ ایک بارود کے اڈا بنا ہوا ہے جو کسی بھی چنگاری سے پھٹ سکتا ہے، جس سے وہ اب تک گریز کرتا رہا ہے۔ اگر روسی مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے خلاف پراکسی جنگیں لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اس کے گھمبیر نتائج نکلیں گے۔

اگر روس ایران کے ساتھ ایک سٹریٹیجک شراکت داری قائم کرتا ہے تو اس کے امریکہ کے لیے بڑے پیمانے پر مضمرات ہوں گے۔

یہ ایران کو بہت مضبوط کرے گا اور اس سے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر اثر پڑے گا جس سے اس اہم خطے میں امریکہ کے لیے کاروائی کی گنجائش محدود ہو جائے گی۔

علاوہ ازیں جو بھی جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی روسی ایرانیوں کو فراہم کریں گے، وہ بالآخر حوثیوں اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے دیگر دشمنوں کے ہاتھوں میں آ جائیں گے۔

میں نے حال ہی میں دیکھا کہ حوثیوں نے واقعی ایک تجارتی جہاز کو ڈبو دیا تھا۔ ابھی تک میں نے صرف رپورٹس دیکھی تھیں کہ جہازوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کیا اسے اس بات کی ابتدائی علامت سمجھا جائے کہ حوثیوں کو بہتر ہتھیار اور انٹیلی جنس مل رہی ہے؟ ہمیں جلد ہی پتہ چل جائے گا اور اس علاقے میں کئی امریکی جنگی جہاز موجود ہیں، جو بہت ہی دلکش اہداف ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں اور ایسے بہت سے ہیں کہ اگر انہیں روسیوں کی طرف سے فوجی مدد، ہتھیار، سامان، تربیت، انٹیلی جنس اور ڈیٹا فراہم کیا جائے تو وہ امریکی اڈوں اور تنصیبات پر حملہ کرنے میں بہت خوشی محسوس کریں گے۔

ایسی پیشرفتیں ”آزاد پریس“ میں شدید احتجاج کا باعث بنیں گی۔ کتنا ظلم ہے! کتنی ناانصافی ہے! لیکن اگر امریکہ روس کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، تو روسی ان کے نقشِ قدم پر کیوں نہ چلیں؟

جرم سے بدتر، ایک فاش غلطی

تازہ ترین واقعات کو مغربی میڈیا نے بڑی حد تک نظرانداز کیا ہے۔ پھر بھی وہ بلاشبہ صورتحال میں ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

18 ویں۔ 19 ویں صدی کے فرانسیسی سفارتکار ٹالی رینڈ نے ایک بار کہا تھا: ”یہ ایک فاش غلطی ہے؛ جو جرم سے بھی بدتر ہے“۔

اگر بائیڈن انتظامیہ کے پاس ٹالی رینڈ جیسا ایک قدآور سفارتکار ہوتا، تو وہ خود کو بہت سی مشکلات سے بچا سکتے تھے۔

لیکن بائیڈن میں سفارتکاری کی کوئی رمق بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسے تو کم تر درجے کا قدآور سیاستدان بھی نہیں کہا جا سکتا۔ درحقیقت، اس کے پاس تو شاید مڈویسٹ کے کسی چھوٹے سے قصبے میں ہارڈ ویئر سٹور چلانے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔

پھر بھی یہ صاحب دنیا کی سب سے امیر اور طاقتور قوم کی تقدیر کے ذمہ دار ہیں اور اس کے ہاتھ میں ایٹمی بم بھی ہے۔ ان اوقات میں یہ کوئی تسلی بخش خیال نہیں ہے!

اس انتظامیہ کی کوئی ایک غلطی بھی تو ہو۔ اس نے خارجہ پالیسی میں ایک کے بعد ایک فاش غلطی کی ہے اور امریکہ کو اس کی اپنی بنائی ہوئی دلدل میں گہرائی تک دھنسا دیا ہے۔

بائیڈن ایک ایسی گاڑی کی مانند ہے جس میں صرف ایک گیئر ہے اور اسے ریورس کرنا نہیں آتا۔ جب وہ بولتا ہے، تو ایسا لگتا ہے جیسے پرانا گراموفون ریکارڈ سنا جا رہا ہو، جس میں ایک ہی نغمہ بار بار دہرایا جا رہا ہو۔

وہ عقل و دانش کی بنیاد پر نہیں، بلکہ تعصب، جہالت اور جنون کی بنیاد پر کام کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تباہی کا نسخہ ہے۔

وہ یوکرین کے ساتھ مکمل جنون میں مبتلا ہے (جہاں اس کے خاندان کے مادی مفادات ہیں) اور روس اور ہر روسی چیز سے شدید گہری نفرت رکھتا ہے۔

اس کی یوکرینی پالیسی بد سے بدتر ہوتی گئی ہے اور اب مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ تو کیا کیا جائے؟ ظاہر ہے، بائیڈن کی پرانی حکمت عملی کے مطابق جیسا پہلے کرتے آ رہے ہو ویسا ہی کرتے رہو۔

یوں، ایک غلطی دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے، جیسے دن کے بعد رات آتی ہے۔

جیسا کہ انجیل کہتی ہے:

”جیسے کتا اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے، اسی طرح ایک احمق اپنی حماقت کی طرف لوٹتا ہے۔“ (امثال: 26: 11)

سلطنتِ روم کے زوال اور خاتمے کے اسباق

موجودہ امریکی سامراج کے بحران کا موازنہ رومی سلطنت کے زوال اور خاتمے کے ساتھ کرتے ہوئے ایک دلچسپ دستاویز لکھا جانا ممکن ہے۔

یہ درست ہے کہ اس طویل اور بے عزت زوال میں بہت سے مختلف عناصر شامل تھے۔ لیکن ان میں سب سے اہم عنصر یہ تھا کہ سلطنت اپنی حدود سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ اپنی حدود تک پہنچ گئی اور اپنی سامراجی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکی۔ آخرکار نتیجہ مکمل تباہی کی صورت میں نکلا۔

امریکہ کی دنیا بھر میں موجودگی رکھنے والی عالمی طاقت کے طور پر حیثیت، خود ایک بہت بڑی کمزوری کا باعث ہے۔ عالمی پیمانے پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔

یہ یوکرین کی جنگ سے ظاہر ہوتا ہے، جو کہ دنیا کے سب سے امیر ملک کے وسائل پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ زیلنسکی کے مطالبات کی وجہ سے امریکہ کا ہتھیاروں کا ذخیرہ بری طرح کم ہو چکا ہے، اور اس کے مطالبات فوجی صورتحال کے بگڑنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

ہر جگہ نئے تنازعات اور جنگیں جنم لے رہے ہیں۔ نیتن یاہو کا غزہ پر قاتلانہ حملہ اسے کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ وہاں حملہ کرنے کے لیے کوئی حقیقی اہداف ہی باقی نہیں رہے۔ پھر بھی اس کا حماس کو شکست دینے اور تباہ کرنے کا مقصد، اب بھی مستقبل بعید کا ایک خواب ہی ہے۔ درحقیقت، یہ کبھی حاصل نہیں ہو پائے گا۔

غزہ میں تعطل کو دیکھتے ہوئے، وہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف ایک نئی جنگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ غزہ کی جنگ سے کہیں زیادہ مشکل اور خونریز ہو گی۔ وہ مسلسل امریکہ سے مزید امداد اور ہتھیاروں کا مطالبہ کرے گا۔

دنیا کے دوسرے حصے میں، چین، تائیوان اور فلپائن کے درمیان تناؤ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ ان سب کو واشنگٹن سے مزید ہتھیاروں اور پیسوں کی طلب ہو گی۔

لیکن واشنگٹن کے وسائل، اگرچہ بہت زیادہ ہیں، لیکن لامحدود نہیں ہیں اور انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ محدود ہتھیاروں کو کہاں کہاں تقسیم کیا جائے۔

نئے بحران اور جنگیں نہ صرف امریکہ کے لیے، بلکہ اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے بھی ایک ناقابل حل مسئلہ بنیں گے، جو خود کو ایسے ہی حالات میں پائیں گے۔

کیا وقت آ گیا ہے کہ امریکی سامراج اسی ڈھلوان پر چلے گا جس نے سلطنتِ روم کو خاک میں ملا دیا؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

لیکن سوویت یونین کے خاتمے کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ سرشاری میں تھے۔ وہ کمیونزم کے خاتمے اور سوشلزم کے خاتمے کی بات کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب فرانسس فوکویاما نے تو یہاں تک اعلان کر دیا کہ تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ لیکن تاریخ کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ اپنے راستے پر بے رحم طریقے سے بڑھتی ہے اور مغرور و متکبر سے بدلہ لینا اس کی روایت ہے۔

Comments are closed.