|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اختتام سے قبل ہی دنیا نے سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کا جو نظارہ دیکھا وہ کروڑوں محنت کشوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ مگر خیر دوسرے عشرے کے وسط میں حالات بدلتے نظر آئے اور چھوٹے بڑے سرمایہ داروں نے دوبارہ سے اس لولے لنگڑے نظام کو بیساکھیوں کے سہارے کھڑا کرنا شروع کیا لیکن عالمی ماہرین بار بار کہتے رہے کہ دوسرے عشرے کے اختتام اور تیسرے عشرے کی شروعات میں یہ نظام جس کھائی میں گرتا نظر آ رہا ہے وہ اس سے پہلے کے زوال سے کہیں گنا زیادہ اور تباہ کن ثابت ہو گا۔ ابھی یہ نظام مصنوعی سانسیں لے ہی رہا تھا کہ دسمبر کے وسط میں چین کے ایک شہر ووہان سے ایک وبا پھوٹ پڑی، جسے پہلے پہل تو ریاست نے ماننے سے ہی انکار کر دیا کیونکہ ایسی کوئی بھی خبر چینی سرمایہ دار کو عالمی منڈی سے دور کر دیتی۔ مگر جنوری کے پہلے ہفتے کے اختتام تک حالات ریاست کے قابو سے باہر ہو گئے جنہیں چین کے صف اول کے حریف امریکہ نے خوب اچھالا اور دنیا کو چیخ چیخ کر دنیا کو اس بارے بتایا تاکہ عالمی منڈی میں چینکو نقصان پہنچا سکے مگر یہ وبا تو سرمایہ دارانہ نظام کے سبھی تابوتوں میں کیل ٹھونکنے سے پہلے دم لیتی نظر نہیں آ رہی۔ جب خود امریکہ میں اس وبا نے اثر دکھانا شروع کیا تو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اسے حریف امیدوار کی سازش قرار دیتے نظر آئے۔ جنوری کے اختتام تک یہ وبا دنیا کے بیشتر ممالک تک پہنچ گئی اور اب تو ایک عالمی وبا قرار دے دی گئی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک ایشیائی محنت کشوں کی آماجگاہ ہے جہاں وہ پہلے ہی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پال سکیں۔ اس وبا نے یہاں بھی تباہی اور بربادی مچا رکھی ہے جبکہ معاشی بحران نے محنت کشوں کی زندگیاں الگ اجیرن کی ہوئی ہے۔ 2019ء کا سال اس خطے میں سرمایہ داروں کیلئے اچھے دن نہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ ڈوبتے سرمائے کی فکر میں بیٹھے سرمایہ دار وں کو حادثاتی جھٹکا کرونا نے دے دیا ہے۔ مگر اس نے پوری دنیا سمیت مشرق و سطیٰ میں سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقے کو کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی دلدل میں پھنسے یہ محنت کش پہلے ہی نہ ختم ہونے والے مسائل کا شکار رہتے ہیں، اب جبکہ اس وبا نے سرمایہ دارانہ نظام کے پہیے کو جام کیا ہوا ہے تو سرمایہ دار کا سارا غم و غصہ محنت کشوں پر نکل رہا ہے۔ چھوٹے موٹے سرمایہ دار تو 2019ء کے اختتام کے ساتھ ہی بچا کھچا سرمایہ جمع کر کے اپنے ملکوں کی راہ لے لیے تھے باقی بچے سرمایہ داریا تو اب راہ فرار لے رہے ہیں یا اپنے محنت کشوں کو بے آسرا چھوڑ کر قرنطینہ میں بیٹھ گئے ہیں۔
ریٹیل سیکٹر سے وابستہ سرمایہ داروں کی تو ایسے وقتوں میں چاندی ہو گئی، اول تو اشیائے خوردونوش ممکنہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر ذخیرہ کر لی گئی ہیں یا ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی طرف سے تو متعدد بار یقین کروائی گئی کہ ایسی کسی بھی صورت میں ہمارے پاس اتنی تعداد میں اشیائے خوردونوش موجود ہیں کہ عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ مگر زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں، اس وقت قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور خدشہ ہے کہ آنے والے عرصے میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سیسارا پیسہ اضافی قیمتوں کی مد میں سرمایہ دار لے کر نکل جائے گا۔ ان مہنگی قیمتوں میں اشیا خریدنے کیلئے بھی پیسے ہی کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے یہاں کا سرمایہ دار محنت کشوں کو اجرتیں دیتا نظر نہیں آتا۔ جس سرمایہ دار نے کبھی کسی محنت کش کو اس کی محنت کا معاوضہ پورا نہ دیا ہو بغیر محنت کے معاوضہ دینے پر راضی کیونکر ہو گا؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب یہ نظام ہی تباہی کے دہانے پر لٹک رہا ہو۔ اس ساری ہلچل میں بہت سارے محنت کش اپنی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی متحدہ عرب امارات کی ایک نامی گرامی کمپنی DULSCO (جو کہ مختلف کلائنٹس کو Facilities Management کیلئے ورک فورس مہیا کرتی ہے) نے اپنے سینکڑوں ملازمین کو جبراً نوکری سے فارغ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ گریجویٹی اور ملازمت کے خاتمے پر دیے جانے والے تمام حقوق بھی چھین لیے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ظلم یہیں ختم نہ ہوا بلکہ ان محنت کشوں کو ایسے وقت میں ملازمت سے برخاست کیا گیا جب دنیا کے بیشتر ممالک اپنی فضائی حدود بند کر چکے تھے یا بند کرنے کی تیاری میں تھے۔ ان محنت کشوں کا تعلق پاکستان، انڈیا اور نیپال سے تھا۔ خوش قسمتی سے انڈین فضائی حدود کھلی ہونے کی وجہ سے انڈین محنت کش تو اپنی محنت سرمایہ داروں کو لٹا کر واپس پہنچ گئے مگر باقی محنت کش آسمان کو چھت اور زمین کو فرش سمجھ کر فضائی کارروائیوں کے چلنے کے انتظار میں دن کاٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اتحاد ائیر ویز، جس کا شمار دنیا کی بڑی ائیر لائنز میں ہوتا ہے، نے اس ’مشکل گھڑی‘ میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایسے وقتوں میں جب مڈل کلاس منہ پر ماسک لپیٹے قرنطینہ میں بیٹھ گئے ہیں وہیں محنت کشوں کو جبراً کام پر بھیجا جا رہا ہے۔ حال ہی میں دبئی میں واقع ایک کنسٹرکشن کمپنی کے ایک پروجیکٹ پر کچھ محنت کشوں میں کرونا وائرس کی علامات پائی گئیں تو ہزاروں کی تعداد میں محنت کشوں کو ایک انڈر کنسٹرکشن ایریا میں قید کر دیا گیا جہاں وہ بنیادی سہولیات زندگی کے بغیر ہی رہنے پر مجبور ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اس وقت تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 570 اور اموات 3 بتائی جاتی ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک رائے کے مطابق دبئی میں کچھ رہائشی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ایسے کیسز کی اطلاعات ہیں اور ان علاقوں میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے، جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے محنت کش بستے ہیں۔ مگر ان علاقوں میں ابھی تک علاج یا دیگر بنیادی سہولیات مہیا نہیں کی گئی۔ آزاد صحافت پر پابندیاں ہونے کی وجہ سے مقامی اور بیرونی شہری اصل حالات سے لاعلم ہیں۔ اس وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی اماراتی حکام نے ایک نئے قانون کے تحت کسی بھی غیر مصدقہ خبر (جو خبر سرکاری طور خبروں یا رپورٹس سے متصادم ہو) کی اشاعت یا پھیلاؤ پر تین سال کی قید یا تین ملین درہم کا جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس سارے تناظر میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے گزشہ چند ہفتوں کے دوران دو دفعہ ریلیف پیکجز کا اعلان کیا جس کا مقصد صرف اور صرف سرمایہ دار طبقے کو ریلیف دینا تھا۔ بینکنگ، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر سے منسلک سرمایہ دار اس سے فائدہ تو اٹھائیں گے لیکن محنت کشوں کو اس سے کوئی ریلیف ملتی نظر نہیں آتی جو کہ کسی بھی سرمایہ دار ملک سے توقع کی بھی نہیں جا سکتی۔ حال ہی میں ایک نیا حلف نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق کمپنیاں جب تک وبا جاری رہے گی اور صورتحال معمول پر واپس نہیں آتی تب تک اپنے ملازمین کی تنخواہوں اپنی مرضی کے مطابق کم کرنے کا اختیار رکھیں گے۔ عرب امارات میں کام کرنے والا ہر محنت کش یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا مالک ہو جو اس ’ریلیف‘ سے فائدہ نہ اٹھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے شمار چھوٹی اور درمیانی کمپنیاں اور کاروبار دیوالیہ ہونے کی جانب جائیں گی جس سے بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب امارات بلکہ ایشیائی ملکوں پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں کمی بھی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے جو کہ کم ہو کر 25ڈالر فی بیرل تک آچکی ہے۔ ریاست دبئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ ایکسپو 2020ء، جس سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں، پرواز سے قبل ہی بیٹھ چکا ہے۔ سٹاکس اور مالیاتی کمپنیاں کچے دھاگے سے لٹک رہی ہیں۔ اس کے ناگزیر طور پر سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ بلند وبالا عمارات اور انفراسٹرکچر کی چکا چوند کے پیچھے چھپا نسبتاً سیاسی استحکام بھی ٹوٹنا شروع ہو چکا ہے اس کا سب سے پہلا اظہار اس وقت نظر آیا جب سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد دبئی سمیت دیگر چھوٹی ریاستوں نے ابو ظہبی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ یمن میں جاری جارحیت سے باہر نکلے کیوں کہ عرب امارات کو وجود کو کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ ترقی کے عہد میں ترتیب دیا گیا یہ سیاسی اتحاد اور استحکام اپنی عمر پوری کرچکا ہے۔کرونا وبا نے سطح کے نیچے ایک لمبے عرصے سے موجود تضادات کو عیاں کردیا ہے۔ کرونا وبا ختم ہونے کے بعد بھی پہلے والا معمول واپس نہیں آسکے گا۔
ایک طرف سرمایہ داروں کے لیے ریلیف پیکجز کا اعلان کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس ساری چکا چوند اور ترقی کو حقیقت کا روپ دینے والے لاکھوں محنت کشوں کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایک کمرے میں درجن درجن محنت کشوں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں سماجی تفاصل کی بات کرنا ہی مذاق ہے۔ ساتھ ہی تشخیصی ٹیسٹ اتنا مہنگا ہے کہ کوئی محنت کش اس کو افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔ لاکھوں مزدوروں کے اس سے متاثر ہونے کا شدید خطرہ موجود ہے۔
وقت کے ساتھ یہ وبا تو کنٹرول ہو جائے گی لیکن اس کے اثرات محنت کشوں پر ایک لمبے عرصے تک رہیں گے۔ کیونکہ متحدہ عرب امارات میں آپریٹ کرنے والی ساری کمپنیوں نے کام کرنے کیلئے کسی نا کسی کلائنٹ کے ساتھ کنٹرکٹ کرنا ہوتا ہے اور یہی حکمران طبقہ ہی اس کلائنٹ فرم کا مالک ہوتا ہے۔ ان سارے واقعات کے بعد جب کاروبا پھر سے بحال ہوں گے تو کلائنٹ اپنے کنٹرکرز کیساتھ کوئی بھی کنٹرکٹ ڈیل کرنے سے پہلے انہیں موجودہ ریٹس سے کم ریٹ دینے پر پابند کرے گاجس کا پہلا براہ راست اثر محنت کش طبقے پر پڑے گا۔ سرمایہ دار اجرت اور محنت کشوں کی تعداد کم کر کے اپنا منافع بنائے گا جس کی وجہ سے ایک محنت کش کا کام دو یا اس سے زائد محنت کش پہلے سے کم اجرت میں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو دیے جائے جانیوالے دیگر الاؤنسز جیسا کہ فضائی ٹکٹ یا سالانہ چھٹیوں کی تنخواہوں وغیرہ میں بھی کٹوتی کر کے منافع بنایاجائے گا۔ اس کا دوسرا اثر ایشیائی معیشت خصوصاً پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش وغیرہ پر پڑے گا جس کا براہ راست تعلق مڈل ایسٹ میں بیٹھے محنت کشوں کے زر مبادلہ سے ہوتا ہے۔
مزدوروں کا یہ استحصال جہاں محنت کشوں کی روزمرہ زندگی کو اجیرن کر رہا ہے وہیں سرمایہ دار اور سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی بھی کھول رہا ہے۔ اس سارے ظلم و جبر سے محنت کشوں کے غم و غصے میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ایک آتش فشاں کی طرح پک رہا ہے اور اور اس میں اتنی تیزی آ رہی ہے کہ یہ جلد ہی ایک لاوے کی صورت بہے گا اور اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی باقیات کو جلا کر راکھ کر دے گا۔