شام: کردوں پر قومی جبر میں امریکہ اور ترک سامراج کا گھناؤنا کردار

|تحریر: مِلو کسیڈی، ترجمہ: عبدالحئی|

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، ترکی کی حمایت یافتہ تنظیم حیات تحریر الشام (HTS) کی جارحانہ کارروائی نے اسد حکومت کو گرا دیا ہے۔ مغربی میڈیا میں اس عمل کو عام طور پر خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، جس چیز پر توجہ نہیں دی گئی، وہ ہے ترکی کی جانب سے شمال مشرقی شام کے خودمختار کرد علاقے AANES (Autonomous Administration of North and East Syria) میں بیک وقت پیش قدمی، جو عموماً روژاوا (Rojava) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ترکی نے کرد علاقوں میں اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے پچھلے ہفتے تل رفعت (Tel Rifaat) پر قبضہ کیا ہے اور اس کے بعد اب کچھ دن پہلے فرات کے مغرب میں کردوں کے زیر کنٹرول آخری شہر منبج (Manbij) پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ترک افواج اور ان کے اتحادی جہادیوں نے قرقوزاق (Qereqozac) پل پر بمباری کی، جو دریا کے دونوں کناروں کو جوڑتا ہے، جس کے ذریعے وہ مزید آگے بڑھنا چاھتے تھے لیکن انہیں کردش جنگجوؤں کے سامنے پسپا ہونا پڑا۔ اجتماعی قتل اور عصمت دری کی اطلاعات پہلے ہی سامنے آ رہی ہیں۔ عین عیسیٰ (Ayn Issa) میں ایک ہی دن میں ایک خاندان کے آٹھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔

اردوگان تنظیم حیات تحریر الشام (HTS) کی جارحیت کے ذریعے ترکی کے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کا ارادہ شمالی شام کو ایک کٹھ پتلی کے طور پر دمشق میں اپنی نئی جہادی حکومت کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لانا ہے۔ سب سے بڑھ کر، وہ کرد خودمختار علاقے کو ختم کرنا اور ترک سرحد سے بائیں بازو کی PKK (Kurdistan Workers’ Party) سے منسلک SDF (Syrian Democratic Forces) ملیشیا کو ہٹانا چاہتا ہے، جو کئی سالوں سے اس کے سامراجی عزائم کے لیے دردِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اردوگان کرد کی قومی امنگوں کو کچلنا اور روژاوا میں ایک خود مختار کرد ریاست کے خواب کو مٹانا چاہتا ہے۔

مغربی سامراج داعش کے خلاف جنگ میں 2014ء سے دیدہ دلیر کردش باغیوں پر انحصار کرتا رہا ہے۔ لیکن اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ سامراجیوں کے جانب سے ان کے ساتھ دھوکہ دہی کی جا رہی ہے۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی اور مظلوم قومیتوں کو سامراجی عزائم میں محض مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ ان غنڈوں پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتے۔

کرد عوام صرف اسی صورت میں پائیدار اور حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں جب وہ خطے میں موجود تمام سامراجی کاسہ لیس اور کرپٹ حکومتوں کو گرانے کے لیے جدوجہد کریں اور مظلوم و استحصال زدہ عوام کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے لیے لڑیں۔

اردگان کی کردوں کے خلاف دشمنی

گزشتہ چند سالوں کے دوران تمام بڑی طاقتوں نے شام کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اردگان کا کردار خاص طور پر وحشیانہ رہا ہے۔ ترکی نے جہادی گروہوں، بشمول داعش اور HTS، میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے ذریعے خطے میں اپنے سامراجی عزائم کو فروغ دیا ہے۔ اردگان کے لیے ان گروہوں کی بربریت اہم نہیں ہے، بلکہ یہ اہم ہے کہ وہ انہیں کس طرح استعمال کر سکتا ہے۔ چونکہ کرد شام میں گزشتہ دس سال سے جہادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، اردگان انہیں اپنے سامراجی منصوبوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

اردگان کردوں کو ترکی ریاست کے اندر پانچویں ستون کے طور پر دیکھتا ہے۔ کرد عوام، جو شام، ایران، عراق اور ترکی کے درمیان تقسیم ہیں، ترکی کی آبادی کا 15 سے 20 فیصد حصہ ہیں۔ اس لیے وہ اس کی حکومت اور ’عظیم ترکی‘ کے خواب کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہو سکتے ہیں۔ کرد تنظیمیں ترکی میں کئی ٹریڈ یونینز پر کنٹرول رکھتی ہیں اور HDP (Peoples’ Democratic Party)جو ایک قانونی بائیں بازو کی سیاسی جماعت ہے، اپنے عروج کے وقت ترک مزدوروں اور نوجوانوں سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پارٹیاں زیادہ تر کردش بنیاد سے باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ HDP کرد علاقوں میں انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کرتی رہتی ہے۔ انہیں تمام وجوہات کی بنا پر، اردگان خاص طور پر PKK (Kurdish Workers’ Party)کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے، جو PYD/YPG (شام میں کردوں کی مرکزی قوتیں) سے قریبی طور پر منسلک ہے۔

اسی غرض سے گزشتہ برسوں میں اردگان نے بے شرمی کے ساتھ کردوں کو کچلنے کی مہم جاری رکھی، چاہے وہ بالواسطہ طور پر داعش کو فروغ دے کر ہو یا براہ راست فوجی کاروائیوں کے ذریعے۔ 2015ء میں اردگان نے ترکی کے کرد علاقوں پر بمباری اور حملے کیے، ایک ایسی کاروائی کے تحت جس کا دعویٰ تھا کہ یہ PKK کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں اس کا ہدف زیادہ تر عام شہری تھے۔ 2018ء میں، جب کرد اپنی توجہ داعش پر حملے کرنے پر مرکوز کر رہے تھے، اردگان نے فرات کے مغرب میں کرد علاقے پر وحشیانہ حملہ کیا۔ اس نے عفرین (Afrin) کے شہر کو محاصرے میں لے لیا اور اسے PYD کے کنٹرول سے چھین لیا۔ اس جارحیت میں، جسے ’آپریشن اولیو برانچ‘ (Operation Olive Branch)کا نام دیا گیا، ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے۔

اگرچہ فلسطین کے مسئلے پر اردگان خود کو سامراج مخالف کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن یہ سراسر منافق ہے۔ یہ بھی دیگر عالمی رہنماؤں کی طرح ایک بوسیدہ اور زوال پذیر سرمایہ دار طبقے کا نمائندہ ہے، جو مشرقِ وسطیٰ کو مسلسل تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اگر کردوں پر ترکی کے اس محاصرے کو نہ روکا گیا تو اس سے مزید المیے جنم لے سکتے ہیں۔

ناقابل اعتماد اتحادی

ترکی بلاشبہ ایک طاقتور ریاست ہے۔ لیکن کردوں کے ساتھ کون کھڑا ہے؟

2013ء میں روژاوا اس وقت قائم ہوا جب شامی انقلاب دونوں طرف کے رد عمل سے ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا، YPG (People’s Defence Unit) PKK کے نظریات سے متاثر ہے اور ایک ترقی پسند، بائیں بازو کی قوت کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے عوام میں زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ ان کی اصل حمایت کبھی کسی طاقتور گروہ سے نہیں آئی بلکہ غریب اور محنت کش عوام سے تھی، اور یہ حمایت صرف کرد علاقوں تک محدود نہیں تھی۔ اگر اس تحریک کو ایک انقلابی کمیونسٹ پروگرام اور شام، ترکی، عراق اور ایران، جہاں کردش قوم کا اخراج کر دیا گیا، کے غریب اور مزدور طبقے کی طبقاتی اپیل کے ساتھ جوڑا جاتا،، تو یہ تحریک بہت وسیع پیمانے پر پھیل سکتی تھی۔

کرد قیادت نے جدوجہد کو محض ایک قومی مسئلہ سمجھا اور فوجی اتحادیوں کی تلاش کو خالصتاً ایک حکمتِ عملی کا معاملہ قرار دیا، نہ کہ سیاسی سوال۔ دوسری جانب، امریکی حکمران، جنہوں نے شام میں جہادی باغیوں کو بڑی مالی اور فوجی مدد فراہم کی تھی، جس کے نتیجے میں داعش جیسی خونخوار قوت پیدا ہوئی، جب شام میں انہیں دوبارہ قدم جمانے اور داعش کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک طاقت کی ضرورت محسوس ہوئی، تو انہوں نے اس مقصد کے لیے YPG کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کرد قیادت کو اپنے ایما پر کام کے بدلے میں رقم، ہتھیار اور حمایت کی پیشکش کی۔ اس کے بدلے میں ایک قیمت کے طور امریکیوں کا ارادہ تھا کہ وہ کردوں کو اس پیشکش کی حقیقی ضمانتیں دیے بغیر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

2014ء سے، امریکیوں نے کردوں کو SDF (Syrian Democratic Forces) میں منظم کیا۔ یہ ایک مشترکہ فورس ہونے کا دعویٰ کرتی تھی جو PYD/YPG سے آزاد تھی۔ لیکن حقیقت میں ہمیشہ کرد ہی محاذِ جنگ میں سب سے آگے رہتے تھے۔ SDF کا حصہ بننے والے امریکیوں کے پاس نہ کوئی شناختی علامتیں تھیں اور نہ ہی ان کے آخری نام ظاہر کیے جاتے تھے۔ وہ تقریباً مکمل خفیہ طور پر کام کرتے تھے۔ اس کے باوجود، انہوں نے کردوں سے بڑی توقعات وابستہ کیں، تمام فوجی اہداف کا تعین کیا، اور انہیں ایک کے بعد ایک داعش کے زیرِ قبضہ شہروں پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ مجموعی طور پر، 2015ء سے 2019ء کے دوران، داعش سے لڑتے ہوئے گیارہ ہزار سے زیادہ کرد مارے گئے، جبکہ صرف آٹھ امریکی ہلاک ہوئے۔

کرد داعش کے خلاف لڑنے کے لیے کرد سب سے زیادہ مؤثر قوت تھے۔ وہ کراہ ارض پر موجود سب سے زیادہ خونخوار قوت کے خلاف اپنی پوری زندگی کا دفاع کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ لیکن SDF کی قیادت نے جنگی حمایت کے بدلے اپنی سیاسی خودمختاری کو تیاگ دیا۔ جس کی وجہ سے اس تباہی کا راستہ ہموار ہوا جس کا انہیں سامنا ہے۔

حقیقی طور پر امریکی کبھی کردوں کے ساتھ کھڑے ہی نہیں تھے۔ انہیں ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ شام میں طاقت کا توازن روس اور ایران کے مقابلے میں کچھ حد تک امریکہ کے حق میں کیا جا سکے، جبکہ امریکہ نے ترکی کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی اور بے شرمی سے اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کو مالی مدد بھی فراہم کی۔ دوسری جانب، یہ فیصلہ امریکیوں نے کیا کہ SDF کو کون سے شہر فتح کرنے چاہییں، ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ کردوں کو شام کی حکومت کے زیرِ قبضہ علاقوں یا ترکی میں انقلاب کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

شرمناک طور پر، 2018ء میں ترکی کے عفرین پر حملے کے رد عمل میں امریکیوں نے SDF کے کمانڈر، مظلوم عبدی، کو یہ مشورہ دیا کہ عفرین ایک اسٹریٹجک ہدف نہیں ہے۔ پینٹاگون نے بیان دیا: ”ہم انہیں اپنے ’داعش کو شکست دینے‘ کے آپریشنز کا حصہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔“

سب سے پہلے، کردوں نے امریکی مدد کے بدلے ایک بڑا سیاسی نقصان اٹھایا ہے۔ بائیں بازو کی کرد قوتیں خطے میں ایک انقلابی تحریک کی قیادت کر سکتی تھیں۔ لیکن قومی تحریک کی حدود میں رہتے ہوئے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد نہ کرنے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے اور امریکی شرائط کی حمایت کے بدلے کردوں کی جدوجہد صرف کرد عوام تک ہی محدود رہی۔ امریکی سامراج دنیا کی سب سے رجعتی قوت ہے۔ یہ مشرق وسطی میں بجا طور پر بڑے پیمانے پر نفرت کا شکار ہے۔ کردوں کی جدوجہد کو خطے کے محنت کش عوام سے الگ رکھنا اصل میں امریکی حمایت کا زہریلا تحفہ تھا۔

سامراج کی غداری

عفرین (Afrin) نے مستقبل کے واقعات کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ 2018ء میں داعش کو پیچھے دھکیلنے کے بعد سے امریکیوں نے کردوں کے لیے اپنی حمایت بتدریج کم کر دی۔ کچھ عرصے کے لیے اس نے کردوں کو ترکی اور جہادیوں کے خلاف اسد حکومت کے ساتھ ایک عملی غیر جارحانہ معاہدے پر چھوڑ دیا، لیکن صورتحال کبھی مستقل نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ وقت ختم ہو چکا ہے جب کرد ان طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھ سکتے تھے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر سکتے تھے۔

ترکی نے ملک میں امریکہ اور روس کی جگہ ایک بڑی قوت کے طور پر لے لی ہے، جو HTS کو اسلحہ اور مدد فراہم کر رہی ہے۔ ترکی اپنی حمایت کے بدلے ایک بڑی قیمت وصول کرے گا جو اس کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کی صورت میں ہو گی۔ مغربی سامراج کے لیے، زیادہ سے زیادہ لوٹ مار اور ”زمین پر حقائق“ ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ اب وہ اپنے ترک اتحادیوں پر زیادہ انحصار کریں گے تاکہ اپنی حصہ داری حاصل کر سکیں۔

نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ اور یورپ بھی اب کردوں کے معاملے میں اردگان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔

برطانیہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران کرد گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن اس صورتحال کو اور بھی واضح کرتا ہے۔ چھ کردوں پر دہشت گرد تنظیم کے رکن ہونے کا الزام عائد کیا گیا، جو مغربی حکومتوں کی شدید منافقت کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ دوسری طرف وہ HTS کو دہشت گرد گروپ کی فہرست سے نکالنے پر غور کر رہے ہیں۔ پچھلے ماہ، جرمنی نے ترکی کو 40 یوروفائٹر ٹائفون طیاروں کی فروخت پر اپنی پابندی ختم کر دی۔ یہ چھوٹی قوموں کے ”حقوق“ کے بارے میں سامراجی ممالک کے حقیقی رویہ اور مظلوم قومیتوں کے لیے ایک کڑوا سبق ہے۔

یہ واضح ہے کہ حالیہ ترکی حملوں کے دوران، مظلوم عبدی نے امریکیوں سے مداخلت کرنے کی اپیل کی تاکہ وہ ان کی حمایت کریں۔ لیکن مداخلت کے بجائے امریکہ نے ایک جھوٹی فائر بندی کا معاہدہ طے کرایا، جس میں کردوں کو ترکی کے حمایت یافتہ ملیشیا کے لیے شہر منبج چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بائیڈن نے ایک بار کردوں سے کہا تھا کہ ”پہاڑ تمہارے واحد دوست نہیں ہیں۔“یہ بات شاید درست ہو، لیکن وہ یقینی طور پر ان میں سے ایک نہیں ہے۔

آگے کیا؟

کرد قیادت کو کونے میں دھکیل دیے جانے کے بعد سے اس کے کچھ حصے اب نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس کی جانب فوجی سطح پر کچھ اقدامات پہلے ہی دیکھنے کو مل چکے ہیں، جیسے کہ سرکاری عمارتوں پر شام کا نیا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ تاہم، ایسا کرنے کی کوشش بھی بہت بڑی غلطی ہو گی۔

اسد کی حکومت کے گرنے کی رفتار نے واضح کر دیا کہ پرانی ریاست اندر سے بوسیدہ ہو چکی تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے کیا ہو گا، لیکن اس وقت دیگر مسلح گروہ ریاست کے خالی خلا کو پُر کر رہے ہیں، اور ملک مختلف سامراجی طاقتوں اور جنگی سرداروں کی گرفت میں ہے۔

ایچ ٹی ایس (HTS) کی افواج ادلب سے دمشق تک پھیل گئی ہیں، شمال میں ترکی کے حامی، جنوب میں دروز ملیشیا، گولان کی بلندیوں میں اسرائیل، مغرب میں روس، جنوب مشرق میں امریکی حامی گروہ، اورصحرا سے داعش ایک دفعہ پھر سر اٹھا رہی ہے۔ وہ سب چاہے کتنا بھی خود کو ”اعتدال پسند“ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کریں، لیکن وہاں سخت گیر وہابیت کے عناصر اب بھی موجود ہیں، جو بلا شبہ ال جولانی (Al-Jolani) کے عزائم کی پذیرائی سے ناراض ہیں۔

ہر چیز کو اسی طرح پیش کیا جانا چاہیے جیسی کہ وہ ہے؛ ہر طرف کی رجعتیت، سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں گل سڑ چکی ہے، اور ان میں سے کوئی بھی گروہ شام کے محنت کش عوام کے کسی بھی حصے کے مفادات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ جو ریاست اب ابھرے گی وہ ایک جمہوری ریاست نہیں ہو گی جس میں کرد اپنا مقام پا سکیں گے، بلکہ یہ ایک وحشیانہ فرقہ وارانہ تقسیم ہو گی۔

اپنے عروج میں ’روژاوا کا خواب‘ لاکھوں افراد کی توجہ کا مرکز بنا۔ PYD/YPG (بعد میں SDF کا حصہ بنی) شام کے اندر وسیع علاقے پر قابض تھا، جبکہ PKK اور HDP ترکی کے کرد علاقوں میں عملی طاقت رکھتے تھے، اور ایران اور عراق میں بھی ان کی مضبوط حمایت موجود تھی۔ 2015ء میں، ترکی کے کرد علاقوں میں عوام نے ترکی کے ریاستی حملوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اپنے اتحادیوں خاص طور پر امریکی اتحادیوں، کے دور ہونے خوف سے، PKK نے ایک غلطی کی اور پیچھے ہٹ گئی۔ ان کو ان علاقوں کے عوام کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ طبقاتی جدوجہد کے طریقوں اور انقلابی اپیل کے ذریعے جڑنے کا موقع ملنا تھا، تاکہ کرد اور غیر کرد مظلوم عوام کی حمایت حاصل کی جا سکتی۔ تب سے قیادت سامراجی طاقتوں کے ساتھ تعاون کرنے کی راہ پر چلتی رہی ہے۔ اب سامراجی طاقتیں ایک خوفناک غداری کی تیاری کر رہی ہیں۔

بہت سے مواقع ضائع کیے جا چکے ہیں۔ اسد حکومت کی بوسیدگی کو دیکھتے ہوئے، اگر کرد خطے کے محنت کش عوام کے سامنے ایک ترقی پسند، طبقاتی جدوجہد پر مبنی مؤقف پیش کرتے، تو HTS کی بجائے وہ خود اسد کی حکومت کو گرانے والے بن سکتے تھے، جس سے انہیں کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن حاصل ہوتی۔ اسد حکومت مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ داری کی زنجیر کی صرف ایک کمزور کڑی تھی، اور خطے کی دیگر کئی حکومتیں بھی اتنی ہی بوسیدہ ہیں۔ کردوں کی قیادت میں شام کی انقلابی تبدیلی پورے خطے کی عوام کے لیے ایک مشعلِ راہ بن سکتی تھی۔

اب کرد دفاعی پوزیشن پر ہیں۔ آگے بڑھنے کا واحد ممکنہ راستہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ وطن کی جدوجہد کو محض قومی جنگجوانہ جدوجہد کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ کردوں کی آزادی صرف انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے تاکہ اردگان اور شام میں اسلام پسندوں کو معزول کیا جا سکے۔ یہ صرف کرد اور غیر کرد عوام کی متحد انقلابی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ترکی کے مزدور طبقے اور نوجوانوں کو حکمران طبقے اور ریاست سے الگ کیا جائے۔ ترکی میں افراطِ زر اور نوجوانوں کی بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے، اس لیے اس مقصد کے لیے حالات سازگار ہیں۔ دوسری طرف، شام میں عوام نے اسد سے نفرت موجود ہو گی، لیکن وہ نئے اسلامی نظام کے لیے بھی کوئی خاص ہمدردی نہیں رکھیں گے۔

کمیونسٹ مکمل طور پر کردوں کے حقِ خود ارادیت کا دفاع کرتے ہیں۔ ان ریاستوں کے خلاف کردوں کی جدوجہد، جنہوں نے ان پر بے شمار مظالم ڈھائے ہیں، حقیقت میں ایک ترقی پسندانہ اور انقلابی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد دنیا بھر میں مہنگائی، آمریت اور سامراج کے خلاف لڑنے والے لاکھوں مزدوروں اور نوجوانوں کے ساتھ ہم آہنگی قائم کر سکتی ہے اور ان کی ہمدردی حاصل کر سکتی ہے۔

اگرچہ بہت تاخیر ہو چکی ہے، ابھی بھی اگر کرد اور غیر کرد عوام کو یکجا کرنے والی انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے اور طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر اپیل کی جائے، تو خطے کے تمام عوام کی جدوجہد کو مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے نعرے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ روژاوا (Rojava) کا دفاع کرنے اور انقلاب کو پھیلانے کا یہی راستہ ہے۔ لیکن اس کے لیے سامراجیت، طبقاتی مصالحت اور سرمایہ داری سے مکمل طور پر علیحدگی ضروری ہے۔

Comments are closed.