اردوتحریر: |حمید علی زادے|
ترجمہ: |ولید خان|
ترکی کو ڈرامائی اور حیران کن واقعات نے جھنجھوڑ دیا جب مسلح فوج استنبول اور انقرہ کی سڑکوں پر نکل آئی۔ انہوں نے مرکزی ائرپورٹ اور شاہراہوں کو بند کر دیا جبکہ فضائیہ کے طیارے نیچی اڑان پر شہر کے اوپر منڈلاتے رہے۔ ایک بغاوت برپا تھی۔
باغی فوجیوں نے ریاستی نشریاتی ادار ےTRT پر قبضہ کر کے تمام نشریات بند کر دیں اور جب نشریات بحال ہوئیں تو فوجی ٹی وی اینکرکو اعلامیہ پڑھنے پر زور دے رہے تھے جس کے مطابق:
’’ترک مسلح افواج نے ملکی انتظامات پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا ہے تاکہ آئینی نظم و ضبط ، انسانی حقوق اور آزادیوں، قانون کی بالادستی اور عمومی تحفظ کو بحال کیا جائے جن کو نقصان پہنچا ہے۔ تمام عالمی معاہدے برقرار رہیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات برقرار رہیں گے‘‘۔
یہ ترکی میں آٹھویں بغاوت کی کوشش تھی اور اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو 1960ء سے لے کر اب تک یہ پانچویں کامیاب بغاوت ہوتی۔ لیکن حالات و واقعات مختلف سمت چل پڑے جب وزیرِ اعظم نے عالمی میڈیا میں ایک بیان جاری کیا۔ اس نے کہا:
’’یہ ترک جمہوریت پر حملہ ہے۔ مسلح افواج کے اندر سے ایک گروہ نے سلسلہ اختیارات سے بالا تر ہو کر جمہوری منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ مسلح افواج کی طرف سے دیئے گئے بیان کی فوجی کمان نے اجازت نہیں دی۔ ہم تمام دنیا سے ترک عوام کے ساتھ یکجہتی کرنے کی اپیل کرتے ہیں‘‘۔
کچھ دیر کے بعد صدر اردگان CNN Turk پر ویڈیو کال پر نمودار ہوا اور اس نے لوگوں سے باہر نکل کر چوکوں اور ائرپورٹوں پر قبضہ کرتے ہوئے بغاوت سے لڑنے کی اپیل کی۔
ردِعمل انتہائی تیز تر تھا۔ ہزاروں AKP کے حمایتی سڑکوں پر نکل کر فوجیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے، ان کے ٹینکوں پر چڑھ گئے اور یہاں تک کہ کچھ ٹینکوں کو چھین کر چلاتے ہوئے لے گئے۔ جھڑپوں میں کافی لوگ زخمی ہوئے لیکن تحریک بغاوت پر حاوی ہوتی نظر آئی۔ ساتھ ہی ساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے بغاوت کی مخالفت کر دی۔ CHPجو اس وقت ترکی میں حقیقی اپوزیشن جماعت ہے، کے قائد نے صدر کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے حامیوں کو سڑکوں پر آنے کا کہہ دیا۔ بہت سے لوگ AKP کے شدید خلاف ہونے کے باوجود بغاوت کی مخالفت میں باہر نکلے۔ اردگان سے شدید نفرت کے باوجود لوگ 1980sء کی دہائی کی خونی آمریت کو نہیں بھولے۔ چند ہزار فوجیوں کو کئی ہزار مظاہرین نے جلد ہی گھیرے میں لے لیا۔ چند ہی گھنٹوں میں بغاوت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ہر جگہ جارحانہ مظاہرین اور افوج کی اعلی قیادت کے صدر کی حمایت میں اعلانات کے بعد فوجی پسپا ہونے لگے۔ صدر اردگان اتاترک ائرپورٹ پر وارد ہوا اور اعلان کیا کہ ’’بغاوت‘‘ کو کچلا جا چکا ہے۔ پھر اس نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ تمام باغی عناصر کا فوج سے خاتمہ کر دیا جائے گا اور ’’پورا ملک صاف کر دیا جائے گا‘‘۔ ساری رات بڑے شہروں میں الگ الگفوجی ٹولیوں سے جھڑپیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کئی سو ہلا ک ہو گئے اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ بہرحال بغاوت جلد ہی کچل دی گئی اور اردگان نے دوبارہ سے اپنی طاقت کو مستحکم کر لیا۔
’’ غیر منظم بغاوت ‘‘
بظاہر بغاوت ختم ہو چکی ہے لیکن اپنے پیچھے بہت سارے سوال چھوڑ گئی ہے۔ بغاوتیں ترک فوج کیلئے کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن یہ بغاوت خاص طور پر بچگانہ ناقص حکمتِ عملی اور تیاری کا نمونہ ہے۔ سڑکوں پر آ کر طاقت پر قبضہ کر لینے کا اعلان کرنے کے بعد بغاوت کو چلانے والے افراد نے حقیقت میں نہ اقتدار قبضے میں کیا اور نہ ہی اسے مستحکم کیا۔ شاید وہ فوج کے باقی حصوں کا بغاوت کی حمایت میں نکلنے کا انتظار کرتے رہے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں پیغامات موثر طریقے سے نہیں چلائے۔ ۔ کم از کم کھلم کھلا اعلانیہ طور پر تو نہیں۔
سچائی یہ ہے کہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ وہ کون تھے اور چاہتے کیا تھے سوائے اس انتہائی مبہم اعلامیے کے جو انہوں نے جاری کیا ۔ نہ ہی انہوں نے سڑکوں پر نقل و حرکت کی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردگان، اس کی کابینہ، AKP کے تمام کیڈر، پولیس کی اعلی قیادت اور دیگر حکومتی حمایتی آزاد ہی رہے اور ان کے دفاتر کو بھی کچھ خاص چھیڑا نہیں گیا۔ ایک AKP عہدیدار نے کہا کہ اس کے دفتر پر چھاپہ پڑا اور اسے اپنے آپ کو حوالے کرنے کا ’’کہا‘‘ گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو باغیوں کے حوالے نہیں کیا اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی گئی۔
صرف ایک شخصیت جس کے حوالے سے خبریں آئیں وہ چیف آف سٹاف جنرل ہولوسی اکار(Chief of Staff General Hulusi Akar) تھا جسے اطلاعات کے مطابق یرغمال بنا لیا گیا تھا اور اگلے دن صبح ہی اسے ’’آزاد‘‘ کرا لیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر، میڈیا کو تمام آزادی حاصل تھی اور تمام صورتحال کی متواتر نشریات جاری تھیں۔ اردگان اور AKP کے دیگر رہنما براہِ راست ٹیلی ویژن پر آ کر اپنے حمایتیوں کو متحرک ہونے کے پیغامات دیتے رہے۔ واشنگٹن کے پروفیسر دا ؤد خیراللہ(Doud Khairallah) نے RT نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے یہ بنیادی غلطیاں گنوئیں اور بغاوت کو ’’انتہائی غیر منظم‘‘ قرار دیا۔ ایک RT کے صحافی نے سوال کیا کہ ’’کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اردگان کو گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیا ایک بغاوت میں یہی کام نہیں کیا جاتا؟‘‘۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بغیر کسی مزاحمت کے جیٹ طیارے اور دیگر جہاز استنبول کی فضاؤں میں دندناتے پھریں؟
ایک ترکی کے حوالے سے تجزیہ نگار گریگوری کوپلے(Gregory Copley) نے کہا ’’اس واقع کیلئے بغاوت کی تیاریاں بہت خفیہ اور بہت مہارت سے کی گئی تھیں۔ اس کی تیاریوں میں ترک خفیہ ایجنسی MIT اور دیگرکی شدید نگرانی کو چکما دینا ضروری تھاجن کی سب سے اہم ذمہ داری ہی کسی بغاوت کا سدِباب کرنا ہے۔ پھر بھی یہ بغاوت ہو گئی‘‘۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، بغاوت کی تیاریاں کچھ زیادہ مہارت سے نہیں کی گئی تھیں۔ اس کی بنیاد پر یہ دعوے کہ گلین (Gulen) تحریک کا اس بغاوت میں کوئی ہاتھ تھا بعیدالقیاس معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات بھی انہونی ہے کہ MIT کو،جس کی افواج میں بھاری تعداد موجود ہے اور اس کا کام بغاوت کے امکانات کا سدِباب کرنا ہے، اس بغاوت کے بارے میں اسے ذرا بھی خبر نہ ہوئی۔ لیکن پھر MIT نے اس بغاوت کو کیوں رونما ہونے دیا اور کیوں کئی سو لوگوں کو مرنے دیا؟
ترکی سے ایک تبصرہ جو ٹوئٹر(Twitter)پر بہت چلا ہے، کافی اہم ہے:
’’زیادہ امکانات یہ ہیں کہ ایک بغاوت کے مبہم امکانات کا پہلے سے پتہ تھا اور اس کو رونما ہونے دیاکیونکہ اس بات کا پہلے سے ادراک تھا کہ بغاوت کمزور اور غیرمنظم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد اردگان اصل بغاوت کرے گا اور جمہوریت کے بقیہ ماندہ آثار بھی ختم ہو جائیں گے۔ یعنی حالات بد سے بد تر ہو جائیں گے۔ کرد تحریک اورحزبِ اختلاف میں موجود ہم تمام لوگ آنے والے دنوں میں نشانے پر ہوں گے۔ ایک سویلین فوجی نما تحریک ابھی سے پنپ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس نام نہاد بغاوت کی شکست پر وہ سڑکوں پر راج کرے گی‘‘
اردگان اور فوج
یہ بات عام فہم ہے کہ ترک فوج سخت غیر مذہبی روایات کی حامل ہے اور روایتی ترک حکمران طبقے کے بہت قریب ہے۔ ۔ یعنی اردگان کے اناتولیہ (Anatolia) کے سرمایہ دار حلیفوں کی مخالف۔ ۔ اور اسی وجہ سے اردگان کے ساتھ فوج کے تعلقات کچھ بہت اچھے نہیں ہیں۔ جب سے AKP اقتدار میں آئی ہے، اس وقت سے اب تک کئی بغاوتوں کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں اور 2007ء میں ایک بغاوت کچلی بھی جا چکی ہے۔ اردگان نے کئی مرتبہ فوج سے اپنے مخالفین کا صفایا کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن بنیادی طور پر فوج ہمیشہ اردگان کے حوالے سے انتہائی شک و شبہ میں رہی ہے۔ وہ نہ صرف اس کی مذہبیت کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ اس کی لاپرواہ اندرونی اور بیرونی پالیسیوں سے بھی خائف ہیں۔ شام کے کچھ علاقوں پر بھرپور حملہ کرنے کی اردگان کی خواہشات کے درمیان بھی یہی فوج حائل ہے۔ اپریل سے ہی بہت ساری خبریں جن میں سے کچھ AKP کے عہدیداروں کی طرف سے بھی آ رہی تھیں کہ فضائیہ میں سے کچھ لوگ جو گولن تحریک کے حمایتی ہیں، ان کی طرف سے بغاوت
کے امکانات ہیں۔ گولن تحریک ایک ماڈرن اسلامی تحریک ہے جو اردگان کے پہلے دورِ حکومت میں اس کی حلیف تھی۔ مارچ میں ڈیلی صباح (Daily Sabah) جو AKPکا ترجمان ہے،نے ایک مضمون ’’Operations Targeting Turkey and Erdogan‘‘ شائع کیا۔ مضمون میں لکھا ہے کہ فضائیہ کے F-16کے 50فیصد پائلٹ گولن تحریک کے حامی ہیں اور ان کو 2016ء کے اختتام سے پہلے نکال دیا جائے گا۔ اسی طرح کے اور کافی تبصرے گزشتہ چھ ماہ سے چل رہے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے یہ رپورٹیں آ رہی تھیں کہ حکومت افواج میں تطہیر کرنے جا رہی ہے۔ یہ بھی بغاوت کو پھاڑنے کا سبب ہو سکتی ہے جس کی قیادت واضح طور پر جونئیر افسران پر مشتمل تھی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ سینیئر افسران کی حمایت بھی ساتھ شامل ہو۔
پچھلے سال کے دہشت گرد حملوں کی طرح شاید ہمیں کل رونما ہونے والے واقعات کی پوری تفصیل کبھی نہ پتہ چل سکے لیکن یہ بات بہت انہونی ہے کہ بغاوت کے رونما ہونے میں خفیہ ایجنسیوں کی رضامندی نہ شامل ہو۔ حکوت کا یہ پرانا آزمودہ طریقہ کار ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال انقرہ اور سوروک(Suruc) میں دہشت گردی کے واقعات میں خفیہ اداروں نے کئی سو لوگوں کو مرنے دیا تاکہ پارلیمانی انتخابات میں اردگان کی کھوئی ہوئی ساخت کو بحال کیا جا سکے۔ منظم افراتفری اور انتشار کے نتیجے میں اردگان خوف و ہراس پھیلا کر اپنے حمایتیوں کو تحرک میں لا کر اپوزیشن کے خلاف سخت کاروائیاں کر سکتا ہے۔
اردگان کی قوت
گزشتہ چند ہفتوں میں اردگان نے بہت سارے معاملات میں، خاص طور پر خارجہ پالیسی میں مکمل تبدیلیاں کی ہیں۔ ISIS کی طرف سے بڑھتے خطرات اور روسی، ایرانی اور شامی طاقتوں کے سامنے اپنی پراکسیوں کی شدید کمزوری کو دیکھتے ہوئے اس نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تلقین کی ہے جو کہ اس کے سابقہ رویے سے یکسر مختلف ہے جب وہ اسد کی حکومت کے شدید خلاف تھا۔ اردگان نے روسی صدر کو بھی کئی خط ارسال کئے ہیں جن میں ترک فصائیہ کے ہاتھوں پچھلے سال اکتوبر میں ایک روسی پائلٹ کے مار گرانے اور قتل پر معذرت کی گئی ہے۔ اس واقعہ کا سارا ملبہ بھی اس نے فضائیہ میں گولن تحریک کے حامیوں کے سر ڈال دیا ہے۔ کریملن (ماسکو، روس میں صدر کی سرکاری رہائش) کے ایک ترجمان نے کہا ہے:
’’ترک ریاست کے صدر نے قتل ہوئے پائلٹ کے خاندان کے ساتھ گہرے افسوس اور جذبات کا اظہار کیا ہے اور ’سوری‘ کہا ہے‘‘۔ یہ الفاظ چند مہینے پہلے اردگان کے رویے سے کوسوں دور ہیں۔
ایک اور اہم پسپائی میں اردگان نے شمالی شام میں موجود کرد SDFکے جنگجوؤں کو دریائے فرات پار کر کے جارابلوس (Jarablus) اور آزاز (Azaz) کے درمیان /ISISترک کمک شہ رگ کو بند کرنے سے بھی نہیں روکا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کے متعلق خود اردگان نے کہا تھا کہ ترکی کیلئے یہ عمل ’’سرخ لکیر‘‘ ہے۔ ۔ یعنی اس کا اشارہ یہ تھا کہ وہ اس قدم کو قبول کرنے کے بجائے شام پر حملہ آور ہونے کو ترجیح دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردگان کی اس خاموش قبولیت پر فوج کی اعلیٰ کمانڈ کو بہت غصہ آیاہو گا کیونکہ کسی ایک بات پراگر فوج اور AKP میں مفاہمت تھی تو وہ یہ کہ ترکی اور ارد گرد کے علاقوں میں کرد آزادی کی ہر ممکن مخالفت کی جائے گی۔
اردگان نے اسرائیل کے ساتھ حالات معمول پر انے کے اشارے بھی دیئے ہیں جس کے ساتھ اگر بقیہ ماندہ اقدام شامل کرلئے جائیں تو مجموعی طور پر یہ اردگان کی پچھلی چھ سالہ خارجہ پالیسی کا مکمل انہدام اور شکست ہے۔ یہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑا طوفان ثابت ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چند ہفتے قبل استنبول ائرپورٹ پر بم دھماکوں اور ISIS کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے اردگان کے خلاف نہ صرف عوام کو اور زیادہ مخالف کیا ہے بلکہ روائتی بڑے سرمایہ داروں کو بھی جو اپنے کاروباروں کی کامیابی کیلئے ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔ وہ اردگان کو اس تمام دہشت گردی کا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ اس دہشت گردی سے آنکھیں پھیرنا اور یہاں تک کہ ISIS اور دیگر اسلامی تشدد پسند تنظیموں کی پسِ پردہ حمایت ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ترکی کے مختلف علاقوں میں اپنی کمین گاہیں بنائی ہیں تاکہ شام پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان واقعات نے ترکی میں اردگان کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور اس کے مخالفین کا حوصلہ بڑھا ہے۔ شدید سماجی اور سیاسی تضادات کی موجودگی میں جہاں آدھی آبادی اردگان کی شدید مخالف ہے، ایسی شکست سے سارا توازن بگڑ جاتا اور ایسا انقلابی انتشار پھیلتا جس میں اس نے زندہ نہیں بچنا تھااور اگر بچ بھی جاتا تو ایک ایسی صدارت کا خواب جس میں طاقت کا مرکز اس کی ذات ہومشکل میں پڑ جاتا۔
اب اصلی بغاوت کی صورتحال
لیکن بغاوت کو خاموشی سے آگے بڑھنے دینے اور اس کو کچلنے کے بعد اردگان نے اپنی پیش قدمی کو برقرار رکھا ہے جو کہ سیاست اور جنگ میں اہم جزو ہے۔ ایک طاقتور انقلابی تحریک کا سامنا کرنے سے یہ صورتحال بہتر ہے۔ اس کے علاوہ ان اقدامات کے نتیجے میں اردگان فوج میں اپنی قوتوں کو اور مستحکم کرے گا کیونکہ فوج اس وقت بری طرح مجروح ہے۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہو پائے گا یا نہیں ۔ لیکن ان اقدامات کی پولیس،سپیشل پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں لئے گئے اقدامات سے بہت مشابہت ہے۔ ان میں بے تحاشہ تطہیر کے بعد ہزاروں کی تعدادمیں AKP کے وفاداروں کو اندر گھسایا گیا جس کی وجہ سے اتا ترک کیپیروکار کمالسٹ(Kemalist) اور گولینسٹ (Gulenist) کے یہ مضبوط ادارے اردگان کے اوزار بن گئے۔ فوج میں ایک کمزور دھڑے کے خلاف کریک ڈاؤن میں اردگان اپنی قوتوں کو تحرک میں لائے گا اور پورے ادارے پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کرے گا۔
اس تمام معاملے سے اردگان کے روایتی ہتھکنڈوں کی بو آ رہی ہے۔ اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں اردگان نے چالاکی سے PKK کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے کمالسٹوں اور خاص کر فوج پر کاری ضربیں لگائیں۔ لیکن 2013ء کے گیزی پارک (Gezi Park) کے عوامی احتجاجوں کے بعد جب کردوں میں بنیادیں رکھنے والی HDP سماج میں بڑھتی طبقاتی جنگ کی عکاسی کرنے لگی تو اردگان نے فوج کے ساتھ سودا کر کے کردوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ پچھلی فوجی تطہیروں میں پکڑے گئے کئی سو باغیوں کو رہا کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات برخاست کر دیئے گئے۔ اس وقت اردگان کو فوج کی حمایت کی اشد ضرورت تھی تاکہ کردوں اور بائیں بازو کی تحریکوں کو دبایا جا سکے جو اس کی صدارتی امیدوں کے خلاف تھے۔ لیکن اب اپنی خارجہ پالیسی کی مکمل شکست کے بعد اسے فوج کی اعلیٰ قیادت اپنی بے پناہ قوی صدارت کے خلاف نظر آ رہی تھی جس کی وجہ سے پارلیمان کے اختیارات بہت محدود ہو جائیں گے۔ وہ شاید فوج کو اپنے خلاف بڑھتی مخالفت کے ممکنہ محور کے طور بھی دیکھ رہا تھا۔
اردگان نے اپنے خلاف بڑھتی مخالفت کا مقابلہ کرنے کیلئے انتشار کو پھیلنے دیا اور پھر اپنے آپ کو قوم کے مسیحا اور استحکام کے ضامن کے طور پر پیش کر دیا۔ دانستہ طور پر سماج میں ہیجانی کیفیت پھیلا کر اپنے پیٹی بورژوا حامیوں کے جتھوں اور عوام کی پچھڑی ہوئی پرتوں (lumpen) کے ذریعے وہ فوج پر حملہ کرے گا اور زیادہ سے زیادہ طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کی کوشش کرے گا۔
ترک سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے انتشار اور بڑھتی ہوئی مخالفت کے سامنے اردگان ادھر سے ادھر کبھی ایک اور کبھی دوسری سمت میں بھاگ رہا ہے تاکہ بکھرتے حالات پر کچھ قابو پایا جا سکے اور اپنی طاقت و اقتدار کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر ایک ترک محنت کش تحریک ہوتی جو ایک سائنسی انقلابی پروگرام سے لیس ہوتی تو اس پر انتشار دور میں بحرانات میں گھری حکومت کو عوام کے سامنے ننگا کرتے ہوئے اقتدار کیلئے مضبوط سیاسی مقابل کے طور پر ابھرتی۔ موجودہ خلا میں اردگان کو چالیں چلنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ لیکن اپنے تحفظ کے چکر میں وہ مستقل ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس طرح مستقبل میں زیادہ بڑے اور زور دار سماجی دھماکوں کی تیاری ہو رہی ہے۔
محنت کش طبقے کیلئے یہ ایک دھچکا ہے۔ آج صبح اپنے اعلامیے میں اردگان نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ نہ صرف فوج میں تطہیر کرے گا بلکہ پورے ’’ملک‘‘ کو صاف کر دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مخالفت کے خلاف اور زیادہ شدومد سے سخت کاروائی کی جائے گی، خاص طور پر بائیں بازو اور ٹریڈ یونینوں کے خلاف۔
اردگان وقتی طور پر مستحکم ہو گا لیکن سماجی، معاشی، سیاسی اور سفارتی انتشار جلد یا بدیر پھٹیں گے۔ اس کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ترک سرمایہ داری اب سماج کو آگے لے جانے کے قابل نہیں رہی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت اس بحران کو سلجھا نہیں سکتی۔ وہ خود حکمران طبقے کے کمالسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں جو سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ محنت کشوں کی ایک آزاد طبقاتی تحریک کو تعمیر کیا جائے جو نظام کو چیلنج کرے، ترکی میں موجود طاقت ور محنت کش طبقے کو ایک سیاسی متبادل فراہم کرے تاکہ محنت کش طبقہ اس مصیبت سے آزاد ہو کہ حکمران طبقے کے مختلف رجعتی دھڑوں میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے تاکہ وہ ان پر حکمرانی اور استحصال کرتے رہیں۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – ترکی: کرد سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری اور اردوگان کا بڑھتا جبر