|تحریر: فلورین کیلر، ترجمہ: اختر منیر|
اتوار 24 جون کو رجب طیب اردگان نے ترکی کے ووٹروں کو اپنی حکومت کی تصدیق کے لیے باہر آنے کو کہا۔ پہلے مرحلے میں کل ووٹوں کے 52.6 فیصد کے ساتھ اردگان دوبارہ ترکی کا صدر منتخب ہوگیا۔
لیکن پارلیمانی انتخابات میں اس کی رجعتی پارٹی AKP اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی اور محض 42.6 فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔ اپنے دائیں بازو کی اتحادی جماعت MHP کے ساتھ مل کر وہ 53.7 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس طرح نئی پارلیمنٹ میں اس نے پر سکون اکثریت حاصل کرلی۔لیکن اردگان کے لیے یہ زیادہ اہم نہیں تھا کیونکہ اس نے پچھلے سال جو آئین مسلط کیا تھا اس کے مطابق پارلیمنٹ کم و بیش بے کار ہو چکی ہے اور صدر کے ہاتھوں میں بے شمار اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔ صدر اردگان کئی ہفتوں میں پہلی مرتبہ انقرہ میں اپنے 1000 کمروں پر مشتمل محل میں چین کی نیند سو سکے گا، کم ازکم آنے والے کچھ عرصے تک۔
کھوکھلی ترقی
اردگان کی صدارت کے پہلے حصے میں بہت بڑی معاشی ترقی دیکھنے میں آئی۔ 2008ء سے پہلے کے معاشی ابھار کی بدولت ترکی کی معیشت کافی آگے گئی، خاص طور پر اناطولیہ کے وسطی پسماندہ حصوں میں جنہیں ترقی دے کر وہاں صنعت لگائی گئی تا کہ وہاں موجود لاکھوں محنت کشوں اور کسانوں کو استعمال کیا جا سکے۔ معاشی ابھار اردگان کی نسبتاً مضبوط حکومت کی بنیاد تھا۔
ابھی بھی عمومی معاشی ترقی دیکھنے میں آرہی ہے اور اس سال 3 فیصد سے زیادہ ترقی کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ حالیہ معاشی ابھار ترکی کی معیشت میں قیاس آرائی کے بلبلے کی وجہ سے ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد حکومت کا انحصار زیادہ قیاس پر مبنی بڑھوتری اور کریڈٹ کے پھیلاؤ پر رہا ہے۔ تعمیرات کا شعبہ معیشت کو بڑھاوا دینے والا سب سے اہم شعبہ رہا ہے جس کو تاریخ کی کم ترین شرح سود اور حکومتی اخراجات کی مدد حاصل تھی جس سے کوئی خاص آمدنی بھی حاصل نہیں کی جا رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے سرکاری اور نجی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور کرنسی انتہائی کمزور ہو گئی۔ اس وجہ سے ترکی کی معیشت ایک آتے ہوئے بحران کی علامات ظاہر کر رہی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اردگان نے طے شدہ وقت سے اٹھارہ ماہ پہلے ہی انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔
حالیہ ترقی کے باوجود بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے اور 16 سے 25 سال تک کی عمر کے افراد میں یہ شرح 25 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ افراط زر میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے (اب تقریباً سالانہ 12 فیصد) جس سے لوگوں کے معیار زندگی پر ناقابل برداشت دباؤ پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اظہار آئینی ریفرنڈم کے موقع پر دیکھنے میں آیا جس میں اردگان نے مضبوط گرفت والے علاقوں میں بھی کافی حد تک اپنی مقبولیت کھو دی۔
پراپیگنڈا اور انتخابی تحائف
اردگان کی “صاف اور شفاف” انتخابی جیت کی بات کی جائے تو یہ حقائق سے روگردانی ہوگی۔ اردگان نے جیت کو یقینی بنانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ دو سال قبل ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک ترکی ایمرجنسی کی حالت میں ہے۔ ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
پچھلے کچھ سالوں کے دوران تمام میڈیا اردگان اور اس کے ساتھیوں کے مکمل قبضے میں آ چکا ہے۔ حزب اختلاف کے تمام اخبارات، ٹی وی چینلز اور خبر رساں ایجنسیاں یا تو بند کر دی گئی ہیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے یا پھر انہیں اردگان کے ساتھی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ تمام انتخابی مہم عوامی حلقوں پر اردگان اور APK کے مکمل تسلط پر مبنی تھی۔ اردگان کی انتخابی مہم کی تقاریر روزانہ عوامی ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کی جاتی تھیں اور تمام سرکاری مشینری اس کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے حرکت میں آچکی تھی۔
اسی کے ساتھ تمام ریاستی مشینری کو اردگان کے خیالات کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے اور اسے اس کی ذاتی حکمرانی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ 2015 ء کے انتخابات اور پچھلے سال ہونے والے آئینی ریفرنڈم کی طرح عراق میں کرد PKK کے خلاف قوم پرستی پر مبنی جنگی جنون کو ہوا دی جارہی ہے اور شام کے شہر عفرین پر حملہ بھی اسی مقصد کے لئے تھا جو کچھ ہفتے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک آباد ترکوں کو تحرک دینے کے لئے ہمیشہ کی طرح اینجلا مرکل اور دوسری مغربی حکومتوں کے ساتھ ڈرامائی تصادم کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ آسٹریا کی حکومت کو تو اس کے مسلسل نسل پرستانہ جذباتی حملوں کے ذریعے انتخابی مہم میں مدد کرنے پر تمغہ امتیاز ملنا چاہیے، کہ کس طرح وہ جذباتی انداز میں وہ ترکوں کو “غیر تہذیب یافتہ” قرار دیتے رہے۔ یہ لیڈران بھی خاموشی سے اردگان کے ساتھ نورا کشتی کا حصہ بنے رہے تا کہ دونوں ممالک کے محنت کشوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جاسکے۔
ہم یہ بھی پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کی انتخابی ہیرا پھریوں کے علاوہ ریاستی مشینری کی مدد سے لاکھوں ووٹوں کی براہ راست دھاندلی بھی کی گئی ہے۔ ٹھیک ٹھیک پتہ چلانا تو مشکل ہے کہ یہ سب کس حد تک ہوا مگر یہ بالکل واضح ہے کہ بہت بڑے گھپلے کیے گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کے انتخابات کے نتائج کا اعلان آفیشل انتخابی حکام کی جانب سے نہیں بلکہ سرکاری خبررساں ایجنسی کی جانب سے کیا گیا۔
حزب اختلاف متبادل نہیں
بہرحال یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردگان ماضی کے دنوں کی حمایت پر چل رہا ہے۔ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کا ازالہ کرنے کیلئے AKP نے انتخابات سے پہلے عوام کو گھوس دینے کے سلسلے کا آغاز کیا۔ مثال کے طور پر کم از کم اجرت میں اضافہ کردیا گیا اور پینشن لینے والوں کو ایک ہی مرتبہ ایک ہزار لیرا (جو 200 یورو سے تھوڑا ہی کم بنتا ہے) فی کس دینے کا اعلان کیا۔ کل ملا کے تقریبا 6 ارب ڈالر مزید خرچ کیے جائیں گے۔ حکومت اردگان کے دوبارہ منتخب نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے عدم استحکام، بے چینی اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے معاشی انہدام سے شدید خوفزدہ تھی۔
اگرچہ اردگان کے بہت سے حمایتی اس پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں مگر انہیں کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔ حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت کے پاس سلطان کی طرف سے باندھی جانے والی اس گرہ کا کوئی حل موجود نہیں تھا جو در حقیقت صرف اور صرف انقلابی اور سوشلسٹ قدامات سے ہی کھولی جا سکتی ہے۔ اس کی بجائے الیکشن سے قبل وہ یہ ابہام پیدا کرتے رہے کہ سرمایہ دارانہ “جمہوری” انداز میں اردگان کا استعفیٰ بھی ایک راستہ ہے، بشرطیکہ عوام متحرک ہوں اور انتخابات کی درست انداز میں نگرانی کی جائے۔
ایسا کچھ نہ ہو سکا اور سلطان وقت سے پہلے گھر نہیں گیا۔ وہ اپنی طاقت کے تحفظ کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کر سکتا ہے اور کرے گا بھی۔ اس کے نقطہ نظر کے مطابق کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ اس کے اور ترکی کے ان سرمایہ داروں کے مطابق جو اس کی حمایت کر رہے ہیں، یہی سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ دوسری طرف وہ سرمایہ دار بھی جو اس کی جگہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کوئی نسبتاً معقول آدمی لانا چاہتے ہیں جسے آسانی سے کنٹرول کیا جا سکے، وہ بھی عوام کو تحریک نہیں دینا چاہتے کیونکہ انہیں اردگان سے زیادہ عوام سے ڈر لگتا ہے۔
انتخابات کے نتائج پر یہ بالکل واضح تھا۔ CHP کے صدارتی امیدوار محرم انثی نے واضح دھاندلی کے باوجود اگلے ہی دن اردگان کی انتخابی کامیابی تسلیم کر لی۔ انتخابات سے قبل پوری نسل میں پہلی مرتبہ CHP کے رہنماؤں نے لاکھوں لوگوں کو متحرک کرنے کی ہمت کی تھی۔ انہوں نے یہ افواہیں بھی پھیلا دیں کہ اگر وہ انتخابات ہار گئے وہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اسی بے باکی کی وجہ سے CHP کے بہت سے مایوس کارکنان میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔ مگر جب عمل کا وقت آیا تو ان لبرل رہنماؤں نے ایک انقلابی تحریک، جسے وہ قابو میں رکھنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، شروع کرنے کا خطرہ مول لینے کی بجائے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
اردگان کے خلاف عوامی تحریک!
وہ پارٹی جسے اردگان کے بے شمار حملوں کا بار سہنا پڑا، بائیں بازو کی کرد حمایت یافتہ HDP تھی۔ اس کا صدارتی امیدوار صلاحتین دمرتس ڈیڑھ سال تک جیل میں رہا اور اس دوران اردگان کے وفاداروں اور فسطائیوں نے پارٹی کے کارکنان پر پے در پے حملے کیے۔ ساتھ ہی پولنگ سٹیشنوں کو بڑی آبادی سے دور دائیں بازو کے اکثریتی دیہاتوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں فوج بھی موجود تھی جس سے دھاندلی کرنا مزید آسان ہوگیا۔
ان حالات میں بھی HDP کیلئے انتخابات میں 11.7 فیصد کا نتیجہ انتہائی غیر معمولی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کے ان میں ابھی بھی اردگان کیخلاف مزاحمت کا مرکز بننے کی سکت موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے ایچ ڈی پی “جمہوریت کے آدرشوں” کے کھڈے میں گرگئی، جب انہیں شکست بھی ہوئی اور انہوں نے قانونی جدوجہد کو عوامی تحریک سے جوڑنے اور انقلابی اقدامات سے ہاتھ کھینچ لیا، حالانکہ اسکی بنیاد بھی موجود تھی، کم از کم کرد علاقوں میں۔
پس عوام میں بڑھتی ہوئی ناگواری ایسے رستے کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے اردگان کو کوئی حقیقی خطرہ نہیں۔ اس صورتحال میں حزب اختلاف کی ناامیدی اور تذبذب آنے والے کچھ وقت تک اردگان کے لیے ایک تگڑا آدمی بنے رہنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کا بڑھتا ہوا آمرانہ طرز عمل اس بات کی علامت ہے کہ حکومت آنے والی سماجی بغاوتوں کے لیے تیار ہو رہی ہے جو مستقبل میں ناگزیر طور پر ابھریں گی۔ سرمایہ دارانہ جمہوری طریقوں کی بجائے ایک انقلابی تحریک کے ذریعے اردگان کا تختہ الٹنا ہوگا جس میں محنت کش، نوجوان اور عوام کی وسیع پرتیں شامل ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے آمریت کے خلاف لڑائی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔