|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|
اردوگان کی اقتدار پر آہنی گرفت مضبوط کرنے کی ہوس نے خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔ جمعرات کی شب بائیں بازو کی کر دپارٹی HDP(پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کے دو نوں شریک صدور صلاحدین دیمرتاس اور فگن یوکسیک داگ کو پارٹی کے نو دیگر ممبران پارلیمنٹ سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دو مزید ممبر پارلیمنٹ کی تلاش برائے گرفتاری جاری ہے جبکہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پارٹی کے تمام ممبران پارلیمنٹ جن کی کل تعداد 59 ہے، سب کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ ان ممبران پارلیمنٹ پر بے شمار الزامات ہیں جن کا تمام تر تعلق ’’دہشت گردی کی تقویت و حمایت‘‘ سے ہے، گو کہ ان تمام الزامات سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں۔
To read this article in English, click here
اس اثنا میں متعدد AKP اور MHP کے ممبران پارلیمنٹ، جن کی اعلی سطح کی کرپشن افشا ہو چکی ہے، دندناتے پھر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان پارٹیوں کی اسلامی انتہا پسند گروہوں کی حمایت سے متعلق، بشمول داعش کے ،بے شمار ثبوت موجود ہونے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ دہشت گرد حملوں سے متعلق PKK کی کھلی مذمت کرتے ہوئے، جن میں سے بے شمار حملے اسلامی انتہا پسند گروہوں نے کرد تنظیموں کے خلاف کئے ہیں، ترکی کے سابقہ وزیر اعظم احمد داف توگلو نے داعش کو دہشت گرد تنظیم کہنے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ ’’برہم سنی نوجوانوں‘‘ کی تنظیم ہے۔ ان تمام واقعات سے اردوگان کی آمرانہ حکومت کی اصلیت کا پردہ فاش ہوتا ہے۔
HDP کے خلاف مذموم جارحیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اردوگان کے سامراجی عزائم کے خلاف ایک مزاحمت ہیں۔ ان منصوبوں میں صدارتی نظام حکومت ہے، جس کی وجہ سے تمام تر طاقت اردوگان کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے گی اور مشرق وسطی میں ترک سامراج کا بڑھتا ہوا کردار شامل ہیں۔ جون 2015ء میں HDP کی پارلیمنٹ میں کامیابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردوگان کی پارٹی AKP کے پاس صدارتی نظام کو لاگو کروانے کیلئے آئینی ترمیم کیلئے مطلوب ووٹ موجود نہیں تھے اور کرد تحریک جس میں HDP، PKKاور دیگر چھوٹے گروہ جیسے شام میں موجود PYDاور YPG شامل ہیں، اردوگان کے سامراجی عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد HDP کی تطہیر، اردوگان کی اقتدارپر گرفت مزید مضبوط کرنے کے دور رس اقدامات میں سے ایک ہے۔ اردوگان، جو کئی بحرانوں اور مسائل میں گھرا ہوا تھا، فوجی بغاوت اس کیلئے ’’آسمانی نعمت‘‘ ثابت ہوئی ہے۔ اس نے اس واقعے کو قوم پرست جذبات کو ابھارنے کیلئے بھرپور استعمال کیا جس کے ذریعے اس نے سماج میں موجود اپنی حمایت کو تحرک دیا(جو اس وقت تک کافی مایوس ہو چکے تھے)، مارشل لا ء لاگو کیا (MHPاور CHPکی حمایت کے ساتھ!) اور ریاستی طاقت پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کیا۔ بغاوت کے بعد سفاک منصوبہ بندی کے تحت جمہوری حقوق پر خوفناک حملے کئے جا رہے ہیں۔۔ خاص طور پر پریس پر۔ لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اردوگان اپنی حکومت کو سہارا دینے کیلئے مسلح افراد کے جتھے تیار کر رہا ہے۔ SADAT اور Ottoman Hearts کے نام سے پیرا ملٹری فوجوں کے ساتھ ساتھ اردوگان سیکورٹی کے مختلف اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ ستمبر 2016ء میں وزیر داخلہ ایفکان آلا کی جگہ سلیمان سویلو کو لایا گیا جو اپنے سابقہ پیشرو سے زیادہ وفادار اور سفاک ہے۔ اس کے وزارت داخلہ کا انتظام سنبھالنے کے بعد پچھلے ہفتے ترکی کے 81صوبوں میں سے 61صوبوں کے پولیس چیف تبدیل کر دیئے گئے۔ نیوز ویک جریدے نے اس اقدام کی اہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تمام تبدیل کئے گئے پولیس چیف اردوگان کیلئے قابل اعتماد نہیں تھے ۔۔ ان میں سے بہت سارے وفادار تھے اور کئی کی تعیناتی تو خود اردوگان نے کی تھی۔ اس کے بجائے لگتا ہے کہ اردوگان کے نزدیک وہ نرم دل ہیں اور اس طرح کا شدید تشدد کرنے کو تیار نہیں جو اردوگان کے مطابق نہ صرف ترک کردوں کے خلاف بلکہ بہت سے لبرل اور غیر سیاسی ترکوں کے خلاف ضروری ہے تاکہ ریاستی طاقت پر اس کی گرفت مزید مضبوط ہو۔‘‘
اردوگان تمام تر ریاستی طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کی بنیادیں تیار کر رہا ہے۔ وہ پہلے سے محنت کشوں، کرد اور بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کئی ہزار بائیں بازو اور یونین ممبران اساتذہ اور ریاستی افسران کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے ریاستی ایمرجنسی کو استعمال کرتے ہوئے 28 مقامی کونسلوں کے منتخب شدہ اراکین کو تبدیل کر دیا ہے۔۔ جن میں سے زیادہ تر HDP کے ممبران یا حامی تھے۔۔ اور ان کی جگہ AKP کے وفادار اراکین کو تعینات کر دیا ہے۔ ترکی کے کرد علاقے حقیقت میں مقبوضہ علاقے بن چکے ہیں جہاں ترک فوج کو ایک خوفناک جبری قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کردوں کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایک ایسی پارٹی کو ووٹ دیا جو اردوگان کے مطلق العنان طریقہ کار اور امنگوں کی حمایت نہیں کرتی۔
بائیں بازو اور محنت کشوں کے سرگرم نمائندوں کے علاوہ اردوگان ترک سرمایہ دار طبقے کے مختلف دھڑوں پر بھی تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ ان حملوں کا سب سے زیادہ شکار نیم اسلامی ’گلن تحریک‘ ہے جس نے 2002ء میں اردوگان کی اقتدار کے حصول میں مدد کی تھی لیکن 2013ء کی گیزی پارک تحریک کے بعد اس کے AKP ساتھ اختلافات بن گئے۔ تحریک کے لاکھو ں حامی افراد کو ریاست کے مختلف اداروں سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ تحریک سے تعلق رکھنے والی 252 کمپنیوں، جن کی اندازً مالیت 100ارب ڈالر سے زیادہ ہے، کو انٹیلی جنس ایجنسی نے ضبط کر لیا ہے۔ قیاس یہی ہے کہ انہیں AKP کے حامی سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اسی طرح زمان اخبار، جو کہ ترکی کا سب سے بڑا اور گلن تحریک کا نمائندہ اخبار ہے، کو مارچ میں ضبط کر لیا گیا تھا اور اب اسے حکومت چلا رہی ہے۔
مارشل لاء کے لاگو ہونے کے بعد سے اب تک 130 میڈیا ادارے، جن میں ترکی کے دیو ہیکل اخبارات شامل ہیں، بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ متعدد صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تازہ ترین شکار کمالسٹ سیکولر اخبار جمہوریت ہے جس کے سٹاف میں سے ایڈیٹر سمیت 15 افرادکو اس سوموار گرفتا کر لیا گیا ہے۔ کمالسٹ سرمایہ دار دھڑا بھی زیر عتاب ہے، خاص طور پر افواج میں جہاں سے ہزاروں روایتی کمالسٹ حامی چوٹی کے افسران کی تطہیر کر دی گئی ہے۔
اردوگان تاریخی طور پر روایتی بڑے حجم کی کمالسٹ بورژوازی کے بجائے کمزور اناطولی بورژوازی کا نمائندہ ہے۔ ان کے آپس میں دیگر مسائل کے علاوہ سیکولرازم، معاشی پالیسی اور خارجہ پالیسی پر بے شمار تضادات ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ AKP، 2002ء سے اقتدار میں ہے لیکن معاشی امور کے بہت سارے معاملات اور فوج پر اثر و رسوخ کمالسٹ بورژوازی کے ہاتھوں میں ہی رہا۔ اس نئی تبدیلی کے رونما ہونے کے بعد، یہ واضح ہے کہ کمالسٹ حکمران دھڑا کمزور کر دیا گیا ہے اور طاقت کا توازن کافی حد تک برابر ہو گیا ہے۔ اسی بنیاد پر ترکی نے شمالی شام کے حصوں پر فوج کشی کی ہے اور شمالی عراق میں اشتعال انگیز اور سامراجی فوجی پھیلاؤ بڑھا رہا ہے۔۔ ایسے اقدامات جن سے فوج کئی سالوں سے انکاری تھی۔
روایتی طور پر کمالسٹ معتدل اور محتاط خارجہ پالیسی کے برخلاف اردوگان کے اناطولی شیر نئی منڈیوں اور اپنے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کیلئے بیتاب ہیں۔ کچھ عرصے سے وہ اپنے ارادوں کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں جس میں ’’میثاقِ ملی‘‘ کا لاگو کرنا بھی شامل ہے۔ یہ عثمانی پارلیمنٹ کی آخری قرار داد تھی جس میں شمالی عراق اور شام(ساتھ ہی دیگر غیر ترک علاقے)کو ترکی کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ شام میں حالیہ مہم جوئی اور شمالی عراق کے علاقوں پر فوج کشی کی مستقل لٹکتی تلوار انہیں مقاصد کا بیرونی اظہار ہیں۔ دونوں ریاستوں کو بکھرتا دیکھتے ہوئے اردوگان ان برباد ریاستوں کے بڑے بڑے علاقوں پر اپنا حق جتا رہا ہے۔ کیونکہ بیشتر علاقے کرد اکثریت کے ہیں، اس وجہ سے کرد قومی سوال سلطانی خواہشات کے حامل اردوگان کیلئے پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اس کے سامراجی عزائم دو کروڑ کرد عوام جو کہ ترکی، شام اور عراق میں بستی ہے، کیلئے جنگ و جدل کی نوید ہیں جس کی وجہ سے خود ترکی کے اندر عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ یہ درست ہے کہ اردوگان کمالسٹوں اور گلنسٹوں پر کاری ضربیں لگا رہا ہے لیکن اس کی اصل رکاوٹ HDP ہے کیونکہ یہ وہ پارٹی ہے جو نہ صرف کردوں کی نمائندہ ہے بلکہ سب سے زیادہ ریڈیکل اور باشعور ترک محنت کشوں اور نوجوانوں کے قابل ذکر حجم کی بھی نمائندہ ہے۔ لیکن، جیسے جیسے قوم پرست جذبات ٹھنڈے پڑ رہے ہیں، معاشی بحران گہرا ہو رہا ہے اور عوام سنجیدہ ہو رہے ہیں، طبقاتی جنگ ویسے ہی اتنی شدت سے متحرک ہو گی۔ ترک محنت کش مشرق وسطی کے سب سے مضبوط اور فعال محنت کش ہیں۔ ان کی شاندار ریڈیکل انقلابی روایات ہیں اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ انہوں نے 30 سال سے زیادہ عرصے میں ابھی تک شکست کا سامنا نہیں کیا ہے۔ ایک درست نقطہ نظر کی حامل اور فعال قیادت کے فقدان کی وجہ سے پچھلے چند سالوں سے یہ طبقہ قدرے خاموش رہا ہے لیکن گہرے ہوتے بحران اور اردوگان کی اقتدار کی ننگی ہوس اسے جلد یا بدیر عملی جدوجہد کے میدان میں دھکیلے گی۔
اردوگان فی الحال مضبوط نظر آ رہا ہے لیکن اگر اس کے پاس اپنی پالیسیوں کی عمل درآمدگی کیلئے عوامی حمایت موجود ہوتی تو اسے ان اقدامات کے اٹھانے کی ضرورت نہ ہوتی جیسے کہ وہ ابھی اٹھانے پر مجبور ہے۔ اردوگان کی پچھلے پارلیمانی انتخابات میں جیت کے باوجود، ترکی کے زیادہ تر ووٹروں نے دراصل پچھلے دو انتخابات میں اردوگان اور AKP کے خلاف ووٹ ڈالے۔ قوم پرست جذبات اور خانہ جنگی کی کیفیت کو ابھارتے ہوئے وہ اپنی مخالفت کو وقتی طور پر ٹھنڈا تو کر سکتا ہے لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں مستقبل میں اردوگان حکومت اور زیادہ کمزور ہو گی۔ ترک سرمایہ داری عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔