|تحریر: سوسیالسٹ ڈیوریم – آئی ایم ٹی ترکی، ترجمہ: جویریہ ملک|
ترک عوام میں غم کی جگہ غصہ پنپ رہا ہے کیونکہ 6 فروری کوترکی سمیت شام میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے زلزلے کے بعد سے لاکھوں متاثرین اپنی مدد آپ کرنے پر مجبور ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 46 ہزار تک پہنچ گئی ہے، لیکن یہ اصل تعداد سے کم ہے۔ زلزلے کی امدادی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے مقرر کیے گئے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے گورنر عثمان بلگین نے تصدیق کی ہے کہ حقیقی تعداد سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ ہے: ”تین سے چار گنا یا اس سے بھی پانچ گنا زیادہ ہیں“۔
کچھ شہروں میں اجتماعی قبریں بنائی گئیں کیونکہ قبرستانوں میں اب جگہ نہیں ہے۔ شہر بھر میں تازہ کھودی ہوئی قبروں کی قطاریں ہیں لیکن لاشیں ختم نہیں ہو رہیں۔
زیادہ تر اموات فوری طور پر زلزلے سے نہیں بلکہ کئی دنوں تک ملبے تلے دبے رہنے کی وجہ سے ہوئیں۔ تباہی کی اصل وجہ حکمران جماعت اے کے پی کی مجرمانہ کرپشن، بے حسی اور بے عملی ہے۔ تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ ان کے تعلقات نے اس سانحہ کو ناگزیر بنا یا۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے اور اہم ضروریات کی امداد بھیجنے کے لیے جتنے دن لگے اس نے ہلاکتوں کی تعداد کو مزید بڑھا دیا۔
زلزلے کے بعد سوشل میڈیا انتہائی دردناک ویڈیوز سے بھر گیا تھا جہاں کئی ماں باپ ملبہ ہٹانے کی درخواست کر رہے ہیں جس کے نیچے ان کے بچے دبے ہوئے تھے۔ انتاکیا میں ایک ماں، ہاتے جس کے دو بیٹے دو دن سے ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے تھے، منتیں کرتے ہوئے کہتی ہے: ”میں ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین مانگ رہی ہوں اور بھیک مانگ رہی ہوں۔ وقت ختم ہو رہا ہے۔ خدا کے لیے صرف ایک کرین۔“ اگلے دن ایک کرین آئی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس کے دونوں بیٹے مر چکے تھے۔
ایک غم زدہ باپ جو کئی دنوں تک ملبے تلے دبے اپنے بیٹے کی آواز سنتا رہا، لیکن زلزلے کے پانچویں دن تک اسے مدد نہیں ملی، نے کہا: ”میرا بیٹا زلزلے نے نہیں مرا، ریاست نے اسے مارا ہے۔“۔ یہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں والدین کی کہانی ہے۔
عوام کے دکھوں میں اضافہ کرتے ہوئے زلزلے کے صرف دو ہفتے بعد، حکومت نے اعلان کیا کہ تلاش اور امدادی کام روک کر دوبارہ تعمیراتی کام کا آغاز کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے منہدم عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے اپنے پیاروں کی آوازیں سننے کی اطلاع دی۔ ہزاروں افراد زندہ دفن ہو گئے۔ ہزاروں آفٹر شاکس کے باوجود اے کے پی حکام نے خیموں سے محروم متاثرین کو یہ کہا ہے کہ تباہ شدہ گھروں میں واپس جانا محفوظ ہے، جس کی وجہ سے اب تک تباہ شدہ عمارتوں کے گرنے سے مزید نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ صرف زلزلہ نہیں بلکہ قتل عام ہے!
لاکھوں لوگ جو ایک ڈراؤنے خواب جیسی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایک زلزلہ نہیں تھا، بلکہ ایک قتل عام تھا جس کے لیے اردگان حکومت نے راہ ہموار کی تھی۔
یہ زلزلہ اچانک نہیں آیا۔ دو براعظموں کے درمیان ترکی متعدد ضم ہونے والی ٹیکٹونک فالٹ لائنوں پر واقع ہے۔ ماہرین ارضیات اور دیگر ماہرین برسوں سے خطے میں خوفناک زلزلے پر خبردار کر رہے تھے۔ انجینئرز اور آرکیٹیکٹس برسوں سے فالٹ لائنز پر تعمیر نہ کرنے کی تنبیہ کر رہے ہیں۔
لیکن اے کے پی نے تمام انتباہات کو نظر انداز کر دیا اور ماہرین کی طرف سے پیش کی گئی تمام تجاویز کو مسترد کر دیا۔ عمارت کے مناسب معیارات کو لاگو نہ کرنے یا فالٹ لائن پر تعمیرات کو روکنے میں ناکامی کی اہم وجہ وہ منافع خوری ہے جس میں اردگان کے اتحادی مصروف تھے۔
جب اے کے پی اقتدار میں آئی، تو انہوں نے بڑے پیمانے پر اقتصادی عروج دیکھا جو بنیادی طور پر تعمیرات پر مبنی تھا۔ یہ شعبہ اے کے پی کی حمایت کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ کئی سالوں سے اردگان اپنی پارٹی کے تعمیراتی منصوبوں کے خطرات کے بارے میں خبردار کرنے والے ماہرین کے ساتھ بار بار جھٹپتا رہا ہے، یہاں تک کہ شہری منصوبہ سازوں کو اعتراض کرنے پر جیل بھیجا گیا۔
اے کے پی کی حکومت میں اردگان نے 11 زوننگ ’اثتثنائی قوانین‘ منظور کیے: ایسے قوانین جو فیس کے بدلے غیر محفوظ علاقوں اور بلڈنگ کوڈز (بشمول زلزلے سے متعلق حفاظتی اقدامات) کو نظرانداز کرتے ہوئے تعمیر شدہ عمارتوں کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ رشوت کے اس قانونی نظام کے تحت خطرناک عمارتوں کو ’زلزلے سے محفوظ‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
کئی سالوں سے تعمیراتی شعبے کے ’لاگت میں کمی‘ کے اقدامات نے ہلاکتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ جب پہلا زلزلہ آیا تو کچھ عمارتیں نیچے سے ٹوٹ کر اپنے اطراف میں گر گئیں، جبکہ دیگرمنہدم ہو گئیں۔ لیکن زیادہ ترعمارتیں ایسے گریں جسے ’پین کیک کولاپس‘ کہا جاتا ہے جہاں پوری عمارت نیچے کی طرف بیٹھ جاتی ہے اورمنزلیں ایک دوسرے پر’ڈھیر‘ ہو جاتی ہیں۔
پین کیک کولاپس کا سبب اکثر ناقص معیار کے مواد کا استعمال ہوتا ہے، اور ٹھیکیداروں کی منافع خوری کی خاطر ’بچت‘ میں ایسا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ منہدم ہونے کی بدترین شکل ہے کیونکہ یہ چند گڑھے بناتا ہے جس میں لوگ ملبے کے درمیان زندہ رہ سکتے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اور ایسا بھی دیکھا گیا کہ منہدم، تباہ شدہ عمارتوں کے ساتھ ہی عمارتیں مکمل طور پر برقرار اور محفوظ رہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں صوبہ ہرامنمارس میں کچن کے سامان کی ایک دکان دکھائی گئی جس میں ڈسپلے پر موجود پلیٹیں اور چمچ بھی بے حرکت تھے۔ دکان کا شیشہ بشمول اس کے اوپر کی بلند و بالا عمارت مکمل طور پر محفوط اور ثابت تھے۔ اس کے باوجود اسی محلے میں سینکڑوں عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔
مختصراً یہ کہ سرمایہ داروں اور ان کے منافع پر مبنی نظام کی لاحاصل لالچ کو پورا کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کیا گیا۔
امدادی کاروائیوں میں افراتفری
ابتدائی 48 گھنٹے تلاش اور بچاؤ کی کوششوں کے لیے انتہائی اہم تھے لیکن امدادی کاروائیوں میں تاخیر ریاست کی بنیادی ناکامی تھی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں سمیت دیگر زلزلہ زدہ علاقوں کو تیسرے دن تک کوئی مدد نہیں ملی۔ کچھ علاقوں کو اگلے ہفتے تک کوئی مدد نہیں ملی۔ ایسا کیوں تھا؟
ترک ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ پریذیڈنسی (اے ایف اے ڈی، آفات سے متعلق ریاستی ایجنسی) نے زلزلے کے 45 منٹ بعد ہی ایک لازمی رپورٹ پیش کی تھی، اور تمام متعلقہ امدادی کاروائی کے شعبوں کی ہنگامی میٹنگ کی گئی۔ چند ہی گھنٹوں میں ریسکیو اور ریلیف ٹیمیں تیار تھیں۔
لیکن پھر احکامات کے انتظار میں گھنٹوں اور دن گزر گئے۔ ملک میں آنے والی بین الاقوامی تلاش اور بچاؤ ٹیموں کو حتمی اجازت کے انتظار میں ائیرپورٹ پر رکھا گیا۔ تمام سول تنظیموں، این جی اوز، رضاکاروں، بشمول ترک ریڈ کراس اور نیشنل تلاش اور بچاؤ ایسوسی ایشن کو زلزلے سے متاثر علاقوں میں جانے سے روک دیا گیا جب تک کہ انہیں اے ایف اے ڈی اور وزارت داخلہ کی طرف سے منظوری نہیں مل جاتی۔ اے ایف اے ڈی ہی لوگوں کو زلزلے کے علاقے میں بھیجنے والی واحد ایجنسی ہوگی۔
اس کے باوجود اے ایف اے ڈی افراتفری اور بدنظمی میں گھری ہوی تھی۔ متاثرین کو انتظار کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتائج جان لیوا تھے۔ یہ اس بدنظمی کے متاثرین ہیں جس کی جڑیں براہ راست حکومت کے بحران میں ہیں۔
اس گھمبیر مسئلے سے نمٹنے اور تیز رفتار، موثرامدادی کاروائی کے وسائل اور صلاحیت صرف ایک تنظیم کے پاس تھے، ترک مسلح افواج۔ تاہم اردگان نے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ یہ طرزعمل اس کے مسلسل خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ فوج اس کے خلاف حرکت کر سکتی ہے۔ مزید برآں، وہ نہیں چاہتا تھا کہ فوج اس سے ’شہرت‘ کا موقع چھین لے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ فکر مند تھا کہ فوج درحقیقت تلاش اور بچاؤ کی کوششوں کو انجام دینے اور جانیں بچانے میں کافی کارگر ثابت ہوگی!
ترک فوج، جو ہمیشہ سے ترک بورژوازی کے غالب اور سیکولر کمالسٹ گروہ کے کنٹرول میں رہی ہے، طویل عرصے سے ترک سرمایہ دار طبقے کے جونیئر گروہ اور اس کی نمائندہ اردگان کی اے کے پی حکومت کے ساتھ تناؤ کا شکار ہے۔ اردگان نے کئی سالوں میں فوج کو اپنے دائدے کیلئے صاف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کبھی بھی اسے مکمل طور پر قابو نہیں کر سکا۔ اس کی طاقت کو لگام دینے کے لیے 2009ء میں اے ایف اے ڈی کو آفات سے نمٹنے کی واحد ذمہ داری کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ اے ایف اے ڈی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے، اور براہ راست اردگان کو رپورٹ کرتا ہے۔ 2010ء میں، اردگان نے اس پروٹوکول کو تحلیل کر دیا جو فوج کو ہدایت کے بغیر آفات میں کاروائی کی اجازت دیتا تھا۔
جنوری میں، اردگان نے اے ایف اے ڈی کی قیادت ایک ماہر دین کو سونپی جو پہلے ترکی کے مذہبی امور کا ڈائریکٹوریٹ تھا اور جس کے پاس آفات کی تربیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ یہ اس ادارے کی بدانتظامی کا ایک اور عنصر تھا جس نے تلاش اور بچاؤ کے کام کو مفلوج کر دیا اور متاثرین تک امداد کی ترسیل میں ہم آہنگی کو روک دیا۔ اردگان نے آفات سے نمٹنے کا ایک غیر موزوں ادارہ تشکیل دیا ہے اور اسے ایسے افراد سے بھر دیا ہے جن کی واحد اہلیت اردگان سے وفاداری ہے۔ حتمی تجزیے میں اردگان حکومت کی مکمل نااہلی سرمایہ داری کے بحران اور حکومت کے بحران کی پیداوار ہے۔
گزشتہ سالوں میں ترک سرمایہ داری کا بحران شدید ہوا ہے اور اردگان کی حکومت پر دباؤ بھی بڑھا ہے، اردگان نے سیاسی استحکام کو محفوظ بنانے کے لیے اختیارات کو سخت کیا ہے۔ اردگان نے تمام اداروں کے اختیارات اور آزادی کو ختم کر دیا ہے اور ان میں اپنے وفاداروں کو جمع کیا ہے۔ اس نے سول اور امدادی تنظیموں کی کارروائیوں کو محدود کر دیا ہے، اور اس نے سینکڑوں سول تنظیموں کو بند کر دیا ہے جو اس کی حکومت کی حمایت نہیں کرتیں۔
نو گھنٹے کے وقفے سے آنے والے دو زلزلوں نے مغرب میں بحیرہ روم کے صوبے اڈانا سے مشرق میں کرد صوبے دیار باقر تک تقریباً 430 کلومیٹررقبے اور شمال میں صوبہ ملاتیا سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ ہاتائے تک سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے کم از کم 2 لاکھ 14 ہزار عمارتوں کو تباہ یا بھاری نقصان پہنچایا، جس میں کم از کم 6 لاکھ 8 ہزار اپارٹمنٹس شامل ہیں، جس سے علاقے میں رہنے والے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے۔
اے ایف اے ڈی کے اہلکار (جو کہ اندازاً 6 ہزار تک ہیں) ممکنہ طور پر اتنے وسیع علاقے پر کوئی امدادی کاروائی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود اے ایف اے ڈی نے اپنے 2 لاکھ رضاکاروں کو گھر پر رہنے کا کہا اور رضاکاروں کو بغیر ہدایات کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔ اپنے حال پر چھوڑے ہوئے متاثرین اپنے ہاتھوں سے ملبے کے نیچے پھنسے پیاروں کو نکالنے کی کوشش کرتے تھے، جب کہ بے گھر ہونے والے 25 لاکھ لوگ کئی دنوں سے شدید سردی میں پانی، خوراک یا خیموں کے بغیر تھے۔
نسل پرستی اور امدادی کوششیں
کئی علاقوں میں حکومت کی امدادی کوششوں کی نااہلی اس کی نسلی تعصب کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ کرد مخالف نسل پرستی ترک سرمایہ داری کی بنیادوں میں شامل ہے۔ اس ہولناک انسانی المیے میں بھی نسل پرست ترک حکمرانوں کی کردوں اور عربوں کے لیے بے حسی اور بدنیتی برقرار ہے۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دو صوبوں، ہاتائے، جہاں آبادی کی اکثریت عرب ہیں اور ادیامان، جو کہ ایک کرد صوبہ ہے، کو حکومت نے نہ صرف مکمل طور پر نظر انداز کیا بلکہ جان بوجھ کر ان تک مدد پہنچنے سے روکی۔ ایک رضاکار نے ”آزاد ترکی“ اخبار کو بتایا:
”ہم نے سنا کہ ہاتائے کے علاقے سمنداگ میں مدد کی ضرورت تھی، انہیں ابھی تک کسی قسم کی مدد نہیں ملی تھی، وہاں کوئی نہیں گیا تھا۔ ہم رابطہ کرنے کے لیے مقامی اے ایف اے ڈی کے پاس گئے لیکن انہوں نے ہم سے کہا ’آپ وہاں کیوں جانا چاہتے ہیں؟ وہاں کوئی سڑکیں بھی نہیں ہیں یہ دہشت گردوں کا علاقہ ہے۔ آپ کی جان کو خطرہ ہو گا۔‘ وہ واضح طور پر ہمیں وہاں جانے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک تلاش اور بچاؤ رضاکار نے ٹائم میگزین کو بتایا کہ جب وہ زلزلے کے پہلے دن مقامی اے ایف اے ڈی برانچ میں پہنچا تو تنظیم نے اسے گھر پر انتظار کرنے کو کہا۔ اگلے دن وہ انہیں ”تنگ“ کرنے دوبارہ وہاں گیا تاکہ وہ اسے اور دوسرے رضاکاروں کو ہاتائے کے شہر اسکندرون بھیجیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ رضاکاروں نے بات نہیں مانی اور ایک مقامی آدمی کے ساتھ سمنداگ، ہاتائے جانے میں کامیاب ہو گئے جہاں انہوں نے شہر کے رہائشیوں سے امدادی کارروائیاں شروع کرنے کے لیے اوزار مانگے۔“
کرد اکثریتی صوبے، ادیمان میں متاثرین مدد کی اپیل کرنے اے کے پی کے گورنرمحمود چوہدر کے دفتر گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے مطالبات پر چوہدر ہنسا۔ متاثرین نے غم و غصے میں، ”ادیامن اکیلا ہے“ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔
کوئی مدد نہ ملنے کے بعد متاثرین اگلے دن واپس گورنر کے دفتر گئے اور امدادی کاروائی میں سستی پر احتجاج کیا۔ چوہدر اور ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کے وزیر، عادل کریس باڈی گارڈز کی مدد سے لاتوں اور لعنتوں سے بچتے ہوئے وہاں سے فرار ہو گیا۔
اے کے پی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے عوام کے غصے کی توجہ حکمرانوں سے ہٹانے کے لیے مہاجرین مخالف جذبات کے فروغ نے زلزلہ زدہ علاقے میں 16 لاکھ شامی مہاجرین کے لیے مصائب کی نئی لہر کا اضافہ کر دیا ہے۔
مہاجروں کی مدد سے انکار کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ بہت سے لوگ بتا رہے ہیں کہ انہیں عارضی پناہ گاہوں سے نکال دیا گیا ہے اور اے ایف اے ڈی انہیں خیمے دینے سے انکار کر رہا ہے۔ ملبے سے نکالے گئے ایک شامی خاندان نے ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے اپنے دکھ کی تفصیل بتائی: ”ہم ترک زبان نہیں بولتے اور ہمیں ڈر تھا کہ اگر ہم نے عربی میں مدد کے لیے پکارا تو وہ ہمیں نہیں بچائیں گے۔ تو ہم نے صرف شور مچایا۔“
انتہائی دائیں بازو کی وکٹری پارٹی کے رہنما امت اوزداگ اور ان کے محدود رجعتی حمایتی مہاجر کمیونٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان پر لوٹ مار اور امداد چوری کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور انہیں پناہ گاہوں سے نکالنے کے لیے ریلیاں نکال رہے ہیں۔ زلزلے سے بچنے والے شامی مہاجرین پر یہ غنڈے حملے کر رہے ہیں۔
اے کے پی سے مایوسی
اے کے پی کے مضبوط گڑھ اور دونوں زلزلوں کے مرکز، صوبہ کاہرامنمارس میں متاثرین انتہائی تکلیف دہ طریقے سے سیکھ رہے ہیں کہ اے کے پی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ کرینوں کا انتظار کر رہے تھے اور جب اے ایف اے ڈی کے ارکان شہر پہنچے تو انہوں نے کرین سے ایک اسلامی سکول کے ملبے سے تجوری کو نکالا جس کے ملبے تلے 12 افراد پھنسے ہوئے تھے۔
چھٹے دن، کرینوں کی شدید کمی میں جب ہزاروں افراد ملبے تلے دبے تھے اور لوگ مدد کے منتظر تھے، اے ایف اے ڈی نے کرین کا استعمال دو بینکوں (ایس بینک اور حالک بینک) سے تجوریاں نکالنے کے لیے کیا۔
اے کے پی اور ایم ایچ پی اتحاد کی طرف سے اسلام اورجنونی حب الوطنی کی اَن گنت ’باتوں‘ کے بعد اب ان کی عوام دشمنی اور نفرت پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہے۔ اے کے پی کے عہدیدار جہاں بھی اپنی ’سپورٹ‘ ظاہر کرنے کے لیے آتے ہیں عوام انہیں مسترد کر دیتی ہے۔
ایک متاثرہ شخص نے چیخ کر کہا: ”میں آپ میں سے کسی کو دوبارہ یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔ ووٹ کے لیے نہیں، کسی چیز کے لیے نہیں۔ آپ نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔ ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں ہے، ہمارے پاس کھانا نہیں ہے، ہمارے بچے سردی میں جم رہے ہیں۔“ اس کے ساتھ ایک اور شخص چیختا ہوا بولا: ”یہ کاہرامنمارس ہے۔ اے کے پی کا کاہرامنمارس۔“
جب وزیر انصاف، بیکیر بوزداغ، 11 فروری 2023ء کو کرد صوبے دیار باقر کا دورہ کرنے گیا تو اسے ”حکومت ختم ہو گئی“ کے نعروں اور احتجاجوں کا سامنا کرنا پڑا۔
زلزلے کے آٹھ دن بعد جب ہاتائے کے شہر اسکندرون کے میئر فاتح توسیالی (اے کے پی) بالآخر 14 فروری 2023ء کو تباہ شدہ ہسپتال کا دورہ کرنے آئے، تو لوگوں نے جو ابھی تک اپنے پیاروں کی لاشوں کا انتظار کر رہے تھے اس کا پیچھا کیا اور اسے وہاں سے بھگا دیا۔
زلزلہ زدہ علاقوں میں لوگ اے کے پی سے منسلک میڈیا والوں کو یہ کہہ کر وہاں سے بھگا رہے ہیں کہ ”آپ یہاں صرف ایک شو کرنے کے لیے ہیں، یہاں سے نکل جاو!“
صوبہ عثمانیہ میں، جو کہ انتہائی دائیں بازو کے ایم ایچ پی رہنما ڈیولٹ بہیلی کا آبائی شہر ہے، لوگ حیران ہیں کہ بہیلی نے نہ تو شہر کا دورہ کیا اور نہ ہی اپنی (مکمل طور پر محفوظ) خالی حویلی کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھولے جو کئی دنوں سے شدید سردی میں بے گھرہیں۔ عثمانیہ میں ایک خاتون نے کہا: ”اگر وہ ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ گئے ہیں تو اس ملک میں ان کے لیے کوئی ووٹ نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان کو ووٹ دیا۔“
ان پرتوں پر یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ جب وہ سخت سردی میں بے یار و مددگارمر رہے ہیں تو ان کے بااعتماد نمائندے اپنی گرم کوٹھیوں اور محلوں میں پرسکون بیٹھے تھے۔
وہ اس تقسیم کو دیکھ رہے ہیں جو انہیں ان سیاست دانوں سے الگ کرتی ہے اور ان کے پرانے بندھن ٹوٹ رہے ہیں۔ ”اگر ان کی جگہ اردگان کا اپنا بچہ ہوتا تو وہ کیا کرتا؟“ اور، ”اگر اردگان کی ماں ہوتی تو وہ کیا کرتا؟“ یہ وہ سوالات ہیں جو لوگ پوچھ رہے ہیں۔
بہت سی پرتیں یہ سمجھنے لگی ہیں کہ وہ جس پارٹی پر بھروسہ کرتے تھے وہ دراصل ان کی طبقاتی دشمن ہے۔ یہ طبقاتی غصے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اے کے پی کے ایک سابقہ حامی نے کہا: ”انہوں نے ہمیں برسوں تک جہنم کے خوف سے ڈرایا، لیکن اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اب ہم جہنم میں رہ رہے ہیں۔ اب سے انہیں ڈرنا چاہیے۔“
انتباہ کے یہ الفاظ سیدھے اے کے پی اور ایم ایچ پی کے بنیادی گڑھ سے آرہے ہیں۔
محنت کشوں کی جانب سے متاثرین کی مدد
دیوالیہ، نااہل حکمران طبقے کے سست ردعمل کے علاوہ، زلزلہ زدہ علاقوں میں ترک محنت کش طبقے کی طرف سے مربوط یکجہتی کے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں محنت کشوں نے اپنے اوزار اکٹھے کیے، امداد کے ٹرکوں کو منظم کیا، اور زلزلہ زدہ علاقے کی مدد کرنے بھاگے۔ ہزاروں شہری، جن میں سے اکثر ترک تھے، اس خطے میں رضاکارانہ طور پر گئے، خاص طور پر کرد اور عرب آبادی والے علاقوں میں جنہیں حکومت نے نظر انداز کر دیا تھا۔
10 ہزار سے زائد کان کن تلاش اور بچاؤ کی کوششوں میں مدد کے لیے زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ ترکش ہارڈ کول کارپوریشن (ٹی ٹی کے) کے 600 سے زیادہ زونگولڈک کان کن سب سے پہلے زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچے، اس کے بعد آزاد کان کن یونین، جنرل کان کن یونین (جی ایم آئی ایس) اور ترک-ایس یونین کے 7600 سے زائد منظم کان کن وہاں پہنچے۔ دیو-یاپی-ایس اور انسات-ایس یونین کے منظم تعمیراتی محنت کش بھی زلزلہ زدہ علاقے میں پہنچ گئے۔ تم-بیل-سین ازمیر کے منظم فائر فائٹرز بھی تلاش اور بچاؤ کی کوششوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ برلیسیک اور ٹومیس یونین سے منظم دھات کے مزدور، جینیل یونین سے میونسپلٹی ورکرز، فیکٹری ورکرز، گودام ورکرز، ریٹیل ورکرز، اور بہت سے محنت کش زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں۔ انرجی ورکرز، پاور ورکرز، گیس لائن ورکرز، واٹر ورک ورکرز اور ڈیم ورکرز نے تباہی کے علاقے میں ناقص اور خراب یوٹیلیٹی لائنوں کی مرمت کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ زراعت اور جنگلات کے کارکنوں نے زلزلے سے متاثرہ دیہی علاقوں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لیے تعاون کیا۔
خاص طور پر کان کنوں کا ہنر تلاش اور بچاؤ کی کوششوں میں برتر اور غیر معمولی ثابت ہوا ہے۔ متاثرین کے مطابق زلزلہ زدہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کی آوازیں سننے کے باوجود اے ایف اے ڈی کی ٹیمیں علاقے کو ’بہت خطرناک‘ قرار دے کر وہاں سے چلی گئیں۔ اس کے باوجود کان کن ملبے تلے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ ’پگ روف‘ کان کنی کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، کان کنوں نے ملبے کو گرنے سے بچاتے ہوئے راہداریاں کھولیں، اور لوگوں کو بچانے کے لیے ان راہداریوں کے ذریعے عمارتوں کی گہرائیوں میں آگے بڑھے۔
ہم نے دیکھا کہ صحت کے ورکر بھی زخمیوں کے علاج کے لیے علاقے میں پہنچے۔ ڈاک ورکرز نے یہ اعلان کیا کہ وہ ناقابل گزرسڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر امداد فراہم کریں گے۔ پوسٹا، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون (پی ٹی ٹی) کے ورکرز کی طرف سے عطیات؛ اوساک میں او سی بی انڈسٹریل پارک اور گولیاکا میں ایزولی ٹیکسٹائل فیکٹری کے ورکرز متاثرین کے لیے کمبل بنانے کے لیے اوور ٹائم کام کر رہے ہیں۔ آرکیٹیکٹس اور بڑھئی، لوہے کے کام کرنے والے، ویلڈر اور استری کرنے والے مل کر متاثرین کے لیے گھر تعمیر کر رہے ہیں۔ ایجی تِم-سین یونین سے منظم تعلیمی ورکرز نے بچوں کے لیے کلاسز اور متاثرین کے لیے ذہنی صحت اور بحالی کے مراکز کا اہتمام کیا۔ اورلمبی فہرست ہے۔
مزدوریکجہتی عالمی سطح پر بھی بڑھ گئی ہے، یونان میں آل ورکرز ملی ٹینٹ فرنٹ (پی اے ایم ای) نے ترکی کی انقلابی ٹریڈ یونینوں کی کنفیڈریشن (ڈی آئی ایس کے) کے ساتھ رابطہ کاری کرتے ہوئے خون کی منتقلی کے مراکز قائم کیے اور کئی ٹن سامان زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بھیجا۔
یہ مثالیں حکمران طبقے اور اس کی ریاست کے دیوالیہ پن اور نااہلی کے بالکل برعکس محنت کش طبقے میں ایثار اور تنظیم سازی کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ حقیقی پرولتاری اخلاقیات ہیں: محنت کش طبقہ اپنے طبقاتی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیتا ہے۔
اے کے پی اور مالکان کی مزدور یکجہتی تو توڑنے کی کوششیں
ترک محنت کش طبقے کی مربوط اور لڑاکا یکجہتی جو نسلی اور قومی حدود کو پار کر رہی ہے، حکمران طبقے اور اے کے پی-ایم ایچ پی حکومت کے لیے ایک انتہائی خطرناک منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ لہٰذا وہ اس خودرو یکجہتی اور اتحاد کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہت سے ورکرز کو بچاؤ اور امدادی کاموں میں شامل ہونے کے لیے مالکان کے خلاف جانا پڑا۔ کان کنوں کو ملازمت سے نکالنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ کان مالکان نے، جنہیں لوگوں کی جان بچانے سے زیادہ اپنے منافع کی فکر ہے، کان کنوں سے کہا کہ اگر ان کے پاس چھٹی کے دن نہیں ہیں جو وہ استعمال کر سکیں تو انہیں اپنا بندوبست کرنا پڑے گا۔ تعمیراتی ورکرز نے بھی مالکان کی مخالفت کی اور زلزلہ زدہ علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ کم از کم 30 تعمیراتی ورکرز کو زلزلے کے علاقے سے واپس آنے کے بعد نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ متعدد ڈاک ورکرز، گودام کے ورکرز اور خوردہ ورکرز کو بھی امدادی کوششوں میں شامل ہونے پرنوکری سے نکال دیا گیا۔
اس سب کے بعد ورکرز کو ریاست کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنا پڑا۔ اگرچہ زونگولڈک کے کان کن سب سے پہلے زلزلہ زدہ علاقے کے لیے روانہ ہوئے، وہ 36 گھنٹے بعد بھی اس علاقے تک نہیں پہنچے تھے کیونکہ انہیں اے ایف اے ڈی کی طرف سے ’منظوری‘ ہونے کے لیے ہوائی اڈے پر انتظار کرنا پڑا اور پھر جہاز کا بندوبست کرنے کے مزید انتظار کرنا پڑا۔ دوسرے محنت کشوں اور رضاکاروں نے بھی دوسرے یا تیسرے دن تک انتظار کرنے کی اطلاع دی۔
حکومت مختلف تنظیموں کے امدادی ٹرکوں کو ضبط کر رہی ہے، جن میں کرد، بائیں بازو کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اور ترک ورکرز پارٹی (ٹی آئی پی) شامل ہیں۔ ایچ ڈی پی نے متعدد امدادی ٹرکوں کی ضبطی کی اطلاع دی ہے۔ حال ہی میں، کہرامانماراس کے ضلع پزارک میں ایچ ڈی پی کے ذریعے قائم کردہ کرائسز کوآرڈی نیشن سینٹر کو حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔
حکومت تنظیموں کے کارکنوں اور رضاکاروں کی گرفتاریاں بھی کر رہی ہے۔ ترک کمیونسٹ پارٹی نے اطلاع دی کہ ان کے 10 ارکان کو امدادی سرگرمیوں میں مدد کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ٹی-34 لیبرگروپ کے تین کمیونسٹ یونانی رضاکاروں کو ہاتائے میں گرفتار کیا گیا اور انہیں جہاز میں بٹھا کر یونان واپس بھیج دیا گیا۔ ہاتائے کے گورنر کی جانب سے دیفنے سیوگی پارک، جسے امدادی تنظیموں اور بائیں بازو کی تنظیموں نے کرائسز اینڈ کوآرڈی نیشن ٹینٹ سٹی میں تبدیل کر دیا تھا، کو خالی کروا دیا گیا ہے۔
محنت کش طبقے کے ردعمل اور حکومت کی جانب سے تمام کوششوں کو ناکام کرنے کے اقدامات کے درمیان واضح فرق عوامی شعور کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک متاثرہ شخص نے کہا: ”میرا گھر چلا گیا ہے۔ میں ایم ایچ پی کا ممبر ہوں۔ ایم ایچ پی نے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیا۔ ٹی او پی ]ایک انتہائی بائیں بازو کی تنظیم [ یہاں ہے۔ ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم۔ وہ ہماری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ فرانسیسی یہاں ہیں، انگریز یہاں ہیں، تمام ممالک کے لوگ ہیں۔ وہ ہماری مدد کر رہے ہیں اور ہمیں کھانا دے رہے ہیں۔“
جب انتہائی دائیں بازو کے ازداگ زلزلہ زدہ علاقے کا دورہ کرنے آئے تو رضاکاروں میں سے ایک نے ان کا سامنا کیا: ”یہاں شامی، یورپی، پوری دنیا کے لوگ ہیں، یہاں تک کہ یونان بھی ہماری مدد کر رہا ہے۔ ہم خواہ مسلمان ہوں، مسیحی یا شامی، اس قسم کی باتیں سن کر تنگ آچکے ہیں۔ براہ کرم اپنے دستانے پہنیں اور کچرا اٹھا لیں۔“
اردگان کی ہڑبڑاہٹ
جب زلزلہ آیا تواردگان نے ’قومی اتحاد‘ کا مطالبہ کیا اور فوری طور پر ہنگامی حالت نافذ کر دی۔ اس سے اردگان کو بے پناہ اختیارات مل گئے جسے وہ آئندہ انتخابات میں اپنی سیاسی ساخت بچانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ اپنی حکومت کی کسی بھی قسم کی مخالفت کو خاموش کرنے اور دبانے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہا ہے۔
ایک ٹیلی ویژن تقریر میں، اس نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ان ”بے عزت“ لوگوں کے ساتھ ”وقت آنے پر نمٹا جائے گا“۔ اے کے پی کے عہدیداروں نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران دھمکیوں کو دوگنا کر دیا ہے اور کہا ہے: ہم حکومت پر تنقید کرنے والوں کا ”نوٹس لے رہے ہیں۔“
جب اردگان آخر کار اپنے گرم محل سے نکلا اور تیسرے دن کہرامانماراس کے ایک سٹیڈیم میں متاثرین سے ملاقات کی تو اس نے تباہی کے لیے ”قسمت“ کو مورد الزام ٹھہرایا: ”ایسی چیزیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ یہ تقدیر کے منصوبے کا حصہ ہے۔“ تاہم، اس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیوں ”ایسی چیزیں“ کبھی بھی امیروں کا مقدر نہیں ہوتیں۔ اردگان کے لیے محنت کش اور غریب قابلِ ترک (قابل ضیاع) ہیں۔ وہ محض استحصال کے آلات ہیں، جو اسے بے پناہ دولت میں رہنے کے قابل بناتے ہیں۔
زلزلے کے اگلے ہفتے میں حکومت نے 80 سے زیادہ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کو گرفتار کیا اور ان پر حکومتی امدادی کاروائیوں کے بارے میں ’غلط معلومات‘ پھیلانے کا الزام لگایا۔ حکومتی اقدامات کی رپورٹنگ کرنے پر متعدد مخالف ٹی وی نیٹ ورکس کو معطل اور جرمانہ کیا گیا ہے۔ اردگان نے زلزلے کے فوراً بعد ٹوئٹر کو بھی بلاک کر دیا، اور اپنی نااہلی کی خبروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کو بھی محدود کر دیا۔
اردگان عوام کو دبانے اور ان پر قابو پانے کے لیے خوف پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ صورتحال خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے۔ زلزلے پر ریاست کے اقدامات کے خلاف متعدد مظاہرے ہو رہے ہیں اور عوام کا غصہ بھڑکنے لگا ہے۔
فروری کے آخر میں، فٹ بال کے شائقین نے سٹیڈیم میں ’دھوکہ دہی اور جھوٹ کے 20 سال‘، اور ’حکومت مستعفی ہو‘ کے نعروں بلند کیے۔ حکومت اب ترک فٹ بال فیڈریشن (ٹی ایف ایف) پر سامعین کے بغیر کھیلوں کے انعقاد کا دباؤ ڈال رہی ہے۔ اردگان کا خوف بجا ہے، لیکن وہ جو بھی کرے عوام کے غم و غصے کو کم نہیں کر سکتا۔
عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے 230 سے زائد عمارتوں کے ٹھیکیداروں کو گرفتار کیا ہے اور 600 سے زیادہ کی تفتیش کر رہے ہیں۔ کچھ ٹھیکیداروں کوباہر جاتے ہوئے ائیر پورٹ پر پکڑا گیا جس کی تصاویرکشی اے کے پی میڈیا نے یقینی بنائی۔ اے کے پی کے ایک میئر اور دیگر عہدیداران کی گرفتاری حکومت کے خوف کو ظاہر کرتی ہے، جو چند افراد کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اے کے پی کہہ رہی ہے کہ یہ چند ’برے لوگوں‘ کی وجہ سے ہوا ہے، مگر اس منافقت پر اے کے پی کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ یہ الگ تھلگ افراد نہیں ہیں بلکہ اس نظام کا حصہ ہیں جو ہر قیمت پر منافع حاصل کرتا ہے۔ 600 سے زیادہ کی شناخت یہ واضح کرتی ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کتنی وسیع ہے۔ جوں جوں عوام کا غصہ بڑھے گا، مزید گرفتاریاں ہوں گی، لیکن انصاف نہیں ملے گا۔
درحقیقت سرمایہ دار پہلے ہی اس تباہی سے منافع کمانے کے لیے گِدھوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں۔ ترکش ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ ایڈمنسٹریشن نے بند بولی کے ذریعے زلزلہ زدہ علاقوں میں مکانات کی تعمیر کے 6 ارب ترک لیرا مالیت کے آٹھ ٹینڈرز دے دیے ہیں۔ ان شہروں کی تعمیر نو کے دوران اربوں ڈالر حکمران جماعت اے کے پی سے منسلک بے رحم جونکوں کے حوالے کیے جائیں گے۔
اے کے پی تیزی سے ترک عوام کے سامنے بے نقاب ہو رہی ہے جو قاتلوں اور چوروں کے ٹولے کے سوا کچھ نہیں ہے، جنہیں منافع کے لیے عوام کو قربان کرنے اور پھر انہیں مرنے کے لیے چھوڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ زلزلے کے بعد سے ٹویٹر پر یہ ہیش ٹیگز چل رہے ہیں: ”ہم اکاؤنٹس طے کریں گے“ اور ”آپ ادائیگی کریں گے“۔ عوام کا غصہ اس سے زیادہ واضح اور بے خوف نہیں ہو سکتا تھا۔
انصاف تب ہی ہو گا جب عوام اردگان، اے کے پی اور پورے سرمایہ دار طبقے کے ساتھ حساب کتاب کریں گے جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اور اسے حاصل کرنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔