|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
قریباً سات سال قبل 2011ء میں بن علی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پچھلے چند دنوں سے تیونس کے نوجوانوں نے ایک نئی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مرتبہ، آئی ایم ایف کے ایما پر مسلط ہونے والے مجوزہ بجٹ کیخلاف پورے ملک میں احتجاج لہر دوڑگئی ہے۔ درجنوں سرگرم احتجاجیوں کو گرفتار اور ایک احتجاجی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ’’Fech Nastannou؟‘‘ (ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟) تحریک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایک آمر کا تخت الٹنے کے باوجود غربت، بیروزگاری اور مستقبل سے مایوسی کے مسائل حل نہیں ہو سکے جن کی وجہ سے 2011ء کی دیوہیکل تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
To read this article in English,click here
دسمبر کے آخر میں تیونس کی پارلیمنٹ نے 2018ء کا بجٹ پاس کیا جس کی تمام تیاری آئی ایم ایف کی سرپرستی میں ہوئی تھی۔ اس کے بدلے میں آئی ایم ایف نے تیونس کے 2.8 ارب ڈالر کے منظور کردہ قرضے میں سے تاخیر کا شکار 320 ملین ڈالر کی قسط جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ’’دلیر‘‘ اور ’’ جرأت مند‘‘ بجٹ کا مقصدبجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 5 فیصد سے نیچے لانا ہے (2017ء میں یہ 6فیصد تھا) اور اس کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ، سبسڈیوں میں کٹوتیاں اور ایک ’’دوررس سول سروس ریفارم‘‘ پلان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور معیار زندگی پر دیگر حملوں کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
#Tunisia – Some pics from yesterday’s demonstrations and clashes between protesters and security forces. #Fech_Nestannew #فاش_نستناو pic.twitter.com/7dentUuyRS
— Sergio Altuna (@wellesbien) January 10, 2018
سال کے آغاز سے ہی احتجاج شروع ہو گئے تھے جن کی پہل بے روزگار نوجوانوں نے کی تھی۔ یہ احتجاج اب تک غریب ترین علاقوں کے 10 شہروں میں پھیل چکے ہیں جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 40فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ فوج کو کاسرین اور گافسا بھیجا جا چکا ہے۔ یہ دونوں علاقے 2011ء کی تحریک کے سب سے مضبوط قلعے تھے۔
’’Fech Nastannou؟‘‘ تحریک کے درجنوں سرگرم نوجوانوں کو بجٹ کے خلاف لیف لیٹ تقسیم کرنے اور احتجاج کی کال دینے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تحریک کا نشان چلتی گھڑی ہے۔ پیر کے دن ایک احتجاجی، 55 سالہ خومسی ال یرفینی کو دارالحکومت تیونس کے مغرب میں تیبوربا کے مقام پر ایک پولیس گاڑی کے نیچے کچل دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں احتجاج 20 سے زیادہ شہروں میں پھیل گئے جن میں پولیس اور فوج سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 2011ء اور اس کے بعد ہونے والے احتجاجوں کا جغرافیہ ایک ہی ہے: سیدی بوزید، کاسرین، گافسا، سووس، الکیف، تھالا، گابیس، نابیول، ریدے یف، کائروان، سفاکش وغیرہ۔
ہر لمحہ بڑھتی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں اور محنت کشوں اور غریبوں سے بحران کی قیمت ادا کروانے کی کوششوں کی وجہ سے سماج میں شدید غم وغصہ ہے۔ دی گارڈین اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے مقامی منڈی میں کام کرنے والی ایک خاتون فاطمہ نے بتایا کہ ’’بن علی کے ناپسندیدہ وقت میں، میں اپنا سٹینڈ سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیا سے 10 دینار میں بھر لیتی تھی اور اب یہ 50 دینار میں بھی نہیں بھرا جاتا۔ حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ حکومت قیمتوں میں اضافہ کر کے اور ٹیکس چوروں اور کاروباریوں سے آنکھیں بند کر کے غریبوں اور متوسط طبقے کی قربانی دینا چاہتی ہے‘‘۔
2011ء میں بن علی کی انتہائی بدنام حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد (جس کی حمایت مغربی سامراج اور خاص کر فرانس نے حمایت کی تھی)سے اب تک نوجوانوں اور غریبوں کی متعدد تحریکیں برپا ہو چکی ہیں۔ پرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی تحریک میں معاشی (روٹی، روزگار) اور سیاسی (آزادی) ، دونوں مطالبات شامل تھے۔ عوام سڑکوں پر امڈ آئی اور احتجاجوں اور علاقائی ہڑتالوں ، جن میں نوجوانوں نے کلیدی کردار ادا کیا، نے ایک شدید استحصالی آمریت کا خاتمہ کیا جو دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھی۔ لیکن سرمایہ داری قائم رہی۔ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور ان کی فتح چوری کر لی گئی ہے۔ بار بار نوجوان سڑکوں پر آ ئے ہیں، لیکن ایک واضح قیادت کی عدم موجودگی میں تحریک بار بار شکست سے دوچار ہوئی ہے۔
موجودہ یوسف شاہد کی حکومت اعتدال پسند حزب حرکتہ النہدہ اور ’’سیکولر‘‘ حرکتہ الندا تیونس(درحقیقت بن علی کے پرانے حامیوں کا نیا ڈھونگ) کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یعنی، ’’سیکولر‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ سیاست دان حکمران طبقے کے مفادات کی حفاظت میں متحد ہیں جبکہ عوام ظلم و جبر کا شکار ہے۔ اوپر سے جلتی پر تیل کا کام 91 سالہ بیجی سیداسیبی کا صدر ہونا ہے: پرانی حکومت کا بندہ جو پچھلے چالیس سالوں سے مختلف اشکال میں ریاستی مشینری کا کلیدی حصہ رہا ہے۔ عوام ان حالات کے لئے تو لڑے اور مرے نہیں تھے!
کل تمام شہروں میں نئے احتجاجوں کی اپیل کی گئی ہے(جمعہ، 12جنوری)۔ اگر موجودہ تحریک کو کامیاب ہونا ہے تو نوجوانوں کی جرات مند جدوجہد کو سرگرم محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑنا پڑے گا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک ایسا پروگرام اپنانا پڑے گا جو روٹی اور روزگار کی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ جوڑے۔ صرف مقامی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومیا کر ہی معیشت کا ایک جمہوری پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے جو اکثریت (محنت کش، کسان اور نوجوان)کے مفادات اور ضروریات کا تحفظ کرے۔