|تحریر: آندرے آس نورگارد، ترجمہ: ولید خان|
6 فروری کے دن تیونس کے دارلحکومت تونس کی سڑکوں پر ہزاروں افراد اسلامی پارٹی انّہداء کے خلاف ”عوام حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں“ کے نعرے لگاتے ہوئے امڈ آئے۔ اس وقت یہ پارٹی مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ فساد کش پولیس نے مرکزی تونس میں پہلے ہی ناکہ بندی کر دی تھی تاکہ گاڑیاں اور عوام حبیب بورگیبا شاہراہ کے گرد گلیوں میں داخل نہ ہو سکیں جہاں احتجاج ہو رہا تھا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود حالیہ سالوں میں منعقد ہونے والا یہ سب سے بڑا احتجاج ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
احتجاج حکومت کی طرف سے پچھلے مہینے لاگو کردہ لاک ڈاؤن کے خلاف تھا، یہ لاک ڈاؤن بھی حکومت اسی لیے لگایا تھا تا کہ 2011ء میں ہونے والے انقلاب کی سالگرہ پر کہیں دوبارہ تحریک کا آغاز نہ ہو جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ قدم خود حکومت کے گلے پڑ گیا ہے اور ایک نئی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے پورا ملک ایک طاقت ور احتجاجی تحریک سے لرز رہا ہے جس میں زیادہ تر نوجوان موجود ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ معاشی و سیاسی تبدیلی لائی جائے اور پولیس گردی کا خاتمہ کیا جائے۔
پچھلے احتجاجوں کے برعکس 6 فروری کو ریلی کی کال UGTT یونین نے بائیں بازو کے سرگرم کارکن چوکری بلید کی برسی کے موقع پر دی تھی جسے 2013ء میں اپنے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ مظاہرین نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھیانک معاشی ابتری، غلیظ کرپٹ اشرافیہ اور گزشتہ تین ہفتوں میں ہزاروں افراد پر پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
پولیس گردی
بن علی کی آمریت کا خاتمہ کرنے والی انقلابی تحریک کے تقریباً دس سال بعد 19 جنوری کو نوجوانوں کی ایک طلاطم خیز تحریک پھوٹ پڑی جو فوراً ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ نوجوان سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہو چکے ہیں کیونکہ خوفناک معاشی بربادی نے معیارِ زندگی تباہ کر دیا ہے اور 36 فیصد نوجوان بے روزگاری کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ تیونس کے حکمران طبقے اور اس کے سیاسی نوکروں کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات کا جواب انتہائی وحشیانہ جبر سے دیا گیا۔
محنت کشوں کے محلوں میں فوج گشت کے لئے اتار دی گئی اور پرانے نوآبادیاتی آقا فرانس نے حکومت کی مدد کے لئے 60 پولیس ٹرک بھیجے تاکہ احتجاجوں کو کچلا جا سکے۔ تاریخ میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ فرانس نے اپنی پرانی کالونی میں اٹھنے والی عوامی تحریک کو ختم کرنے کے لئے تیونس کے حکمرانوں کی مدد کی۔ 2011ء کے انقلاب میں فرانس کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ مشیل الیوت میری نے بن علی کو تیونس میں بغاوت کو کچلنے کے لئے مدد فراہم کی تھی۔ مغربی سامراج کی مدد سے تیونس کی ریاست نے پولیس گردی کا پٹا کھول دیا۔
🇹🇳 Hundreds of people took to the streets in Tunisia to protest against the government and the country's ongoing economic crisis, as well as to demand the release of those arrested during protests earlier this year pic.twitter.com/KDxKb6HS3A
— Bloomberg Originals (@bbgoriginals) February 6, 2021
تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاجوں میں 1 ہزار 680 مظاہرین گرفتار کئے جا چکے ہیں، جن میں 600 نابالغ شامل ہیں اور 25 جنوری کو ایک احتجاجی ’ہیکل راشدی‘ کو فساد کش پولیس نے سر میں آنسو گیس کینسٹر مار کر قتل کر دیا۔ خبریں ہیں کہ پولیس تحویل میں موجود مظاہرین پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف نام نہاد ’جمہوری‘ مغربی طاقتیں آنکھیں بند کئے بیٹھی ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہ رہا ہو۔
جنوری کے اختتام تک لگ رہا تھا کہ حکومت نے تحریک کو کچل دیا ہے اور تحریک پسپائی کا شکار ہے۔ طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کو آگے بڑھانے والی ایک تجربہ کار انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں حکمران طبقے کا پلڑا بھاری رہا اور اس نے تیونس کے انقلابی نوجوانوں اور بائیں بازو کے کارکنان پر کھلے عام کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ مثلاً یکم فروری کو UGET (جنرل یونین آف تونیزین سٹوڈنٹس) کے چار کارکنوں کو پولیس نے ایک ٹیکسی سے اغواء کر لیا۔ اور 3 فروری کو ایک سرگرم کمیونسٹ کارکن رامی ریاہی کو اس شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا کہ فیس بک پر اس نے ایک ایسی پوسٹ لگائی ہے جو شاید پولیس کے خلاف نفرت انگیز مواد سے بھرپور ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے تجربات نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ ریاست صرف طبقاتی حکمرانی کا ایک اوزار ہے، یعنی ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر جبر کا اوزار۔
ایک طرف تیونس کے انقلابی نوجوان ریاستی جبر میں پس رہے تھے اور دوسری طرف حکومت فتح کا جشن منا رہی تھی۔ 5 فروری کو وزیرِ اعظم حشام مے چچ نی کی ملاقات پولیس یونین کے ایک وفد سے ہوئی جس میں اس نے ”حالیہ مظاہروں سے نمٹنے کے لئے پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت“ کو سلام پیش کیا۔ لیکن حکمران طبقے اور اس کے سیاسی نوکروں کو اتنی جلدی رنگ رلیاں نہیں منانی چاہئیں۔ انہوں نے ابتدائی لڑائی جیت لی ہو گی لیکن جنگ ابھی باقی ہے۔
UGTT کا کردار
حالیہ ہفتوں میں پورے ملک میں ہونے والے مظاہروں کے برعکس ہفتہ کے دن ہونے والی ریلی کو ملک کی سب سے طاقت ور ٹریڈ یونین فیڈریشن UGTT (تونیزین جنرل لیبر یونین) نے منظم کیا تھا۔ UGTT نے اعلان کیا کہ وہ 2011ء کے انقلاب میں تیونس کے عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیے گئے جمہوری حقوق کے تحفظ میں یہ احتجاج منظم کر رہے ہیں۔ مارکس وادی متفق ہیں کہ 2011ء کے انقلاب میں تیونس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیئے کیونکہ ان کے ذریعے عوام کو تیونس کے حکمران طبقے اور اس کے سامراجی آقاؤں کے خلاف اپنی جدوجہد کو منظم کرنے کے لئے نئی راہیں میسر آئی ہیں۔
لیکن یہ حقیقت بھی معنی خیز ہے کہ ایک ماہ سے جاری عوامی احتجاجوں اور خوفناک ریاستی جبر کے بعد اب اچانک UGTT کی قیادت کو خیال آ گیا ہے کہ جمہوری حقوق کا تحفظ ہونا چاہیئے۔ جنوری میں UGTT کی قیادت نے جاری احتجاجی تحریک کی مذمت کرتے ہوئے تشدد، تصادم اور لڑائیوں کے لئے پولیس کی بجائے نوجوانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا! UGTT قیادت نے نہ صرف نوجوانوں کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا بلکہ انہیں جھٹلا بھی دیا۔ محنت کش طبقے کو جاری احتجاجوں میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دینے اور نوجوانوں کی انقلابی قوت سے طاقتور منظم محنت کش تحریک کو جوڑنے کی بجائے UGTT نے تیونس کے حکمران طبقے اور سیاسی اشرافیہ کا ساتھ دیا۔
گزشتہ چند ہفتوں میں UGTT کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیادت جان بوجھ کر نوجوانوں اور محنت کشوں کی جدوجہد کو جُدا رکھنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ 17 جنوری کو UGTT نے تیونس کے ریلوے، بس اور ائر ٹریفک ورکرز کی ایک روزہ عام ہڑتال منظم کی۔ ہڑتال کامیاب رہی اور حکومت پر خاطر خواہ دباؤ آیا اور یہی وجہ ہے کہ ہڑتال کو غیر معینہ مدت میں ڈھالتے ہوئے موجودہ احتجاجی تحریک کے ساتھ جوڑنا چاہیئے تھا۔ ان قدامات سے حکومت پر بے پناہ دباؤ بڑھنا تھا اور سڑکوں پر عوام کا پلڑا بھاری ہو جاتا تھا۔
لیکن UGTT قیادت نے ہڑتال ختم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ایک ماہ بعد دو روزہ عام ہڑتال منظم کریں گے! ریلوے، بس اور ائر ٹریفک ورکرز اب 20 اور 21 فروری (ہفتہ اور اتوار) کو ہڑتال کریں گے۔ UGTT قیادت کی یہ حکمتِ عملی محنت کشوں کی جدوجہد کو نوجوانوں سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش ہے اور اسے اس لئے طوالت دی جا رہی ہے تاکہ تیونس کے حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ موجودہ قیادت میں UGTT ایک انقلابی قوت کی بجائے تیونس میں سرمایہ داری کی حمایتی تنظیم ہے جس کا واضح اظہار ربع قومی مذاکرات جیسی طبقاتی مفاہمت کرانے کی بھونڈی کوششوں کی صورت میں بھی ہوا جب UGTT نے ملازمین انسٹی ٹیوٹ، تونیزین ہیومن رائٹس لیگ اور وکلاء بار ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر 2011ء کے انقلاب کے بعد تیونس میں سرمایہ داری کو مستحکم کرنے کیلئے یہ یقینی بنایا کہ انقلاب کو بورژوا جمہوریت کی حدود میں ہی قید رکھا جائے۔
تو پھر UGTT نے ہفتے کے دن احتجاج کی کال کیوں دی؟ واضح طور پر یونین کی پوزیشن پر ممبران کے تحفظات بڑھ رہے تھے۔ 30 جنوری کو UGTT کی پانچ سیکٹر برانچوں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں احتجاجی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ UGTT قیادت نے سوچ سمجھ کر چال چلی ہے۔ وہ بڑھتا دباؤ محسوس کر رہے تھے اور انہوں نے بھرپور موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحرک ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنی پوزیشن کو مستحکم اور تیونس کے محنت کش طبقے میں UGTT کی حمایت برقرار رکھی جاسکے۔
لیکن احتجاجیوں کے عزائم کو UGTT کی قیادت سے کنفیوژ نہیں کرنا چاہیئے۔ ہفتے کے دن خوفناک پولیس گردی کے خطرات کے باوجود مظاہرین کی دیو ہیکل تعداد سڑکوں پر نکلی۔ یہ تیونس کے عوام کی جرات اور جارحیت کا ثبوت ہے جو ایک بہتر زندگی کی جدوجہد کے لئے پرعزم ہیں۔ پچھلے دس سالوں (اور گزشتہ چند ہفتوں) کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ناگزیر ہے جو تیونس کے عوام کی جدوجہد کو اس کی انقلابی منزل تک پہنچائے۔
ایک انقلابی قیادت کی ضرورت
تیونس کی سرمایہ داری شدید بحران میں ہے جو ریاست اور سماج کے ہر حصے میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ نظام ایک بند گلی میں قید ہو چکا ہے اور اس کا اظہار نظام کو قائم رکھنے والی اخلاقی اقدار اور نظریات میں مسلسل بڑھتی بداعتمادی سے ہو رہا ہے جس میں مذہب بھی اہم ہے۔ 2011ء کے انقلاب سے سرمایہ دارانہ ’اسلامی انّہداء‘ پارٹی مسلسل براہِ راست یا ”سیکولر“ سرمایہ دارانہ پارٹیوں کے ساتھ اشتراک میں حکومت کر رہی ہے۔ اس لئے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تیونس میں مذہب سے رغبت مسلسل کم ہو رہی ہے۔
2013ء میں تیونس کی 16 فیصد آبادی اپنے آپ کو غیر مذہبی قرار دیتی تھی۔ 2018ء میں یہ تعداد 31 فیصد ہو چکی تھی اور نوجوانوں میں یہ شرح 50 فیصد ہو چکی تھی! یہ رجحان موجودہ نظام کو مسترد کرنے کی عکاسی کر رہا ہے اور اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام تیونس کے عوام کو مسلسل معیارِ زندگی میں بربادی اور پولیس گردی کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ جنوری میں ایک نعرہ ”نہ پولیس نہ اسلامی (پارٹی)، عوام انقلاب کا مطالبہ کرتی ہے“ بھی تھا۔
2011ء کے انقلاب نے ثابت کیا ہے کہ تیونس کے عوام کو درپیش مسائل کا حل سرمایہ داری کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک سرمایہ داری رہے گی اس وقت تک مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے الام و مصائب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ تیونس کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ سماج کی انقلابی تبدیلی اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے تیار ہیں۔ ان کو کامیابی کے لئے ایک انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو تیونس کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو ایک سوشلسٹ پروگرام پر منظم کرے۔
انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں مستقبل کی تحریکوں کی قیادت UGTT جیسی تنظیموں کی موجودہ قیادتوں کی جھولیوں میں گرتی رہے گی جو سرمایہ داری کی حدود کو توڑنے سے انکاری ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کا سبق یہ ہے کہ اگلی انقلابی تحریک کے پھوٹنے سے پہلے ایک انقلابی تنظیم تعمیر کی جائے جس کی بنیادیں محنت کش طبقے میں موجود ہوں۔ اس لئے تیونس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ محنت کش طبقے کے تجربات سے سیکھیں اور ایک مارکسی قیادت تعمیر کریں جو آنے والی انقلابی تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرسکے۔