ٹرمپ کی نافذ کردہ محصولات نئے ہنگامہ خیز عہد کی نشاندہی کرتے ہیں

مالیاتی منڈیاں ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل 2025ء کے روز نئے محصولات کے اعلان سے ڈگمگا رہی ہیں۔ پورے سرمایہ دار طبقے کے اعتماد کو ان سے شدید دھچکا لگا ہے چونکہ ٹرمپ نے 19ویں صدی کے بعدسے سب سے بلند محصولات عائد کیے ہیں۔

[نوٹ: یہ آرٹیکل 28 مارچ کو اس مسئلے پر شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کا تسلسل ہے]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایس اینڈ پی 500 کے شئیرز 5 فیصد کم ہوئے، نیسداق (Nasdaq) کے شئیرز 4 فیصد کم ہوئے۔ اسی طرح ایپل کمپنی کے شئیرز میں 8 فیصد کمی ہوئی، نائکی کے شئیرز 11 فیصد نیچے گئے، رالف لورین کے شیئرز 12 فیصد نیچے گئے، این ویڈیا کے شیئرز میں 5 فیصد کمی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔

جنوبی ایشیا سے کچھ بھی درآمد کرنے والے بری طرح سے متاثر ہوئے، سب سے پہلے کپڑے کی صنعت کو نقصان پہنچا۔ ویتنام، کمبوڈیا، لاؤس، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور میانمار پر 35 سے 49 فیصد کے درمیان ٹیرف عائد کیے گئے۔اس کا اثر اس پورے خطے کی معیشت پر نمایاں طور پر پڑے گا۔ ویتنام اور کمبوڈیا کی ایک تہائی سے زیادہ برآمدات امریکی منڈی کے لیے مختص ہیں۔

سٹاک مارکیٹوں میں گراوٹ نے ظاہر کیا کہ محصولات (Tariffs) توقع سے کہیں زیادہ بدتر تھے۔ تمام درآمدات پر 10 فیصد، اور ساتھ ہی امریکہ کے تمام بڑے تجارتی شراکت داروں پر منتخب طور پر زیادہ ٹیرف عائد کیے گئے۔ ٹیرف کا عمومی تخمینہ حساب کے طریقہ کار پر منحصر ہے، اگر ایورکور آئی ایس آئی کی بات مانی جائے تو اوسط ٹیرف شرح 29 فیصد بنتی ہے، جبکہ گولڈمین سیئکس کے مطابق یہ 18 فیصد ہے۔ بہرحال، جیسا کہ گولڈمین سیئکس نے نشاندہی کی ہے، یہ شرح مزید بڑھے گی کیونکہ تانبہ، دواسازی، سیمی کنڈکٹرز اور لکڑی جیسے شعبوں پر بھی علیحدہ ٹیرف عائد کیے جانے کا امکان ہے۔

عالمی معیشت پر اس کے اثرات شدید ہوں گے، کیونکہ زیادہ تر ممالک کا امریکہ کے ساتھ قابلِ ذکر تجارتی تعلق ہے۔ تیل کی قیمت میں چھ فیصد کمی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ تیل کے تاجروں کو خدشہ ہے کہ کساد بازاری (recession) آنے والی ہے۔

متوقع طور پر، امریکہ کے تجارتی شراکت دار ان ٹیرف سے خوش نہیں ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں الجھنے سے خوفزدہ ہیں اور اس کے ممکنہ نتائج سے بھی۔ اٹلی اور سپین نے ”تعمیری مذاکرات“ پر زور دیا ہے۔ برطانوی حکومت جوابی اقدامات کے بارے میں سی ای اوز سے مشاورت کر رہی ہے۔ جاپان کا ردعمل بھی نسبتاً محتاط اور نرم ہے۔

مختلف ممالک کی حکومتوں کی جانب سے محدود فوری ردعمل سے ظاہر ہے کہ وہ جوابی تجارتی اقدامات کے ذریعے اپنی معیشتوں کو مزید نقصان نہیں پہنچانا چاہتیں۔ تاہم جیسے جیسے صورتحال مزید بگڑے گی — چاہے اس سال یا اگلے سال — نئے اقدامات متعارف کرائے جائیں گے۔ 1930ء کی دہائی میں بھی تمام تحفظ پسند اقدامات ایک ساتھ نہیں آئے تھے، بلکہ بحران کے گہرے ہونے، حکومتوں کے بدلنے اور حالات کے بگڑنے کے ساتھ ایک ایک کر کے، ملک در ملک، یہ اقدامات سامنے آتے گئے۔

جنوبی کوریا کی حکومت، جو ٹرمپ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس مسئلے کا حل اپنی صنعتوں کو سبسڈی دے کر نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کا بوجھ براہِ راست جنوبی کوریائی محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایک اور حکمتِ عملی ہے جو متاثرہ ممالک کے سرمایہ دار طبقے کے زیرِ غور ہے۔ براہِ راست سبسڈی دے کر یا محنت کشوں کی کام کے حالات پر حملہ کر کے، سرمایہ دار طبقہ اپنے ہی مزدوروں کو نچوڑنے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ بحران کا بوجھ ان پر منتقل کیا جا سکے۔

ٹرمپ وہ ”تکلیف“ بھی واپس لا رہا ہے جس کا اس نے امریکی معیشت کے لیے وعدہ کیا تھا۔ سٹیلانٹس نے امریکہ میں پانچ سہولیات پر 900 عارضی برطرفیوں کا اعلان کیا ہے۔ ٹیرف کی وجہ سے امریکہ میں تیار ہونے والی مصنوعات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث امریکی صارفین خرچ کرنے سے گریز کریں گے اور بہتر وقت کا انتظار کریں گے۔ گاڑیوں کی صنعت اب گہری تشویش میں مبتلا ہے، کیونکہ درآمد شدہ پرزہ جات پر محصولات لگنے سے وہ مہنگے ہو جائیں گے جن کی انہیں امریکہ میں گاڑیاں بنانے کے لیے ضرورت ہے۔

برآمدی صنعتیں بھی متاثر ہوں گی، پہلے تو اپنی لاگت میں اچانک اضافے سے، اور دوسرے مرحلے میں جوابی تجارتی اقدامات کے ذریعے۔ صورتحال کو مزید سنگین بنانے کے لیے، ان بڑے پیمانے پر عائد کیے گئے ٹیرف سے سالانہ مہنگائی کی شرح میں تقریباً 2.5 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو امریکی محنت کشوں کی خریداری کی طاقت کو مزید کمزور کر دے گا۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے اثرات کتنے دور اور کتنے گہرے جائیں گے، لیکن گزشتہ 80 برسوں پر محیط تجارتی انضمام کا بکھر جانا عالمی معیشت کے لیے نہایت بڑے نتائج کا حامل ہوگا۔ عالمی تجارت کے تمام فوائد خطرے میں پڑ گئے ہیں —جیسے کہ زیادہ پیداواری صلاحیت، کم قیمت مصنوعات، اور ممالک کے درمیان اقتصادی ہم آہنگی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو نہ صرف موجودہ معاشی ڈھانچے ہل جائیں گے بلکہ عالمی سطح پر مہنگائی، بیروزگاری، اور سیاسی عدم استحکام میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اب جبکہ امریکی منڈی تک رسائی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور صارفین مستقبل کے حوالے سے پریشان ہو کر اپنی کھپت محدود کر رہے ہیں، عالمی منڈی میں ایک اور بھی شدید مقابلے کا آغاز ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک یورپی یونین، جو پہلے ہی اقتصادی مسائل سے دوچار ہے، مزید ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کرے گی—نہ صرف امریکہ پر، بلکہ چین اور دیگر ممالک پر بھی—تاکہ مبینہ ”ڈمپنگ“ کو روکا جا سکے؟ یہ رجحان عالمی تجارتی نظام میں ایک نئے تحفظاتی پالیسیوں کے دور کی شروعات ہو سکتا ہے، جس کے نتائج طویل مدتی اور دور رس ہوں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بحران کی قیمت کس کو ادا کرنی پڑے گی، یقیناً محنت کشوں کو ہی۔ محنت کشوں کو مستقبل میں لیے جانے والے فیکٹریوں کی بندشوں،اجرتوں میں کمی اور کام کے حالات کی ابتری اور سماجی اخراجات میں کٹوتیوں کے سخت اقدامات کے خلاف شدید لڑائی لڑنی ہوگی۔ عالمی تنازعات میں آنے والی شدت لازمی طور پر عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد میں شدت کو منعکس کرے گی۔

Tags: × × × ×

Comments are closed.