|تحریر: نکلس ایلبن سیونسن، ترجمہ: جلال جان|

(نوٹ: یہ آرٹیکل 28 مارچ 2025ء کو مارکسسٹ ڈاٹ کام پر شائع ہوا تھا۔)
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ٹرمپ اپنے نئے ٹیرف پیکج کا اعلان کرنے والا ہے، جسے وہ خود ’یومِ آزادی‘ کہہ رہا ہے۔ تجزیہ نگار، سیاستدان، سفارتکار اور کمپنیوں کے مالکان سب کے سب یہ سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ ٹرمپ نے حسبِ معمول سب کو انتظار میں رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں لیکن رونما ہونے والے اقدامات کی سمت صاف دکھائی دے رہی ہے۔
ٹرمپ 2 اپریل کو اعلانات کی ایک بوچھاڑ کرنے کی طرف جارہا ہے۔ 26 مارچ کو کیے گئے اس کے گاڑیوں پر ٹیرف کے اعلان نے پہلے ہی مارکیٹ میں بے چینی پیدا کر دی ہے، خاص طور پر ان یورپی اور ایشیائی برانڈز کے درمیان جو امریکی مارکیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے بظاہر 25 فیصد ٹیرف کی شرح کو ”مناسب“ سمجھ لیا ہے۔ وہ اب تک میکسیکو، کینیڈا، سٹیل، ایلومینیم اور اب گاڑیوں کی صنعت پر اسی سطح کے ٹیرف کا اعلان کر چکا ہے۔ اس کا مقصد بالکل واضح ہے: وہ کمپنیوں کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو امریکہ منتقل کریں۔ نہ صرف گاڑیوں کی اسمبلنگ، بلکہ ایلومینیم، ٹرانسمیشن، انجن اور دیگر تمام حصے بھی امریکہ میں تیار کیے جائیں۔ اور یہ صرف گاڑیوں تک محدود نہیں، اگرچہ یہ عالمی معیشت کا ایک نہایت اہم شعبہ ہے بلکہ دوا سازی جیسی دیگر صنعتوں پر بھی یہی دباؤ ہے۔
جہاں ایک طرف میکسیکو اور برطانیہ نے خوشامدانہ انداز میں ٹرمپ کو ٹیرف ہٹانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، وہیں چین، یورپی یونین، جاپان اور کینیڈا برابر کا جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بھی بارہا جوابی کارروائی کی دھمکیاں دی ہیں یہاں تک کہ 26 مارچ کی آدھی رات کو بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہ کھلی کھلی تجارتی جنگ کی تیاری ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوگا کہ ٹرمپ کسی تجارتی جنگ میں کود رہا ہے۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں وہ چین کے ساتھ ایسی ایک جنگ چھیڑ چکا ہے، لیکن اس بار اس کا نشانہ صرف چین نہیں، بلکہ پوری دنیا ہے۔
1930ء کی دہائی میں کیا ہوا تھا
1930ء کی دہائی کے ساتھ فوری مماثلتیں نکالی جا رہی ہیں، اور واقعی کچھ پہلو ایسے ہیں جو ملتے جلتے ہیں۔ 1929ء کے وال اسٹریٹ کریش کے بعد یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک نے تحفظ پسندانہ (protectionist) پالیسیاں اپنائیں تاکہ معاشی بحران کو بیرونِ ملک منتقل کیا جا سکے۔
امریکہ نے 1930ء میں سموٹ-ہاؤلی ٹیرف ایکٹ(Smoot-Hawley Tariff Act) متعارف کروایا، جس کے تحت ٹیرف کی اوسط شرح 20 فیصد تک بڑھا دی گئی۔ اس اقدام اور دیگر ممالک کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں امریکی برآمدات اور درآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور تقریباً تباہ ہو کر رہ گئیں۔ اِس بار کی طرح اُس وقت بھی کینیڈا متاثر ہوا اور اس نے جوابی اقدامات کیے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ٹرمپ اب اسی ایکٹ کی کچھ پرانی اور بھولی بسری شقوں کو استعمال کرتے ہوئے نئی ٹیرف کی لہر مسلط کرنے کی طرف جا رہا ہے۔
ابتدائی طور پر اس قانون کا اثر امریکی معیشت کو سہارا دینے والا محسوس ہوا، لیکن جب 1931ء میں آسٹریا کے بینک کریڈٹ آنشٹالٹ کے انہدام کے بعد کساد بازاری نے زور پکڑا تو اس عمل کے اثرات کہیں زیادہ سنگین ہو گئے۔ امریکی برآمدات اور درآمدات دونوں تقریباً دو تہائی کم ہونے کی طرف گئیں، اور 1932ء تک صنعتی پیداوار میں 46 فیصد تک کی شدید گراوٹ آ چکی تھی۔
بہت سے یورپی ممالک نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح کے اقدامات کیے۔ برطانیہ نے 1932ء میں امپیریل پریفرنس (Imperial Preference) متعارف کروائی، جس کے تحت برطانوی سلطنت کے باہر سے برطانیہ کو برآمدات کرنا مشکل ہو گیا۔ دیگر ممالک جیسے فرانس نے اپنے تحفظ پسندانہ اقدامات میں مزید شدت اختیار کی۔
مگر یہ صرف رسمی تجارتی رکاوٹیں ہی نہیں تھیں جو نئے تجارتی تعلقات کا حصہ بنیں۔ ایک کے بعد ایک ملک نے گولڈ سٹینڈرڈ کو ترک کر دیا۔ یعنی ان ملکوں نے اپنی کرنسی (پاؤنڈ، ڈالر، فرانک وغیرہ) اور سونے کے درمیان مقررہ شرح تبادلہ کو چھوڑ دیا۔
گولڈ سٹینڈرڈ کو ترک کرنے کا مطلب تھا کرنسی کی قدر میں کمی آنا، جس کے نتیجے میں متعلقہ ممالک کو اپنے حریفوں پر ایک مسابقتی برتری حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک جو طویل عرصے تک گولڈ سٹینڈرڈ سے چمٹے رہے (جیسے فرانس اور امریکہ) انہیں زیادہ تحفظاتی اقدامات اختیار کرنے پڑے۔ ٹراٹسکی نے 1934ء میں اس کی نشاندہی کی تھی: ”گولڈ سٹینڈرڈ سے انحراف عالمی معیشت کو ٹیرف کی دیواروں سے بھی زیادہ کامیابی سے پارہ پارہ کر دیتا ہے۔“
مجموعی طور پر، عالمی تجارت میں 66 فیصد کمی آئی، جو کہ عالمی معیشت کے لیے ایک تباہ کن دھچکا تھا۔ اس کی عملی تصویر جرمنی میں صنعتی پیداوار میں 41 فیصد، فرانس میں 24 فیصد اور برطانیہ میں 23 فیصد کمی کی صورت میں دیکھنے میں آئی۔ اسی دوران وسیع پیمانے پر بیروزگاری اور معیشت کے مجموعی زوال کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں گر گئیں، جس سے زائد پیداوار کے بحران کو مزید بڑھاوا ملا۔
یہ بحران، جیسا کہ واضح ہے تحفظ پسندی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ تحفظ پسندی بحران کا ایک نتیجہ تھی، جس نے پھر خود اس بحران کو شدید تر بنا دیا۔
قومی ریاست کی حدود
اس کا سبب معیشت کی ترقی میں چھپا ہوا تھا۔ مارکسی مفکرین نے بار بار یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ جیسے جیسے پیداواری قوتیں (مشینری، سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم وغیرہ) ترقی کرتی ہیں، وہ قومی ریاست کی سرحدوں سے ٹکراتی ہیں۔ لینن نے اس نکتے کو اپنے مشہور کتاب ”سامراج: سرمایہ داری آخری منزل“ میں بڑی شدت سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں لینن نے وضاحت کی کہ کس طرح سامراجیت اس وقت جنم لیتی ہے جب اجارہ داریاں قومی منڈی سے باہر نکل کر عالمی سطح پر پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
اب جو کچھ سیاستدان بحران کے دباؤ میں کرنے کی کوشش کررہے تھے، وہ دراصل وقت کو پیچھے موڑنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ آج کی صورتحال سے اس کی واضح مشابہت نظر آتی ہے۔ ٹراٹسکی نے اس ناکام کوشش پر کچھ یوں روشنی ڈالی:
”معاشی اور سماجی تعلقات کے میدان کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کا جو ترقی پسندانہ فریضہ ہے، اسے اُلٹا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسے اس مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ پیداواری قوتوں کو کس طرح محدود اور سست کیا جائے تاکہ انہیں پرانے قومی دائرے اور پرانے سماجی تعلقات میں فٹ کیا جا سکے۔ بحر اوقیانوس کے دونوں طرف ذہنی توانائی کا بڑا حصہ اس خیالی مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں میں ضائع ہو رہا ہے کہ مگرمچھ کو دوبارہ مرغی کے انڈے میں کیسے بند کیا جائے۔ یہ جدید ترین معاشی قوم پرستی اپنی رجعتی فطرت کے باعث ناقابل تلافی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے؛ یہ انسانی پیداواری قوتوں کو سست کرتی ہے اور ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔“
تمام حکومتی اقدامات کا اثر بالکل یہی سامنے آیا۔پیداواری قوتوں کی ترقی کی گھڑی کو پیچھے گھمانے کی کوشش کرتے ہوئے اور انہیں قومی ریاست یعنی قومی منڈی کی تنگ حدود میں زبردستی واپس دھکیلا گیا۔ اس عمل سے حکومتیں معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں، بلکہ اسے ایک گہری کساد بازاری میں دھکیل دیا۔
آخرکار، معیشت نے بحالی ضرور پائی۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران بے شمار پیداواری قوتیں تباہی کی بنیاد پر ہی بحالی ممکن ہوئی، اور جب سوشلسٹ ڈیموکریٹک اور کمیونسٹ پارٹیوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کی، تب۔ مغرب میں امریکی سامراج ایک طاقت بن کر جنگ کے بعد مکمل طور پر غالب آ گیا اور معیشت نے ایک نیا توازن حاصل کیا۔
امریکہ نے جنگ کے بعد یورپ کی دوبارہ تعمیر کے لیے فرانسیسی، جرمن اور برطانوی سامراج کو باہم تعاون پر آمادہ کیا۔ منڈیوں کو کھولنے کے لیے ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا، جسے جی اے ٹی ٹی (GATT) کہا جاتا تھا، جو وقت کے ساتھ ترقی کرتا ہوا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) بن گیا۔
یورپ میں کوئلے اور سٹیل کمیونٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹراٹسکی نے اس معاشی ضرورت کی نشاندہی پہلے ہی 1923ء میں کر دی تھی:
”پہلی عالمی جنگ کی تہہ میں پیداواری قوتوں کی اس ضرورت نے جنم لیا تھا کہ وہ ترقی کے لیے ایک وسیع میدان حاصل کریں، جو کسٹمز اور ٹیرف کی دیواروں سے آزاد ہو۔ اسی طرح، روہر (جرمنی کا علاقہ) پر قبضہ، جو یورپ اور بنی نوع انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، دراصل اس ضرورت کا بگڑا ہوا اظہار تھا کہ روہر کے کوئلے کو لورین (فرانس کا شہر) کے لوہے سے یکجا کیا جائے۔ یورپ ان ریاستی اور تجارتی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اقتصادی ترقی نہیں کر سکتا، جو اسے ورسائے کے معاہدے کے تحت دی گئی تھیں۔ یورپ یا تو ان سرحدوں کو ختم کرنے پر مجبور ہے، یا پھر مکمل معاشی زوال کا سامنا کرے گا۔ لیکن حکمران بورژوازی نے ان خود ساختہ سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے ہیں، وہ محض موجودہ افراتفری کو بڑھا رہے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو تیز تر کر رہے ہیں۔“ (کیا ”یورپ کی متحدہ ریاستوں“ کا نعرہ بروقت ہے؟)
پہلے ہی ٹراٹسکی نے 1923ء میں اس معاشی اتحاد کی ضرورت کو بھانپ لیا تھا۔یہ وہی اتحاد ہے جس نے بعد میں فرانس، مغربی جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیئم کی کوئلے اور سٹیل کی صنعتوں کو یکجا کیا۔ یہ اس لیے ناگزیر تھا کیونکہ یورپ کی چھوٹی چھوٹی قوموں میں قومی ریاست کی حدود معیشت کی ترقی پر شدید قدغنیں لگاتی تھی۔
لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں، کوئلے اور سٹیل کمیونٹی ناکافی ثابت ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی GATT کی طرح وسعت اختیار کرتا گیا۔ یہاں تک کہ یورپی کمیونٹی اور پھر یورپی یونین کی شکل اختیار کر گیا۔ اس پورے عمل میں ہر قدم پر امریکی سامراج موجود رہا اور اس انضمام کو سہارا دیتا رہا کیونکہ اُس وقت یہ امریکہ کے مفاد میں تھا۔

ان ابتدائی اداروں کی محدود ساخت کو وقت کے ساتھ کیوں وسعت دینی پڑی، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ اگر ہم اس نکتہ نظر سے دیکھیں کہ پیداواری قوتیں جب ترقی کرتی ہیں تو وہ بالآخر قومی ریاست کے دائرے سے باہر نکل جاتی ہیں۔ یہ وسعت خود پیداواری قوتوں کی فطری حرکت اور ان کی حدود توڑنے کی صلاحیت کا اظہار تھی۔
یعنی جیسے جیسے یورپی یونین میں اجارہ داریاں (monopolies) ترقی کرتی گئیں۔ خاص طور پر نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں جیسے کہ آٹوموبائل اور کیمیکل کی صنعت میں ویسے ویسے انہوں نے قومی ریاست کی حدود کو تنگ پایا اور انہیں یورپی منڈی تک رسائی کے لیے ایک وسیع تر میدان درکار تھا۔ اسی لیے، انہیں ایک کے بعد ایک رکاوٹ کو ختم کرنا پڑا۔ چونکہ مجموعی طور پر معیشت ترقی کر رہی تھی، اس لیے منافع کی ایک بہترین تقسیم ممکن تھی۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہو پایا کیونکہ امریکہ جس کی صنعتیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور پیداواری تھیں، مسلسل آزاد تجارت کے فروغ کی سمت دباؤ ڈال رہا تھا۔
اس نئے طریقہ کار سے سرمایہ دار طبقے کو مجموعی طور پر فائدہ پہنچا۔ خاص طور پر یہ نسبتاً سیاسی و سماجی استحکام کا نظام تھا۔ اتنا منافع موجود تھا کہ محنت کش طبقے کو بھی خاصی رعایتیں دی گئیں۔ اور دوسری طرف، سوویت یونین بطور مستقل خطرہ موجود تھا، جو سرمایہ داری کو اپنی بقا کے لیے اندرونی طور پر متحد اور مستحکم رکھنے پر مجبور کرتا رہا۔
ان حالات اور اس نظام کے تحت معیشت کی ایک نئی اٹھان ممکن ہوئی۔ محنت کی پیداواری صلاحیت میں ہر پیمانے کے مطابق غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے دوران، اس کے ساتھ ساتھ حقیقی اجرتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ چونکہ پیداواری صلاحیت بڑھ چکی تھی، اس لیے مغرب کے محنت کشوں کو ایسی زندگی کی سہولیات مہیا کی جا سکیں، جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں: گھر، گاڑیاں، ٹی وی سیٹ، تعلیم، صحت کی سہولیات، پنشن وغیرہ یہ سب محنت کشوں کو میسر تھے۔
لیکن یہ سب کچھ اسی لیے ممکن ہوا کیونکہ پیداواری قوتیں ایک ایسے نظام کے تحت ترقی کر سکتی تھیں جو زیادہ مہارت، بڑھتی ہوئی آزاد تجارت، اور عالمی سطح پر معاشی روابط پر مبنی تھا۔ دنیا کی محنت کی تقسیم (world division of labour) پیداواری قوتوں کی مسلسل ترقی کے لیے ناگزیر تھی۔
اس معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ، فطری طور پر ایسی عظیم الشان اجارہ داریوں (monopolies) کا ظہور ہوا جنہوں نے عالمی منڈی پر غلبہ حاصل کر لیا۔ جو کمپنیاں کم پیداواری تھیں، یعنی جو زیادہ مؤثر نہیں تھیں اور جو جدید ترین مشینری سے محروم تھیں وہ یا تو دیوالیہ ہو گئیں یا بڑی کمپنیوں نے انہیں خرید لیا۔ یہ اس وقت اس موضوع کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن اگر ہم آج کسی بھی بڑی صنعت کا جائزہ لیں۔ چاہے وہ خام مال ہو، پرزہ جات ہوں یا تیار شدہ مصنوعات تو ہمیں چند ہی بڑی کمپنیاں بچی ہوئی نظر آتی ہیں۔
لیکن آزاد منڈی کے حامیوں کے خوابوں کے برعکس، یہی آزاد مقابلہ (free competition) ہی درحقیقت ان اجارہ داریوں کو جنم دیتا ہے۔
تحفظ پسندی آج کے عہد میں
آج کے عہد کے سوال پر واپس آتے ہیں، ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ چکے ہیں جو ٹراٹسکی کے زمانے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مربوط ہے۔ 1960ء کے بعد، عالمی معیشت حقیقی اصطلاحات میں تقریباً آٹھ گنا بڑھ چکی ہے۔ تاہم، عالمی تجارت کا حجم بیس گنا بڑھ گیا ہے اور قدر کے لحاظ سے تو یہ اضافہ اور بھی زیادہ ہے۔
جب امریکہ نے 1930ء میں اپنے تحفظ پسند رجحان کا آغاز کیا، تب اس کی تجارت اور جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 9 فیصد تھا؛ آج یہ تناسب 25 فیصد کے قریب ہے۔ صنعت سازی کے معاملے میں تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہے۔ امریکہ کی صنعتی پیداوار کی کل قدر 2.3 ٹریلین ڈالر ہے، جبکہ صنعتی برآمدات کی قدر تقریباً 1.6 ٹریلین ڈالر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ 70 فیصد تیار شدہ مصنوعات براہ راست برآمد کے لیے پیدا کی جاتی ہیں (کیونکہ مختلف پرزے کئی بار سرحد عبور کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ آخری مصنوعات کا حصہ بن جائیں) مگر یہ اشارہ دیتا ہے کہ صنعت سازی کس قدر عالمی منڈی کا مربوط حصہ بن گئی ہے۔
لہٰذا آج امریکہ اور باقی دنیا اب بار پھر تحفظ پسندی کی نئی لہر کا آغاز کر رہے ہیں، تو وہ ایک بالکل مختلف نقطہ آغاز سے یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹراٹسکی کے الفاظ میں، ”مگرمچھ کو دوبارہ مرغی کے انڈے میں بند کرنے“ کی کوشش کرنا چاہیں، تو اس کا نتیجہ پیداواری قوتوں کی زبردست تباہی اور ناقابل بیان مصیبتوں میں نکلتا ہے۔
سرمایہ داری کے معیشت دان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے انہوں نے تحفظ پسندی کے حوالے سے ’دوبارہ نہیں‘ کا اعلامیہ دیا ہے۔ مگر بہت سے معاشی اقدامات جن پر پہلے بھی ’دوبارہ نہیں‘ کہا گیا تھا، جیسے کہ پیسے چھاپنا، یہ بھی بین الاقوامی اور طبقاتی تضادات کی حقیقی بڑھوتری کے آگے دم توڑ گیا ہے۔
ٹرمپ نے تحفظ پسندی کی ابتدا نہیں کی۔ عالمی تجارتی الرٹ (Global Trade Alert) کے مطابق، اب جی-20 ممالک کے درمیان 4,650 درآمدی پابندیاں موجود ہیں، جو 2008ء کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہیں۔ امریکہ 2018ء سے چین کی معیشت کے پَر کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہی طرزِ عمل آج بھی جاری ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین دونوں نے چین کی برقی گاڑیوں (Electric Vehicles) پر ٹیرف عائد کر رکھے ہیں۔ صدر بائیڈن کا ”انفلیشن ریڈکشن ایکٹ“ (Inflation Reduction Act)، ملک میں چِپ سازی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی کی کوششیں، اور دیگر کئی اقدامات بھی اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔
یہ سب کچھ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ درحقیقت، یہ وہ سمت ہے جس میں عالمی معیشت پہلے ہی گامزن تھی، چاہے وہ کسی بھی رہنما کی حکومت ہو۔ ایک وقت تھا جب عالمی تجارت کی رفتار عالمی معیشت سے زیادہ تیز تھی، لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔
ٹرمپ کی تجارتی جنگ درحقیقت اس سمت میں تیزی کا باعث بن رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کتنے عرصے تک جاری رہے گی، مگر فِچ ریٹنگز ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اوسط امریکی ٹیرف کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو 1934ء کے بعد سب سے زیادہ سطح ہوگی۔
ٹرمپ کے منصوبے عالمی معیشت کے لیے خاص مشکلات کھڑی کرتے ہیں، اور مسئلہ صرف حتمی مصنوعات (مثلاً گاڑیاں) پر ٹیرف لگانے کا نہیں ہے، بلکہ گاڑی کے تمام پرزہ جات پر یکساں ٹیرف عائد کرنا بھی شامل ہے۔ اس صورت میں، نہ صرف ایک مرتبہ 25 فیصد ٹیرف کا سامنا ہوگا بلکہ پیداوار کے مختلف مراحل پر یہ ٹیرف کئی بار ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ڈیٹرائٹ فری پریس ایک تجزیہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے:
”ہر بار جب کوئی پرزہ سرحد عبور کرتا ہے، اس پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ایک مثال کے طور پر، ابو السامد نے ایک ایسی گاڑی بنانے والی کمپنی کا ذکر کیا جس کا نام بتانے سے اُس نے انکار کر دیا، جس نے بتایا کہ وہ وائر ہارنسیز بنانے کے لیے درکار مواد جاپان سے حاصل کرتی ہے۔ یہ مواد پہلے میکسیکو پہنچتے ہیں تاکہ وہاں وائر ہارنسیز تیار کیے جائیں، پھر ان ہارنسیز کو ٹیکساس بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں ایئر بیگ سے منسلک کیا جا سکے۔ اس کے بعد، یہ گاڑی بنانے والی کمپنی کے پلانٹ میں میکسیکو واپس بھیجے جاتے ہیں جہاں انہیں کار سیٹ میں نصب کیا جاتا ہے۔ آخرکار، گاڑی کو واپس امریکہ بھیج دیا جاتا ہے۔“
جب کار انڈسٹری کا تخمینہ کیا جاتا ہے کہ اس سے گاڑی کی قیمت میں تقریباً 4 ہزار سے 12 ہزار ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے، تو وہ اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ درحقیقت، اس عمل میں وائر ہارنسی پر دو بار ٹیکس عائد ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ امریکی برآمد کنندگان کو عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی، کیونکہ انہیں اپنے پرزہ جات کو برآمد کرنے سے پہلے متعدد مراحل پر ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جو ہمہ گیر ٹیرف نافذ کیے جارہے ہیں، اور غالباً ٹرمپ کے نقطہ نظر سے، یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ اس کا مقصد عالمی سپلائی چینز کو الٹ دینا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بی ایم ڈبلیو کے یورپ میں تین بنیادی پلانٹس ہیں جہاں انجن تیار کیے جاتے ہیں، اور ہر پلانٹ مخصوص ماڈلز کے لیے مخصوص انجن کی تیاری میں مہارت رکھتا ہے۔ صرف امریکی منڈی کے لیے ایک الگ انجن فیکٹری قائم کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہوگا۔ یہی مسئلہ ان تمام گاڑی کے پرزہ جات پر بھی لاگو ہوتا ہے جو پہلے سے امریکہ میں تیار نہیں کیے جاتے۔ یورپی یونین، چین اور جاپان کی جانب سے امریکی پیدا کردہ پرزہ جات پر لگائے گئے کسی بھی نوعیت کے مخالف اقدامات صورت حال کو مزید خراب کر دیں گے۔ اس کے طویل مدتی اثرات میں افراط زر میں اضافہ شامل ہوگا، جس سے محنت کش طبقے کو مزید مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
محنت کش طبقے کا مؤقف
تو پھر، اس سب میں محنت کش طبقے کے کیا مفادات ہیں؟ امریکی کار ورکرز یونین (UAW) کے رہنما، شون فین نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ”اس تباہ کن آزاد تجارت کے خاتمے کے لیے قدم اٹھایا ہے جس نے دہائیوں سے محنت کشوں کو تباہ کر دیا ہے۔“
بلاشبہ اس نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ مشی گن (Michigan) کی صنعتی بنیاد کو ختم کرنا پورے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب کر چکا ہے۔ لیکن اب جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں، اور ٹرمپ کی اس کوشش کے نتیجے میں تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔
اسی طرح، ہم آزاد تجارت کی پالیسی کا دفاع بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ یہی پالیسی ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے۔ آزاد تجارت کی پالیسی دراصل کارخانوں کے بند ہونے، آبادیوں کی تباہی کی پالیسی ہے، اس وعدے کے ساتھ کہ لمبے عرصے میں یہ سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔
جب ہٹلر فتح کے قریب تھا تو اُس وقت جرمن سوشل ڈیموکریٹس نے بالکل ایسی ہی ایک حیران کن پالیسی کو پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر جھٹکنے دو کیونکہ آخر میں سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔ مگر اقتصادی توازن تک پہنچنے کا راستہ فاشزم اور عالمی جنگ کے ذریعے نکلا۔ موجودہ وقت میں فوری مستقبل میں ایسا امکان نہیں، مگر جو مصیبت آزاد منڈی کی سرمایہ داری لے کر آتی ہے، ہر کسی کی نظروں کے سامنے ہے۔
ٹراٹسکی بالکل اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آزاد تجارت کا خاتمہ کس طرح براہ راست خود بحران سے جڑا ہوا ہے:
”آزاد تجارت کی آزادی، جیسے کہ مقابلے کی آزادی، اور متوسط طبقے کی خوشحالی، یہ سب ناقابل واپسی ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ماضی کو دوبارہ بحال کرنا اب سرمایہ داری کے جمہوری اصلاح پسندوں کی واحد تجویز ہے۔“
دونوں طرف کے حامی چاہے وہ آزاد تجارت کے حامی ہوں یا تحفظ پسند ہوں۔ دونوں ہی معاشرے کو بحران سے قبل کی حالت میں بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن نہ ہی ان کے پاس یہ کرنے کی استطاعت موجود ہے۔ نہ تو آزاد تجارت کی بحالی، اور نہ ہی نئی ٹیرف رکاوٹوں کے قیام سے یہ بحران حل ہو سکتا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ پیداواری قوتوں اور عالمی منڈی کی ترقی نے نہ صرف قومی سرمایہ داری کو نا ممکن بنا دیا ہے بلکہ دنیا کی اس تاریخ کا سب سے وسیع اقتصادی بحران بھی تخلیق کر دیا ہے۔ پورا منظرنامہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پیداواری قوتیں قومی ریاست اور نجی ملکیت کے خلاف بغاوت کر رہی ہیں۔
ہم اپنے آخری کلمات ٹراٹسکی کے حوالے کرتے ہیں:
”لہٰذا، سماج کو بچانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تکنیکی ترقی کو روکا جائے، کارخانوں کو بند کیا جائے، کسانوں کو زراعت کو نقصان پہنچانے پر انعامات دیے جائیں، مزدوروں کے ایک تہائی کو مفلسی کی صورتحال میں مبتلا کیا جائے، اور پاگلوں کو آمر مقرر کیا جائے۔ یہ تمام اقدامات، جو کہ سماج کے مفادات کا ایک چونکا دینے والا مذاق ہیں، درحقیقت ناگزیر نہیں ہیں۔ ضروری اور اشد مطالبہ یہ ہے کہ پیداواری وسائل کو ان کے موجودہ جونک نما مالکان سے الگ کر کے ایک منطقی منصوبے کے مطابق معاشرے کو منظم کیا جائے۔ اس صورت میں ہی فوراً معاشرے کو درپیش بیماریاں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جو کوئی بھی کام کرنے کے قابل ہو، اسے روزگار میسر آئے گا، کام کے اوقات بتدریج کم ہو جائیں گے، اور معاشرے کے ہر فرد کی ضروریات کی تیزی سے تشفی کی جا سکے گی۔ نتیجتاً، ’ملکیت‘، ’بحران‘، ’استحصال‘ جیسے الفاظ غائب ہو جائیں گے، اور انسانیت آخر کار حقیقی انسانیت کی منزل طے کر لے گی۔“