|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
امریکی صدارتی انتخابات کا حیران کن نتیجہ موجودہ صورتحال میں تیز طرار اچانک تبدیلیوں اور جھٹکوں کا آئینہ دار ہے۔ آخری لمحے تک میڈیا مبصرین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ انتخابات میں کچھ فرق کے ساتھ ہیرس ہی فاتح ہو گی۔ لیکن وہ ذلیل و رسوا ہو گئے۔
6 نومبر 2024ء کی صبح کو جب ڈونلڈ ٹرمپ 270 لازمی الیکٹورل کالج ووٹوں کی حد کے قریب پہنچ کر واضح طور پر فاتح ہوا تو ایک جھٹکے سے یہ سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ ایک مرتبہ پھر کروڑوں امریکیوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔
ایسا تو نہیں ہو سکتا! امریکی حکمران طبقہ یورپی حکومتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ کسی بھی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے اسے وائٹ ہاؤس سے ہر صورت باہر رکھنا چاہتا تھا۔ 2020ء انتخابات میں شکست کے بعد اسے دوبارہ امیدوار بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
اسے مختلف ریاستوں کے انتخابات سے دور رکھا گیا۔ اس پر 34 فرد جرم عائد ہوئیں اور ابھی قطار میں مزید 50 ہیں۔ اس کو کاروباری فراڈ اور ایک ریپ الزام کے نتیجے میں ایک ہتک آمیز کیس میں کئی سو ملین ڈالروں کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
لیکن اس پر لگنے والی ہر فرد جرم مزید عوامی حمایت اپنے ساتھ لے کر آئی۔ اس پر لگائے گئے تمام الزام ایسے بے اثر رہے جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔ ہر کورٹ کیس کے ساتھ رائے شماریوں میں اس کی حمایت بڑھتی رہی۔
اس کے خلاف تمام حملے واپس پلٹ کر ان پر حملہ آور ہوئے جنہیں درست طور پر اسے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے روکنے کی تمام سازشوں میں ملوث سمجھا جا رہا تھا۔ اس کے خلاف سارا کھیل بن چکا تھا۔ پورا میڈیا اس کے خلاف متحد تھا۔ دونوں امیدواروں کے حوالے سے بڑے اخبارات اور جنرلوں کی تعداد اور ان کی حمایت درج ذیل ہے:
1: کمالہ ہیرس کی حمایت میں 199۔
2: ٹرمپ کی حمایت میں 16۔
3: کسی کی حمایت نہیں 28۔
4: دیگر 1۔
ٹوٹل 244۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورا میڈیا اس کے خلاف تھا۔ حکمران طبقہ پر سکون تھا کہ ”وہ کبھی فاتح نہیں ہو سکتا“۔ ان کی دلیل تھی کہ ایک ”مجرم“ کبھی بھی صدارت نہیں جیت سکتا۔ لیکن وہ جیت گیا۔ اس وجہ سے امریکی حکمران طبقہ شدید صدمے میں ہے۔
پریشانی
ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ نظریہ حیرانی پر دور اندیشی کی فوقیت ہے۔ آج صبح یہ بات میرے ذہن میں اس وقت آئی جب میں ایک بی بی سی مبصر کا دلچسپ تبصرہ پڑھ رہا تھا:
”واشنگٹن میں ایک ڈیموکریٹ سیاسی سرگرم نے مسیج کیا ہے کہ پارٹی کو ’سب سے پہلے واشنگٹن میں ناک چڑھائی (سیاسی) اشرافیہ کو لات مار کر باہر نکالنا ہو گا۔“
”دیگر نے بھی ذرا نرم الفاظ میں مجھے یہی بتایا ہے کہ اگرچہ وہ مہم کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں پارٹی کا مجموعی طور پر ایک ’امیج کا مسئلہ‘ ہے، جب روزمرہ کی اشیاء جیسے کہ روز مرہ زندگی کی گراں قدری زیادہ تر ووٹروں کے ذہن پر چھائی ہوئی ہے۔“
”ڈیموکریٹس کی اس پریشانی سے میرے ذہن میں ایک گفتگو آ گئی جو ایک ٹرمپ ریلی میں ایک ریپبلیکن کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ان کے امیدوار نے مکمل طور پر ریپبلیکن پارٹی کا ’امیج‘ ایک مہنگے کلب کے ووٹروں سے تبدیل کر کے محنت کش خاندانوں کو اپیل کرنے والی پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ ڈیموکریٹس ’ہالی ووڈ‘ کی پارٹی بن گئی ہے۔“
”یہ بڑی عام باتیں ہیں لیکن ایسی ہیں جنہیں ریپبلیکنز اعلانیہ اور کچھ ڈیموکریٹس نجی طور پر کر رہے ہیں۔“
جدلیات کی الف ب سے عاری سرمائے کے حکمت کار ہمیشہ سماج کی سطح کو ٹٹولتے رہتے ہیں اور اپنے پیروں تلے مجتمع ہونے والے شدید غم و غصے سے بے خبر رہتے ہیں۔
وہ جاننے سے قاصر ہیں کہ نام نہاد ٹرمپ تحریک کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ ان کے لیے یہ ”امیج“ کا سوال ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا امیج حقیقت کی عکاسی ہے۔
اس وقت واشنگٹن اشرافیہ اور عوام کے درمیان ایک دیوہیکل کھائی نمودار ہو چکی ہے، یہ ایک طرح کی ”کسان بغاوت“ تھی، ایک عوامی شورش اور موجودہ نظام کے خلاف فیصلہ کن عدم اعتماد کا ووٹ۔
پُر تضاد تحریک
میں نے لیفٹ کے کئی لوگوں سے سنا ہے کہ ٹرمپ اور ہیرس ”دونوں ایک“ ہی ہیں۔ یہ درست اور غلط دونوں ہے۔ یہ واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ارب پتی ہے جو امراء اور طاقتور کے مفادات کا محافظ ہے۔
لیکن یہ کہنا کہ ٹرمپ اور ہیرس دونوں رجعتی بورژوا سیاست دان ہیں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا کوئی انتخاب نہیں ہے محض حقیقت دہرانا ہے۔ یہ بنیادی تشریح اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ ٹرمپ نے کامیابی سے کروڑوں امریکی محنت کشوں کی حمایت کیسے حاصل کر لی ہے؟
یہ ایک عجیب مخمصہ ہے کہ ٹرمپ جیسا ارب پتی کامیابی سے محنت کش طبقے کے مفادات کا سورما بنا پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنے طبقے کا وفادار نمائندہ ہے، 1 فیصد امیر ترین امریکی اشرافیہ جو قوم کی مالک اور کنٹرولر ہے۔
ایک طویل عرصے تک ڈیموکریٹس محنت کش طبقے کے سیاسی نمائندے ہونے کا ڈھونگ رچاتے رہے۔ لیکن دہائیوں کے تلخ تجربات نے کروڑوں محنت کشوں کو سیکھا دیا ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔
وہ ایک ریڈیکل متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ سینڈرز یہ کام کرسکتا تھا اگر وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پلو سے چپکے رہنے کے بجائے ایک آزاد امیدوار بن جاتا۔ لیکن وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سجدہ زیر ہو گیا اور اپنی ساری حمایت کو مایوس کر دیا۔
اس حرکت نے ٹرمپ جیسے رائٹ وِنگ شعلہ بیانوں کے لیے راستہ کھول دیا جس نے دونوں ہاتھوں سے اس موقع کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ عام طور پر لوگ نہیں جانتے لیکن 2015ء میں ٹرمپ نے نجی ملاقات میں ییل (Yale) یونیورسٹی پروفیسر جیفری سونن فیلڈ کو بتایا تھا کہ وہ دانستہ طور پر برنی سینڈرز مہم کے کارپوریٹ مخالف بیان کا چھاپہ مار رہا ہے کیونکہ یہ مؤثر ہے۔
ایک لیفٹ وِنگ متبادل کی عدم موجودگی میں کروڑوں افراد نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر یتیم اور بیگانہ محسوس کرتے ہوئے فوری طور پر یہ موقع پکڑا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی محنت کش طبقہ سمجھتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اسے دھوکہ دیا ہے اور وہ موجودہ تمام سیاسی پارٹیوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے ٹرمپ ایک متبادل تھا اور انہوں نے اس کی بھرپور حمایت کی۔
نومبر 2016ء میں ہی ایوننگ سٹینڈرڈ (Evening Standard) اخبار کے ایک انٹرویو میں نشاندہی کی گئی کہ:
”امریکی محنت کش طبقہ تاریخی تعداد میں نکل رہا ہے۔ یہ ایک محنت کش طبقے کا انقلاب ہے۔ کسی کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کیونکہ میڈیا میں اشرافیہ پنیر اور شیمپین کھاتی پیتی رہتی ہے اور حقیقی ووٹروں سے کبھی بات نہیں کرتی۔ امریکی محنت کش طبقے کو اسٹیبلشمنٹ نے برباد کر دیا ہے، وال سٹریٹ کے غلام طبقے نے برباد کر دیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اب ان کا نمائندہ ہے۔“
یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے جب تک آواز نہیں اٹھائی تھی اس وقت تک محنت کش طبقے کا امریکی سیاست میں ذکر شائد ہی ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ سب سے زیادہ ”لیفٹ وِنگ“ ڈیموکریٹس بھی متوسط طبقے کا ہی ذکر کرتے تھے۔ محنت کش طبقے کو مکمل طور پر فراموش کیا جا چکا تھا۔ ان کے کبھی ذہن میں ہی نہیں آیا کہ سماج میں یہ بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ موجود ہے اور اب وہ اپنا اظہار کر رہا ہے۔
اٹھارویں صدی میں عظیم فرانسیسی انقلاب کے موقع پر آبے سے یس (Abbé Sieyès) نے ایک مشہور زمانہ تحریر ”تیسری اکائی کیا ہے؟“ لکھی جس میں ہم پڑھتے ہیں کہ:
”تیسری اکائی کیا ہے؟ سب کچھ۔ پچھلے سیاسی نظام میں اس کی کیا حیثیت تھی؟ کچھ نہیں۔ اس کی خواہش کیا ہے؟ کچھ بن جائے۔“
اس وقت لکھے گئے یہ مشہور زمانہ الفاظ آج امریکی محنت کش طبقے کو درست طور پر بیان کر رہے ہیں۔ آپ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کچھ بھی سوچیں، یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اپنے مقاصد کے لیے ہی صحیح لیکن اس نے دہائیوں میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے کو امریکی سیاست کا مرکز بنا دیا ہے۔
طبقات کے درمیان عمیق کھائی
یہ حقیقت کوئی حادثہ نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ سماجی وجود کا عکس ہے۔ امراء اور غرباء کے درمیان خلیج اب ایک ناقابلِ عبور کھائی بن چکی ہے۔ یہ کھائی مسلسل سماجی اور سیاسی پولرائزیشن کو بڑھا رہی ہے۔ سماج میں غم و غصے کا لاوا پک رہا ہے۔
آپ جہاں بھی دیکھیں، کسی بھی ملک پر نظر دوڑائیں، امراء اور طاقتوروں کے خلاف شدید غم و غصہ پک رہا ہے، بینکار، وال سٹریٹ اور عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چالاکی سے اس نفرت کو استعمال کیا ہے۔ اس وجہ سے سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار شدید خوفزدہ ہیں۔
وہ درست طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ دانستہ طور پر مفاہمت کی بنیادیں بارود سے اڑا رہا تھا، اس اعتدال پسند سیاست کی دھجیاں اڑا رہا تھا جسے بنانے میں دہائیوں محنت ہوئی ہے۔
امریکی اسٹاک مارکیٹ تیز تر ہے، کرنسی منڈیوں میں ڈالر کی کارکردگی شاندار ہے، امریکی معیشت 2.5 فیصد کی حقیقی شرح نمو سے بڑھ رہی ہے، بیروزگاری 4.1 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن انتخابی مہم چلانے والوں کی رپورٹوں سے واضح طور پر پتا چل رہا ہے کہ عوام کی اکثریت اپنے آپ کو بہتر محسوس نہیں کر رہی بلکہ اس کے برعکس جذبات کچھ اور ہیں۔
”پینسلوانیا سڑک بناؤ‘ (تحریک) میں انتخابی مہم چلانے والوں نے مجھے بتایا کہ زیادہ تر افراد شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ ووٹنگ سے ان کی زندگیاں بہتر ہوں گی۔ ایک کارکن نے مجھے بتایا کہ اسے سیاست دانوں کے حوالے سے زیادہ تر نے کہا ہے کہ ’وہ صرف میرا ووٹ چاہتے ہیں اور پھر وہ ہمیں بھول جائیں گے‘۔ ایک ریاستی نمائندے مینوئل گزمان کے ڈسٹرکٹ میں ریڈنگ کے محلے بھی آتے ہیں جہاں قطار میں عام گھر ہیں اور زیادہ تر رہائشی لاطینی ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے ووٹروں کے ان شکوک و شبہات کا پتا ہے۔ گزمین ڈومینیکن اور پورٹو ریکن ہے اور وہ پُر اعتماد تھا کہ نومبر میں ریڈنگ میں ڈیموکریٹس ہی جیتیں گے۔ لیکن وہ پریشان تھا کہ جیت کا فرق مایوس کن ہو گا کیونکہ واشنگٹن میں ڈیموکریٹس کی ترجیحات اور جو اس کے ووٹر بتا رہے ہیں، ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے، ان میں سے کئی ایک سے زیادہ نوکریاں کر رہے ہیں تاکہ غربت ان کا مقدر نہ بن جائے۔ ریڈنگ کے ایک تہائی رہائشی غریب ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’ہمارا دھیان بطور ایک قومی پارٹی جمہوریت کے دفاع میں اتنا زیادہ ہو چکا ہے۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں، میں نے ریڈنگ شہر میں ایک فرد کو جمہوریت کی بات کرتے نہیں سنا! مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ مینی! پیٹرول اتنا مہنگا کیوں ہے؟ میرا کرایہ اتنا زیادہ کیوں ہے؟‘ کوئی بھی ان مسائل پر بات نہیں کر رہا۔“
امریکیوں کو بڑی اچھی طرح ان قیمتوں کا اندازہ ہے جنہیں سرکاری اعداد و شمار اور مشہور معیشت دان نظرا نداز کرتے ہیں۔ گھروں کے رہن پچھلے 20 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور گھروں کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر ہیں۔ گاڑیوں اور صحت کی انشورنس آسمانوں کو چھو رہی ہے۔
پچھلے سال دسمبر میں بلومبرگ نیوز کی ہیرس رائے شماری کے مطابق تقریباً 40 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیگر ذرائع سے آمدن بڑھا کر اپنے گھریلو اخراجات پورے کیے ہیں۔ ان میں سے 38 فیصد کا کہنا تھا کہ اس اضافی پیسے سے بمشکل ماہانہ اخراجات پورے ہوئے ہیں اور 23 فیصد کا کہنا تھا کہ اس اضافی آمدنی سے ان کے بل بھی ادا نہیں ہو سکے۔
یقینا امریکہ میں کمائی اور دولت کی عدم مساوات دنیا میں بلند ترین میں سے ایک ہے اور مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ میں بالائی 1 فیصد اشرافیہ تمام ذاتی آمدنی کا 22 فیصد لے جاتی ہے جو نچلی 50 فیصد عوام سے دگنا ہے۔ بالائی 1 فیصد امریکی تمام ذاتی دولت کی 35 فیصد ملکیت رکھتے ہیں جبکہ 10 فیصد امریکیوں کی 71 فیصد ملکیت ہے۔ اس کے مقابلے میں نچلی 50 فیصد عوام کی ملکیت صرف 1 فیصد ہے۔
شدید عدم مساوات، امراء اور غرباء کے درمیان مسلسل بڑھتی خلیج اور واشنگٹن میں موجود سیاست دانوں کی عام عوام کے روزمرہ مسائل سے مسلسل بڑھتی بیگانگی موجودہ صورتحال کا حقیقی جوہر ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی عوام میں مقبولیت اور موجودہ انتخابی نتائج کی حقیقی بنیاد ہے۔
معتدل سیاست کا انہدام
یہ معاملہ صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ہمیں معتدل سیاست کا انہدام نظر آ رہا ہے۔ لیکن یہی تو وہ گوند ہے جو پورے سماج کو جوڑے رکھتی ہے۔
یہ طبقات کے درمیان مسلسل بڑھتے تناؤ کا عملی اظہار ہے، رائٹ اور لیفٹ کے درمیان تقسیم، جو مسلسل گہری ہو رہی ہے۔
ایک پیچیدہ عمل میں ٹرمپ تحریک کا مظہر اسی بڑھتی تفاوت کا اظہار ہے۔
آج مختلف ممالک میں منفرد پاپولسٹ رائٹ وِنگ رجحانات کی بڑھوتری اس کا اظہار ہے۔ لیکن میکانکس کے قوانین ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر عمل کا متوازی اور الٹ رد عمل بھی ہوتا ہے۔ ایک اگلے درجے پر اس کا اظہار لیفٹ کی جانب تیز طرار جھکاؤ میں ہو گا۔
حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے ٹرمپ اس لیے خطرناک ہے کیونکہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے محنت کشوں سے اپیلیں کر رہا ہے اور ریڈیکلائزیشن کے موڈ کو ہوا دے رہا ہے جو مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس لیے ٹرمپ کے حوالے سے اشرافیہ میں شدید خوف اور غصہ موجود ہے۔
حکمران طبقہ شدید ہیجان میں ہے کہ اس پولرائزیشن کو روکا جائے اور معتدل سیاست کا دوبارہ احیاء ہو۔ لیکن تمام عمومی حالات ان کی کامیابیوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔
امراء اور غرباء
بل کلنٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ: ”یہ معیشت کا سوال ہے، بیوقوف!“ اس کی بات درست تھی۔ وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ دی کہ:
”معیشت ووٹروں کے لیے سب سے اہم مسئلہ تھا۔ 39 فیصد نے کہا کہ ’یہ ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلہ ہے‘ ہر دس میں سے چھ افراد یعنی 63 فیصد کا کہنا تھا کہ معیشت ’ٹھیک نہیں ہے‘ یا ’خراب‘ ہے۔“
”ووٹروں نے مخصوص مسائل کا ذکر کیا جن میں اشیائے خورد و نوش کے بل، رہائش کی قیمت اور جنگ کا خوف شامل تھے لیکن کئی نے یہ بھی کہا کہ امریکی مستقبل کے حوالے سے انہیں زیادہ بڑی بقاء کی فکریں ہیں۔“
پچھلی مرتبہ جب ٹرمپ ہلری کلنٹن کے مدمقابل تھا تو دی اکانومسٹ میگزین نے کلنٹن کی حمایت کی تھی اور اعتراف کیا تھا کہ:
”مسٹر ٹرمپ عوامی غم و غصے کی وجہ سے فاتح ہوا۔ اس میں ایک حصہ اس حقیقت کا بھی ہے کہ عام امریکیوں کو اپنے ملک کی خوشحالی میں کوئی حصہ نہیں ملا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار کے حوالے سے آج ایک مرد کی عمومی آمدن 1970ء کی دہائی سے بھی کم ہے۔“
”پچھلے پچاس سالوں میں، 1990ء کی دہائی نکال کر، درمیانے گھرانوں کو ہر بحران کے بعد اپنی کھوئی آمدن واپس حاصل کرنے کے لیے زیادہ طویل تگ و دو کرنی پڑی۔ سماجی نقل و حرکت اتنی سست رو ہے کہ کسی بہتری کا وعدہ ہی بیکار ہے۔ چند چونیوں کا اضافہ عزت نفس کے نقصان کا ازالہ نہیں کر سکتا۔“
اس وقت سے اب تک کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ امریکی معیشت کی حالت تسلی بخش بالکل نہیں ہے۔ اس کا ایک اظہار بائیڈن حکومت میں قرضوں میں مسلسل اضافہ ہے جو اب تاریخی بلندیوں کو پہنچ چکا ہے۔ اس وقت امریکہ کا کل قرضہ 35 ٹریلین ڈالر ہے جو GDP (کل مجموعی پیداوار) کا 100 فیصد بنتا ہے۔
ہر تین مہینے بعد اس میں 1 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک ہی سمت ہے، آسمان۔ یہ واضح اشاریہ ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین اور امیر ترین قوم بھی اپنی حدود پھلانگ چکی ہے۔ حتمی تجزیے میں یہ صورتحال ناپائیدار ہے۔
تنہائی پسندی
ڈونلڈ ٹرمپ کوئی معیشت دان نہیں ہے۔ وہ کوئی فلسفی یا تاریخ دان نہیں ہے۔ وہ سیاست دان بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی نظریہ یا کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک موقع پرست اور تجربیت پسند ہے۔
لیکن وہ اپنے آپ کو ایک عظیم حکمت کار سمجھتا ہے، ایک عملیت پسند انسان جو ہمیشہ ہر مسئلے کے لیے عملی اور فوری حل کی تلاش میں رہتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ میں ہمیشہ ایک ”ڈیل“ کی تلاش میں رہتا ہے۔
یعنی اس کی سوچ ایک چھوٹے بیوپاری کی ہے جو منڈی میں بحث مباحثہ کرنے کے فن میں یکتا ہے۔ یقینا ایسا ہنر مخصوص حدود میں فائدہ مند ہے۔ لیکن جو کچھ ایک مارکیٹ کے کسی ٹھیلے کے لیے درست ہے وہ جلد ہی عالمی سیاست اور سفارت کاری کے پیچیدہ جال میں ناکارہ ہو جاتا ہے۔
بنیادی طور پر اس کا رجحان تنہائی پسند ہے۔ وہ بیرون ملک کسی بھی حوالے سے امریکہ کی مداخلت کے شدید خلاف ہے، چاہے وہ اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم یا خود NATO ہو۔
اس کی پالیسی سادہ الفاظ میں ”سب سے پہلے امریکہ“ میں سماء جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا ہمیشہ دوسرے نمبر پر رہے گی! اس حکمت عملی کے ساتھ کئی مسائل جڑے ہوئے ہیں۔
اگر اس کے بس میں ہوتا تو امریکہ فوراً ان تمام اجنبی تنظیموں سے تمام ناطے توڑ کر صرف اپنے معاملات پر توجہ رکھتا۔ لیکن یہ خیال کتنا ہی دلفریب کیوں نا ہو، جدید دنیا میں یہ ناممکن ہے۔ امریکی قسمت ہزاروں بندھنوں سے باقی دنیا سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کا ادراک ڈونلڈ ٹرمپ کو شمالی کوریا کے ساتھ معاملات بناتے ہوئے ہوا۔
امریکی طاقت کی حدود افشاں ہو چکی ہیں
اس وقت عالمی تعلقات کو دیوہیکل عدم استحکام کا سامنا ہے۔ اس کی بنیاد امریکہ، دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت جو اس وقت عمومی انحطاط کا شکار ہے، اور چین، ایک زیادہ جوان اور توانا ابھرتی قوت جو بہرحال اپنی حدود کو پہنچ رہی ہے، کے درمیان عالمی تسلط کی کشمکش ہے۔
اس وقت ہم دیوہیکل تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں اور جیسے زلزلے دنیا کو ہلا دیتے ہیں ویسے ہی یہ تبدیلیاں ہر قسم کی تباہی ساتھ لا رہی ہیں۔
موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرنے کے ساتھ انتہائی اہم ہے کہ سمت کا تعین کیا جائے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور بن گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراجیت کے خلاف مزاحمت تقریباً ختم ہو چکی تھی۔
آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔ امریکی سامراج 15 سالوں کے لیے عراق اور افغانستان میں دو ناقابل فتح جنگوں میں دھنس کر رہ گیا۔ اس کی سرمائے اور افراد کی شکل میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔
اگست 2021ء میں انہیں افغانستان سے شرمناک پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
اس کے بعد امریکی عوام میں بیرون ملک عسکری مہم جوئیوں کے لیے ہر قسم کا صبر ختم ہو گیا اور امریکی حکمران طبقہ بیرون ملک افواج بھیجنے کے حوالے سے بہت محتاط ہو گیا۔ لیکن امریکی سامراج اس تجربے سے کچھ نہیں سیکھ سکا ہے۔
قوتوں کے نئے توازن کو سمجھنے سے انکار اور اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوششوں نے انہیں ایک مرتبہ پھر ایسی جنگوں میں پھنسا دیا ہے جنہیں کسی صورت جیتا نہیں جا سکتا۔ بائیڈن حکومت نے اس حوالے سے خاص طور پر انتہائی جان لیوا کردار ادا کیا ہے۔
ایک عالمی قوت کے طور پر امریکہ کی کرۂ ارض کے ہر حصے میں موجودگی بذات خود کمزوری کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کی دیوہیکل قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
لیکن بائیڈن حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اس نے امریکہ کو یوکرین میں روس کے ساتھ ایک لایعنی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ یوکرین میں جنگ دنیا کے امیر ترین ملک کے وسائل پر بھی ایک دیوہیکل بوجھ بنی ہوئی ہے۔ امریکی اسلحے کا ذخیرہ زیلنسکی کے مسلسل مطالبات کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔ عسکری صورتحال مسلسل گھمبیر ہونے کے باوجود ذخیرہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔
روس کے خلاف وسیع ترین امریکی پابندیاں لگنے کے باوجود روس کمزور نہیں ہو سکا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ ترک کر دے۔ روس پابندیوں سے بچ گیا ہے اور ان کو روند بھی ڈالا ہے، دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد بنائے ہیں جن میں سابق امریکی اتحادی سعودی عرب، انڈیا اور دیگر شامل ہیں۔
سب سے بڑھ کر اس سارے عرصے میں چین کے ساتھ معاشی اور عسکری تعاون بے تحاشہ بڑھ گیا ہے۔ بائیڈن کو اپنے ہر ہدف کے حصول میں ناکامی ہوئی ہے۔ پھر اس نے مشرق وسطیٰ میں اس سے بڑی غلطی کی جب اس نے نتن یاہو کو بلینک چیک دے دیا اور وہ اسے مسلسل کیش کروا رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں نئی لڑائیاں اور جنگیں مسلسل جنم لے رہی ہیں۔ یوکرین میں روس کی فتح پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گی۔ اس سے امریکی سامراجیت کی حدود سب کے سامنے ننگی ہو جاتی ہیں جو اب ہر جگہ اپنی من مانی کرنے کے قابل نہیں رہا۔
اس کے علاوہ اس جنگ سے روس ایک بڑی فوج کے ساتھ ابھرے گا جو جدید جنگی حکمت کے طریقوں اور تکنیکوں سے لیس ہو گی۔ اس صورتحال نے یورپی دارالحکومتوں میں سراسیمگی پھیلا رکھی ہے جو خوفزدہ ہیں کہ نئی ٹرمپ حکومت یوکرین کو اس کے حال پر چھوڑ دے گی، یورپیوں کو ساری قیمت چکانی پڑے گی، حتیٰ کہ NATO سے امریکی اخراج بھی ممکن ہے۔
نئے بحران اور جنگیں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے ناقابل حل مسئلہ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ٹرمپ یوکرین کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کرے گا جس کے لیے وہ درست طور پر بائیڈن کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
کیا امریکہ NATO کو چھوڑ دے گا، یہ ایک مبہم سوال ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان تمام چیزوں کا بل لندن، پیرس اور برلن میں اپنے ”دوستوں“ کے سر ڈالنا چاہتا ہے، اور اس طرح یورپی سرمایہ داری کے شدت اختیار کرتے مسائل اور بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔
رومی سلطنت سے موازنہ
کیا امریکی سامراج کا وہی زوال شروع ہو چکا ہے جس نے رومی سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا تھا؟ اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔
پوری دنیا کی تقسیم نو کی جدوجہد مختلف سامراجی قوتوں میں جاری ہے جس میں عالمی سطح پر نسبتی انحطاط کا شکار پرانا سامراجی امریکہ اور نئی ابھرتی قوت، چین مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
سب کو معلوم ہے کہ ٹرمپ چین کے شدید خلاف ہے جسے وہ امریکہ کو درپیش سب سے سنجیدہ خطرہ سمجھتا ہے۔ اس نے کبھی نہیں چھپایا کہ وہ چینی درآمدات پر خوفناک محصولات لاگو کرنا چاہتا ہے جو عالمی تجارت کا پردہ چاک کر دیں گے، عالمگیریت کا پورا نحیف ڈھانچہ خطرے میں پڑ جائے گا اور عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ چین کے ساتھ جنگ پر رضامند ہے کہ نہیں کیونکہ معاشی اور عسکری اعتبار سے چین ایک بہت طاقتور قوت ہے۔ اس وقت ممکن ہے کہ امریکی سامراج کے موجودہ بحران کا رومی سلطنت کے انحطاط اور انہدام کے ساتھ موازنہ لکھا جائے۔
یہ درست ہے کہ سلطنت کے طویل اور شرمناک انحطاط میں کئی عناصر کار فرما تھے۔ لیکن سب سے اہم عناصر میں سے ایک یہ تھا کہ سلطنت اپنی حدود پھلانگ چکی تھی۔ وہ اپنا سامراجی تسلط قائم رکھنے کی دیوہیکل قیمت ادا کرنے سے قاصر ہو چکی تھی۔ اس کا نتیجہ مکمل انہدام تھا۔
امریکی سامراج کا نسبتی زوال ایک عرصے سے واضح ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی تجارت میں امریکہ کا حصہ 1933ء میں 10 فیصد سے بڑھ کر 1953ء میں 29 فیصد ہو چکا تھا۔ 1946-73ء کے دوران حقیقی گھریلو آمدن میں 74 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
1943ء میں کل امریکی نوکریوں میں سے 39 فیصد مینوفیکچرنگ نوکریاں تھیں جو 2010ء کی دہائی تک آتے 8 فیصد رہ گئی تھیں۔ 2020ء میں بیورو برائے لیبر شماریات کے مطابق 1979ء سے اب تک مینفیکچرنگ روزگار میں ”تمام پانچ بحرانوں میں کمی آئی ہے اور ہر مرتبہ روزگار کبھی بھی بحران سے پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہوا۔“
1950ء کی دہائی میں یونین ممبر شپ ایک تہائی کی بلند ترین سطح سے گر کر 2016ء تک 11 فیصد رہ گئی تھی۔
ایلن گرین سپین اور آڈریان وولرج نے ”امریکہ میں سرمایہ داری: متحدہ ریاستوں کی معاشی تاریخ“ میں بیان کیا ہے کہ:
”1900ء سے 1973ء تک امریکی حقیقی اجرتوں میں سالانہ 2 فیصد اضافہ ہوا۔ کئی سالوں کا موازنہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ عمومی اجرت (اور اس سے جڑا معیار زندگی) ہر 35 سال بعد دگنی ہوئی۔ 1973ء میں اس رجحان کا اختتام ہو گیا اور امریکی بیورو برائے لیبر شماریات کے مطابق پیداواری اور غیر نگرانی مزدوروں کی حقیقی اجرتیں انحطاط پذیر ہو گئیں۔ 1990ء کی دہائی کے وسط تک ایک پیداواری مزدور کی عمومی گھنٹہ وار حقیقی اجرت 1973ء کے مقابلے میں 85 فیصد رہ گئی تھی۔“
2018ء میں پیو ریسرچ کی ایک رپورٹ نے تائید کی کہ:”امریکی محنت کشوں کی اکثریت کے لیے حقیقی اجرتیں کئی دہائیوں سے منجمد ہیں“۔ ڈیپارٹمنٹ برائے خزانہ کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق:
”بین النسل معاشی نقل و حرکت بھی کم ہوئی ہے، 1940ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے 90 فیصد بچے 30 سال کی عمر تک اپنے والدین سے زیادہ کمائی کر رہے تھے جبکہ 1980ء کی دہائی کے وسط میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے نصف ہی ایسا کر پائے ہیں۔“
یہ امریکی حکمران طبقے کے خلاف ابلتے غم و غصے کی حقیقی بنیاد ہے۔ 2019ء میں معاشی بحران کے آثار افق پر نمودار ہو چکے تھے لیکن ٹرمپ نے کامیابی سے کرونا وباء پر معاشی انہدام کا سارا الزام تھوپ دیا۔
یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی بیرونی جنگوں میں امریکہ کی مداخلت نے دیو ہیکل بوجھ ڈال رکھا ہے جسے دنیا کی طاقتور ترین اور امیر ترین قوم بھی طویل عرصے تک برداشت نہیں کر سکتی۔
دیو ہیکل عسکری اخراجات امریکی معیشت پر منڈلاتے دیوہیکل قرضوں میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس نکتہ نظر سے ٹرمپ کی عالمی معاملات میں مداخلت سے اجتناب کی پالیسی کچھ حد تک منطقی ہے اگرچہ اس سے لندن، برلن، کیف اور یروشلم میں ہاتھوں کے طوطے اڑ رہے ہیں۔
اب کیا ہو گا؟
حالیہ واقعات امریکی عوام کی نفسیات میں ایک معیاری اور بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بورژوا جمہوریت کے تمام اداروں کی ساکھ اس بنیاد پر قائم تھی کہ امراء اور غرباء کے درمیان خلیج کو چھپا کر مخصوص حدود کے درمیان قید کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ معتدل سیاست منہدم ہو چکی ہے۔ عوام کو یقین ہی نہیں ہے کہ اخبار اور ٹی وی سچ بول رہے ہیں، کیونکہ جو بولا جاتا ہے اور جو ہے، اس میں زمین آسمان کا فرق ہے اور انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ یہ سب جھوٹ کا گورکھ دھندہ ہے۔
ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔ ماضی میں زیادہ تر لوگ سیاست پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہے۔ عامیانہ گفتگو فٹ بال، فلموں، ٹی وی پروگراموں وغیرہ تک ہی محدود رہتی تھی۔ سیاست کا شاذ و نادر ہی ذکر ہوتا تھا اور کچھ دلچسپی انتخابات کے دنوں میں بڑھ جاتی تھی۔
اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ عوام سیاست میں دلچسپی لینا شروع ہو گئے ہیں، کیونکہ انہیں اب اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ برہ راست ان کی اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔
ٹرمپ کی حمایت کر کے کروڑوں افراد کہہ رہے ہیں کہ ”کچھ بھی اور کوئی بھی اس سے بہتر ہے۔ ہمارے حالات اس سے زیادہ برے نہیں ہو سکتے۔ تو آؤ پھر جوا کھیلیں!“ اب ایک مرتبہ پھر عوام نے جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن شاید ایسا آخری مرتبہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ اب بوڑھا ہو چکا ہے۔ بہت کم امکان ہے کہ وہ دوبارہ صدارتی امیدوار بنے گا۔ ہم اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ جنوری 2025ء میں وائٹ ہاؤس داخل ہو گا۔ اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ شاید ایک قاتل کی گولی اس کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ اس وقت حکمران طبقے کی جو حالت ہے، اس میں یہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
امریکی سماج میں دھماکہ خیز مواد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے ذہنی توازن سے عاری افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
لیکن بالفرض ٹرمپ صدر بن بھی جاتا ہے تو پھر؟ اسے کئی معاملات میں دیوہیکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ معیشت، یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جنگ، چین اور ایران کے ساتھ تعلقات اور دیگر کئی مسائل۔
ہمیشہ کی طرح اس نے بڑے وعدے کر رکھے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر امریکہ کو عظیم بنا دے گا۔ لیکن ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔ جن امریکی محنت کشوں نے ٹرمپ سے امیدیں لگا رکھی ہیں وہ شدید مایوس ہوں گے۔
1940ء میں جب جرمن پیرس میں داخل ہوئے تو ایک جرمن اور ایک فرانسیسی افسر میں دلچسپ مقالمہ ہوا۔ ظاہر ہے جرمن افسر شدید غرور میں تھا۔ لیکن فرانسیسی افسر نے بس اتنا کہا کہ: ”تاریخ کا پہیہ گھوما ہے۔ یہ ایک مرتبہ پھر گھومے گا۔“ اور پھر وہ گھوما۔
امریکہ میں تاریخ کا پہیہ گھوم رہا ہے اور یہ دوبارہ پھر گھومے گا۔ ایک مرتبہ عوام ٹرمپ ازم کے تمام امکانات کو اچھی طرح کھنگال لیں گے اور اس کی حدود کو جان جائیں گے، تو پھر وہ ایک نیا راستہ تلاش کریں گے۔ وقت کا پینڈولم پوری قوت کے ساتھ لیفٹ جانب گھومے گا۔
امریکی تاریخ میں ایک نیا اور تند و تیز باب لکھا جانے والا ہے۔