|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
4فروری کی شام کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں امریکی صدر نے تجویز دی کہ امریکہ کو غزہ پر قبضہ کر لینا چاہیے اور پوری آبادی (20 لاکھ فلسطینیوں) کو (اردن اور مصر میں) دیگر ”زمین کے ٹکڑوں“ پر زبردستی منتقل کر دینا چاہیے تاکہ اس علاقے کو ایک عالمی مقام بنا دیا جائے جو ”مشرق وسطیٰ کے رایویرا جیسا“ ہو گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
نیو یارک کے پراپرٹی ٹائکون کو صدارتی منصب سنبھالے ابھی دو ہفتے ہوئے ہیں اور وہ ابھی تک کئی حیران کن خارجہ پالیسی کے اعلانات کر چکا ہے۔ اس نے عسکری قوت کے ذریعے پاناما کنال اور گرین لینڈ پر قبضہ کرنے، امریکہ کے تین سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں پر محصولات لگانے، کولمبیا پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے اور وینزویلا کے صدر مادورو کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا ہے۔
لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد دی جانے والی تجاویز سب سے ہیں۔۔ غزہ سے 20 لاکھ فلسطینیوں کا جبری انخلاء جسے پھر امریکی کنٹرول میں لے لیا جائے گا۔
اس میٹنگ سے پہلے ٹرمپ اس قسم کے خیالات کا اظہار کئی سوشل میڈیا پوسٹوں میں کر چکا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس کی کچھ تفصیل بتائی گئی ہے۔ ٹرمپ ایک لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہا تھا۔ اس نے زور دیا کہ ”یہ فیصلہ عجلت میں نہیں ہوا ہے“۔
ٹرمپ در حقیقت کیا کہہ رہا ہے؟ ”امریکہ غزہ پٹی پر قبضہ کرے گا اور ہم اس کی کچھ شکل بھی نکال لیں گے۔ ہم اس کے مالک ہوں گے۔“ اس نے مزید کہا کہ اس کی تجویز کے مطابق امریکہ کو پٹی پر ”طویل معیاد پر ملکیت حاصل“ ہونی چاہیے۔
اس نے مزید کہا، ”ہم اس کے مالک ہوں گے اور ہم تمام خطرناک بموں اور دیگر ہتھیاروں کو غیر فعال بنانے کے ذمہ دار ہوں گے، تباہ حال عمارات ختم کر دی جائیں گی، زمین برابر کر دی جائے گی، ایک معاشی تعمیر و ترقی ہو گی جو علاقے کے افراد کو لاتعداد نوکریاں اور رہائش فراہم کرے گی۔“
”ہمیں کچھ مختلف کرنا پڑے گا۔ اب واپسی نہیں ہو سکتی۔ اگر واپسی ہوئی تو وہی ہو گا جو پچھلے سو سالوں سے ہو رہا ہے۔“ اس نے یہ بھی کہا کہ خطے کے قائدین اس سے متفق ہیں۔ ”یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تعمیر نو ہو اور وہی لوگ وہاں قابض ہو جائیں جو وہاں رہے اور قتل ہوئے اور ایک ہولناک زندگی گزارتے رہے۔“
جب سوال کیا گیا کہ غزہ کے فلسطینی کہاں جائیں گے تو اس نے ان ممالک کا ذکر کیا جو ”انسانی ہمدردی والا دل رکھتے ہیں“۔ حالیہ ہفتوں میں جب پہلی مرتبہ ان خیالات کا اظہار ہوا تو اردن اور مصر کا ذکر کیا گیا جن کی حکومتیں پہلے ہی یہ تجویز مسترد کر چکی ہیں۔
اس دن ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی نئی بستیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ انتہائی دائیں بازو صیہونیوں اور عسکری اسٹیبلشمنٹ نے یہ تجویز دی ہے۔ پریس کانفرنس میں اس نے اعلان کیا کہ ”دنیا کی عوام“ یہاں امریکی تعمیر نو کے بعد رہائش پذیر ہو گی۔ اس نے اشارہ دیا کہ واپس آنے والوں میں فلسطینی ہو سکتے ہیں لیکن یہ پٹی اب ”ایک عالمی مقام ہو گی، کسی خاص گروہ کے برعکس سب کے لیے“۔
ٹرمپ نے مذاق کیا کہ ”میں کوئی اچھا انسان نہیں بننا چاہتا۔ میں کوئی عقل مند نہیں بننا چاہتا۔“ یہ بات اس نے اس اعلان کے بعد کہی کہ غزہ ”مشرق وسطیٰ کا رایویرا بن سکتا ہے۔ یہ بہت شاندار کام ہو گا۔“
ظاہر ہے نتن یاہو کا رویہ قابل دید تھا۔ ”تم وہ بات کرتے ہو جو دیگر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اور جب لوگوں کے اوسان بحال ہو جائیں تو پھر وہ سر کھجاتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ ’تمہیں پتا ہے وہ درست کہہ رہا ہے“، اس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ اسرائیل کا ”سب سے بڑا دوست“ ہے اور اس کے منصوبے کو ”تاریخ ساز“ قرار دیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اسے ملاقات سے پہلے ٹرمپ کے منصوبے کا پتا تھا۔ اگرچہ اس منصوبے کی پچھلے موسم بہار میں اس کی کابینہ کی جانب سے آشکار کیے گئے ’غزہ 2035ء‘پلان سے بہت زیادہ مشابہت ہے۔ اس منصوبے کے مطابق غزہ میں ایک نیا فری ٹریڈ زون (Free Trade Zone) بنایا جائے گا جسے فلسطینیوں سے صاف کر دیا جائے گا اور اسے امراء کے لیے ایک عیاشی کا اڈہ بنایا جائے گا جسے ایک تیز رفتار ٹرین کے ذریعے سعودی عرب میں NEOM اور مصر میں پورٹ سعید سے منسلک کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ امن معاہدے پر مجبوراً دستخط کرتے وقت اسے اس منصوبے کا پتا نہ ہو لیکن یقینا وہ بہت خوش ہو گا کہ اسے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
جنوری کے آغاز میں نتن یاہو کو ٹرمپ کے نمائندے ویٹکوف نے مجبور کر دیا تھا کہ وہ حماس کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کرے جس کے بعد وہ کمزور نظر آ رہا تھا۔ اس نے اسرائیل کا کوئی ایک جنگی ہدف حاصل نہیں کیا ہے (مغویوں کی عسکری قوت کے ذریعے بازیابی اور حماس کی مکمل تباہی) اور اسے مجبوراً کئی سو قیدی فلسطینیوں کو رہا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے بعد اس کی مخلوط حکومت شدید کمزور ہو چکی ہے اور دو آباد کار انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں میں سے ایک حکومت چھوڑ چکی ہے جبکہ دوسری بھی حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے رہی ہے اگر امن معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر غزہ میں دوبارہ جنگ شروع نہیں ہوتی۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد اس کے گرد ساری صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ امریکی صدر سے براہ راست ملنے والا پہلا خارجہ سربراہ مملکت ہے۔ ٹرمپ نے 2000 پونڈ وزنی بم بھی جاری کروا دیے ہیں جنہیں بائیڈن نے روک رکھا تھا اور مغربی کنارے میں صیہونی آباد کاروں پر پابندیاں بھی ختم کر دی ہیں۔ اب ٹرمپ اسے غزہ میں وہ ”کام“ ختم کرنے کی راہ فراہم کر رہا ہے جو پندرہ مہینوں کی ہولناک نسل کش جنگ میں نہیں ہو سکا۔ غزہ کے قصائی نے انتہائی نخوت سے کہا کہ ”اسرائیل جنگ جیت کر ہی جنگ ختم کرے گا“ جو اشارہ ہے کہ امن معاہدہ اسرائیلی فتح نہیں ہے۔
بہرحال نتن یاہو نے غزہ پر طویل معیاد پر مشتمل امریکی کنٹرول کی تجویز کی کوئی واضح حمایت نہیں کی ہے۔ لیکن فی الحال وہ اپنے وائٹ ہاؤس حامی پر تعریفوں اور خوشامد کی برسات کر رہا ہے۔
اور بھی بہت کچھ تھا۔ نتن یاہو کے ساتھ ملاقات سے پہلے اوول آفیس (Oval Office) میں پریس کے ساتھ ایک گپ شپ میں ٹرمپ نے کہا کہ اسے یقین نہیں ہے کہ امن قائم رہے گا۔ ”مجھے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ امن قائم رہے گا“۔ یہ نتن یاہو کے لیے عید کا پیغام ہے جس نے اپنے انتہائی دائیں بازو کابینہ اتحادیوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ جنگ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ اگر وہ یہ معاہدہ توڑ کر اقتدار میں قائم رہ سکتا ہے تو وہ لمحہ ضائع کیے بغیر جنگ دوبارہ شروع کر دے گا۔
ظاہر ہے اس کے پاس ایک ہزار ایک بہانے اور فریب ہیں جن کے ذریعے وہ حماس کو مورد الزام ٹھہرا کر جنگ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ وہ ابھی سے اشارے دے رہا ہے کہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو دو ہفتوں تک ملتوی کر دیا جائے۔ لیکن یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس سے اسرائیل میں اس کی حمایت مزید برباد ہو سکتی ہے جہاں آبادی کی اکثریت اسے ایک سفاک شاطر جانتی ہے جو قیدیوں کی قسمت کے برعکس اپنی ذاتی اور سیاسی بقاء کے لیے زیادہ فکر مند ہے۔ ٹرمپ نے مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کا دروازہ بھی کھلا رکھ چھوڑا ہے جسے وہ یقینا اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ لین دین کے لیے استعمال کرے گا۔ اس معاملے پر جب ٹرمپ سے سوال کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ”میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ زمین کے حوالے سے یہ یقینا ایک چھوٹا، بہت چھوٹا ملک ہے۔“ اگر ٹرمپ اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضے کی اجازت دے دیتا ہے تو وہاں رہنے والے 27 لاکھ فلسطینی کھلی بغاوت کر دیں گے جس کے نتیجے میں 7 لاکھ یہودی آبادکاروں کے ساتھ خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور پورا خطہ مزید انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
نتن یاہو ٹرمپ کو ایران کے سوال پر بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ کسی طرح ایران کے جوہری پروگرام پر عسکری حملہ کرنے میں ملوث ہو جائے۔ نتن یاہو نے کہا کہ ”ہم ایران کے حوالے سے بھی متفق ہیں جس نے ہم دونوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے، مسٹر صدر، اس نے تمہیں قتل کرنے کی کوشش کی اور اپنی پراکسیوں کے ذریعے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی۔“ لیکن ٹرمپ اس حوالے سے فی الحال کچھ زیادہ پرجوش نہیں ہے۔ اگرچہ وہ تہران سے نفرت میں اسرائیلی وزیراعظم کا حامی ہے لیکن اس کی کوشش ہے کہ معاشی دباؤ کے نتیجے میں نتائج حاصل ہو جائیں۔ اس حوالے سے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ”اگر ہم یہ مسئلہ جنگ کے بغیر حل کر سکتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بغیر جو پچھلے چند سالوں میں واقعہ ہوئی ہیں، تو میرا خیال ہے کہ یہ بہت شاندار ہو گا۔“
لیکن ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ ٹرمپ شاید پوری صورتحال کو ایک پراپرٹی ٹائکون کی نظر سے دیکھ رہا ہے، یہ ایک زمین ہے جو ملبے کا ڈھیر ہے، اس کی عوام کو کسی اور جگہ بھیج دیتے ہیں، انہیں گھر دیتے ہیں، یہ زمین دوبارہ آباد کرتے ہیں اور نئے رہاشیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ سارا خیال انسانی ہمدردی کے لبادے میں لپیٹا جا رہا ہے، کوئی بھی پٹی میں نہیں رہ سکتا، وہاں 30 ہزار فعال گولہ بارود موجود ہے وغیرہ۔
لیکن اس کی یہ تجویز ایک نیا نقبہ ہے، 20 لاکھ فلسطینیوں کا اپنی زمین سے جبری انخلاء۔ یہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کی تکمیل ہو گی، ایک پوری قوم کی نسل کشی اور خاتمہ۔
ٹرمپ سمجھتا ہے کہ وہ ایک مسحور کن شخصیت کا حامل اتنا عظیم انسان ہے کہ وہ کسی کو بھی ایک ملاقات میں اپنے شاندار منصوبوں پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ آمادہ نہیں ہوتے تو وہ امریکہ کی دیوہیکل معاشی قوت کو ہر وقت استعمال کرنے کے لیے تیار ہے (اس میں عسکری اقدامات کی دھمکی بھی شامل ہے) تاکہ وہ اس سے متفق ہوں۔ اس نے حالیہ دنوں میں ثابت کیا ہے کہ اس حوالے سے اسے ذرہ برابر کوئی ابہام نہیں ہے۔
ٹرمپ کے ذہن میں جو ممالک 20 لاکھ فلسطینیوں کے جبری انخلاء کے لیے پیسہ اور رہائش فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، ان میں اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جو پہلے ہی اس ہولناک منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ جب اس حوالے سے ٹرمپ سے سوال کیا گیا تو اس نے ان تمام اعتراضات کو محض یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ”وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں مانیں گے، میں کہتا ہوں وہ مانیں گے۔“
درحقیقت ان میں سے کوئی ایک ملک اس منصوبے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ رجعتی عرب ریاستیں پہلے ہی خطے کی عوام کی شدید ترین نفرت اور غصے کا شکار ہیں جنہیں درست طور پر امریکی سامراج کی کٹھ پتلیاں اور صیہونی اسرائیلی ریاست کے ساتھ ساز باز غدار سمجھا جاتا ہے جو شدید ترین جبر سے فلسطینی قومی حقوق کو کچل رہی ہے۔
اردنی عوام میں ہاشمی بادشاہت کے خلاف غصہ عوام کی رگوں میں تیزاب بنا دوڑ رہا ہے جن میں سے کئی خود فلسطینی ہیں کیونکہ شاہ عبداللہ ایرانی میزائل حملے کے دوران پوری شد و مد کے ساتھ اسرائیل کی معاونت کر رہا تھا۔ اردنی ریاست کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ کے مطابق اردنی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی عوام کو اردن کی طرف دھکیلنے کی کوئی بھی کوشش کرتا ہے تو اس کا نتیجہ جنگ ہو سکتا ہے۔
مصر میں السیسی آمریت کے بھی دگرگوں حالات ہیں۔ دونوں حکومتوں نے انتہائی خوفناک اقدامات کے ذریعے اندرون ملک اسرائیلی نسل کش جنگ کی مخالفت اور غزہ کے ساتھ عوامی یکجہتی کو کچل کر رکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سعودیہ عرب کا تعلق ہے اگر کسی بھی قسم کی فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر، چاہے وہ فلسطینی اتھارٹی کی طرح مکمل طور پر اسرائیل پر منحصر ہو، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کی گئی تو اندرون ملک سنجیدہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن میں دہشت گرد حملوں سے لے کر بادشاہت کے خاتمے تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
20لاکھ غزہ فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں جبری طور پر ملک بدر کرنے کا مطلب حماس کے جنگجو، ان کی مسلح قوتوں، پولیس اور انفراسٹرکچر کی منتقلی بھی شامل ہے۔ یہ کمزور رجعتی ریاستیں ایسا کوئی بھی قدم کسی صورت برداشت نہیں کر سکتیں۔ اس کا مطلب مکمل تباہی و بربادی ہو گا۔
ٹرمپ شاید یہ اندازہ لگا رہا ہے کہ امریکہ کے پاس وہ معاشی اوزار موجود ہیں جن کے ذریعے وہ ان ممالک کو نسل کشی کے اس منصوبے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ امریکہ نے دو ہفتے پہلے اردن کو دی جانے والی تمام امداد بند کر دی ہیں اور ملک میں اس کے فوجی اڈے بھی موجود ہیں۔ مصر کو ٹرمپ نے خاص طور پر امداد بندش سے استثناء دی ہے اور اس قدم کو مصری ریاست پر دباؤ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ سالانہ 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہا ہے۔ اگر ان دونوں ملکوں کو ٹرمپ جوتے مار مار کر منا بھی لے تو بھی اس کا نتیجہ دیوہیکل سماجی ہیجان ہو گا جو ان حکومتوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
سعودی عرب میں حالات کچھ مختلف ہیں۔ اس کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں جو اب سرفہرست تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔ چین کو برآمدات اور چین سے درآمدات اس وقت امریکہ کے مقابلے میں تین سے چار گنا بڑھ چکی ہیں۔ اگر سعودیوں کو کوئی ایسی پالیسی اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو وہ سمجھیں کہ ان کے مفاد میں نہیں ہے تو وہ مزید چین اور روس کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
غزہ کے فلسطینیوں کا کیا بنے گا؟ جاہل، اکھڑ اور ہٹ دھرم پراپرٹی ٹائکون سمجھتا ہے کہ وہ ایک ایسی پیشکش کرے گا جو رد ہو ہی نہیں سکتی۔ ”وہ جہنم میں رہ رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں ایسی ہیں جیسے جہنم میں ہیں۔ غزہ میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں انسان رہ سکیں اور وہ اس لیے واپس جانا چاہتے ہیں، اور مجھے بھرپور یقین ہے کہ ایسا ہی ہے، کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں ہے، مجھے امید ہے کہ ہم کچھ بہت اچھا، بہت بہتر کر سکتے ہیں کہ وہ واپس آنا نہ چاہیں، میرا خیال ہے کہ وہ بہت خوش ہوں گے۔“ ایسا لگتا ہے اسے یقین ہے کہ اس کی اپنی مسحور کن شخصیت اور وعدہ کردہ خوبصورت گھروں کی پیشکش کام بنا دے گی۔ ”میرا نہیں خیال کہ وہ مجھے انکار کریں گے۔“
غزہ میں کئی فلسطینی ایسے ہیں جن کو 1948ء کے نقبہ میں فلسطین سے مار مار کر نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے دہائیوں اسرائیلی قبضے کا مقابلہ کیا ہے اور اب ان پر پندرہ مہینوں سے ایک نسل کش جنگ IDF نے مسلط کر رکھی ہے جس کو امریکی سامراج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہاں، ان کے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، ان کا انفراسٹرکچر دانستہ طور پر تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، ہزاروں افراد قتل ہو چکے ہیں، لاکھوں اپاہج ہیں اور تقریباً 20 لاکھ جبری طور پر وطن بدر کیے گئے ہیں، بھوکے اور غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ وہ اپنی زمین میں رہنے کی ناقابل یقین قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ان کو اتنی آسانی سے متفق نہیں کیا جا سکتا کہ ”نئے، اچھے گھروں“ کا وعدہ کر دیا جائے جو ایک ایسی زمین پر شاید کبھی بھی نہیں بنائے جائیں گے جو ان کی اپنی نہیں ہے۔ وہ ہر ممکن کوشش کریں گے، مقابلہ کریں گے اور انہیں خطے کی عوام کی ہمدردیوں اور حمایت کی امید ہو گی۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے غزہ میں فوج بھیجے گا تو اس کا جواب تھا کہ ”ہم وہ سب کچھ کریں گے جو لازم ہے۔“ امریکی افواج کو افغانستان اور عراق سے شرمناک شکست کے بعد پسپاء ہونا پڑا تھا۔ پندرہ سال کے قبضے، جنگ و جدل اور خون ریزی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اسرائیل نے مخبری کے لیے قابل رشک ڈھانچہ بنایا ہے، اس کے پاس حماس کی ہر معلومات ہیں اور موجودہ نسل کش جنگ کے لیے اس نے پرجوش حامی فوجیوں کو بھی بھرتی کیا ہے۔ لیکن وہ حماس کو تباہ نہیں کر سکے۔ امریکی فوجیوں کے سامنے ایک ناقابل عمل ہدف موجود ہو گا جو شاید ایک ہی صورت میں حاصل ہو کہ فلسطینی لاشوں کے پہاڑ لگا دیے جائیں اور واشنگٹن کی جیب اخراجات کے بوجھ سے پھٹ جائے۔ ٹرمپ کسی بھی کام کے لیے ایک چونی خرچنے کو تیار نہیں ہے۔
ٹرمپ کی پراپرٹی ٹائکون منطق تیزی کے ساتھ حقیقی دنیا کے ساتھ ٹکراؤ میں آ رہی ہے جو اس کی سوچ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہاں، ممالک اور سامراجی قوتیں حتمی طور پر اپنے معاشی مفادات کے لیے ہی کام کرتی ہیں۔ لیکن بہرحال ان کو اپنے تمام اقدامات کے سیاسی نتائج کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
نسل کشی کا یہ منصوبہ ایک گھٹیا اور غلیظ پراپرٹی ڈیل کی منطق پر مبنی ہے اور شاید ہی اسے کامیابی دیکھنا نصیب ہو۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب 20 لاکھ افراد کی جبری نسل کشی اور خطے میں دیوہیکل انتشار ہو گا جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر اسرائیل سمیت کئی رجعتی عرب حکومتوں کا انقلابی خاتمہ ہو گا، جو دہائیوں خطے میں امریکی قوت کا ستون رہی ہیں۔ اس کے ساتھ امریکہ کو مغربی سامراجی قوتوں کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا ہو گا۔
فلسطینیوں کی آزادی کا سوال حتمی طور پر سرمایہ داری کی حدود میں حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے خطے میں تمام رجعتی عرب حکومتوں کا خاتمہ کرنا ہو گا اور صیہونی اسرائیلی ریاست کے خلاف ایک انقلابی جدوجہد کرنی ہو گی۔ یہ حل خطے اور پوری دنیا میں سامراجی مخالفت کی جدوجہد سے منسلک ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی جبر کے شکار فلسطینیوں کے لیے مناسب گھروں، نوکریوں اور ایسی زمین کی ضمانت بن سکتی ہے جہاں وہ اور خطے کی تمام اقوام امن و سکون سے زندگیاں گزار سکیں۔