ٹرمپ، پاکستان اور نیا عہد

|تحریر: آدم پال|

امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران دانتوں میں انگلیاں دبائے امریکہ میں آئے اس سیاسی زلزلے کو دیکھ رہے ہیں اوراس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ واضح ہو چکا ہے کہ امریکی سماج تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی تعلقات بھی ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی جہاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی شکست ہے وہاں دنیا بھر کے حکمران طبقات کے لیے ایک معمہ بھی ہے اور وہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات ان کے خطے اور ملک پر کس طرح مرتب ہوں گے اور وہ کیسے ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ چین کے سامراجی ابھار کو روکنا اور عالمی تعلقات میں اس کے کردار کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ یوکرائن جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے چین کے حصار سے باہر نکالا جائے اور اسے امریکہ کا اتحادی بنایا جائے۔ ٹرمپ کی خواہشات جو بھی ہوں لیکن یہ واضح ہے کہ امریکی سامراج ماضی کی نسبت کمزور ہو چکا ہے اور عالمی تعلقات میں پہلے جیسا طاقتور کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یوکرائن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک اور ذلت آمیز شکست ہو چکی ہے اور مغربی سامراجی ممالک کا یہ اتحاد بھی ٹوٹ رہا ہے۔ ٹرمپ اگر نیٹو سمیت دیگر دفاعی معاہدوں اور اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یورپی ممالک میں سیاسی ہیجان بڑھے گا اور ریاستیں مزید کمزور ہوں گی۔

دوسری طرف چین اور روس گزشتہ عرصے میں مزید قریب آئے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ سے لے کر وسطی ایشیا اور دیگر خطوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ چین ابھی بھی امریکہ کے مقابلے میں ایک کمزور سامراجی طاقت ہے اور دفاعی اور مالیاتی اعتبار سے امریکہ سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ چین کا مالیاتی بحران بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ در حقیقت امریکہ اور چین سمیت تمام سامراجی ممالک کی بنیاد پر موجود سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے باعث ہی ان سامراجی طاقتوں کا بحران شدت اختیار بھی کر رہا ہے اور ان کو ایک دوسرے پر حملے کرنے پر بھی مجبور کر رہا ہے۔ ان تجارتی جنگوں اور پراکسی لڑائیوں سے یہ بحران کم نہیں ہو گا اور نہ ہی مستقبل قریب میں سرمایہ دارانہ معیشت کی بحالی کا کوئی امکان موجود ہے۔

اسی طرح جنوبی ایشیا میں ٹرمپ انڈیا کو اپنا سب سے اہم اتحادی بنانے کا خواہشمند ہے اور اسے چین کے خلاف دفاعی اور سٹریٹجک حوالے سے اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے ذاتی تعلقات بھی بہت مضبوط ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد مبارکباد کی جو پہلی چند فون کالز وصول کیں ان میں سے ایک مودی کی بھی تھی۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں مودی خود امریکہ جا کر ٹرمپ کے لیے جلسے منعقد کرتا رہا اور وہاں رہنے والے بھارتیوں کو ٹرمپ کو ووٹ دینے کی کمپین کرتا رہا۔ لیکن پچھلی دفعہ ٹرمپ کی شکست نے مودی کو نقصان پہنچایا تھا۔

اب یہ امکانات موجود ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے یہ سربراہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید قریب لائیں گے۔ امریکی سرمایہ داروں کو انڈیا کی وسیع منڈی کی ضرورت ہے جہاں وہ بلا روک ٹوک اپنی اشیا فروخت کر سکیں، گو کہ انڈیا اپنے سرمایہ داروں کے دباؤ کے تحت پہلے بھی اپنی منڈی کو پوری طرح کھولنے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ کے باعث بہت سے سرمایہ دار سستی لیبر کی تلاش میں انڈیا منتقل ہو رہے ہیں جس میں ایپل، ٹیسلا اور ایمازون جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے لیے مودی پہلے ہی مزدور دشمن قوانین جابرانہ طور پر مسلط کر رہا ہے تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں اور لوٹ مار کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان اور طاقتوں کا بدلتا توازن

اس صورتحال میں پاکستان کی معیشت، سیاست اور خطے میں اس کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ افغانستان میں جاری سامراجی جنگ میں امریکہ کی شکست اور فوجوں کی واپسی کے بعد سے پاکستان کو ملنے والی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے اور ملکی معیشت دیوالیہ پن کی نہج پر پہنچ چکی ہے۔ پچھلی دفعہ جب ٹرمپ صدر تھا تو امریکی فوجی افغانستان میں موجود تھے اور امریکی حکمران انخلا کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اس وقت صورتحال کافی مختلف ہے اور ٹرمپ کے لیے فوری طور پر یہاں کوئی بڑا مفاد موجود نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کا قتل عام اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں اور ٹرمپ اسرائیل کا بہت بڑا حمایتی اور مداح ہے۔

اسی طرح ایران کے حوالے سے وہ پہلے بھی جارحانہ اقدامات کر چکا ہے اور اس دفعہ بھی اس سے ایسی ہی توقعات کی جا رہی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ دنیا میں جنگیں ختم کرنے کے نعرے لگا چکا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے تمام تر اقدامات اس کی خواہشات کے برعکس نکلنے کی امید زیادہ ہے۔

نظام کے زوال کے عہد میں نہ صرف جنگیں، خانہ جنگیاں اور پراکسی لڑائیوں میں اضافہ ہو گا بلکہ مالیاتی بحران اور کساد بازاری بھی شدت اختیار کرے گی۔ اسی طرح امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک سمیت دنیا بھر میں عوامی تحریکوں اور انقلابات کے ابھرنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں اور آنے والا عرصہ سماجی اتھل پتھل اور انقلابات کا عہد ہے۔

ٹرمپ کے تمام تر فیصلے سرمایہ داری کو مضبوط کرنے، استحکام لانے اور امریکہ کو دوبارہ ”عظیم“ بنانے کی بجائے اس نظام کو مزید کمزور کرنے، عدم استحکام پھیلانے اور امریکی سامراج کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔

ریاست کا بحران

پاکستان کی ریاست اور معیشت امریکہ سمیت مغربی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہزاروں تانوں بانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ اس ریاست کو چلانے میں آج بھی مغربی سامراجی طاقتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سامراجی گماشتگی کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کی امریکہ غلامی کے خلاف نعرے بازی کرنے والا عمران خان ٹرمپ سے رہائی کی امید لگائے بیٹھا ہے اور اس کے لیے اس کے بیرون ملک حمایتی عملی طور پر سرگرم بھی ہیں جبکہ دوسری طرف نواز شریف بھی الیکشن والے دن امریکہ میں موجود تھا۔

پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی امریکہ کے ایما پر ہی استوار کیے گئے تھے اور آج بھی پاکستان کی معیشت اور ریاست کے بنیادی ستون امریکی سامراج کے ہی ماتحت ہیں۔ لیکن چینی سامراج کا مالیاتی اثر و رسوخ بڑھنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں میں اس کی مداخلت بھی بڑھی ہے۔ دوسری طرف امریکی سامراج اور مالیاتی نظام کے بحران کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح خطے میں طاقتوں کا تبدیل ہوتا ہوا توازن یہاں کے سماج پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

پوری دنیا کے مختلف ممالک کے حکمران امریکہ چین تنازعے میں اپنے ملک کے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے محفوظ رستہ تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس تنازعے میں کس کا پلڑا حتمی طور پر بھاری ہو گا۔ اسی لیے دونوں اطراف کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور دونوں طرف تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں۔

کمیونسٹ اس تنازعے کے شدت اختیار کرنے کا تناظر کئی سالوں سے تخلیق کر رہے ہیں اور واضح کر رہے ہیں کہ اس لڑائی میں کوئی بھی فریق واضح برتری حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن ساتھ ہی تیسری عالمی جنگ کا کوئی امکان موجود نہیں جس کی وجوہات پھر عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن، جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور تمام معیشتوں کا ایک دوسرے پر انحصار سمیت دیگر عناصر ہیں۔

پاکستان کی ریاست اور معیشت اپنے آغاز سے ہی سامراجی جنگوں کے ساتھ منسلک ہو گئی تھی اور آج تک اس ملک کی مالیاتی بنیادوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت بھی یہاں کے حکمران کسی نئی سامراجی جنگ میں شمولیت اختیار کرنے کے حکم نامے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ پھر اسلحے اور مالی امداد کی مد میں اربوں ڈالر کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ پاکستان کے حکمران صرف بھیک مانگ کر اور ملک کی جغرافیائی اہمیت کو فروخت کر کے ہی پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں۔ قدرتی آفات، ماحولیاتی تباہی اور دہشت گردی سمیت تمام ایشوز ان کے لیے محض دنیا سے بھیک مانگنے کا وسیلہ ہیں۔ صنعتی یا زرعی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ان کی ترجیح کبھی بھی نہیں رہی اور نہ ہی عالمی سرمایہ داری کے زوال میں یہ ممکن ہے۔

جنگوں میں سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرنے کے لیے جہاں فوج کے ادارے کو مضبوط کیا گیا وہاں ایسے رجعتی نظریات کا پرچار بھی کیا گیا اور ریاستی پشت پناہی میں ایسی قوتیں بھی تعمیر کی گئیں جہاں سے ان جنگوں میں خام مال بننے والی افرادی قوت بھی دستیاب ہو سکے۔ افغانستان میں ڈالر جہاد کے بعد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بھی یہی افرادی قوت ریاست نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کی۔

اسی طرح اس ملک کے سرمایہ دار طبقے اور اس کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں اور حکمرانوں نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا اور پوری ریاستی مشینری اس مشن کے تحت استوار کی گئی۔ اس سامراجی منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے والی سیاسی قوتوں، مزدور و طلبہ تحریک کو جہاں غلط نظریات اوران کی قیادت کی غداریوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہاں ریاستی اداروں اور حکمران طبقے نے بھی انہیں پوری قوت سے کچلا۔

لیکن آج یہ خونی کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ سامراجی گماشتگی کرنے والی اس عوام دشمن ریاست کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور آج یہ اپنے خونی پنجے علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پر گاڑ رہی ہے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک اور بیماری کے ذریعے قتل کر رہی ہے۔ اس کی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور ریاست کے تمام ستون ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔

آئینی ترامیم

ریاست کے بحران کا اندازہ پچھلے مہینے ہونے والی آئینی ترامیم سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکی الیکشنوں سے پہلے جلد بازی میں کی جانے والی یہ ترامیم بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور کرتی نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ریاستی اداروں بشمول عدلیہ پر مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کا خاتمہ جیسے اقدامات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے اور درحقیقت یہ فیصلے کرنے والوں کے مقاصد بھی یہی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ ان اقدامات کے نتائج ان کو کرنے والوں کی مرضی کے الٹ نکلیں گے۔

عدلیہ کا ادارہ کمزور ہونے سے ریاست کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ عدلیہ پر عوام کا اعتماد اور اس سے انصاف کی امید کب کی ختم ہو چکی ہے اور جہاں نچلی سطح کی عدالتوں کی کرپشن اور لوٹ مار انتہاؤں کو چھو رہی ہے وہاں اب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی کرپشن اور طاقتوروں کی کاسہ لیسی کے قصے زبان زد عام ہیں۔ ایسے میں انصاف کا یہ تماشا اب صرف تماشائیوں کے لیے کرتب دکھانے تک ہی محدود ہو گیا تھا یا پھر حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں میں ایک یا دوسرے دھڑے کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔

اب سؤو موٹو جیسے اختیارات پر قدغنیں لگا کراس کے کرتبوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں اور اس کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن نتیجتاًیہ مزید بے قابو ہو جائے گا اور ریاست کے دیگر اداروں کی طرح اپنے انہدام کے سفر کو تیز کرے گا۔

اسی طرح حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں اور سماجی و مالی بحران نے فوج کے سربراہ کا عہدہ بھی کمزور کر دیا ہے اور اب آئینی طریقے سے اس میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غبارے کو پھٹنے کے لیے محض ایک چھوٹی سے نوکیلی چیز کافی ہوتی ہے جبکہ یہ سماج تو اس وقت کانٹوں سے بھرا جنگل ہے جس میں کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ ان منصوبوں کو اپنے الٹ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پراجیکٹ عمران خان کی لانچنگ اور پھر اپنے آقاؤں کے لیے اس کے نتائج سے یہاں ہر کوئی آگاہ ہے۔ یہی کچھ موجودہ آئینی ترامیم اور حکمرانوں کے ساتھ بھی متوقع ہے۔

اس سماج کی کوکھ میں اس وقت بہت بڑی انقلابی تحریکیں پنپ رہی ہیں جو آنے والے عرصے میں سطح پر اپنا اظہار لازمی طور پر کریں گی۔ ابھی بھی کشمیر سے لے کر گوادر تک عوامی تحریکیں موجود ہیں اور پنجاب میں طلبہ کے احتجاجوں نے نئے عہد کی آمد کی اطلاع دے دی ہے۔ یہ عہد تضادات سے بھرپور ہو گا اور اس میں پرانے تمام سماجی رشتے، پرانی سیاست، پرانے ریاستی ڈھانچے اور بظاہر عقلی نظر آنے والے تمام مفروضے رد ہو جائیں گے اور نئے تعلقات اور سماجی رشتے ان کی جگہ ابھر کر سامنے آئیں گے۔ بوسیدہ اور فرسودہ نظریات رد ہو جائیں گے اور لاکھوں لوگ اس نئی دنیا کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ اور تناظر بنانے کے لیے نئے نظریات کی جانب رجوع کریں گے۔

ایسے میں کمیونزم کا نظریہ ہی وہ واحد نظریہ ہے جو ایسے غیر معمولی حالات کا درست تجزیہ اور تناظر پیش کر سکتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد میں کار بند جدلیاتی مادیت کا فلسفہ تضاد کو ہی اپنی بنیاد بناتا ہے اور ہر سماجی و فطری عمل یا سوچ میں موجود تضاد کو اس کے تمام پہلوؤں کو ساکت و جامد دیکھنے کی بجائے اسے ان کی حرکت میں سمجھتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے اگلے مرحلوں کی پیش گوئی کرتا ہے۔

اس سماج میں سرمایہ دار اور مزدور کا طبقاتی تضاد سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سرمائے کی آمریت پر قائم اس نظام میں سب سے طاقتور یہاں موجود کوئی جرنیل یا جج نہیں بلکہ سرمایہ دار ہیں۔ بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان، مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان اور ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے افراد۔ سیاستدان، ملٹری یا سول بیوروکریٹ اور جج محض اس طبقے کے نمائندے ہیں اور ان کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہاں پر تمام تر پالیسیاں بھی اسی طبقے کے مفاد کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔

لیکن اس طبقے کی حاکمیت اب خطرے میں ہے کیونکہ ان کا نظام اب سماج کو ترقی دینا تو دور اسے موجودہ خستہ حالت میں بھی برقرار نہیں رکھ پا رہا اور لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ اسی لیے اس طبقاتی سماج کا دوسرا فریق مزدور طبقہ اب حرکت میں آنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ مزدور طبقہ جب انقلابی تحریک میں باہر نکلے گا تو صرف سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کرے گا بلکہ ملکیت کے بنیادی رشتوں کو بھی اکھاڑنے کا آغاز کرے گا۔

بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، مالیاتی اداروں اور تمام تر ذرائع پیداوار کی ملکیت مٹھی بھر سرمایہ داروں سے چھین کر اجتماعی ملکیت میں لے لی جائیں گی اور ملکیت کے اس نئے نظام کے لیے پھر نیا آئین اور قانون بنایا جائے گا اور اسی کی مناسبت سے ادارے تشکیل دیے جائیں گے جسے مزدور ریاست کہا جاتا ہے۔

انقلابی تبدیلی کے اس خوبصورت سماجی عمل کو سوشلسٹ انقلاب کا نام دیا جاتا ہے اور اسے کامیاب کرنے کے لیے ایک ایسی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو اس تمام عمل کی نظریاتی بنیادوں پر عبور رکھتی ہو اور مزدور طبقے کی وسیع پرتوں تک یہ نظریات پہنچا کر اسے اپنی صفوں میں منظم کر رہی ہو۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی یہاں ایسے ہی انقلاب کی تیاری کر رہی ہے جس کی کامیابی کے امکانات موجودہ عہد میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ تمام مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں سے اپیل ہے کہ فوری طور پر اس پارٹی کے ممبر بنیں اور اس انقلاب کی کامیابی میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔

Comments are closed.