|تحریر: سکاٹ شاء|
حالیہ جی 7ممالک اور نیٹو کے طوفانی اجلاس عالمی تعلقات میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ نام نہا د ’’فری ورلڈ‘‘ کے لیڈر ٹرمپ اور یورپی یونین کی لیڈر جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے درمیان تند و تیز اختلافات میں اس کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ عالمی سرمائے کے ایک اہم ترجمان اخبار فنانشل ٹائمز نے تبصرہ کیا کہ’’ٹرمپ کا یورپ کا پہلا دورہ انتہائی عجیب تھا۔ اس کے تباہ کن اثرات نکلیں گے‘‘۔
ٹرمپ کے امریکہ واپس روانہ ہونے کے بعد اینجلا مرکل نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مغربی اتحاد کی موت کا اعلان کرنے کے انتہائی قریب پہنچ گئی۔
to read this article in English, click here
جرمن چانسلر نے تنبیہہ کی کہ، ’’وہ وقت اب ختم ہو چکا ہے جب ہم کسی دوسرے پر بھروسہ کر سکتے تھے، جیسا کہ مجھے گزشتہ چند دنوں میں تجربہ ہوا۔ ہم یورپیوں کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا ہو گی۔ یقیناًہمیں امریکہ اور برطانیہ سمیت روس و دیگر ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے ہوں گے۔ لیکن اپنے مستقبل کے لیے ہمیں خود لڑنا ہو گا‘‘۔
دونوں جانب غصہ بڑھ گیااور ٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے دھمکی دی۔ ’’ہمارا جرمنی سے ایک بھاری تجاری خسارہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ نیٹو اور دفاع پر اس سے بہت کم خرچ کرتے ہیں جتنا انہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ کے لیے یہ بہت برا ہے۔ یہ اب بدلے گا‘‘۔
ایسے دوست ہوں تو۔۔۔
امریکی سرمایہ داروں کے ایک حصے میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جرمنی امریکہ کی قیمت پر آگے بڑھ رہا ہے جس سے امریکہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
جی7ممالک کے اجلاس سے پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے جرمن’’دوستوں‘‘ پر کھلے حملے شروع کر دیے تھے۔ ٹرمپ کے سب سے اہم معاشیا ت کے مشیر نے تسلیم کیا کہ امریکہ میں جرمن کاروں کا سیلاب آ چکا ہے اور جرمن بہت برے ہیں۔ ٹرمپ اس سے بھی آگے چلا گیا اور کہا کہ ’’ان لاکھوں کاروں کو دیکھوجو وہ امریکہ میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ بہت سخت برا ہے۔ ہم اسے روکنے جا رہے ہیں‘‘۔
امریکہ میں کاروں کی مینوفیکچرنگ معاشی اور نفسیاتی طور پر امریکہ کے سپر پاور بننے سے جڑی ہوئی ہے۔ ہنری فورڈ کے کاریں بنانے کے طریقہ کار کو فورڈ ازم کہا جاتا ہے جو بیسویں صدی میں ایک باقاعدہ اصطلاح بن گئی تھی جس کے ذریعے کاروں کی جدید مینوفیکچرنگ کے طریقہ کار کو بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن 2010ء میں جرمنی نے امریکہ کی نسبت دوگنا کاریں بنائیں۔ امریکہ کی مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کی کمی اور منافعوں کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کی خاطر روزگار کی بیرون ملک منتقلی کے باعث امریکہ میں مینوفیکچرنگ میں زوال آیا ہے۔
مرکل نے ٹرمپ کی ٹیم کے تبصرے کا خاطر خوا جواب دیا اور کہا کہ، ’’ایک ملک کو الگ کر کے حملہ کرنا مناسب نہیں۔ زائد خسارہ اچھا یا برا نہیں، یہ سپلائی اور ڈیمانڈکا نتیجہ ہے۔ ‘‘
فیصلہ کن موڑ
مرکل کا تازہ ترین بیان، گو کہ بالکل سیدھا اور تیز ہے، لیکن نئی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نئے تضادات اور تنازعات کو بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ عالمی سطح پر غیر متوازن سیاسی صورتحال کے لیے انتہائی گھمبیر ہے۔
ٹرمپ اور مرکل کے درمیان یہ کھلا تصادم عالمی تعلقات کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ رچرڈ ہاس، جو امریکہ میں بیرونی تعلقات کی کونسل کا صدر ہے، نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ’’مرکل کا یہ کہنا کہ یورپ دوسروں پر بھروسہ نہیں کر سکتا اور معاملات اپنے کنٹرول میں لے گا فیصلہ کن ہے۔ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اسی سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ‘‘ سٹریٹجک ریسرچ کے ایک ادارے سے فرانسس ہائز برگ نے کہا کہ، ’’صدر ٹرمپ نے واضح طور پر 65 سالہ عالمی تعلقات کے خاتمے کا سگنل دے دیا ہے۔ ان تعلقات کی بنیاد مضبوط دیر پاباہمی اعتماد پر تھی‘‘۔
مرکل کا یہ بیان جرمن قیادت کے اس بڑھتے ہوئے احساس کی بھی ترجمانی کرتا ہے جس میں وہ سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین کی جڑت بڑھنی چاہیے، خاص طور پر بریگزٹ کے بعد۔ جرمنی کے وزیر خزانہ وولفگانگ شوابل نے حال ہی میں کہا تھا کہ جرمنی کی ترجیح ہونی چاہیے کہ ’’باقی یورپ کو، برطانیہ کے علاوہ، جتنا اکٹھا رکھ سکتا ہے اتنا رکھے‘‘۔
ان اجلاسوں میں اور ان کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ عالمی معیشت میں بڑھتے ہوئے تضادات سیاسی محاذ پر اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ ’عام‘ حالات میں سیاسی چہ مگوئیاں، میٹنگ کے باہر والے کمرے میں تبصرے اور بریفنگ وغیرہ عام ہوتی ہیں۔ لیکن 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران اور ٹرمپ کے صدر کے بننے اور اس کی ’’سب سے پہلے امریکہ ‘‘ کی پالیسی کے بعد سے یورپی یونین اور امریکہ کی قیادت کھلے ٹکراؤ میں آ گئی ہیں۔ یہ جدید دور میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
نیٹو کا تناؤ
امریکہ اس وقت نیٹو کے اخراجات کا سب سے زیادہ خرچہ کرتا ہے جو 75فیصد ہے۔ اس سے امریکی تکلیف میں ہیں اور یورپیوں کو مفت گیر سمجھتے ہیں۔ غیر حیران کن طور پر ٹرمپ نے نیٹو کے دیگر ممبران کو ایسے ڈانٹا جیسے کوئی سکول کے بچوں کو ڈانٹتا ہے۔ خاص طور پر فرانس اور جرمنی کو۔ یہ دونوں ممالک ہی دفاع پر جی ڈی پی کے 2فیصد کے اخراجات کے وعدے کو پورا نہیں کر رہے اور تنظیم کی مستقل کم فنڈنگ کے ذمہ دار ہیں۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکہ یورپ کو دفاع پر سبسڈی دے رہا ہے اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے اس نے کہا کہ’’یہ امریکہ کے عوام اور ٹیکس دہندگان سے نا انصافی ہے‘‘۔
سامراجی فوجی اتحاد نیٹو کے بننے سے لے کراب تک امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کو ’’دفاع‘‘پر سبسڈی دیتا رہا ہے۔ اس میں کچھ نہیں بدلا۔ جو بدل رہا ہے (اور بدل چکا ہے) وہ امریکی سرمایہ داری اور سامراج کی عالمی سطح پر اجارہ داری ہے۔ امریکی اجارہ داری کا تاج گرنے سے مستحکم دوستیاں ٹوٹ رہی ہیں۔
نیٹو کا مقصد سوویت یونین کا مقابلہ کرنا تھاجو اس کے آرٹیکل 5میں درج ہے۔ جس کے مطابق کسی ممبر ملک پربیرونی حملے کے نتیجے میں اس ملک کا دفاع سب کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی۔ ٹرمپ کے نزدیک نیٹو فائدہ پہنچانے کے بجائے آگے بڑھنے میں ایک رکاوٹ اور پاؤں میں ایک زنجیر ہے اور اس لیے وہ جرمنی میں مستقبل میں ہونے والے اجلاسوں میں نیٹو کو سودے بازی کے لیے استعما ل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا اشارہ اس وقت ملا جب ٹرومین کے بعد پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے آرٹیکل5کی دنیا کے سامنے توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔
امریکہ سب سے پہلے
تناؤ کی ایک اور اہم وجہ ماحولیات پر 2015ء میں پیرس میں ہونے والے ایک معاہدے پر ابھرنے والے اختلافات تھے۔ ٹرمپ یہ محسوس کرتا ہے کہ پیرس معاہدے کے باعث امریکہ پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہو گا اور امریکہ کی مینو فیکچرنگ مسابقت میں پیچھے رہ جائے گی۔ ان اقدامات پر عملدرآمد سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گااور ماحولیات کا بحران ختم نہیں ہو گا۔ اس لیے ٹرمپ اب امریکہ کو اس معاہدے سے باہر نکال رہا ہے۔ اس پر مرکل نے کہا کہ’’ بحثیں انتہائی غیر اطمینان بخش رہیں‘‘اور کہا کہ لگتا ہے کہ’’ امریکہ پیرس معاہدے سے باہر نکل جائے گا‘‘۔
ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی عالمی تعلقات میں بڑھتی ہوئی تحفظاتی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے جس کی وجہ سرمایہ داری کا عالمی بحران ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی کا معنی ہے کہ سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں اور ان کو تحفظ دینے والے سامراجی قزاقوں کے پاس لوٹ مار کے لیے پہلے سے کم بچ رہا ہے۔ اس تحفظاتی پالیسی پر عملدرآمد سے پچھلے عرصے میں ہونے والے معاہدوں اور اتحادوں کی جلدموت واقع ہو جائے گی۔
لیکن اس کے باوجود سرمایہ دارانہ سیاست دان اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یا تو انہیں تحفظاتی پالیسی کی نئی دھن پر ناچنا پڑے گا یا پھر دھڑام سے زمین پر گر جائیں گے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکہ اور یورپ میں تصادم ’’مغربی اتحاد کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں‘‘۔ پرانی دنیا ہمارے سامنے ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ سماج میں ایک ایسی قوت منظم کریں جو ایک نئی سوشلسٹ دنیا تخلیق کر سکے جس میں کوئی بھی ڈاکولوٹ مار نہ کر سکے۔