|تحریر: ریولوشنری کمیونسٹس آف امریکہ، ترجمہ: جلال جان|
20سالہ مسلح شخص کی جانب سے ہفتے کے روز پنسلوانیا ریلی میں ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش نے امریکی بورژوا جمہوریت کو مزید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
یہ کسی امریکی صدر پر ہونے والی پہلی قاتلانہ کوشش نہیں ہے لیکن اس معاملے میں ایک سابق صدر، جس کا نومبر میں دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپس آنے کا امکان ہو، پر اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ یہ واقعہ براہِ راست ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے عہد میں پیش آیا ہے۔ کسی امریکی صدر پر آخری قاتلانہ حملہ 1981ء میں رونالڈ ریگن پر فائرنگ کا تھا۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران، تمام حکومتی سیاسی اداروں کی قانونی حیثیت اور عوامی حمایت تقریباً ہر پیمانے پر کم ہوئی ہے۔
اس واقعے سے پہلے کے ہفتوں میں بھی یہ کہنا مبالغہ نہ ہوتا کہ امریکی سیاست پہلے ہی ”بحران کی حالت“ میں تھی۔ جو بائیڈن کی تباہ کن صدراتی مباحثے کی کارکردگی نے ڈیموکریٹک پارٹی کو مکمل طور پر خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں امیدوار سے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے کہا جا رہا تھا، ورنہ نومبر میں ٹرمپ کو آسان فتح ملنے کا خطرہ تھا۔ لبرل سیاسی حکمت عملی ساز بائیڈن کی مباحثہ کارکردگی کے بعد کے رد عمل کو “DEFCON 1” جیسی صورتحال قرار دے رہے تھے، یہ ایک اصطلاح ہے جو سب سے زیادہ فوری سطح کی ہنگامی صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے، جو عام طور پر کسی متوقع حملے یا جنگی حالت کی عکاسی کرتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی “DEFCON 1” کی باتیں چند ہفتے پہلے قبل از وقت تھیں۔ گزشتہ رات، انٹرنیٹ پر وہ حیران کن فوٹیج چھا گئی جس میں ٹرمپ کی تقریر کے دوران ایک گولی اس کے کان کو چھوتے ہوئے دکھائی دی، جبکہ کئی گولیاں چلنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہو گئے اور ہجوم میں خوف کے مارے چیخ و پکار کی گونج اٹھی تھی۔
جب خفیہ سروس کے ایجنٹوں نے اس مسلح شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس نے ریلی سے تقریباً 300 فٹ دور ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ کی چھت سے فائرنگ کی تھی تو انہوں نے ٹرمپ کو جلدی سے وہاں سے ہٹا دیا، لیکن تاریخی تصویر لینے سے پہلے نہیں۔ اپنی مہم کے لیے اس لمحے کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ٹرمپ نے بہادری سے اپنے مکے کو ہجوم کی طرف بلند کیا، جبکہ اس کے چہرے کے کنارے سے خون بہہ رہا تھا اور سیکیورٹی ٹیم کے اس کو اسٹیج سے اتارنے سے پہلے کئی بار وہ ”لڑو!“ چلاتا رہا۔
ابھی تک اس حملہ آور تھامس میتھیو کروکس یا اس حملے میں اس کے محرکات کے بارے میں بہت کم معلومات شائع ہوئی ہے۔ ریاستی ووٹر ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک رجسٹرڈ ریپبلکن تھا۔ وہ بیتھل پارک (Bethel Park)، پنسلوانیا (Pennsylvania) میں رہتا تھا، جو ریلی کے مقام سے تقریباً ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔ کروکس نے 2022ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کی اور ایک نرسنگ ہوم کے باورچی خانے میں کام کرتا تھا۔ جب وہ 17 سال کا تھا، تو اس نے مبینہ طور پر لبرل ڈیموکریٹس کی حمایت کرنے والے مہم گروپ ایکٹ بلیو کو $15 کا عطیہ دیا تھا۔ یہ عطیہ 20 جنوری 2021ء کو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دن دیا گیا تھا۔
اس کے سابق ہائی اسکول کے ہم جماعت نے اسے ایک تنہا شخص قرار دیا جو اسکول میں ”شکار کرنے کا لباس“ پہنتا تھا۔ فائرنگ کے دن، اس نے ڈیمولیشن رینچ (Demolition Ranch) کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جو ایک مقبول یوٹیوب چینل ہے جس میں ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہے۔ پولیس نے اس کے گھر اور ریلی کے باہر پارک کی ہوئی اس کی گاڑی سے بم بنانے کا سامان برآمد کیا۔ اگرچہ تحقیقات جاری ہیں، لیکن ایف بی آئی کا خیال ہے کہ اس نے اکیلے ہی یہ کاروائی کی اور اس کی بھیڑ میں فائرنگ کی بکھری ہوئی بوچھاڑ یقینی طور پر کسی پیشہ ور نشانے باز کی تربیت کی عکاسی نہیں کرتی۔ اس کے کوئی فوجی روابط بھی نہیں تھے۔
کمیونسٹ کیوں انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں؟
حملہ آور کا مقصد جو بھی ہو، ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ کمیونسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اخلاقی بنیادوں پر یا امن پسند وجوہات کی بناء پر اس کی مخالفت نہیں کرتے، بلکہ اس لیے کہ یہ طبقاتی جدوجہد کی نکتہ نظر سے ناقابلِ تحمل عمل ہے اور محنت کش طبقے کے طبقاتی شعور کے فروغ کے لیے مضر ہے۔
ٹرمپ کے حمایتی اس بات پر پہلے سے یقین کرتے تھے کہ 2020ء کے انتخابات کو ٹرمپ سے چوری کرکے اسے ہرایا گیا تھا اور تمام حکومتی ادارے، بشمول میڈیا اور قانونی نظام، ٹرمپ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ایک ہی لمحے میں غصہ و حیرت کی وہ دہشت اب دس گنا بڑھ گئی ہے، جس نے ٹرمپ کے لاکھوں ووٹرز کو ایک زہریلے غم و غصّے میں مبتلا کر دیا ہے۔
حملے کے تقریباً فوراً بعد ٹرمپ کے اپریٹس نے اس حملے کے لیے ”انتہائی دائیں بازو“ کو الزام دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ محض انتہائی جذبات پر مبنی لفاظی سے بھرپور زبان ہے جو کہ صرف اس بات کو بڑھاوا دے گی کہ دائیں جانب سے زیادہ شدت سے حملوں کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ٹرمپ کے ایک حمایتی نے باقاعدہ ان الفاظ کی بنیاد پر اپنے موجودہ جذبات کو بیان کیا ہے: ”انہوں نے پہلے گولی چلائی! اس کا مطلب ہے تباہ کن جنگ ہو گی!“
اس بات کا ندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر حملہ آور کی گولی اپنا مقصد حاصل کر لیتی تو ٹرمپ کے حمایتیوں کا کیا رد عمل ہوتا۔ یہ شاید ایک سماجی انتشار کا آغاز کرتا، جس میں ہنگامہ اور ظلم و جبر کی شدت ہر اس شخص کے خلاف ہوتی جو ”دوسری جانب“ سمجھا جاتا۔
کمیونسٹ فطری طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس کی قاتلانہ کوشش سے جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ مکمل طور پر انتشار کو ہی جنم دے گا، ایسا انتشار جو معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کو واضح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سے ٹرمپ ازم کی طبقاتی تقسیم واضع ہو گی۔
ٹرمپ کی زیادہ تر حمایت کی بنیاد محنت کشوں پر مشتمل ہے جو وقتی طور پر اس کی سرکشی پر یقین کر لیتے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو واضح کریں اور محنت کش طبقے کے مفادات کو سب سے آگے لائیں، ٹرمپ کے کارکنوں کو دکھائیں کہ محنت کشوں کا کوئی دوسرا حصہ ان کا دشمن نہیں ہے بلکہ ان کا مشترکہ دشمن سرمایہ دار طبقہ ہے۔ اسی بنیاد پر ٹرمپ کی حمایت کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اس نومبر، محنت کش طبقے سے دوبارہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ لیکن لاکھوں لوگ ٹرمپ، بائیڈن اور باقی حکمران طبقے کے سیاستدانوں اور اداروں سے بالکل نفرت رکھتے ہیں۔ یہ طبقاتی نفرت ایک مثبت عمل کا اظہار ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پورا نظام کسی اور طبقے کے ہاتھوں میں ہے، جس کے مفادات ہر طرح سے ہمارے [عوام کے] مفادات کے مخالف ہیں۔ اس سیاسی رکاوٹ کا حل محنت کش طبقے کے مشترکہ سیاسی عمل میں ہے، جو اپنے مفادات میں خود اور مجموعی طور پر طبقے کے طور پر حرکت میں آتا ہے۔ اس کے لیے طبقاتی شعور کو انتہائی بلند سطح تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور بطور کمیونسٹ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کام کے ہونے میں ہم مدد کریں۔
انفرادی دہشت گردی کے واقعات اپنی بنیاد سے ہی طبقاتی جدوجہد کے مخالف کام کرتے ہیں۔ یہ عوامی ہڑتالوں اور مظاہروں کی شکل میں واقعات پر اثر انداز ہونے والی عوام کی مجموعی طاقت کی مضبوطی اور اس پر اعتماد کا احساس دلانے کی بجائے محنت کش طبقے کو محض بے بس تماشائیوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر دیکھا جائے تو انفرادی دہشت گردی خود ہراسانی اور خوف کا ماحول پیدا کرتی ہے، بجائے اس کے کہ عوامی جدوجہد کی بروقت جنگی تیاری کا ماحول فراہم کرے۔ اس طرح کے واقعات، ہتھیاروں سے لیس چھوٹے فوجی گروپوں اور پاگل درمیانے طبقے کے خودسر انتقام لینے والوں کو عمل میں تو لا سکتے ہیں لیکن محنت کشوں کو حکمران طبقے کے خلاف لڑنے کے لیے متحد کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
انفرادی دہشت گردی کا ایک اور رجعتی سیاسی پہلو یہ ہے کہ یہ انفرادی سیاستدانوں کو اصل مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اس سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ بس ٹرمپ یا بائیڈن، ہیرس، روبیو، وینس وغیرہ کو ہٹا دینا آگے کا ایک قدم ہو گا۔ یہ بے بنیاد ہے اور ایک بنیادی نقطے سے توجہ ہٹاتا ہے کہ سرمایہ دار نظام کو ایک کل طور پر دیکھا جائے جس میں سارے حکمران طبقے کی جماعتیں اور ادارے عوامی جبر اور بے اطمینانی کے اوزار کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔
صرف اس صورت میں، جب محنت کش طبقہ اپنے آپ کو ایک طبقے کے طور پر دیکھتا ہے، جس کے مشترکہ مفادات بائیڈن اور ٹرمپ سمیت تمام سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے مفادات کے مخالف ہیں، طبقاتی جنگ ایک ایسے راستے پر بڑھ سکتی ہے جس سے محنت کشوں کی حکومت قائم کی جا سکے، جو کہ لاکھوں لوگ پیش آنے والے مسائل کا واحد حل ہے۔
ٹرمپ ازم کے رجعتی رجحان کو کمزور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ محنت کش طبقے کو یہ باور کرایا جائے کہ ذاتی مفاد میں مبتلا حکمران طبقے کے ایک فرد کے ذریعے ان کی طبقاتی قوت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی پہلی حکومت کے چار سالوں کے دوران، ایک فیصد امیر ترین طبقہ محفوظ رہا اور حکومتی نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اگر وہ دوبارہ صدر بن جاتا ہے، تو وہ ان تمام محنت کشوں کی مدد نہیں کرے گا جو مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ امریکی محنت کشوں کے اصل دشمن تارکین وطن یا دوسرے ممالک کے محنت کش نہیں بلکہ امریکی سرمایہ دار طبقہ ہے۔
حکمران طبقے پر قاتلانہ حملہ محنت کش طبقے کو ان اہم نتائج تک پہنچنے میں مدد نہیں دیتا بلکہ ان کے شعور کو پیچھے دھکیلتا ہے۔ اس قاتلانہ حملے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام میں ٹرمپ کے لیے مزید ہمدردی پیدا ہو گی اور انتخابات میں اس کی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ یہ کوشش مختلف سازشی نظریات کو بھی تقویت دے گی جن میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ واقعی ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ ہے اور یہ کہ خفیہ ”طاقتوں“ جیسی نام نہاد ”وسیع ریاست“ اسے صدر بننے سے روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ حکمران طبقے کی اکثریت ٹرمپ کی سخت مخالف ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک خود غرض شخص ہے جو صرف اپنے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے اور پورے نظام کی بہتری کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ نے ان کے زوال پذیر نظام کے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے اور بورژوازی کے ان اداروں کو مزید بدنام کیا ہے جو ان کے نظام کے تسلسل کے لیے اہم ہیں۔
مارکس نے جدید ریاست کی ایگزیکٹو کو ”پوری بورژوازی کے مشترکہ معاملات کو سنبھالنے کی ایک کمیٹی“ کہا تھا۔ بائیڈن بھلے ہی غیرمربوط اور نااہل ہو، لیکن ٹرمپ غیر متوقع، بے قاعدہ اور خود غرض شخص ہے جو کہ بالکل بھی وہ خصوصیات نہیں رکھتا جو حکمران طبقہ اپنے سربراہِ مملکت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ایلون مسک کے علاوہ، جس نے حملے کے فوراً بعد X پر ٹرمپ کی حمایت کی، ابھی تک کوئی بھی Fortune 100 کمپنی کا سی ای او (CEO) ٹرمپ کی مہم کی حمایت نہیں کر رہا، جو کہ پچھلے تمام ریپبلکن امیدواروں کے بالکل برعکس ہے۔ مختصراً، امریکی سرمایہ داری کے ”مشترکہ معاملات کو سنبھالنے والی کمیٹی“ بکھر چکی ہے اور آنے والے سالوں میں استحکام کی کوئی علامت نظر نہیں آ رہی۔
امریکی سرمایہ داری کے تشدد کا گھن چکر
ٹرمپ کے حامی اب میڈیا اور نام نہاد ”بائیں بازو“ پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی خوف زدہ کرنے والی تقریروں کے ذریعے اس قاتلانہ حملے کی راہ ہموار کی ہے۔ بائیڈن اور ڈیموکریٹس اور ان کے ساتھ کھڑا وسیع میڈیا نیٹ ورک، ٹرمپ کو فاشسٹ کہہ کر اس کے انتخاب کو آمریت کے قیام کا ذریعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، گویا فوجی پولیس ریاست کا قیام کسی ایک صدر کی منشاء کا معاملہ ہے۔ ”کم برائی“ کے نظریے کے حامی لبرلز نے ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے ایک مجسم خطرہ بنا دیا ہے، اور ہمیشہ اس کے حامیوں کو ایک رجعت پسند ”قابلِ نفرت“ طبقہ قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس، مارکسسٹوں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹرمپ کے ووٹرز کا ایک بڑا حصہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے جن کے اندر خاصا طبقاتی عدم اطمینان موجود ہے، جسے دائیں بازو نے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے صرف اس لیے کہ بائیں بازو کی جانب سے کوئی لڑاکا طبقاتی جنگ کا متبادل موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اور بلا امتیاز تمام ٹرمپ ووٹرز کو فاشسٹ حامی قرار دیتے ہوئے، لبرلز اور ”کم برائی“ کے نظریے کے حامل بائیں بازو نے محنت کش طبقے کے ایک حصے کو ٹرمپ کے ساتھ اور بھی زیادہ مضبوطی سے جوڑ دیا ہے، جس سے انہیں طبقاتی موقف پر لانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ اب، وہ لوگ جو کہ یونین کی مضبوطی اور اجرتوں کے حصول جیسے مطالبات کے لیے مالکان کے خلاف لڑائی کے موضوعات پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ اب وہ اس خیال میں دھوکہ کھا رہے ہیں کہ وہ ”بائیں بازو“ کے ساتھ مسلح تصادم کے دہانے پر ہیں۔
یقیناً، صرف حکمران طبقے کے لبرلز ہی اس کے لیے قصور وار نہیں ہیں۔ خود ٹرمپ نے بھی متعدد مواقع پر کھل کر سیاسی تشدد کی حمایت کی ہے، بشمول اپنے حامیوں کو مظاہروں کے دوران مخالفین کے ساتھ ”مار پیٹ کرنے“ کی ترغیب دینا اور انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرنا۔ اس نے 2020ء کے شاندار عوامی مظاہروں پر بھی یہ ٹویٹ کرتے ہوئے شدت پسندانہ ردعمل دیا کہ، ”جب لوٹ مار شروع ہوتی ہے، تو گولی چلنے لگتی ہے“۔ ٹرمپ نے نہ صرف Black Lives Matter تحریک کے مظاہروں کے خلاف مسلح دائیں بازو کے گروپوں کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ غیر شناخت شدہ وفاقی قانون نافذ کرنے والے یونٹس کو بھی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور اغوا کے لیے بھیجا اور پورٹ لینڈ میں ایک ”اینٹیفا مشتبہ“ (antifa suspect) کے قتل پر فخر کیا۔
اب، واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کے پورے سیاسی طبقے نے سیاسی تشدد کی مذمت میں ایک ساتھ آواز ملائی ہے۔ بائیڈن نے فائرنگ کے بعد اپنے عوامی بیان میں کہا، ”دیکھیں، امریکہ میں اس طرح کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بہت غلط ہے۔۔۔ یہ سوچنا کہ امریکہ میں اس طرح کا سیاسی تشدد ہو رہا ہے، ناقابل یقین ہے۔ یہ بالکل نامناسب ہے۔ ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔“
بہت سے لوگ اس منافقت پر اپنے دل کو بے چین محسوس کر رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں تشدد کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، جہاں حال ہی میں امریکی ہتھیاروں کے ذریعے کریمیا کے ایک ساحل پر روسی شہریوں پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ دریں اثنا، ہزاروں یوکرینی محنت کش امریکی سامراج کے روس کے خلاف پراکسی جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ بائیڈن نتن یاہو کو گلے لگاتا ہے اور اسے ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتا ہے تاکہ وہ معصوم فلسطینیوں کو قتل کر سکے، جن کی تعداد اب ایک لاکھ چھیاسی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
ہمیں امریکی سرحد پر جمع بھوک سے نڈھال اور مایوس خاندانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو دیکھنا چاہیے؟ یا ان قاتل پولیس اہلکاروں کے تشدد کو جو سیاہ فام لوگوں پر جبر کرتے اور انہیں قتل کرتے ہیں، اور امریکی سڑکوں پر مظاہرین کو بربریت کا نشانہ بناتے ہیں؟ کیا ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے جب یہ تشدد حکمران طبقے کی مقرر کردہ حدود سے باہر نکل جاتا ہے؟ نہیں، منافق حکمران طبقہ تشدد کے خلاف نہیں ہے؛ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ تشدد خود ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
امریکی سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز خونریزی سے ہوا۔ دنیا کا سب سے امیر ترین اور طاقتور سامراجی ملک صدیوں کی غلامی، مقامی آبادی کے خلاف جنگوں اور محنت کش طبقے کے خلاف وحشیانہ حملوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ خونریز امریکی سامراج نے ایشیا اور لاطینی امریکہ میں لاکھوں لوگوں کو محکوم بنا کر ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا، انہیں پسماندگی میں دھکیل دیا اور انہیں چند سکوں کے عوض کام کرنے پر مجبور کیا۔ جب ان حالات نے بڑھتی ہوئی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھر اور زندگیاں چھوڑنے پر مجبور کیا تاکہ وہ بیرون ملک بہتر زندگی کی تلاش کر سکیں، تو حکمران طبقے نے ان پر ظالمانہ حملے کیے اور انہیں بلی کا بکرا بنا دیا۔ ٹرمپ اب خوف و ہراس پھیلانے اور تقسیم پیدا کرنے کی مہم کے ساتھ تارکین وطن کے خلاف محاذ کی قیادت کر رہا ہے، یہ وہ موضوع ہے جس پر وہ گولی چلنے کے لمحے بات کر رہا تھا۔
امریکہ کے غالب خیالات اور ثقافت حکمران سرمایہ دار طبقے کی پیداوار ہیں۔ وہی اس معاشرے کی اخلاقیات کا تعین کرتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ یہاں اور بیرون ملک معاشرے کی حکمرانی میں کیا قابل قبول ہے۔ سرمایہ دار طبقہ شدید انفرادیت پسندی اور ”کسی بھی قیمت پر جیتنے“ کی ذہنیت کو بڑھاوا دیتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا ہے جہاں تشدد ان کے کام کرنے کے طریقے کا حصہ ہے۔ وہ اپنے کھیل کے اصول طے کرتے ہیں۔
کم از کم 12 صدر اور صدارت کے لیے نامزد امیدواروں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ابراہم لنکن کے بعد سے دفتر میں آنے والے 30 صدروں میں سے چار صدر جو کہ دس فیصد سے زیادہ بنتے ہیں، قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے سیاسی نظام اور ثقافت کی عکاسی کرتا ہے جو تشدد پر مبنی ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو سرمایہ داری نے پیدا کیا ہے۔
گزشتہ سال Reuters کی جانب سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ، جس کا عنوان ”سیاسی تشدد میں اضافہ: 1970ء کی دہائی سے اب تک امریکہ کی بدترین صورتحال“ تھا، میں سینکڑوں سیاسی تشدد کے واقعات کی گنتی کی گئی، جن میں سے بہت سے ہلاکتوں کے واقعات تھے۔ یہ رجحان 2016ء سے امریکی سیاست میں واضح طور پر بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایک اور احساس بھی پیدا ہو رہا ہے کہ امریکہ ایک اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، ایک احساس جو اب تقریباً نصف آبادی میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ سرمایہ داری کے زوال کے دور میں، پچھلی دہائیوں کا سیاسی استحکام ہر گزرتے سال کے ساتھ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
حکمران طبقے نے ہمیں ایک ایسے معاشرے میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے جو سیاسی قتل سے کہیں زیادہ بڑھ کر تشدد سے بھرا ہوا ہے۔ 2023ء میں، امریکہ میں ہر روز تقریباً 118 افراد فائرنگ سے مارے گئے۔ خاص طور پر گزشتہ دہائی میں ماس شوٹنگز (ایک ساتھ کئی لوگوں کو گن شوٹنگ کا نشانہ بنانا) میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2022ء میں 647 ماس کلنگز ہوئیں اور 2023ء میں بھی 656 ایسے قتل ہوئے۔ اس کا مطلب ہے ایک دن میں دو لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 2024ء میں اب تک کی صورتحال نسبتاً ”خاموش“ رہی ہے، یکم جنوری سے 2 جولائی تک، امریکہ میں 184 دنوں میں 261 ماس شوٹنگز ہوئی ہیں۔ لوگوں کا اس طرح سے جینا معمولی بات نہیں ہونی چاہیے، لیکن یہ امریکی سرمایہ داری کے تحت معمول کے حالات ہیں جو کہ ہمارے عہد کی حقیقت ہے۔
آگے بڑھنے کا راستہ
کمیونسٹ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ معاشرے کے غالب نظریات سے معاشرے کو دیکھتے ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ، ”کسی بھی دور میں حکمران طبقے کے خیالات ہی غالب خیالات ہوتے ہیں۔“ سیاسی سائنس کی کتابیں ”ہماری آزادی“، ”ہماری جمہوریت“، اور ”آئینی توازن“ کے بے بنیاد حوالوں سے بھری ہوتی ہیں۔ بڑے میڈیا کے اداروں کے ایڈیٹرز اور صحافی ان جملوں کو غیر جانبدار، غیر متنازعہ، عام معلومات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہم سیاست کو اس طرح نہیں دیکھتے۔ لینن کے الفاظ میں: ”ایک لبرل کے لیے ’جمہوریت‘ کے بارے میں بات کرنا فطری ہے؛ لیکن ایک مارکسسٹ کبھی نہیں بھولے گا کہ یہ کس طبقے کے لیے ہے؟“
کمیونسٹ دنیا کو انقلابی طبقاتی تناظر سے دیکھتے ہیں۔ بورژوا میڈیا کی سرخیوں کے پیچھے، ان کی تقریروں کی سطروں کے درمیان اور ان کے ”تجزیہ“ میں، ہم طبقاتی معاشرے کی مستقل نشانیوں کو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے میں چلنے والی بنیادی تقسیم کو پہچانتے ہیں۔ ایک تربیت یافتہ مارکسسٹ اس بات کو دھیان سے سمجھتا ہے کہ بظاہر ”معروضی“ تبصرے اور ”عام فہم“ باتوں کے پیچھے مخصوص طبقاتی مفادات ہوتے ہیں۔
جب ہم سرخیوں میں دیکھتے ہیں کہ ”ہماری جمہوریت خطرے میں ہے“، تو ہم ایک ایسے گروپ کی آواز سنتے ہیں جو نسلوں تک آرام سے حکومت کرتے رہے ہیں، اور اب خود کو ڈوبتے ہوئے جہاز کی کمان پر پا رہے ہیں اور اپنے زوال کو روکنے میں بالکل بے بس ہیں۔ ان کے مستحکم اداروں کی ساکھ ان اداروں کے نیچے ہی دب چکی ہے۔ ان کی جماعتوں، عدالتوں اور عوامی رائے پر ان کی مضبوط گرفت ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ جبکہ ان کے طبقاتی پیشرو جو اپنے نظام کے مستقبل پر اعتماد سے نظر رکھتے تھے، لیکن آج کا حکمران طبقہ خوف اور مایوسی کا شکار ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے، لاکھوں لوگ بورژوا جمہوریت کے جھوٹ سے آزاد ہو رہے ہیں، اور حکمران جماعتیں اور امیدوار عوام کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ٹرمپ ازم کی تحریک کا سبب صرف لڑاکا محنت کش طبقے کی پارٹی کی عدم موجودگی ہے جو اس غصے کو نظام اور اس کے حکمران اداروں کے خلاف موڑ سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد ”بائیں بازو“ کی اکثریت صورتحال کو بھانپنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ڈی ایس اے (DSA) کی حمایت یافتہ ”اسکواڈ“ کا بائیڈن کے پیچھے کھڑا ہونا اسی بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دو دن پہلے، برنی سینڈرز نے انہیں ”ہمارے ملک کی جدید تاریخ کے سب سے مؤثر صدر“ اور ”مسٹر ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے سب سے مضبوط امیدوار“ کہا تھا۔ الہان عمر نے ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلایا کہ ”وہ ان کی حمایت کرتی ہے“ کیونکہ ”وہ [اس کی] زندگی کے بہترین صدر رہے ہیں۔“ ان کی سرمایہ داری اور اِس کے اداروں کے ساتھ تابعداری نے بائیں بازو کے غصے کو محفوظ ڈیموکریٹک چینلز میں واپس بھیج دیا۔
لیکن سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک آزاد طبقاتی متبادل کے لیے وسیع حمایت موجود ہے۔ ایک ریکارڈ کے مطابق 63 فیصد امریکی ایک نئی عوامی جماعت کی تشکیل کی حمایت کرتے ہیں۔ 55 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز کا ماننا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی نظام میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور 14 فیصد تو اسے مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں کہ اگر ہم انقلابی نظریات کو بھرپور طریقے سے سیاسی منظر نامے کے ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہو جائیں تو، یہاں انقلابی نظریات پنپ سکتے ہیں۔
امریکی سرمایہ داری کا زوال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں سماجی دھماکوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ گزشتہ روز کے واقعات آگے کا ایک قدم تھا، ایک اہم قدم جس سمت میں ہم پہلے ہی بڑھ رہے تھے۔ عدم استحکام، سیاسی بحران اور بڑھتا ہوا سیاسی تشدد اس کے بنیادی خاصے ہیں۔ یہ بالآخر سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈیموکریٹس اور نہ ہی ریپبلکنز کے پاس اس عمل کو روکنے کا کوئی حل یا طریقہ ہے۔ یہ وہ نقطہ نظر ہے جسے ہمیں واضح طور پر دیکھنا ہو گا۔ جیسا کہ لیون ٹراٹسکی نے اپنے 1911ء کے ایک اہم مضمون، ”کیوں مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں“، میں کہا:
”اگر ہم دہشتگردی کے عمل کی مخالفت کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ انفرادی انتقام ہمیں تسکین نہیں پہنچاتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہمیں جو حساب چکتا کرنا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے ایک سرکاری دلال، جسے وزیر کہتے ہیں، پورا نہیں کر سکتا۔ انسانیت کے خلاف تمام جرائم کو ہوتے ہوئے دیکھنا، وہ تمام تذلیل جو انسانی جسم اور روح کے ساتھ کی جاتی ہے، اسے موجودہ معاشرے کے اظہار کے طور پر سمجھنا اور اپنی تمام توانائیوں کو موجودہ نظام کے خلاف جدوجہد میں اکٹھا کرنا! یہی وہ راستہ ہے جس پر انتقام کے بھڑکتے ہوئے جذبات اپنی اعلیٰ ترین تسکین پا سکتے ہیں۔“
ہمیں سب سے زیادہ ہنگامہ خیز صدارتی انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے، ایک طبقاتی جنگ کا تناظر واضح طور پر اور جرات مندی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب، ایک عوامی کمیونسٹ جماعت کی فوری ضرورت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، تاکہ ان قوتوں کو اکٹھا کیا جا سکے جو دکھائیں کہ بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے، جو محنت کش طبقے کی اکثریت کو اپنے انقلابی پروگرام کے گرد متحد کر سکیں اور معاشرتی عدم اطمینان کے خاتمے کو اس کے حقیقی منبع یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ جوڑ سکیں۔