تحریر: | ایلن وڈز |
ترجمہ: |یاسر ارشاد|
ٹراٹسکی کی زندگی 20 اگست1940ء کو اس وقت اختتام پذیر ہو گئی جب ایک سٹالنسٹ ایجنٹ نے بہیمانہ طریقے سے برف توڑنے والے کلہاڑے سے اس کے سر پر وار کیا۔ جو تحریریں وہ مکمل نہیں کر سکا تھا ان میں اس کی کتاب سٹالن کا دوسرا حصہ بھی شامل تھا۔ ٹراٹسکی کی کتاب، سٹالن مارکسی ادب میں ایک منفرد مقام کی حامل اس لئے ہے کہ اس میں بیسویں صدی کے سب سے فیصلہ کن واقعات کی وضاحت نہ صرف ایک عہد ساز سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے حوالے سے کی گئی ہے بلکہ ان افراد کی نفسیات کے حوالے سے بھی جو اس عظیم تاریخی ڈرامے کے اہم کردار وں کی صورت میں ابھرے۔ انفرادی نفسیات اور تاریخی عوامل کے مابین تعلق تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ایک دلچسپ موضوع ہے اور اس کتاب کی بنیاد بھی ۔سٹالن جس نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ایک انقلابی اور بالشویک کے طور پر کیا تھا کیوں اور کیسے اس کا انت ایک ظالم اور جابر کے طور پر ہوا؟ کیا ایسا جینیاتی طور پر یا بچپن میں نشوونما کے دوران مخصوص عوامل کی وجہ سے پہلے سے ہی معین ہو چکا تھا؟
سٹالن کی ابتدائی زندگی میں کچھ ایسے حالات و واقعات تھے جن کا ٹراٹسکی نے بڑی جانفشانی سے تجزیہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ لازمی طور پر اس میں کچھ انتقام، حسد اور ظالم ہونے کے رحجانات کے ساتھ اذیت پسندی کا عنصر بھی کسی حد تک موجود تھا۔ لیکن ان رحجانات کی اپنے تئیں کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ تمام بچے جن کے والد شراب کے نشے میں ان پر تشدد کرتے ہیں وہ سبھی ظالم آمر نہیں بن جاتے جس طرح سبھی ناکام فنکار جن کوآسٹریا کے شہر ویانا کی اکیڈمی مسترد کر دیتی ہے وہ ٹھکرائے جانے کے دکھ میں انتقاماً ایڈولف ہٹلر نہیں بن جاتے۔اس طرز کی تبدیلیوں کو رونما ہونے کے لئے عظیم واقعات اور سماجی دھماکے درکار ہوتے ہیں۔ ہٹلر کے معاملے میں دیکھا جائے تو وال سٹریٹ کی گراوٹ کے نتیجے میں جرمنی میں ہونے والی معاشی تباہی نے اس کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ تباہ حال پیٹی بورژوازی اور لمپن پرولتاریہ کی اکثریت کی تحریک کی قیادت کر سکے۔ سٹالن کے معاملے میں یہ روسی انقلاب کے بعد تحریک میں آنے والا ناگزیر ٹھہراؤ تھا، عالمی جنگ، انقلاب اور خانہ جنگی کے باعث عوام کی مکمل تھکاوٹ اور انتہائی پسماندہ کیفیات اور بے پناہ غربت کی حالت میں انقلاب کا تنہا رہ جانا وہ عوامل تھے جن کے باعث ایک مراعات یافتہ بیوروکریسی پروان چڑھی۔ لاکھوں کی تعداد میں بھرتی ہونے والے سرکاری اہلکار محنت کشوں کو ایک جانب دھکیل کر ایک مضبوط مراعت یافتہ پرت بنتے گئے۔ ان نو دولتیوں کو ایک قائد کی ضرورت تھی جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ لیکن اس قائد کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک مستند انقلابی اور خالص بالشویک ماضی کا حامل ہونا چاہیے (درست وقت پر درست جگہ درست آدمی)۔ سوویت بیوروکریسی کوجوزف جوگاش ولی کی صورت میں اپنا نمائندہ مل گیا جس کو آج ہم سٹالن کے نام سے جانتے ہیں۔ پہلی نظر میں لینن کا جانشین بننے کے لئے سٹالن کوئی بہترین انتخاب نہیں تھا۔ سٹالن کا طاقت حاصل کر کے اس پر قبضہ برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں تھا۔ وہ شکی مزاج اور تشددپسند رحجان رکھتا تھا۔ وہ ایک مثالی اہلکار، محدود ذہن کا مالک جاہل شخص تھا انہی لوگوں جیسا جن کی وہ نمائندگی کرتا تھا۔ دوسرے بالشویک رہنماؤں نے برسوں یورپ میں گزارے تھے اور نہ صرف دوسری زبانیں انتہائی روانی کے ساتھ بولتے تھے بلکہ بین الاقوامی مزدور تحریک میں بھی عملاً شریک رہ چکے تھے۔ سٹالن کو کسی دوسری زبان پر عبور تو درکنار روسی زبان بھی ایک بھدے جارجیائی لہجے میں ہی بولنا آتی تھی۔
اس تضاد کی وضاحت ٹراٹسکی ان الفاظ میں کرتا ہے۔ ایک انقلابی عہد بہادر راہنماؤں، عظیم لکھاریوں، شعلہ بیاں مقرروں اور جرات مند مفکروں کا متقاضی ہوتا ہے جو عوام کی سماج کو بدلنے کی نیم یا لا شعوری خواہشات اور تمناؤں کو الفاظ کا روپ دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اوربر وقت نعروں کے ذریعے ان کا اظہار کر سکتے ہوں۔ یہ عظیم لوگوں کا عہد ہوتا ہے۔ لیکن ردانقلاب کا عہد ایک ٹھہراؤ، پسپائی اور مایوسی کا عہد ہوتا ہے۔ ایسے ادوار عظیم لوگوں کی بجائے اوسط درجے یا چھوٹے لوگوں کے متقاضی ہوتے ہیں۔ یہ عہد موقع پرستوں ،سہل پسندوں اور غداروں کا عہد ہوتا ہے۔ ایسے وقتوں میں بہادر دانشمند اور عظیم افراد کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ متوسط اور گھٹیا قسم کے لوگ عظیم وارفع لوگوں کے حاکم بن جاتے ہیں اور سٹالن متوسط یا گھٹیاپن کا اعلیٰ شاہکار تھا۔یقینی طور پر یہ تعریف اس کی تمام صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرتی یا محض اس بنیاد پر وہ خود کو ان لوگوں سے بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جو اس سے ہر حوالے سے برتر تھے۔وہ ایک فولادی عزم اور ارادے، سفاکیت، طاقت اور اختیار حاصل کرنے کی بے قابو ہوس، کے علاوہ ساز باز کرنے، لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے اور سازش کرنے کی فطری صلاحیتوں کا مالک تھا۔ انقلابی پیش رفت کے دور میں اس قسم کی صلاحیتوں کی اہمیت تیسرے درجے کی ہوتی ہے لیکن ٹھہراؤ اور پسپائی کے ادوار میں ان کو پر اثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سٹالن پر جس طرح اس کا اطلاق ہو تا ہے، ٹراٹسکی نے انتہائی محتاط انداز میں وہ بے شمار مواد مرتب کرکے اس کی وضاحت کی جو اس نے خود محفوظ کر رکھا تھا اور اس کے ساتھ بالشویکوں، منشویکوں، سٹالنسٹوں اور خاص کر جارجیا کے انقلابیوں کی محفوظ کردہ یادداشتوں سے لیا تھا جو سٹالن کو بہت قریب سے جانتے تھے۔
فرد کا کردار
بڑے تاریخی واقعات کو چند افراد کی ذات تک محدود کر دینا سطحی ہونے کے ساتھ تاریخ کی سائنسی وضاحت نہ کر سکنے کی نا اہلیت کی بھی عکاسی ہے۔ تاریخی مادیت کے مطابق پیداواری قوتوں کی ترقی تاریخ کی حقیقی قوت محرکہ ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ فرد کا تاریخ میں کوئی کردار ہی نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس تاریخی عمل مردوزن کی سرگرمیوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔عام اور خاص یعنی افراد اور سماجی عمل کے درمیان پیچیدہ تعامل کی وضاحت ایک مشکل فریضہ ہے لیکن اسے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ مارکس نے باکمال وصف سے لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومیئر میں اس پہلو کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح مخصوص تاریخی حالات میں نپولین بونا پارٹ ( جسے وکٹر ہیوگو بونا نپولین کہتا تھا) جیسا اوسط معیار سے بھی کم اہلیت کا حامل شخص حاکم بن سکتا ہے۔ معروضی عوامل کے ساتھ فرد کے تعلق کی نوعیت کس قسم کی ہوتی ہے اس کا کبھی بھی قابل اطمینان طریقے سے جائزہ نہیں لیا جاتا۔
کیا سٹالن کی شخصیت نے سوویت یونین(USSR ) کی تقدیر کا تعین کیا؟ یہ سوال کافی ہے ایسے نظریات کے کھوکھلے پن کو آشکار کرنے کے لئے۔ یورپی انقلاب کی شکست کے معنی یہ تھے کہ اکتوبر انقلاب نے جس مزدور جمہوریت پر مبنی حاکمیت کی بنیاد رکھی تھی وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ ایک بار جب انتہائی خوفناک معاشی اور ثقافتی پسماندگی کی کیفیت میں انقلاب تنہا رہ گیا تو بیوروکریسی کاسٹالن کے ساتھ یا سٹالن کے بغیر ابھرنا نا گزیر ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ریاست کی بے پناہ اذیت ناکی اوربھیانک و وحشیانہ ریاستی تشدد پر مبنی کردار کافی حد تک سٹالن کی انتقام کی نہ ختم ہونے والی ہوس اور اس نفسیاتی عارضہ ،کہ ہر ایک اس کے خلاف ہے ،کی وجہ سے تھا۔
ایک فرد کی اپنی منفرد خصوصیات، اس کی ذات اور نفسیات میں موجود نقائص کس طرح عظیم واقعات کے ساتھ تعامل پذیر ہوئے سٹالن کا مطالعہ اس حوالے سے انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔ اسی بنیاد پر اس کے بے ایمان ناقد وں کی بھی کمی نہیں۔ یہ ثابت کرنے کی ان گنت کوششیں کی گئیں کہ ٹراٹسکی نے سٹالن نامی کتاب محض کریملن میں بیٹھے اپنے دشمن کو بدنام کرنے کے جذبے کے تحت لکھی یا کم از کم یہ اعتراض لازمی کیا گیا کہ جس انداز میں ذاتی یا نفسیاتی عوامل کی معروضی وضاحت کی گئی ہے وہ نا ممکن ہے۔ اس قسم کے سطحی تبصرے مصنف کے ساتھ ظلم کے مترادف ہیں۔ ٹراٹسکی کو اس قسم کے اعتراضات اٹھائے جانے کا پہلے سے اندازہ ہو چکا تھااسی لئے اس نے لکھا۔ ’’ میرے پیش نظر اب جو نقطہ یا پہلو ہے وہ منفرد نوعیت کا ہے اس لئے میںیہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے سٹالن کی ذات سے کبھی بھی نفرت نہیں رہی۔ مختلف حلقوں میں میری سٹالن سے نام نہاد نفرت کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے جس سے مجھے سخت الجھن ہوتی ہے لیکن اس سب پر میں لاپرواہی سے اپنے کندھے اچکانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ ہمارے راستے بہت پہلے جدا ہو گئے تھے اور جو کوئی ذاتی تعلق تھا اسے بھی مکمل طور پر ختم ہوئے عرصہ بیت چکا ہے۔ میری حد تک اور جہاں تک کہ میں ان تاریخی قوتوں کا نمائندہ ہوں جو مجھ سے بیگانہ اور میری دشمن ہیں، میں سٹالن، ہٹلر یا جاپانی مکادو کے بارے میں اپنے احساسات میں فرق نہیں کر سکتا۔‘‘(سٹالن موجودہ ایڈیشن باب نمبر 14 )
درباری تاریخ دانوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ غیرجانبداری کے نقاب کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ در حقیقت ہر تاریخ دان ایک خاص نقطہ نظر کے مطابق ہی تاریخ لکھتا ہے۔ بالخصوص یہ بات روسی انقلاب کی تاریخ پر صادق آتی ہے اور اگر اس کا ذکر کیا جائے تو فرانسیسی انقلاب کے حوالے سے بھی۔ ثبوت کے طور پر ان ان گنت کتابوں کا ذکر ہی کافی ہے جو ہر سال خاص کر سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے دھڑا دھڑ شائع کی جا رہی ہیں جن میں ناقابل تردید ثبوتوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ لینن اور ٹراٹسکی خونخوار دیو تھے اور سوویت یونین نے اپنی خفیہ ایجنسی KGB اور مشقتی کیمپس چلانے والے ادارےGulag بنانے کے علاوہ کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ۔
ان درباریوں کی معروضیت کے نقاب کو تھوڑا سا کھرچنے کی ضرورت ہے آپ کو کمیو نسٹ دشمنی کا بدنما اور بھیانک چہرہ صاف دکھائی دینے لگے گا۔ ان درباریوں کی منافقانہ اور نام نہاد معروضیت کے بر عکس ٹراٹسکی نے سٹالنسٹ رد انقلاب کے سوال کو ایک مارکسی اور انقلابی کے طور پر برتا ہے۔ کیا بیک وقت سماج کو تبدیل کرنے کے معاملے میں پرجوش دلچسپی رکھنا اور تاریخی عمل اور اس میں فرد کے کردار کی معروضی وضاحت کرسکنے کا اہل ہونے میں کوئی تضاد ہے؟ ٹراٹسکی اس کا جواب ان الفاظ میں دیتا ہے۔ ’’ایک درباری دانشور کے لئے انقلابی نقطہ نظر کا ہونا سائنسی معروضیت کا نہ ہونے کے مترادف ہے۔جبکہ ہماری سوچ اس کے باکل الٹ ہے۔صرف ایک انقلابی جو سائنسی طریقہ کار سے لیس ہو وہی اس قابل ہوتا ہے کہ انقلاب کی معروضی حرکیات کی وضاحت کر سکے۔ عمومی طور پر ادراک کا عمل محض غور و فکر پر مبنی نہیں ہو تا بلکہ ایک سرگرم عمل ہوتا ہے۔ فطرت یا سماج کے رازوں کو افشا کرنے کے عمل میں عزم وارادہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ جس طرح ایک جراح کے نشتر پر انسانی زندگی کا انحصار ہوتا ہے اور وہ مختلف اعضا اور پٹھوں میں فرق قائم کرنے میں انتہائی محتاط ہوتا ہے اسی طرح ایک انقلابی جو اپنے مقاصد کی جانب سنجیدہ رویہ رکھتا ہے اس کو انتہائی فرض شناسی اور باضمیری کے ساتھ سماج کے ڈھانچوں اس کے افعال اور دیگر تمام عوامل کا تجزیہ کر نا چاہیے۔‘‘ ( ٹراٹسکی، چین کا انقلاب، 1938 ء)
نئے ایڈیشن کے بارے میں
کوئی بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کر سکے گا کہ اس نے سٹالن کا مکمل ایڈیشن شائع کیا ہے۔ یہ ٹراٹسکی کے قتل کے لمحے نامکمل تھی اس لئے ہمیشہ نا مکمل ہی رہے گی۔ ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کتاب کا شائع ہونے والا سب سے مکمل اور حتمی ایڈیشن ہے۔ اس کتاب کے دیگر ایڈیشن انتہائی غیر تسلی بخش جبکہ بعض غلط ہیں۔ اس کتاب کی تکمیل کے عمل کے دوران ہم نے دیگر ایڈیشنز کے ترجموں کا موازنہ کیا تو معلوم پڑا کہ یہ مختلف حوالوں سے نا کافی ہیں۔ ہم نے ٹراٹسکی کے انگریزی آرکائیوز میں موجود تمام مواد کو یکجا کیا اور کچھ اضافی مواد جو روسی زبان میں تھا اس کا اضافہ بھی کیا۔ یہ نیا ایڈیشن 86 ہزار اضافی الفاظ پر مشتمل ہے جس سے کتاب کے حجم میں 30 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کتاب کے دوسرے حصے میں جہاں زیادہ تر اضافی مواد موجود ہے اس مواد کو مرتب کرنے میں 90 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
اگر ٹراٹسکی زندہ ہوتا تو یہ یقینی تھا کہ وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا بہتر کتاب شائع کرتا۔ وہ لکھے ہوئے خام مال کا بے رحمی سے جائزہ لیتے ہوئے مواد منتخب کرتا ۔ ایک ماہر مجسمہ ساز کی مانند وہ اس کی نوک پلک بار بار اور اس وقت تک سنوارتا رہتا جب تک کہ یہ ایک شاہکار فن پارہ نہ بن جاتا۔ ہم اس بلندی تک پہنچنے کی امید نہیں کر سکتے۔ ہم نہیں جا نتے کہ وہ عظیم انسان کون سا مواد منتخب یا رد کرتا۔ لیکن ہم پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم وہ تمام تحریری مواد جو موجود ہے وہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس کتاب سے وابستہ تمام مشکلات کے باوجود یہ ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ عام طور پر جن چیزوں کو عدم دلچسپی کا باعث سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ٹراٹسکی کی ان پر بھی انتہائی بصیرت پر مبنی تحریریں ملتی ہیں۔ مارکس، اینگلز اور لینن کی آخری تحریروں کی طرح ہی ٹراٹسکی کی آخری چند سالوں کی تحریریں ایک ایسے پختہ بالغ دماغ کی پیداوار تھیں جو زندگی بھر کے بے پناہ تجربات سے استفادہ کرنے کا اہل تھا۔ انتہائی دلچسپی کا حامل ہے وہ مواد جو ٹراٹسکی نے، سٹالن بطور ایک نظریہ دان، کے عنوان سے ایک ضمیمے کے طور پر لکھا تھا جو میرے علم کے مطابق پہلے کبھی شائع نہیں ہوا۔
وہ بے شمار مواد جو من مانے طریقوں سے اس کتاب سے نکال دیا گیا اور تین چوتھائی صدی تک دھول سے اٹے صندوقوں میں دفن رہا اس کو پہلی بار دنیا کے لئے قابل رسائی بناتے ہو ئے ہم نے نہ صرف ایک عظیم انقلابی کا قرض چکا دیا بلکہ انتہائی گراں قدر مواد پر مبنی نظریات کا خزانہ بھی اس نئی نسل کو فراہم کر دیا ہے جو اس دنیا کو بدلنے کے لئے درست نظریات اور پروگرام کی متلاشی ہے۔ یہی وہ واحدیادگار ہے جس کی اس نے کبھی خواہش کی ہو گی۔
لندن 18 مئی2016ء
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق، آخری تصنیف ’’سٹالن ‘‘ کا تعارف