|ترجمہ: ولید خان|
(یہ تقریر لیون ٹراٹسکی نے روس پہنچنے کے ایک دن بعد 5 مئی 1917ء کو پیٹروگراڈ سوویت کی میٹنگ کے موقع پر کی۔ آخری پیراگراف میں واضح ہے کہ جلاوطنی میں ایک دوسرے سے دوری کے باوجود لینن اور ٹراٹسکی روس میں رونما ہونے والے واقعات پر سیاسی طور پر متفق تھے۔ یہ تقریر 7 مئی 1917ء کو سوویت جرنل ازویستیا (دی نیوز) میں شائع ہوئی۔ قارئین کیلئے پیٹ ڈکنسن کا نیا ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
دور سمندر پار روسی انقلاب کی خبر ہمیں ملی لیکن وہاں بھی، اس طاقتور ملک میں جہاں بورژوازی کی بے نظیر حکومت ہے، روسی انقلاب کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ امریکی محنت کش طبقے کی ساکھ بہت خراب ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی محنت کش طبقہ انقلاب کی حمایت نہیں کرتا۔ لیکن اگر فروری میں آپ امریکی محنت کشوں کو دیکھتے تو اپنے انقلاب پر آپ کا فخر دگنا ہو جاتا۔ آپ کو احساس ہو جاتا کہ اس انقلاب نے صرف روس اور یورپ کو ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ اور پھر آپ کو میری طرح یقین ہو جاتا کہ اس انقلاب نے ایک نئے عہد کا آغاز کر دیا ہے، طاقت کی تبدیلی کا عہد، لیکن یہ عہد اب کسی قوم کا کسی دوسری قوم کے خلاف جدوجہد کا نہیں بلکہ مجبور استحصال یافتہ طبقے کی حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کا عہد ہے (پرجوش تالیاں)۔
ہر جگہ پر ریلیوں میں محنت کشوں نے مجھے آپ تک دلی خوشی کے پر مسرت جذبات پہنچانے کی تاکید کی(پرجوش تالیاں)۔ لیکن مجھے آپ سے جرمنوں کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ مجھے جرمن محنت کشوں کے ایک چھوٹے گروہ سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ آپ سوال کریں گے کہاں پر؟ ایک جیل کیمپ میں۔ برطانوی بورژوازی نے ہمیں بطور دشمن گرفتار کرکے کینیڈا میں ایک جنگی قیدیوں کے کیمپ میں بھیج دیا(شرم! شرم! کے نعرے)۔ وہاں 100 جرمن افسران اور 800 ملاح موجود تھے۔ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم روسی شہری، کس طرح سے برطانیہ کے ہاتھ لگ گئے۔ اور ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں بطورروسی شہری نہیں بلکہ بطور سوشلسٹ قید کیا گیا ہے تو انہوں نے ہمیں بتانا شروع کر دیا کہ ہم اپنی حکومت کے، اپنے ولہیم (پہلی جنگ عظیم میں جرمن شہنشاہ) کے غلام ہیں۔ ہم آپس میں بہت گہرے دوست بن گئے۔
قیدی افسران کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے برطانوی کمانڈر سے شکایت کہ ہم ان کے ملاحوں کی قیصر(ولہیم) سے وفاداری کو کمزور کر رہے ہیں۔ پھر برطانوی کپتان نے قیصر سے جرمن سپاہیوں کی وفاداری کا تحفظ کرنے کیلئے مجھ پر بات کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس معاملے پر ملاحوں نے کمانڈر سے پر جوش احتجاج کیا۔ جب ہم وہاں سے جا رہے تھے تو ملاحوں نے ہمیں موسیقی کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے پر جوش نعرے لگائے:’’ولہیم مردہ باد! بورژوازی مردہ باد! محنت کشوں کا عالمی اتحاد زندہ باد!‘‘(پرجوش تالیاں)۔ جرمن ملاحوں کے شعور کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اب تمام ممالک(کے محنت کشوں) میں ہو رہا ہے۔ روسی انقلاب عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
لیکن میں آپ سے یہ نہیں چھپا سکتا کہ اس وقت بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے میں متفق نہیں ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ حکومت میں شمولیت اختیار کرنا خطرناک تھا(دوسری عبوری حکومت کی طرف اشارہ ہے جو 5 مئی کو بنائی گئی اور جس میں دائیں بازو کے سوشلسٹ منشویک اور کسانوں کے نمائندے سوشل انقلابی شامل تھے۔کیونکہ منشویک اور سوشل انقلابی سوویت کی قیادت کر رہے تھے، سرمایہ داروں/جاگیرداروں کی یہ دانستہ کوشش تھی کہ محنت کشوں کی ابھرتی ہوئی قوت کا سد باب کیا جائے۔ منشویک اور سوشل انقلابی اس لائحہ عمل میں رضاکارانہ طور پر شامل تھے)۔ میں معجزوں پر یقین نہیں کرتا کہ ایک حکومت اوپر سے بنائی جا سکتی ہے۔ پہلے ہمارے پاس طاقت کی دوئی تھی جو دو طبقات کے تضادات کی وجہ سے وجود میں آئی(1905ء کے پہلے انقلاب کے بعد روس میں طاقت کی دوئی کی طرف اشارہ ہے)۔ لیکن ایک اتحادی منسٹری طاقت کی دوئی کا مسئلہ حل نہیں کرتی بلکہ طاقت حکومت کو منتقل کرتی ہے۔ اتحادی حکومت کی وجہ سے انقلاب ضائع نہیں ہو گا لیکن ذہن میں تین باتیں رکھنا بہت ضروری ہے:
1۔ بورژوازی پر مکمل عدم اعتماد
2۔ اپنی قیادت پر مکمل کنٹرول
3۔ اپنی انقلابی قوتوں پر اعتماد
میرا خیال ہے کہ آپ کا اگلا قدم، ورکروں اور سپاہیوں کے ڈپٹیوں کو تمام تر اختیارات کی منتقلی ہونا چاہیئے۔ صرف ایک یکتا قوت ہی ہے جو روس کو بچا سکتی ہے۔ عالمی انقلاب کے پیش خیمہ کے طور پر روسی انقلاب زندہ باد! (پرجوش تالیاں)۔