ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی میں تازہ روح پھونکنے کی جدوجہد

|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: ثناء اللہ جلبانی|

مارچ 1923ء میں فالج کے حملے کے باعث لینن کے معزور ہونے کے بعد بالشویک پارٹی کو از سر نو تعمیر کرنے کی ذمہ داری ٹراٹسکی نے سنبھال لی۔ اس تحریر میں نکلس البن سوینسن نے مستقبل کی لیفٹ اپوزیشن اور سٹالن، زنوثیف اور کامینیف کے گٹھ جوڑ ”تین کا ٹولہ“ کے مابین اختلافات پہلی بار کھل جانے کی وضاحت کی ہے۔ اور ان اختلافات میں آج کے عہد کے کمیونسٹوں کے لیے قیمتی اسباق کی نشاندہی کی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

1923ء کا سال سیاسی صورتحال کے حوالے سے سوویت یونین کے لیے بدترین ثابت ہوا۔ انقلاب روس کا قائد لینن علالت کے باعث کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں ہو پا رہا تھا۔ NEP نے خانہ جنگی کی معاشی بربادی سے وقتی طور پر کچھ سہارا دیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں فیکٹری مزدوروں کے حالات خراب ہو گئے اور ملک بھر کی فیکٹریوں میں ہڑتالوں کا آغاز ہو گیا۔ مزدوروں اور بالشویک پارٹی کے تعلقات بھی بگڑنے لگے۔ یہ سب NEP پالیسی کی ابھرتی ہوئی ریاستی بیوروکریسی کے تحت اطلاق کا خمیازہ تھا۔

انقلاب روس کے قائد لینن اور ٹراٹسکی بخوبی آگاہ تھے کہ بالشویک پارٹی کا ریاستی بیوروکریسی کی وجہ سے دم گھٹ رہا تھا اور وہ اس کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ لینن کے آخری مضامین اور خطوط خاص طور پر ریاستی بیوروکریسی کے خلاف اور بالشویک پارٹی کو اس مرض سے بچانے کے حوالے سے تھے۔ مارچ 1923ء کے فالج کے حملے نے لینن کو شدید علالت میں مبتلا کر کے سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے کا اہل نہیں چھوڑا تب یہ اہم کارنامہ بھی ٹرٹسکی کو سر انجام دینا پڑا اور اس نے بالشویزم کی حقیقی میراث کے دفاع کا علم بلند کیا۔

ریاستی بیوروکریسی کے خلاف نقارہ جنگ!

1923ء میں بالشویک پارٹی کی کانگریس کا انعقاد ہوا، یہ پارٹی کی تاریخ کی ایسی پہلی کانگریس تھی جو لینن کی غیر موجودگی میں منعقد ہوئی۔ لینن جو اس کانگریس کے لیے بیوروکریسی کے خلاف ”توپ کا گولہ“ تیار کر رہا تھا، افسوسناک طور پر اسے یہ پیش کرنے کا موقع کبھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا لینن ازم کے درخشاں اصول اور بڑھتی ہوئی بیوروکریسی کے ناگزیر تضادات کبھی منظر عام پر نہیں آ سکے۔

اکتوبر 1923ء میں ایک ایسا فیصلہ کن لمحہ آیا، جب ٹراٹسکی نے مرکزی کمیٹی کو ایک خط لکھ کر پارٹی میں بڑھتے ہوئے بیوروکریٹک رویوں کے متعلق تنبیہہ کی۔ اس نے لکھا کہ اگر اس رویے کا پارٹی کی قیادت شعوری طور پر سدباب کرنے کی کوشش نہیں کرتی تو یہ سیاسی اور معاشی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

”ذمہ داران کے انتخاب کے معاملے میں پارٹی کے ڈھانچوں میں انتہائی غیر متوازی طور پر بیوروکریٹک رویہ جنم لے چکا ہے۔ پارٹی کے ڈھانچے بہت وسیع ہو چکے ہیں، اس میں کام کرنے والے بے تحاشہ ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے کھلے عام بالشویک پارٹی کا مؤقف تک ترک کر دیا ہے، ان کا زعم ہے کہ پارٹی کے اندر ذمہ داریوں کی درجہ بندی پر ہی پارٹی کا مؤقف اور فیصلے منحصر ہیں۔ لیکن ان کے نیچے پارٹی کارکنان کی وسیع پرت موجود ہے، جس کے پاس فیصلے ان ذمہ داران کے خطاب یا حکم نامے کی صورت میں آن ٹپکتے ہیں، ان کارکنان کی اپنی رائے شامل ہی نہیں ہوتی۔ پارٹی کی بنیاد بنانے والے ان اکثریتی عام کارکنان میں شدید عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔“

ٹراٹسکی نے مقامی ذمہ داران کے انتخاب کے عمل پر، جس کے نتیجے میں مرکز میں بھی ایک بیوروکریٹک اشرافیہ بن جاتی ہے، تیز دھار الفاظ میں حملہ کیا۔ اس نے وضاحت کی کہ کس طرح یہ عمل پارٹی کے اکثریتی ممبران اور پورے محنت کش طبقے کو فیصلہ سازی سے لا تعلق کرتا جا رہا ہے۔ انہیں کسی بحث یا فیصلے پر اپنی رائے دینے کا موقع نہیں دیا جاتا، بلکہ ان کو ا یک لگے بندھے فارمولوں کی شکل میں حکم نامہ صادر کیا جاتا ہے۔ اس سے ان کی شمولیت ”کہیں زیادہ عارضی بنتی جا رہی ہے۔“

اس خط کے بعد نامور انقلابی بالشویکوں کے گروپ کی جانب سے مرکزی کمیٹی کو ’ڈکلیریشن 46‘ بھیجا گیا۔ جس میں دیگر مطالبات سمیت اوپر سے ذمہ داران کے تعین کا خاتمہ شامل تھا۔

ان دونوں میں ذمہ داران کے تعین کے مسئلے کو ہدف بنایا گیا، کیونکہ یہ اس وقت واقعی نقصان دہ بن چکا تھا۔ اوپر ہی سے ذمہ داران کے انتخاب سے ہر سطح پر ایک مخصوص انتظامی پرت جنم لے چکی تھی جو کہ پارٹی کے اوپر کے ڈھانچوں کو جوابدہ تھی نہ کہ ممبران کو۔ ماضی میں جب پارٹی کے ڈھانچے نسبتاً سیاسی طور پر مضبوط تھے، اس طرح کے انتخاب کا یہ نتیجہ نہیں نکلتا تھا، جیسا کہ ٹراٹسکی نے اشارہ کیا کہ یہ بہت محدود سطح پر تھا۔ جیسے کہ اب یہ اوپری ڈھانچوں سے وفاداری کی بنیاد پر ہو رہا تھا، اس لیے اس سے پارٹی میں بیوروکریٹک رویوں کے بڑھنے کو شہہ مل رہی تھی۔ ٹراٹسکی نے بعد میں وضاحت کی کہ یہ ”پارٹی کے اندر ٹھیک ٹھاک منظم غیر قانونی گروہ“ تھا، جہاں پارٹی اور ریاستی آفیشلز کے ”منظم انتخاب کا واحد معیار: ٹراٹسکی کی مخالفت“ تھا۔

اکتوبر کے ان خطوط نے تناؤ کو بڑھا دیا، جسے پھر جرمنی کے کمیونسٹوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکامی نے مہمیز دی، لہٰذا مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کے بعد سوویت یونین کو مدد ملنے کی امید بھی ختم ہو گئی۔ اکتوبر کے آخری ایام میں اس ”تین کے ٹولے“ نے سازشی طور پر مرکزی کمیٹی اور سینٹرل کنٹرول کمیشن کا اجلاس بلایا جس میں ٹراٹسکی شدید علالت کے باعث شرکت نہیں کر پایا، بیماری کے ایام میں 1923ء کے آخری تین ماہ میں اس کی سیاسی سرگرمیاں بہت متاثر رہیں۔

اس اجلاس میں لینن اور ٹراٹسکی کی جانب سے پارٹی کے حوالے سے جس سیاسی سمت کا خاکہ کھینچا گیا تھا ”آن دی انٹراپارٹی سچوئیشن“ نامی قرارداد پر اتفاق کیا گیا، مگراس کے پیچھے بھی مقصد یہ تھا کہ کسی طرح ٹراٹسکی اور 46 بالشویکوں کی سرزنش کی جائے کہ یہ پارٹی میں ”دھڑے بندی کر کے پھوٹ ڈالنے کی پالیسی“ پر عمل پیرا ہیں۔ ”تین کا ٹولہ“ پھر بھی خود کو غیر محفوط سمجھ رہا تھا، چونکہ لینن کی صحت کے حوالے سے تب بھی گومگو کی کیفیت تھی اس لیے اس سازشی ”تین کے ٹولے“ کو وقتی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔

پارٹی کی جمہوری اساس، جس کی ممبران کی اکثریت قائل تھی، اس اہم معاملے کو حزب اختلاف کھل کر پارٹی کے اخبار ’پراودا‘ میں لے آئی۔ پہلے یہ بحث معاشی معاملات تک محدود رہی اور اگلے مرحلے میں پارٹی کے اندرونی سوالات تک بھی سامنے لائے گئے۔ نومبر کے اختتام پر پریوبراژنسکی (جو کہ اکتوبر میں خط لکھنے والے 46 سی سی ممبران میں سے تھا) نے پارٹی کے اندرونی معاملات پر پارٹی کے ذمہ داران کی برملا مخالفت کی۔ اس کے نتیجے میں جاری تضاد دوبارہ بھڑک اٹھا۔

”تین کا ٹولہ“ پھر ٹراٹسکی کے ساتھ معاملات بہتر کرنے پر مجبور ہوا۔ نتیجتاً پولٹ بیورو اور سینٹرل کنٹرول کمیشن کی صدارت میں ایک مشترکہ سیشن رکھا گیا، جس میں 5 دسمبر کی قرارداد کو پاس کیا گیا۔

5دسمبر کی قرارداد میں پارٹی کے اندرونی معاملات کی وضاحت، مسئلے کے تجزیے اور عمومی سمت جس میں پارٹی کو بڑھنا چاہیے، دراصل سیاسی طور پر ٹراٹسکی کے مؤقف کا ہی عکس تھا۔ بہرحال اس میں مرکز کی طرف سے ذمہ داران کی تقرری کے نظام کو ختم کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا، اور مرکزی کمیٹی کی اکتوبر قرارداد کی حمایت کی گئی، جس میں ٹراٹسکی کی ”دھڑے بندی“ کی مذمت کی گئی تھی، ساتھ ہی ”پولٹ بیورو کی طرف سے پارٹی میں جمہوریت کے متعلق لائحہ عمل“ کی توثیق کی گئی۔ یہ ٹراٹسکی کی کوئی فیصلہ کن جیت تو ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ”تین کے ٹولے“ کے غلیظ سازشی حربوں کا ہی ایک ملغوبہ نکلا، جس کے تحت وہ اپنی گرفت مضبوط کرنے اور خود پر تنقید سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ای ایچ کار (E.H. Carr) اور دیگر غیر مارکسی تاریخ دان ٹراٹسکی پر ”بیوقوف“ ہونے کا الزام لگاتے ہیں، جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ ٹراٹسکی معاملے کی گہرائی سے بخوبی آگاہ تھا اور وہ اس کے حل کے لیے سب سے شاندار جدوجہد کر رہا تھا۔ خاص طور پر اس مسئلے کی درست سمجھ بوجھ کی وجہ سے وہ انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔

بیوروکریٹک رویوں کے پنپنے کے لیے سازگار حالات

اس قرارداد کی تمام تر خامیوں کے باجود ٹراٹسکی اس کا بھرپور اطلاق چاہتا تھا۔ دسمبر 1923ء میں مضامین اور تقریروں کی سیریز میں (جو بعد میں ”دی نیو کورس“ کے عنوان سے شائع ہوا) اس نے بالشویک پارٹی کے ”نیو کورس“ کے متعلق اپنائے گئے مؤقف کی وضاحت کی۔

ٹراٹسکی کا خیال یہ نہیں تھا کہ بالشویک پارٹی کی قیادت کچھ فلاں فلاں غلطیوں کی وجہ سے بیوروکریٹک رویے کا شکار ہو رہی ہے۔ بلکہ بجا طور لینن کی طرح وہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ مادی حالات کی وجہ سے جنم لے رہا ہے، خاص طور پر اس رویے کی بنیاد روسی سماج کی پسماندگی میں ہی مضمر ہے۔

اس رویے کی اصل جڑ روس کے محنت کش طبقے کی کمزوری ہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ اور پھر خانہ جنگی سے بدحال محنت کش طبقے کو اب ریاستی امور بھی سنبھالنا پڑ رہے تھے۔ ان حالات نے لائق ترین محنت کشوں اور پارٹی کے تیار کردہ کیڈرز کو نئی ریاست اور اقتصادی آلات کی تعمیر میں پھنسا دیا۔ یہی ممکن تھا کیونکہ بالشویک پارٹی اور محنت کش طبقے کو اب ریاست پر گرفت مضبوط کرنی تھی:

”ہمیں ابھی بھی لمبے عرصے تک ریاست کے مختلف عہدوں، ٹرید یونین، کوآپریٹیوز، اور پارٹی کے ڈھانچوں کو سب سے تجربہ کار اور سرگرم ترین پارٹی ممبران (بشمول، فطرتاً وہ جن کا تعلق محنت کش پس منظر سے ہے) کو ہی سونپنا پڑے گا۔ اور اس مجبوری سے بڑا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے، کیونکہ یہ بیوروکریٹک رویے کے پنپنے کی بھی ایک وجہ ہے۔“

یہ حقیقت کہ کمیونسٹوں نے انقلاب کر دیا تھا اور تحریک میں شمولیت کی دراز تاریخ بھی تھی، اس میں کسی طور بھی بیوروکریٹک رویے نہ ابھرنے کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔ ٹراٹسکی نے اس کی ”بے ہودہ عقیدت مندی“ کہہ کر تردید کی۔ اس نے مزید وضاحت کی کہ:

”سوویت ریاست کی روزمرہ کی بیورکریٹک عملداری پارٹی کے اندر بھی بیوروکریٹک رویوں کے پروان چڑھنے کا باعث بن رہی ہے۔ اجتماعی طور پر پارٹی اپنی قیادت کو محسوس ہی نہیں کر پاتی کیونکہ وہ اس کا ادراک ہی حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔“

بنیادی طور پر بیوروکریٹک رویہ پارٹی میں بہت سست رفتاری سے بڑھ رہا تھا لہٰذا اس وقت بالشویک اس کا احساس نہیں کر پا رہے تھے۔ حتمی طور پر یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کی کامیابی اور معاشی ترقی سے ہی اس کا سدباب کیا جا سکتا تھا، ”مگر اس کاپورا ملبہ ان معروضی حالات پر ہی گرانا، ایک مہلک غلطی ہو گی“۔ ضروری یہ تھا کہ اس پورے عمل کی وضاحت کی جاتی تاکہ پارٹی شعوری طور پر اس سے نمٹ سکتی۔ ٹراٹسکی کے تجویز کردہ ”نیو کورس“ کا جوہر یہی تھا۔

نوجوان

بالشویک پارٹی کے حوالے سے ٹراٹسکی کے اس وقت کے تجزیے کی افادیت بہت وسیع ہے۔ اس کے مضامین میں قیادت اور کارکنان کے مابین تعلق، جمہوریت اور مرکزیت کے تعلق، روایتی کام اور نئی ترکیبوں کے تعلق کی بخوبی وضاحت ملتی ہے۔ ان میں پارٹی کی دوبارہ صف بندی اور کام کے کرنے کے پرانے طریقہ کار کو ترک کرنے کی ضرورت کی بھی وضاحت ملتی ہے۔ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا آج کے عہد میں پارٹی تعمیر کرتے ہوئے کمیونسٹوں کو سامنا ہو سکتا ہے۔

لینن اور ٹراٹسکی دونوں یہ سمجھتے تھے کہ نوجوان ہی سوویت یونین کے مستقبل کے معمار تھے۔ جس طرح تمام انقلابی تنظیموں نے اپنی قوتیں اور توانائی نوجوانوں میں ہی پائی ہے، بالشویکوں کو بھی ان نوجوانوں میں ہی بنیادیں بنانی ہوں گی۔ یہی وجہ تھی کہ حزب اختلاف (پارٹی میں بیوروکریٹک رویوں کی مخالفت کرنے والے) بھی اس نوجوان نسل میں اپنی بنیادیں پیوست کرنے کامیاب ہوئی۔

بہت ہی کلیدی سوال جس پر ٹراٹسکی نے بار ہا اسرار کیا، یہ تھا کہ پارٹی کو نئی جلا بخشنے کے لیے اس نوجوان نسل کو پارٹی کے کاموں میں شامل کرنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تمام تر کاوشیں اور وقت نوجوانوں میں گھل جانے پر صرف کیا جائے تاکہ ان کا معیار بلند کیا جا سکے:

”جمہوری انداز میں نئی نسل کے ساتھ مسلسل بھرپور تعاون کی بدولت ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اولڈ گارڈ اپنے انقلابی کردار کو برقرار رکھ سکے۔ یقیناً یہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرتے ہوئے انجانے میں افسر شاہی کا ایک مکمل اظہار بھی بن سکتا ہے۔“

اس نے پارٹی میں موجود پرانی نسل کو ایک واضح دو راہے پر لا کھڑا کر دیا۔ لہٰذا وہ نوجوان نسل کے ساتھ بھرپور تعاون کر کے انہیں اپنی خوبیاں نکھارنے کا موقع دیں یا پھر بگاڑ پیدا کرنے والوں میں اپنا شمار کروا لیں۔

ٹراٹسکی اس سوال کو حل کرنے پر انتہائی احتیاط برت رہا تھا کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ کس طرح تعلیم و تربیت کا عمل مجرد اور خشک بنتا جا رہا تھا، گو کہ حقیقی زندگی کی رونق سے کوسوں دور تھا۔ اس نے نوجوانوں کے نظریاتی معیار کو بلند نہ کر پانے پر ”خالص پیشہ وارانہ، تدریسی طریقے“ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے بیان کیا کہ ہر نسل کو بذات خود نظریات پر عبور حاصل کرنا پڑے گا:

”وہ ذرائع اہمیت کے حامل ہیں جن سے فوج کی لڑنے کی روایت یا پارٹی کی انقلابی جدوجہد کی تاریخ کا علم نوجوانوں تک منتقل کیا جاتا ہے۔ اس علم کی منتقلی کی خاطر سلسلہ نسب اور روایت کا تسلسل ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر مستحکم یا ہموار ترقی نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ کوئی پھکی یا لگا بندھا فارمولا نہیں ہوتا؛ یہ نہ تو جنم سے ورثے میں ملتا ہے، نہ الہامی طور پر نازل ہوتا ہے اور نہ ہی بزرگوں کی ہر بات کو مقدس سمجھ کر یقین کیا جا تاہے۔ اس کے برعکس وہ تمام روایات سخت مشقت کے بعد سیکھی جائیں، انہیں خود بھی تنقیدی نگاہ سے پرکھا جائے اور پھر جا کے اپنایا جائے۔ ورنہ یہ پوری عمارت کی بنیاد ہی ریت پر کھڑی ہوئی ثابت ہو گی۔“

پارٹی میں موجود پرانی پرتوں کی جانب سے آنے والی اس رکاوٹ کا سامنا پہلی بار نہیں تھا، بلکہ لینن نے بار ہا ان کے خلاف جدوجہد کی تھی، زنووییف، کامینیف اور سٹالن کئی بار اس رجحان کا مجسم اظہار بن کر ابھرے تھے۔ لینن ان سب کو ”پرانے بالشویک“ یا ”کمیٹی مین“ کہہ کر مخاطب ہوا کرتا تھا۔ انقلاب روس کے ہر فیصلہ کن مرحلے پر ان لوگوں نے ہمیشہ قدامت پسندانہ کردار ادا کیا۔

سر تا پا ایک مکمل جنگجو

”لینن ازم ماضی پرستی، لکیر کا فقیر بننے یا محض رسمی حوالہ جات کا مقید ہو جانے سے مکمل آزادی کا نام ہے۔“

ہر بار اولڈ گارڈز نے لینن اور ٹراٹسکی کے خلاف محاذ آرائی میں ’بالشویک پارٹی کی روایات‘ کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ ٹراٹسکی نے ایسے خیالات پر تند حملہ کرتے ہوئے انہیں رد انقلابی قرار دیا۔ ایک جگہ پر اس نے ایسے رویے کی جرمن سوشل ڈیمورکرٹیک پارٹی سے مماثلت بھی بیان کی، کہ جب وہ پارٹی قدرے پر سکون حالات میں نری روایات کے تحفظ کرنے کے مرض میں مبتلا تھی:

”وہ روایت جس سے ہم بیگانہ تھے، وہ ایک وقت پر نیم خود رویانہ شکل اختیار لیتی ہے۔ ہر دن گزرے ہوئے دن کی مانند ہوتا تھا اور ہر آنے ولا کل آج سے مختلف نہیں ہوتا تھا۔ تنظیم جوان ہو رہی تھی، اشاعت کا کام ترقی کر رہا تھا، پارٹی فنڈ زیادہ اکٹھا ہو رہا تھا۔۔۔

”اسی روٹین ازم کے نتیجے میں بیبل کے بعد والی ایک پوری نسل نے بیوروکریٹوں، نِکموں اور بیزار کر دینے والے بیوقوفوں کا روپ دھار لیا۔ جن کا سیاسی کردار سامراجی جنگ کے پہلے جھٹکے میں عیاں ہو گیا۔“

]مترجم: پہلی عالمی جنگ کے دوران اس پارٹی کے روزا لکسمبرگ، کارل لبنیخت سمیت چند انقلابیوں کو چھوڑ کر باقی سب نے اپنے ملک کے حکمرانوں کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا، اور مزدوروں کے جنگ مخالف عالمی اتحاد کے قیام کی مخالفت کر دی تھی۔[

تاریخ کے ہر فیصلہ کن لمحے پر ایسی روایات جو بے تکی عادت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، پارٹی کی بڑھوتری میں بڑی رکاوٹ کا موجب بن جاتی ہیں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ ایسے انقلابیوں کا فرض بن جاتا ہے کہ جو پرانے زمانے کی معاشی زنجیروں کوبھی توڑنا چاہتے ہیں اور نوع انسان کے ذہنوں اور خیالات میں بھی بدلاؤ چاہتے ہیں، وہ اپنے اندر سے بھی مسلسل روٹین ازم اور قدامت پرستی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے جدوجہد کو جاری رکھیں۔

”ہر بدلے ہوئے معروضی حالات ایک نئی سمت کے تعین، جراتمندانہ فیصلوں اور تخلیقی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں، قدامت پسندانہ خیالات اور ”پرانی روایات“ کو بجا طور پر اب پرانے بالشویزم کے نام سے پکارا جا رہا ہے جو کہ اس وقت ماضی کے کوڑے دان کا حصہ بن چکا ہے۔“

ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ کس طرح کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پوری تاریخ ہر نئے موڑ پر پرانی قوتوں اور قدامت پسند عناصر سے برسر پیکار رہنے سے بھری ہوئی ہے۔ اس سے قطع نظر کے یہ موڑ ”بائیں“ یا پھر کہہ لیجیے ”دائیں“ جانب رہا ہو۔

ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ کس طرح لینن نے 1921ء میں الٹرالیفٹ ازم کے خلاف لڑائی لڑی تھی ”انٹرنیشنل کو تباہ ہونے اور گل سڑ جانے سے بچا لیا، جب کہ خود رو طور پر ”لیفٹ ازم“ کی کھائی میں گرنے کا خدشہ تھا اگر اس کا جائزہ نہ لیا جاتا۔ جو کہ پہلے ہی مختصر سے عرصے میں گھمبیر روایت بن چکی تھی۔“

1921ء میں کامیاب جدوجہد کے وقت جو متحدہ محاذ بنایا گیا تھا اب 1923ء میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ ٹراٹسکی نے لکھا کہ اس متحدہ محاذ نے ”انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا، خاص طور پر 1923ء کے آخری ماہ میں“۔ دوسرے الفاط میں اس نے جرمنی کے انقلاب کو ناکام بنایا۔ ایک نئی سمت کا تعین ناگزیر بن چکا تھا:

”اگر کمیونسٹ پارٹی ان پانچ یا چھ ما ہ میں کام کا طریقہ کار بدلتے ہوئے اقتدار پر قبضے کی تیاری کے لیے سیاسی، تنظیمی، تکنیکی بدلاؤ لاتی تو واقعات کے نتائج بالکل مختلف ہوتے جو کہ نومبر میں نمودار ہوئے۔“

ٹراٹسکی نے لینن ازم کو ”سر تا پا ایک مکمل جنگجو“ ہونا قرار دیا اور یہ بہت زبردست وضاحت ہے۔ یہی تو اصل جدوجہد ہے کہ اپنے نظریات کو عمل میں پرکھا جائے کہ کیا درست ہے کیا نہیں۔ ہم حقیقی زندگی میں اپنے منصوبوں، تجربات اور نظریات کی جانچ کرتے ہیں:

”ایک بار جب جدوجہد کا آغاز کر دیا پھر لگے بندھے فارمولے یا لکیر کی پیروی مت کریں، بلکہ حقیقت میں ڈوب جائیں اور کامیاب ہونے کے لیے تمام ضروری قوتیں تلاش کریں۔“

پارٹی میں جمہوریت اور مرکزیت کے مابین تناسب

پارٹی کی سمت درست کرنے کا آغاز قیادت سے ہوتا ہے:

”اس معاملے میں گارنٹی صرف یہ ہے کہ قیادت کی سمت ٹھیک ہو، جو کہ وقت و حالات کی ضروریات کے پارٹی میں منعکس ہونے کا بغور ادراک کر پا رہی ہو، پارٹی کے ڈھانچوں کو اس قدر لچکدار ہونا چاہیے کہ وہ پارٹی میں نئے اقدامات اٹھانے کا باعث بنیں نہ کہ پارٹی کو ہی مفلوج کر دیں۔ نہ ہی پارٹی کی قیادت کو دھڑے بندیوں اور تنقید سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔“

اس وقت بالشویک پارٹی اپنے الٹ میں بدلتی جا رہی تھی۔ تنقید کو ”دھڑے بندی کا باعث“ کہا جا رہا تھا، نئے اقدامات کو روکا جا رہا تھا، یہ سب پارٹی کی قیادت اور ’اتحاد‘ کو برقرار رکھنے کے نام سے کیا جا رہا تھا۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے نشاندہی کی کہ ایسے اقدامات دھڑے بندیوں کا سد باب کرنے کی بجائے، اس کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ اقدامات افسر شاہانہ دھڑے کو فائدہ پہنچا رہے تھے، جس سے تمام ممبران تک کھلی بحث کی بجائے بند کمروں کی سازشیں پروان چڑھنے لگیں۔

”جمہوریت اور مرکزیت پارٹی کے دو اہم پہلو ہیں۔ حالات کی مناسبت سے ان دونوں کو بہترین انداز میں ہم آہنگ کیا جائے۔ پچھلے عرصے میں یہ تناسب درم برہم ہو چکا ہے۔ غلط انداز میں اس کا پلڑا پارٹی کے ڈھانچوں تک محدود بحث کی جانب جھکا ہوا ہے۔ پارٹی میں نئے اور تخلیقی اقدامات کو نہ ہونے کی حد تک کم کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بنیادی طور پر قیادت کی عادات اور کام کا طریقہ کار پارٹی کی انقلابی روح سے متصادم ہو جاتا ہے۔“

ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ جمہوریت اور مرکزیت کا تناسب طے شدہ یا جامد نہیں ہوتا بلکہ وہ حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ حد سے زیادہ مرکزیت پارٹی کے کارکنان کو نئے اقدامات اور ان کو مداخلت سے محروم کر دیتی ہے۔ خانہ جنگی کے حالات میں اس لازمی برائی کو مجبوراً اپنایا گیا مگر اب، 1923ء میں خطرناک بن گیا تھا۔

یہ کسی ایک ”پالیسی یا تبدیلی“ کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ ”پارٹی کے عمومی اپریٹس کی پالیسی کا بیوروکریٹک رجحان پر مبنی ہونا تھا“۔ یہ محض تنظیمی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ ناگزیر طور پر اس کا منطقی انجام سیاسی انحراف تھا۔

”طویل عرصے تک چلنے کے بعد افسر شاہی پارٹی قیادت کو عوام سے بیگانہ کر دیتی ہے، انہیں تقرریاں اور تبادلے کرنے، محض انتظامی امور سنبھالنے میں الجھا دیتی ہے، اور ان کی وسعتِ نظر کمزور ہو جاتی ہے، ان کا انقلابی جذبہ مانند پڑ جاتا ہے، یعنی کہ اولڈ گارڈز یا پھر اس کے ایک بڑے حصے کو مفاد پرستانہ زوال پذیری کی جانب دھکیل دیتی ہے۔“

ٹراٹسکی نے یہاں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا آنے والی کئی دہائیوں تک کمیونسٹ انٹرنیشنل کو سامنا رہا۔ ایسے کئی مواقع آئے کہ پلڑا الٹرالیفٹ کی طرف رہا لیکن عمومی طور پر اس کا رجحان دائیں طرف ہی رہا، جس کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔

”تین کے ٹولے“ اور اس کے حواریوں نے ٹراٹسکی کی تجاویز کو سنا ان سنا کر دیا۔ جیسا کہ لینن کی طبیعت بہت ناساز تھی، جنوری 1924ء کی پارٹی کانفرنس میں اس ٹولے نے بڑی عجلت سے ’پراودا‘ میں بحث کو سمیٹا، اور یوتھ آرگنائزیشن اور حزب اختلاف قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

سیاسی طور پر بیوروکریٹک رویوں کا ابھرنا منشویزم کا ہی احیاء تھا، مگر اب یہ ’کمیونسٹ‘ کے بھیس میں تھا۔ اس نے انقلاب کے مرحلہ واریت کے نظریے کو منظر عام پر لا کھڑا کیا، اور ”ترقی پسند بورژوازی“ کے ساتھ اتحاد کی حمایت کی وکالت کی، جبکہ لینن لبرلز پر کبھی بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ”ایک ملک میں سوشلزم“ کی پالیسی کے تحت عالمی انقلاب سے غداری کی گئی، جس کا اختتام پھر خروشچیف کے ”پر امن بقائے باہمی“ جیسے رد انقلابی نظریے پر ہوا۔ یہ تمام نظریات اس تنگ نظر بیوروکریسی کا ہی عکس تھے، جو انقلابی تحریکوں اور نئے اقدامات اٹھانے کے جذبے کو خطرہ سمجھتی تھی۔

ٹراٹسکی کے ان نیوکورس نامی مضامین نے اس بڑھتے ہوئے بیوروکریٹک رویوں کے خلاف جدوجہد اور لیفٹ اپوزیشن (حزب اختلاف) کے لیے نظریاتی راہ ہموار کی۔ مگر ان مضامین میں جو اسباق پنہاں ہیں وہ صرف تاریخی اہمیت کے حامل نہیں۔ وہ انقلابی جذبہ اور میتھڈ جس کا کامریڈ ٹراٹسکی امین تھا، ان ہی بنیادوں پر مستقبل کی عالمی انقلابی پارٹی تعمیر کی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.