|تحریر: راشد خالد|
انقلابِ روس کے بانی لیون ٹراٹسکی پر آج سے 79سال قبل 1940ء میں 20اگست کو برف توڑنے والے کلہاڑے سے ایک ایسا قاتلانہ حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن 21اگست کو دنیا سے چل بسا۔ یہ حملہ ٹراٹسکی پر کوئی پہلا حملہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی اس کے گھر پر حملہ ہو چکا تھا جب اس کے گھر پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی لیکن اتفاق سے ٹراٹسکی اس حملے میں بال بال بچ گیا تھا۔ مگر 20اگست کو حملہ کرنے والا تربیت یافتہ قاتل رامون مرکیڈور تھا جس نے پہلے ٹراٹسکی تک انتہائی مکاری سے رسائی حاصل کی اور اس حملے کے لئے ایک طویل وقت تک حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
ٹراٹسکی پر حملے کا ٹاسک براہ راست سٹالن کی طرف سے دیا گیا تھا اور یہ حیران کن نہیں تھا۔ جب سے ٹراٹسکی میکسیکو پہنچا تھا سٹالنسٹ میڈیا مسلسل ٹراٹسکی پر غلیظ حملے کر رہا تھا اور اس کی شخصیت اور کردار پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف تھا۔ ہسپانوی خانہ جنگی کے اختتام پر سوویت خفیہ ایجنسی کے کئی ایجنٹس کو اس کام کے لئے میکسیکو بھجوایا گیا۔ جس کے نتیجے میں پہلا حملہ مئی 1940ء میں کیا گیا جس کے نتیجے میں ٹراٹسکی تو بچ گیا مگر اس حملے میں ٹراٹسکی کا سیکرٹری اغوا کر لیا گیا اور بعد ازاں اس کی لاش دریافت ہوئی۔ سٹالن ٹراٹسکیکو قتل کرنے کے لیے پاگل پن کی انتہا پر پہنچ چکا تھا اور محض ٹراٹسکی ہی نہیں وہ انقلابِ روس کو برپا کرنے میں شامل تمام افراد کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ ٹراٹسکی سے قبل بالشویک پارٹی کی قیادتسمیتہزاروں بالشویک پارٹی کے سرگرم کارکنان 1930ء کی دہائی کی سٹالنسٹ تطہیرات (Purges) کا شکار ہو چکے تھے۔ نام نہاد عدالتی مقدمات میں ان سیاسی کارکنان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے جہاں سٹالنسٹ نوکرشاہی کے جبر تلے ان کے پاس ثابت کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اسی عمل نے ردِانقلابی سٹالنزم اور انقلابی بالشوازم کے مابین ایک خونی لکیر کھینچ دی۔
سٹالن جانتا تھا کہ انقلاب سے غداری کرنے کے بعد اسے انقلاب سے جڑی تمام کڑیوں کو مٹانا ہو گا اور ایسے میں بالشویک نظریات اور عالمی انقلاب کے داعیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اس کے لئے ناگزیر تھا تاکہ انقلاب کی جھوٹی تاریخ لکھی جائے اور اسے سٹالنزم کے حق میں استوار کیا جا سکے اور بالشویک نظریات پر سٹالنزم کی ملمع کاری کی جاسکے۔ اس عمل کا آغاز بھی لیون ٹراٹسکی کے ساتھ ہی ہوا جب اسے پہلے پارٹی سے نکالا گیا اور بعد ازاں 1929ء میں سوویت یونین سے جبری بے دخل کر دیا گیا۔ تطہیرات کے اس عمل میں ٹراٹسکی کے چاروں بچے بھی قربان ہوئے۔ اس کے بیشتر قریبی کامریڈز کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی رہی۔ چونکہ ٹراٹسکی ناصرف انقلابِ روس کا ایک قائد تھا بلکہ مارکسی نظریہ دان اور سوویت یونین کی تعمیر کرنے والا اہم قائدبھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹراٹسکی کا زندہ رہنا سٹالن کے لئے مسلسل ایک خطرہ تھا۔
ٹراٹسکی نے 1905ء میں انقلابِ مسلسل کا نظریہ دیا جو بعد میں 1917ء کے انقلابِ روس میں عمل کی کسوٹی پر پورا اترا۔ ٹراٹسکی نے ایک ایسے وقت میں انقلابِ مسلسل کا نظریہ دیا جب پوری دنیا کے لئے سوشلزم ایک خواب تھا اور روس میں سرمایہ داری انتہائی پسماندہ تھی۔ روسی سماج کی وسیع پرتیں ابھی تک زراعت سے وابستہ تھیں اور صنعت محض چند ایک بڑے شہر وں تک ہی محدود تھی اور آبادی کا ایک انتہائی قلیل حصہ صنعت کے ساتھ وابستہ تھا۔ یہ کیفیت صرف روس میں ہی نہیں تھی بلکہ سامراجی نوآبادیات میں سے بڑی اکثریت بھی اسی طرح کے پسماندہ حالات سے دوچار تھی۔ ایسی کیفیت میں ٹراٹسکی نے انقلابِ مسلسل کے نظریے کے ذریعے یہ واضح کیا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سماج کی پسماندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ پسماندہ سماجوں کا ارتقائی عمل میں مغربی دنیا کی طرح تمام ترمراحل سے گزرنا لازمی نہیں ہے۔ ان پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری اپنے تاریخی فرائض سرانجام دینے سے قاصر رہی ہے اور یہاں موجود سرمایہ دار طبقے کے پسماندہ کردار کی بدولت یہ سماج کو ترقی دینے کے قابل ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داری کے ناقابل ادا فرائض بھی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی پورے کرنے ہوں گے جس کی قیادت مزدور طبقہ کرے گا۔
بیسویں صدی کے آغاز پرروسی سوشل ڈیموکریسی کی تاریخ سوشلسٹ انقلابیوں کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ اس کی کانگریسوں اور پرچوں میں ہونے والی بحثیں مارکسی علم کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انقلاب کے کردار اور انقلاب کی قیادت کے سوال پر ٹراٹسکی ابتدا سے ہی دوٹوک مؤقف کے ساتھ کھڑا تھا۔ 1903ء میں ہونے والی روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں پھوٹ کے وقت وہ بالشویک دھڑے کا حصہ نہیں تھا اور تنظیم کے مؤقف پر لینن کے سخت گیر مؤقف کا ناقد بھی رہا ہے۔ اسی طرح انقلاب کی قیادت کے سوال پر بھی 1917ء تک لینن اور ٹراٹسکی میں اختلاف موجود رہا۔ لیکن لینن نے اپریل تھیسس میں ٹراٹسکی کے مؤقف کی حمایت کی جس کی وجہ سے لینن پر بھی تنقید کی گئی مگر لینن اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا تھا جو ٹراٹسکیRSDLPکی پھوٹ کے وقت اخذ کر چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1917ء کے انقلابی حالات نے دونوں انقلابیوں کے راستے ملا دیئے۔
پہلی عالمی جنگ کے موقع پر جب دوسری انٹرنیشنل کی قیادت نے مارکسی نظریات سے غداری کی اور مارکسزم کے پرولتاری بین الاقوامیت کے نظریات کے دفاع میں ایک چھوٹی اقلیت ہی بچی اس وقت بھی ٹراٹسکی اس اقلیت کا حصہ تھاجس میں لینن اور روزا لگسمبرگ بھی شامل تھے۔ دوسری انٹرنیشنل کی قیادت کی موقع پرستی کے خلاف 1915ء میں زمروالڈ کانگریس کا انعقاد کیا گیا؛ جس کے حوالے سے لینن نے ازراہ تفنن کہا تھا کہ عالمی انقلاب کی قیادت کو ایک بگھی میں سما سکتی ہے۔ اس کانگریس نے موقع پرست قیادت اور عالمی جنگ پر واضح اور دوٹوک مؤقف دیا۔ سامراجی جنگ کی مخالفت کی اور انقلابی جدوجہد کی حمایت کی۔ زمروالڈ کانگریس میں شریک یہ چند ایک انقلابی دوسری انٹرنیشنل کی لیفٹ اپوزیشن کہلائے اور اسی لیفٹ اپوزیشن نے 1917ء میں روس کے انقلاب کی قیادت بھی کی۔
ٹراٹسکی نہ صرف 1905ء کے انقلاب میں سینٹ پیٹرز برگ سوویت کا چیئرمین رہا بلکہ 1917ء میں بھی دوبارہ پیٹروگراڈ سوویت کا چیئرمین منتخب ہوا۔ ردِانقلاب کے خلاف محنت کشوں اور سپاہیوں کی سوویتوں کو منظم کرتے ہوئے جولائی میں جنرل کارنیلوف کی رجعت کا مقابلہ کیا اور انقلابی قوتوں کے قبضے میں پیٹروگراڈ کا دفاع کیا۔ یہ عمل پورے روس میں محنت کشوں کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنا۔ انقلاب کے بعد طویل جنگ سے پژمردہ فوج سے ایک طاقتور سرخ فوج کی تعمیر کا عمل ٹراٹسکی کی سیاسی قابلیت کے ساتھ ساتھ جنگی صلاحیتوں کا بھی اظہار تھا۔ اسی سرخ فوج نے سامراجی ممالک کے حملوں اور داخلی ردِانقلابی خانہ جنگی کیخلاف ایک کامیاب دفاع کو ممکن بنایا۔
ٹراٹسکی عالمی انقلاب کا داعی تھا اور سوشلزم کوروس تک محدود کرنے کا شدید مخالف۔ انہی نظریات کو فروغ دینے کے لیے لینن اور ٹراٹسکی نے انقلابِ روس کی کامیابی کے بعد 1919ء میں تیسری انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی جسے کمیونسٹ انٹرنیشنل (کومنٹرن)بھی کہا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی اس عالمگیر تنظیم کو پوری دنیا میں وسیع پذیرائی ملی اور ہر طرف کمیونسٹ پارٹیاں تیزی سے ابھرنا شروع ہو گئیں۔ اس تنظیم کی پہلی چار کانگریسیں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں انتہائی کامیابی سے منعقد کی گئیں اور محنت کش طبقے کی پوری دنیا میں کامیابی کے لیے اہم موضوعات پر بحثیں کرنے کے ساتھ ساتھ کلیدی فیصلے بھی کیے گئے۔ لیکن روسی انقلاب کے بعد دیگر ممالک بالخصوص جرمنی، چین اور اسپین میں پے در پے انقلابات کی ناکامیوں اور سوویت یونین میں نوکر شاہی کے ابھار نے ایک نیا رنگ لینا شروع کر دیا۔ بالخصوص لینن کی وفات کے بعد نوکر شاہی کو کھل کھیلنے کا زبردست موقع میسر آیا اور انہیں سٹالن کی شکل میں اپنا سیاسی اظہار بھی دستیاب ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین عالمی انقلاب کا قلعہ بننے کی بجائے اپنی ہی سرحدوں کے اندر مقید ہو کر رہ گیا۔ سٹالن کی قیادت میں ”ایک ملک میں سوشلزم“جیسے ردِانقلابی نظریات پروان چڑھنا شروع ہو گئے جن کا بالشویزم سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ اس نوکرشاہانہ ابھار اور مارکسی نظریات سے غداری کیخلاف آواز بلند کرنے والوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئیں۔ چینی انقلاب کے سوال پر ٹراٹسکی کی تنقید اسے ناصرف پارٹی سے نکالنے کا باعث بنی بلکہ بعد میں مارکسی نظریات کا دفاع اس کا سب سے بڑا جرم بن گیا۔
کومنٹرن روسی بیوروکریسی اور سٹالن کے ہاتھوں میں سفارتی معاملات کے لئے ایک اوزار بن کر رہ گیا۔ ٹراٹسکی ابتدائی طور پر تیسری انٹرنیشنل یا کومنٹرن میں اصلاح کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اپنی جلا وطنی کے دوران اس نے مارکسی نظریات کے دفاع کے لئے تیسری انٹرنیشنل میں عالمی لیفٹ اپوزیشن بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس نے سٹالنزم کا تجزیہ بطور بوناپارٹزم کے کیا جس کی اساس ایک منصوبہ بند معیشت ہے۔ عالمی لیفٹ اپوزیشن اور سٹالنزم کے مابین لڑائی زندگی اور موت کی کشمکش کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس عرصے میں، 1930ء کی دہائی میں روس میں شروع ہونے والے تطہیرات کے عمل کے دوران لگ بھگ ایک کروڑ اسی لاکھ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی اور انہیں جبراً مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ اندازے کے مطابق پچاس لاکھ افراد کی زندگیاں اس عمل کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
جنوری 1937ء میں راڈک، پیاٹاکوف اور دیگر پر جب مقدمات قائم کئے گئے توٹراٹسکی نے لکھا؛ ”زار کی جیلوں کی سزائیں کاٹنے والے اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے والے، جو خانہ جنگی کے ہیرو تھے، صنعتوں کے قائد، پارٹی کی تعمیر کرنے والے، سفارتکار، یہ پرانے بالشویک ’سوشلزم کی مکمل فتح‘ کے وقت کس طرح سرمایہ دارانہ بحالی کے ایجنٹ، فاشزم کے اتحادی، سبوتاژ کو منظم کرنے والے کیسے بن گئے؟ ان الزامات پر کون یقین کرے گا؟ کسی کو کس طرح اس پر یقین کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ اور سٹالن ان بھیانک، ناقابل یقین اورننگ انسانیت مقدمات کے ساتھ اپنی حاکمیت کی تقدیر کو جوڑنے پر مجبور ہے؟“
”سب سے پہلے میں وہ نتائج بتانا چاہتا ہوں جو میں پہلے ہی اخذ کر چکا ہوں کہ بالا حکمران خود کو متزلزل محسوس کرتے ہیں۔ جبر کا پیمانہ ہمیشہ خطرے کی وسعت کے متناسب ہوتا ہے۔ سوویت نوکرشاہی کی ناگزیریت، اس کی مراعات اور اس کے شاہانہ طرز زندگی کے پاس کسی روایت، کسی نظریے یا کسی قانونی طرز کا لبادہ موجود نہیں ہے۔ سوویت نوکر شاہی نودولتیوں کی ایک ایسی پرت ہے جو طاقت کے حصول اور اپنی حصہ داریوں کے لئے تڑپ رہے ہیں، عوام کے خوف میں مبتلا یہ لوگ ناصرف اپنے حصے کے لئے بلکہ اپنی قطعیت کے لئے کسی خطرے کے امکان سے بھی آہنی ہاتھوں سے نپٹ رہے ہیں۔ سٹالن حکمران پرت کے ان احساسات اور مزاج کی تجسیم ہے؛ یہیں اس کی طاقت بھی موجود ہے اور اس کی کمزوری بھی۔“(ٹراٹسکی، تصنیفات 1936-37ء، صفحہ 121)
ماسکو ٹرائلز کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ”ہمارے عہد، اور شاید تمام ادوار، کا سب سے بڑا سیاسی جرم“ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ تیسری انٹرنیشنل اب ناقابل اصلاح ہے اور ایک نئی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھنے کی کوششوں میں سرگرم ہو گیا۔ ٹراٹسکی کی جدوجہد مارکسزم کے نظریات کے دفاع کی جدوجہد تھی۔ ایک ایسا وقت جب مارکسی نظریات کو مارکسزم کے نام پرہی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا تھا ٹراٹسکی سٹالنزم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا رہا۔
سٹالنزم کا ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا نظریہ کومنٹرن کا سرکاری نظریہ بن گیا۔ ایسے میں ٹراٹسکی نے پرولتاری بین الاقوامیت کے مارکسی نظریات کا دفاع مرتے دم تک جاری رکھا۔ سوویت یونین کے کردار پر سیر حاصل بحثیں کیں اور اسی دوران عالمی سطح پر مارکسی نظریات کے دفاع کے لئے چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی۔ اس کے پاس ایک عظیم فریضے کے لیے وسائل اور وقت انتہائی قلیل تھا مگر اس نے اس قلیل وقت کا درست استعمال کرتے ہوئے وہ بنیادیں تخلیق کیں جو آج اس کرۂ ارض پر واحد انقلابی رجحان کے طور پر موجود ہیں۔ ٹراٹسکی کی لڑائی وقت کے ساتھ تھی، تاریخ کا دھارا اس کے الٹ سمت میں بہہ رہا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک مزدور طبقے کی نجات کے لیے لڑتا رہا۔
سٹالنسٹ قیادت کے جرائم کے باعث سوویت یونین کے انہدام نے ٹراٹسکی کے تجزیے اور پیش گوئی کو درست ثابت کر دیا جس نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ مارکسزم کے حقیقی نظریات سے انحراف کا نتیجہ اس مسخ شدہ مزدور ریاست کے انہدام کی صورت میں نکلے گا۔اس تاریخی عمل نے ٹراٹسکی کے قاتلوں کو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں دفن کر دیا جبکہ ٹراٹسکی کے نظریات آج بھی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد بھی کئی سالوں تک عالمی سطح پر مارکس وادیوں کے لئے حالات انتہائی کٹھن تھے۔ کیونکہ سوویت یونین کی موجودگی میں حقیقی مارکسی نظریات کا دفاع مشکل تھا لیکن سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث انہدام کے بعد یہ مزیدکٹھن ہو گیا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں ٹراٹسکی کے نظریات کو جتنا کچلنے کی کوشش کی گئی وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھرتے رہے۔ ٹراٹسکی خود بھی تمام تر مشکلات اور حملوں کے باوجود مرتے دم تک ایک انقلابی رہا۔ آج ٹراٹسکی کے نظریات دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں اور نوجوانوں اور محنت کشوں کی باشعور پرتوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔آج ایک بار پھر وقت کروٹ لے رہا ہے اور محنت کش طبقہ عالمی سطح پر مختلف تحریکوں کی شکل میں انگڑائیاں لے رہا ہے۔ اب وقت آ رہا ہے کہ پرولتاری بین الاقوامیت کے مارکسی نظریات کی عملی تعبیر کی جائے۔