|تحریر: زین العابدین|
مثل مشہور ہے ”سفر وسیلہ ظفر“ یعنی سفر کرنا کامیابی و کامرانی کی نوید بنتا ہے مگر مملکت خداداد میں سفر کرنا عوام کی ایک بھاری ترین اکثریت کے لیے موت کو دعوت دینے کے مترادف بن چکا ہے۔ آئے روز ہونے والے جان لیوا ٹریفک اور ٹرین حادثات بھی ایک وبا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس میں ہر سال ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور ہنستے بستے گھر آن کی آن میں اُجڑ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک طبقاتی معاشرے میں باقی تمام بحرانوں، آفات اور حادثات کی طرح ٹریفک اور ٹرین حادثات میں مرنے والوں کی ایک بھاری اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہی ہوتا ہے۔ یہاں سڑکیں موت بانٹتی ہیں اور ٹرین کا سفر جیسے سفرِ آخرت ہو۔ جس تیزی سے موٹروے بن رہے ہیں اور سی پیک کے تحت انفرااسٹرکچر کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ٹرانسپورٹ کا عمومی انفرااسٹرکچر بوسیدہ اور جان لیوا ہوتا جا رہا ہے اور ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہلاکت خیز ہو چکا ہے۔ یہ ناہموار اور مشترکہ ترقی پوری قوت سے ایک انقلاب کو پکار رہی ہے جس کے ذریعے ہی تمام تر پرانے سماجی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ ایک مربوط جدید نظام اور انفرااسٹرکچر قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت تک یہ حادثات اور اموات بڑھتی ہی چلی جائیں گی اور کوئی بھی حکمران اس نظام میں رہتے ہوئے اسے حل نہیں کرسکے گا۔ لوگ مرتے رہیں گے اور حکمران اپنی زندگیوں کا جشن مناتے رہیں گے۔
کسی بھی بڑے روڈ یا ٹرین حادثے کے بعد چند دن میڈیا پر اس حادثے کی خبر گردش میں رہتی ہے۔ حکومتی وزرا وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں اور سارا ملبہ پچھلی حکومتوں یا پچھلے وزیروں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اپوزیشن استعفوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ ”ماہرین“ اور سینئر تجزیہ کار“ علم و حکمت کے موتی بکھیرتے ہیں جس میں عمومی طور پر کسی ایک فرد یا افراد کو ہی اس حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر کوئی ٹرین حادثہ ہو تو یہ ماہرین ریل کی نجکاری کو تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ریٹنگ کے چکر میں کچھ میڈیا والے تو حادثے میں مرنے والے کسی فرد کے گھر بھی پہنچ جاتے ہیں اور پس منظر میں کوئی دکھ بھری دُھن یا گیت چلا کر مرنے والے کے اہل خانہ کے انٹرویو نشر کیے جاتے ہیں اور سارے واقعے کے خلاف ابھرنے والی نفرت کو دکھ و غم میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے کسی حادثے کی خبر کا میڈیا کی زینت بننے کے لیے لازمی ہے کہ اس حادثے میں کم از کم درجن بھر سے زائد افراد ہلاک ہوں بصورت دیگر ایک آدھا ٹِکر یا اخبار میں اگر جگہ بچ جائے تو ایک آدھ کالمی خبر لگا دی جاتی ہے۔ وگرنہ کسی ٹریفک حادثے میں چند افراد کی موت کو زیادہ وقعت نہیں دی جاتی اور اس کو معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
قصہ مختصر، پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ، اگر اس کو پبلک ٹرانسپورٹ کہنا درست ہے، تو وہ محنت کش عوام کے لیے موت کا پروانہ بن چکی ہے۔ بس ہو یا ٹرین حتیٰ کہ ہوائی جہاز، کوئی بھی ذریعہئ نقل و حمل محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ بٹوارے کے پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی محنت کش عوام کے لیے سستی، محفوظ، آرام دہ، مربوط، اور easy to access اربن اور پبلک ٹرانسپورٹ اور اس سے منسلک فزیکل انفرا اسٹرکچر مہیا کرنے میں ناکام ہے اور اس ناکامی کے سنگین نتائج یہاں کے محنت کش اور غریب عوام بھگت رہے ہیں۔
سڑکیں یا قربان گاہیں؟
صورتحال کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ چند ایک اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے 27 ہزار سے زائد افراد روڈ حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں جبکہ ورلڈ بینک کے GBD ریسرچ پراجیکٹ کے مطابق روڈ حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار افراد سالانہ سے زائد ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر سال لگ بھگ ساڑھے 4 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان روڈ حادثات میں معذور ہونے والوں کو شامل کیا جائے تو ایک انتہائی بھیانک تصویر ابھرتی ہے اور عالمی ادارہئ صحت کی متذکرہ رپورٹ کے مطابق ان حادثات میں معذور ہو جانے والی کی تعدادسالانہ 4 لاکھ سے زائد ہے۔ گو کہ ایک انسان کی زندگی یا اس کی معذوری کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا لیکن ان روڈ حادثات میں ہلاک یا معذور ہوجانے کے نقصان کا تخمینہ ساڑھے بارہ ہزار ملین ڈالر سے زائد ہے جو کہ 2016ء کے جی ڈی پی کا ساڑھے 4 فیصد بنتا ہے۔
یہ اعداد و شمار لگ بھگ پانچ سال پرانے ہیں اور صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کے پہلے دس مہینوں میں صرف کراچی شہر میں روڈ حادثات میں 154 افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح، کراچی میں ہر سال لگ بھگ 30 ہزار سے زائد ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں جس میں سینکڑوں افراد وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ رواں مہینے کے پہلے ہفتے میں کراچی میں واٹر ٹینکر کی زد میں آکر 4 افراد ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں اور صرف رواں سال پر ہی نظر دوڑائیں تو میڈیا پر رپورٹ ہونے والے بڑے بس حادثات میں اب تک سینکڑوں افراد لقمہئ اجل بن چکے ہیں۔ یکم اپریل کو دو روڈ حادثات میں اطلاعات کے مطابق 17 افراد ہلاک ہوئے جب پنجاب کے شہر بوریوالہ میں ٹرک کی ٹکر سے گاڑی میں سوار ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ لاڑکانہ کے نواحی علاقے میں بس اور ٹرالی کی ٹکر سے بس میں سوار نو افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ 13 مئی کو سندھ کے علاقے روہڑی میں ایک مسافر بس کے الٹنے سے 13 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ 11 جون کو بلوچستان کے ضلع خضدار سے دادو واپس جاتے ہوئے زائرین کی ایک بس وڈھ کے علاقے میں کھائی میں جا گری جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 23 زائرین جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ پچھلے سال بھی اسی علاقے میں دو حادثات میں 10 زائرین موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اسی طرح، 19 جولائی کو سیالکوٹ سے راجن پور جانے والی ایک مسافر بس ڈیرہ غازی خان کے قریب کنٹینر ٹرک سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 33 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس مسافر بس میں سوار افراد سیالکوٹ میں کام کرنے والے محنت کش تھے جن کے گھروں میں عید کی خوشیوں کی بجائے صف ماتم بچھ گئی۔
بلوچستان میں روڈ انفرا اسٹرکچر کی زبوں حالی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہر سال ہزاروں حادثات پر تو ایک علیحدہ تحریر درکار ہوگی یہاں بس اتنا ہی ذکر کرنا کافی ہوگا کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچھلی ایک دہائی میں اس صوبے میں چار ہزار سے زائد افراد مختلف روڈ حادثات میں جان کی بازی ہار گئے جبکہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد 8 ہزار سے زائد ہے جس میں سب سے زیادہ حادثات کوئٹہ۔کراچی شاہراہ پر پیش آتے ہیں جس کو ”کلر ہائی وے“ بھی کہا جاتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام اعداد و شمار تخمینوں پر مبنی ہیں اور یہاں کے حکمرانوں کی غیر سنجیدگی، عدم توجہی اور بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے درست اعداد وشمار بھی نہیں بتائے جاتے اور ان کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان اعداد و شمار میں آئے روز ہونے والے ٹرین حادثات میں ہلاک اور ہمیشہ کے لیے معذور ہوجانے والے شامل نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015ء سے لے کر اب تک بڑے ٹرین حادثات میں کم از کم 265 افراد جاں بحق جبکہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ رواں سال جون کے مہینے میں سندھ کے علاقے گھوٹکی کے قریب ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں کم ازکم 65 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسی طرح سال 2019ء میں رحیم یار خان کے قریب چلتی ٹرین میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں کم از کم 70 افراد زندہ جل گئے اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ واقعہ کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ صحافیوں کو تسلی دے رہا تھااور آج تک اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیااور نہ ہی ماضی میں وزیروں کا استعفیٰ طلب کرنے والا عمران خان اپنا استعفیٰ دے کر عوام دشمن اقتدار اور پر تعیش زندگی سے الگ ہوا۔ اسی طرح، سی این جی سلنڈر پھٹنے سے مسافر ویگنوں میں مسافروں کے زندہ جل جانے کے واقعات بھی معمول سمجھے جاتے ہیں۔
روڈ حادثات میں ایک بڑی تعداد مسافر بسوں اور ویگنوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی ہے جو کہ نجی شعبہ چلاتا ہے۔ یہ چند ایک اعداد وشمار مملکت خداداد میں پبلک اور اربن ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے لیے کافی ہیں جو کہ چلتے پھرتے تابوت بن چکے ہیں۔ ان حادثات میں ہونے والی ایک ایک ہلاکت حقیقت میں ایک قتل ہے جس کا ذمہ دار اس ملک کا حکمران طبقہ، جرنیل وریاستی اشرافیہ اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی ادارے ہیں جس نے اپنی لوٹ کھسوٹ، کرپشن، استحصال کے باعث اس دھرتی کے محنت کشوں کے لیے سستے، محفوظ اور آرام دہ سفر کو ایک خواب بنا دیا ہے اور خود ان کے کتے بھی بڑی بڑی لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔
انفراسٹرکچر کا سوال اور پبلک ٹرانسپورٹ
پبلک اور اربن ٹرانسپورٹ کا مسئلہ مجموعی طور پر فزیکل انفراسٹرکچر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلابات کے نتیجے میں ابھرنے والے نوزائیدہ سرمایہ دار طبقے کے لیے لازمی تھا کہ وہ صنعت کی ترقی، خام مال کی نقل و حمل، منڈی کی جڑت کے لیے ماڈرن فزیکل انفرا سٹرکچر تعمیر کرتا۔ زیادہ سے زیادہ منافع کے ارتکاز کے لیے سرمایہ دار طبقے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ اسی عمل میں یورپ میں جاگیرداری کے ملبے پر جدید انفرااسٹرکچر تعمیر کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی تباہی کے بعد یورپ ملیامیٹ ہو چکا تھا مگر اب تکنیک پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کرچکی تھی اور محض چند دہائیوں میں منڈیوں کی بندر بانٹ کے ساتھ یورپ میں جدید فزیکل انفرااسٹرکچر تعمیر کیا گیا جس میں پبلک اور اربن ٹرانسپورٹ سسٹم بھی شامل تھا۔ یورپ کے طول و عرض میں سڑکوں اور ریل کا جال بچھایا گیا۔ مگر پاکستانی حکمران طبقہ اپنی تاریخی تاخیر زدگی کے سبب صنعت کے ساتھ ساتھ فزیکل انفراسٹرکچر تعمیر کرنے میں بھی ناکام رہا۔ بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے ریل انفرا سٹرکچر کو ترقی دینا تو دور کی بات آج صورتحال یہ ہے کہ ریل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہی صورتحال پبلک ٹرانسپورٹ کی ہے اور سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پورے ملک میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی سنٹرلائزڈ، سستا، محفوظ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں ملتا۔ اور ایک ایسے وقت میں جب معیشت سے لے کر سیاست تک سماج کا ہر شعبہ بحران کی زد میں ہو تو اس کا اظہار جیسے تیسے انفرااسٹرکچر کی تباہی اور زبوں حالی میں نہ ہو۔
ہر چند سال بعد نئی ٹرانسپورٹ پالیسی لائی جاتی رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی مداخلت بڑھتی گئی اور ٹرانسپورٹ ٹائیکونز کے منافع بڑھتے گئے۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پچھلا سیٹ اپ لپیٹ دیا جاتا اور نئے سرے سے نئے لوگوں کو نوازنے کے لیے نئی پالیسی اور نئے سرمایہ داروں کو لوٹ مار کا موقع دیا جاتا رہا۔ پبلک ٹرانسپورٹ 1960ء تک وفاق کا استحقاق تھا مگر 1960ء کی دہائی میں وفاقی حکومت نے ٹرانسپورٹ کو صوبائی سبجیکٹ بنا دیا گیا مگر شاہراہوں اور بڑی سڑکوں کی تعمیر میں وفاق کا کردار برقرار رہا۔ یہیں سے پالیسی سازوں کاوزن ریل سے روڈ انفر اسٹرکچر کے پلڑے میں جانا شروع ہوا جس کا اظہار ہر بجٹ میں ریل کے مقابلے میں روڈ انفراسٹرکچر کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ گورنمنٹ کی جی ٹی ایس بس سروس اوردیگر کی بھی نجکاری کر دی گئی جس کے بعد وہ بتدریج ختم ہو گئیں اور عوام سے نسبتاًبہتر اور سستے سفر کی سہولت ان حکمرانوں نے چھین لی۔
اس کے پیچھے سب سے بڑا محرک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کی مداخلت تھی جو کہ 1960ء کی دہائی سے واضح طور پر سطح پر نظر آنا شروع ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایما پر ہر چند سال بعد نئی ٹرانسپورٹ پالیسی متعارف کروائی جاتی اور اس پالیسی کے زیر اثر بننے والے سیٹ اپ کے چند سالوں کے تجربے کے بعد اس کا بوریا بستر گول کردیا جاتا اور پھر نئی پالیسی سامنے آجاتی۔ لیکن 1960ء سے اکیسویں صدی کے آغاز تک آتے آتے ان سامراجی اداروں کی مداخلت کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں نجی شعبے کا کردار بڑھتا چلا گیا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ، بالخصوص انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر نجی شعبے کی اجارہ داری ہے اور ہر صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کا کردار محض ریگولیشن تک محدود ہوچکا ہے۔
نجی شعبے کی ’’کرامات‘‘
نجی شعبے نے جدید پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تو کیا تعمیر کرنا تھاان کا مقصد محض کم سے کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ مال بنانا تھا۔ خود اس نجی شعبے کا کردار آزاد منڈی کے اپنے اصولوں کے خلاف تھا اور معیشت کے باقی شعبوں کی طرح ٹرانسپورٹ میں بھی نجی شعبے کی تمام تر سرمایہ کاری ریاستی سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹوں، امپورٹ ڈیوٹیوں کے خاتمے یا کمی، ٹیکس چھوٹوں کے ساتھ ساتھ اس شعبے سے منسلک محنت کشوں کے ننگے استحصال پر استوار تھی جس کا کردار ہی طفیلیہ تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ٹرانسپورٹ سے منسلک کئی سرمایہ دار موقع ملنے کے چند سالوں میں اربوں پتی ہوچکے ہیں مگر ملک کے عوام کو محفوظ اور معیاری پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہوسکی۔ نجی شعبے کے کنٹرول میں موجود اس پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا حصہ انٹر سٹی بس ٹرانسپورٹ پر مشتمل ہے۔ بس کمپنیوں کے مالکان ایک طرف حکومت سے سروس ڈلیوری کے نام پرسالانہ اربوں روپوں کی ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹیوں میں چھوٹ لیتے ہیں تو دوسری جانب اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ دہائیوں پرانی بسیں ہر سال نئے رنگ روغن کے ساتھ سڑکوں پر آج بھی رواں دواں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ بسیں جن کی جگہ کسی میوزیم میں ہونی چاہیے وہ روزانہ ایک شہر سے سینکڑوں مسافروں سے لد کر دوسرے شہر تک جاتی ہیں۔ یہ کھٹارہ بسیں روڈ حادثات کی ایک بڑی وجہ ہیں کہ جو بسیں چلنے کے لائق ہی نہیں وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کی بیوروکریسی اور سیاسی اور ریاستی اشرافیہ کے ساتھ جوڑتوڑ اور تعلقات کی بنا پر آج بھی سڑکوں پر چل رہی ہیں اور یہ چلتے پھرتے تابوت ہیں۔ کرایہ کم ہونے کی وجہ سے محنت کش اور غریب عوام ہی ان پر سفر کرتے ہیں اور ان حادثات کا شکار بنتے ہیں۔ کیونکہ لگژری بسوں کے کرایے ان کی پہنچ سے باہر ہیں گو کہ وہ بھی کچھ زیادہ محفوظ نہیں لیکن ان کے حادثات کی خبریں میڈیا پر سامنے نہیں آنے دی جاتیں۔
دوسری جانب بس کمپنیوں کے مالکان ان کمپنیوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ڈرائیور ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور بس میں سوار تمام افراد کی زندگی بس ڈرائیور کی پرفارمنس کے سات جڑی ہوتی ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں بس ڈرائیور کو بلی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے مگر میڈیا کے کسی مائی کے لال میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کمپنی مالک کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھے یا اس کا ذکر کرے جس کے استحصالی ہتھکنڈے ان حادثات کی وجہ بنتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے محنت کشوں بالخصوص ڈرائیور کنٹریکٹ یا دیہاڑی پر کام کرتے ہیں، طویل اوقات کار، کم سے کم وقت میں منزل مقصود کے پہنچانے کا کمپنی کا دباؤ، کسی قسم کی انشورنس اور سوشل سکیورٹی کی عدم فراہمی، نکالے جانے کا خوف، بیماری کی صورت میں رخصت لینا وبال وغیرہ ان تمام عناصر کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں تو بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے خواتین بس ہوسٹس کو بھرتی کر رکھا ہے جن کو ناقابل تصور حد تک ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس شعبے میں لیبر قوانین کی عملداری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چھوٹے کنٹریکٹر جن کی رسائی طاقت کے ایوانوں تک نہیں ہوتی اور جو چند بسوں کے مالک ہوتے ہیں وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے کارندوں کو رشوت دے کر کام چلاتے ہیں۔ ناکارہ بسیں، اور لوڈنگ، ناتجربہ کار ڈرائیور، ان سب کے ہوتے حادثہ نہ ہونا محض خوش قسمتی ہوتی ہے۔
وہ افراد جو کسی حادثے کی صور ت میں ڈرائیور کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یا نام نہاد ماہرین اسے ’ہیومن ایرر“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ امر نظر انداز کردیتے ہیں کہ کیا محکمہ ٹرانسپورٹ اور ہائی وے حکام کی ملی بھگت کے بنا کسی کھٹارہ بس کا سڑک پر آنا ممکن ہے؟ وہیکل اور ڈرائیور فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ روڈ سیفٹی کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ٹریفک پولیس کی کرپشن اور لوٹ مار کس کے ایما پر ہوتی ہے اور حصہ کس کس کو ملتا ہے؟ اور ایسے کئی سوالات ہیں جو کہ جواب طلب ہیں۔ نجی بس کمپنیوں کے مالکان کے ساتھ ساتھ یہ ریاستی اشرافیہ ان جرائم میں برابر کی شریک ہے۔ آج تک کسی حادثے کے بعد شاید ہی محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسرکو سزا ملی ہو۔ محکمانہ انکوائریاں سالہا سال چلتی ہیں۔ کیس عدالت میں چلا جائے تو ان عدالتوں کا عوام دشمن کردار سب کے سامنے ہے۔
ریل کا المیہ
کم و بیش یہی صورتحال ہمیں ریل کے شعبے میں نظر آتی ہے۔ پاکستان ریلویز کی کہانی کسی المیے سے کم نہیں اور المیہ بھی ایسا جو آئے روز کئی المیوں کو جنم دیتا ہے۔ ریل کا یہ المیہ پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے خون آشام اور طفیلیہ کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے پاس یہاں جگہ کی کمی ہے نہیں تو ریلوے کی تباہی پر ایک الگ مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے ایما پر ریلوے میں سرمایہ کاری کو کم سے کم کیا گیا۔ رہی سہی کسر حکمرانوں اور ریل بیوروکریسی کی لوٹ مار اور کرپشن نے پوری کی۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ ریل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جس کا حل نجکاری کی عوام دشمن پالیسی کو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گھوٹکی حادثے کے بعد جب سرمایہ دار وزیر ریلوے اعظم سواتی سے پوچھا گیا کہ جب کئی بار ٹریک کی زبوں حالی بارے خط لکھے گئے تو ٹریک کی مرمت کیوں نہیں کی گئی جبکہ اگر ٹریک درست حالت میں ہوتا تو کراچی سے آنے والے ملت ایکسپریس کو حادثہ پیش نہ آتا تو موصوف نے جواب دیا کہ سی پیک کے تحت ایم ایل ون (ML-1) کے نئے منصوبے میں یہ ٹریک دوبارہ تعمیر ہونا ہے اور اگر ابھی مرمت کی جاتی تو اربوں روپے لاگت آتی جو بعد میں ”ضائع“ ہوجاتے۔ یعنی جب تک سی پیک کا تاخیر زدہ ML-I کا منصوبہ، جو کہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا، مکمل نہیں ہوتا تب تک عام عوام اس ٹریک پر یوں ہی اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہیں۔ بٹوارے کے بعد برطانوی سامراج کا بنایا ہوا لگ بھگ 9 ہزار کلومیٹر کا ٹریک بشمول دیگر انفرا سٹرکچر لوکو شاپس وغیرہ مغربی پاکستان کے حصے میں آیا۔ اس کو بڑھا ناتو درکنا آج صورتحال یہ ہے کہ لگ بھگ نصف کے قریب ٹریک فنکشنل ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں ریل کو سستا اور محفوظ ذریعہ سفر تصور کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں صورتحال الٹ رہی۔ اس سامراجی ورثے پر تعمیر کرنے کی بجائے اس کو نوچ کھایا گیا۔ اور اب ٹرین جو کہ سستے ہونے کے سبب آج بھی عام عوام کی پہلیترجیح ہوتی ہے موت کا پروانہ بن چکی ہے۔ یہ گدھ صفت حکمران اور ان کے وظیفہ خوار ہر ٹرین حادثے کے بعد نجکاری نجکاری کے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریل مزدوروں کی محنت اور لگن ہی ہے جو کہ وسائل کی عدم موجودگی اور اس تباہی کے دہانے پر پہنچے ریل کے انفرا سٹرکچر کے باوجود ریل کا پہیہ شدید مشکل حالات اور کم ترین اجرتوں میں چالو رکھے ہوئے ہیں۔ جتنی بھی ٹرینیں نجی شعبے کے حوالے کی گئیں اس میں سے سرمایہ داروں نے ہی مال کمایا اور چند سال ریل کا انفرا سٹرکچر اور مین پاور استعمال کرتے ہوئے مسافروں کو لوٹ کر اربوں روپے جیب میں ڈال کر چلتے بنے۔ لیکن اس امر کی بابت کوئی میڈیا یا دانشور توجہ نہیں دلاتا کیونکہ نجکاری امریکی سامراج کا اتارا ہوا صحیفہ ہے جس کے خلاف بات کرنا بلاسفیمی کے ذمرے میں آتا ہے اور بڑے بڑے جغادریوں کے اس نقطے سے پر جلتے ہیں۔
اربن ٹرانسپورٹ؛ حکمرانوں کی بوسیدگی کا نوحہ
اربن ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی معیشت میں کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ رہائشی علاقوں سے دفاتر اور مارکیٹوں اور بزنس سنٹرز تک رسائی معاشی سرگرمی میں ایک کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر یہاں بھی پاکستانی حکمران طبقے کی پسماندگی، بوسیدگی اور بے حسی کھل کر اپنااظہار کرتی ہے۔ اربن ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بس کراچی شہر کی مثال ہی کافی ہوگی کہ تین کروڑ آبادی کا حامل شہر جو کہ ملکی جی ڈی پی کا ایک چوتھائی پیدا کرتا ہے، میں کوئی ماس ٹرانزٹ سسٹم تو بہت دور کی بات ہے کوئی جدید، معیاری، محفوظ، آرام دہ، فنکشنل اور مربوط اربن ٹرانسپورٹ سرے سے ناپید ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ اور بلدیہ کراچی کے طے کردہ روٹس پر جو بسیں چلتی ہیں ان کی جگہ میوزیم میں بھی نہیں بنتی۔ کراچی سرکلر ریلوے اس جانب ایک مثبت قدم تھا مگر اس کو بند ہوئے تین دہائیاں ہونے کو آئی ہیں۔ یہی صورتحال باقی ماندہ ملک کی ہے۔ گو کہ لاہور میں میٹرو بس اور میٹرو ٹرین اور ملتان، راولپنڈی۔اسلام آباد، اور پشاور میں میٹرو بس سسٹم عام عوام کے لیے ان کے ہی پیسوں کی بے دریغ لوٹ مار کے بعدایک معمولی سی سہولت ہے مگر ان شہروں کی آبادی اور آبادی کے پھیلاؤ کے مقابلے میں یہ ناکافی ہیں۔
کسی مربوط، سستے اور easy to access اربن ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں نجی سواریاں یا موٹر سائیکل اور آٹو رکشے اس خلا کو پورا کرتے ہیں جس کی وجہ سے جتنی سڑکیں، فلائی اوور، انڈر پاس اور دیگر روڈ انفرا سٹرکچر تعمیر کیا جاتا ہے ٹریفک کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔ شہروں میں روڈ حادثات کی سب سے بڑی وجہ اربن ٹرانسپورٹ سسٹم کا نہ ہونا ہے۔ سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ پیش آتے ہیں جو کہ عام عوام کے لیے کسی اربن پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں نسبتاًسستا ذریعہ نقل و حمل ہے۔ اس کے علاوہ سڑک پر واضح طور پر غیر ہموار اور مشترکہ ترقی نظر آتی ہے۔ ایک طرف دنیا کی جدید ترین گاڑیاں اور برانڈ سڑکوں پر نظر آئیں گے تو دوسری جانب پچاس یا ساٹھ سال پرانی سینکڑوں دفعہ مرمت شدہ گاڑی اور موٹرسائیکل بھی اسی سڑک پر موجود ہو گا۔ حد تو یہ ہے کہ ہزاروں سال پرانی بیل گاڑی او ر گدھا گاڑی بھی ابھی تک پورے ملک میں موجود ہے اور اس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ایک ہی سڑک پرگدھا گاڑی کا کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی کے برابر نظر آنا بڑے شہروں میں عام نظارہ ہے جو اس نظام کے مشترکہ اور غیر ہموار کردارکی نشاندہی بھی کرتا ہے اور اس کے ناقابل حل تضادات کی عکاسی بھی نظر آتی ہے جس کی بنیاد طبقات پر مبنی نظام ہے۔
رہی سہی کسر موبائل فون اور فور جی پر چلنے والی گِگ اکانومی کے زیر اثر ابھرنے والے ڈلیوری سروس نے پوری کردی ہے جن کے رائیڈرز طے شدہ وقت میں ڈلیوری کرنے اور ٹارگٹ پورا کرنے کی دھن میں جان ہتھیلی پہ لیے منزل مقصود کی جانب بھاگے چلے جا رہے ہوتے ہیں اور حادثات کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کو یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی قسم کی ہیلتھ انشورنس بھی مہیا نہیں کرتی۔ اگر ان کو روزگار اورمستقل آمدن کی ضمانت مہیا کردی جائے تو ان حادثات میں کمی ہو سکتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ترقی کا حقیقی کردار
اربن ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں جہاں ایک طرف تیزی سے بڑھتی نجی وہیکلز موجودہ روڈ انفرا سٹرکچر پر دباؤ میں اضافہ کرتی ہیں، وہیں یہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب بنتی ہیں۔ ان ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ کر کے مزید روڈ انفرا سٹرکچر تعمیر کیا جاتا ہے جو کہ وسائل کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔ ان وسائل سے عام عوام کے لیے اربن ٹرانسپورٹ سسٹم تعمیر کرنے کی بجائے سڑکیں بنائی جاتی ہیں جو کہ شہری آبادی کی امیر اور درمیانی پرت کی ضرورت پوری کرتی ہے نہ کہ عام عوام کی۔
بہت سے لوگ موٹروے اور دیگر ایسے منصوبوں کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان منصوبوں کا مقصد کبھی بھی ٹریفک یا انفراسٹرکچر کا مسئلہ حل کرنا نہیں تھا بلکہ بڑے منصوبوں کے ذریعے بڑی لوٹ مار اور منافعوں کا حصول تھا۔ اس ملک میں عام اصول ہے کہ ہر سڑک کے ٹھیکے کے پیچھے اس میں سے لوٹ مار کرنے والوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔ سڑک اس لیے ہمیشہ خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہے کیونکہ اس کی جتنی دفعہ تعمیر ہو گی اس کو بنانے والے اتنی ہی دفعہ پیسے کمائیں گے۔ اب موٹروے کے ساتھ بھی یہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس پر بھی ہر وقت مرمت کا کام جاری نظر آتا ہے جواس نظام کی موجودگی میں کبھی بھی ختم نہیں ہو گااور اس میں شامل کمپنیاں لوٹ مار جاری رکھیں گی۔ چین کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی حصول منافع کا یہی مقصد کارفرماہے اور وہ اپنی زائد پیداواری صلاحیت کو برآمد کرنے کا خواہشمند ہے جس کے لیے یہاں کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ بھاری شرح سود پر قرضوں کی شکل میں لٹایا جا رہا ہے۔ لیکن اس سب عمل میں نہ تو انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنا مقصود ہے اور نہ ہی یہ حاصل ہوگا۔ صرف چند بڑے شہروں کے امیروں کے علاقوں میں بہترین سڑکیں وغیرہ نظر آئیں گی، درمیانے طبقے کے علاقوں میں اس سے نچلے درجے کا انفراسٹرکچر جبکہ باقی پورا ملک اور یہاں بسنے والے کروڑوں لوگ حادثات میں مرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں گے۔ اب یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ ٹرین میں جل کر مریں یا کسی بس حادثے میں کھائی میں گرنے یاٹرک کی ٹکر سے موت کے منہ میں جائیں۔ اس دوران ذمہ دار افراد اپنے ٹھنڈے پرآسائش کمروں اور ان کے لیے میسر جدید اور مہنگی ترین ٹرانسپورٹ میں زندگی گزاریں گے اور ان مرنے والے کیڑے مکوڑوں کا مذاق اڑاتے رہیں گے۔ یہی اس نظام میں آج تک ہو رہا ہے اور آئندہ بھی یہی سلسلہ نہ صرف جاری رہے گابلکہ معاشی سماجی بحران کے باعث ان اموات میں تیز ترین اضافہ ہوگا۔
الغرض یہ حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ اس اہم مسئلے کو حل کرنا تو دور کی بات خود اس مسئلہ کی وجہ ہے۔ جب بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی بات کی جاتی ہے تو بڑے بڑے ماہرین اس کو گورننس کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ گورننس کا مسئلہ اس ریاست اور حکمران طبقے کی نامیاتی کمزوری اور خصی پن کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کو کسی بھی قسم کی اصلاحات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ پورے ملک کے طول و عرض میں سستی، محفوظ، معیاری، آرام دہ اور مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تعمیر کے لیے جس بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری درکار ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحرانی عہد میں تصور بھی نہیں کی جاسکتی جب رہی سہی پبلک سیکٹر یوٹیلیٹیز اور اداروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی گماشتہ یہ حکومت، ریاستی اشرافیہ اور تمام تر سیاسی اور مذہبی پارٹیاں نجکاری کا نشانہ بنانے پر تُلی ہیں۔ بالفرض اگر ایسی سرمایہ کاری سے اس انفراسٹرکچر کو تعمیر بھی کردیا جائے تو موجودہ ریاستی ڈھانچہ اس کو چلانے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہی ایک محفوظ اور سستے ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضمانت سے سکتا ہے جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور اس سے جڑے انفرا سٹرکچر کے سوال کا حل کم ازکم ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔