|تحریر: راب سیول، ترجمہ: اختر منیر|
12مارچ 2018ء
پچھلے ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیرف بڑھانے کے ارادے کا اعلان کیا جو پوری دنیا کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ عالمی معیشت کو ایک اور گہرے بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
ٹرمپ کا ٹویٹر پر جاری کردہ حالیہ بیان(نیچے دیکھیں) کسی اعلان جنگ سے کم نہیں ہے، تجارتی جنگ اور وہ بھی دنیا کے طاقتور ترین سرمایہ دار ملک کی جانب سے۔
یہ محض ٹویٹر پیغامات ہی نہیں ہیں۔ یہ عالمی معیشت کے لیے انتہائی سنجیدہ خطرہ ہے۔ یہ مخاصمت انتہائی تیزی سے 1930ء کی دہائی طرح سرمایہ دارانہ دنیا کو کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ سرمایہ کار اور حکومتیں بری طرح کانپ کر رہ گئی ہیں۔
When a country (USA) is losing many billions of dollars on trade with virtually every country it does business with, trade wars are good, and easy to win. Example, when we are down $100 billion with a certain country and they get cute, don’t trade anymore-we win big. It’s easy!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) March 2, 2018
بہرطور عظیم کسادبازاری کی وجہ وال سٹریٹ کا انہدام نہیں تھا بلکہ دیگر ممالک کی قیمت پر اپنی معاشی مشکلات کو حل کرنے کی پالیسیوں اور ٹیرف کے نفاذ کی وجہ سے چھڑنے والی معاشی جنگ اس کساد بازاری کی وجہ بنی۔ اس کے نتیجے میں عالمی تجارت میں بے مثال گراوٹ کا شکا ہوگئی، جو دوسری جنگ عظیم کی بدولت ہی ختم ہو پائی۔
ہم نے کئی بار وضاحت کی ہے کہ ہم ایک تیز ترین اور دھماکہ خیز تبدیلیوں کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کی چتاونی اسی کی ایک اور مثال ہے۔
آگ سے کھلواڑ
ٹرمپ آگ سے کھیل رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سٹیل کی درآمد میں 25 فیصد اور ایلومینیم کی درآمد میں 10 فیصد ٹیرف کا اضافہ چین اور یورپی یونین سمیت باقی ممالک کی جانب سے جوابی کارروائیوں کو دعوت دے گا۔ کینیڈا، برازیل، جنوبی کوریا اور میکسیکو سب سے بڑا وار کریں گے۔
ٹروڈو(کینیڈا کا وزیراعظم) نے اس عمل کو ’’قطعی ناقابل قبول‘‘ قرار دیا اور جوابی کارروائی کا اعلان کیا۔ چینی وزارت تجارت کے ایک اہلکار وینگ ہیجن نے ٹیرف میں اضافے کو غیر ذمہ دارانہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا:
’’قومی سلامتی کا دائرہ بہت وسیع ہے اور کسی واضح تعریف کے بنا اس کا باآسانی غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر امریکہ کے حتمی فیصلے سے چین کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو ہم یقینی طور پر اپنے جائز حقوق کے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کریں گے۔‘‘
ٹرمپ نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ اس سے بھی زیادہ ٹیرف لاگو کرے گا۔
چین، جو کہ دنیا کی آدھی سٹیل کی پیداوار کا مالک ہے، وہ بھی سٹیل کی زائد پیداوار اور بھرمار سے متاثر ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اسے انتہائی ارزاں نرخوں پر عالمی منڈیوں میں پھینکا جائے۔ یہ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ حیران کن نہیں ہے کہ امریکہ کچھ حد تک اس سے مستثنیٰ ہے جبکہ یورپ میں چینی سٹیل کی بھرمار کے خلاف دو درجن سے زیادہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
مگر ٹرمپ کے رویے کے اثرات دور رس ہوں گے۔ ٹرمپ جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے عالمی تجارت کے نظام کو ہی تباہ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ اعلان دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں گراوٹ کا باعث بنا۔ تا وقتِ تحریر وال سٹریٹ نے ایک دن میں مسلسل چوتھی گراوٹ کا سامنا کیا ہے۔
’’ملکی ترقی دیگر ممالک کی قیمت پر‘‘
ٹرمپ کا اعلان واشنگ مشینوں اور سولر پینلز پر لاگو کیے جانے والے ٹیرف سے کہیں آگے کی بات ہے، جو کہ جنوری میں تجویز کیا گیا تھا۔ اس نے قومی دفاع کا سہارا لے کر نئی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ اور اس کا ارادہ پختہ لگ رہا ہے:
We must protect our country and our workers. Our steel industry is in bad shape. IF YOU DON’T HAVE STEEL, YOU DON’T HAVE A COUNTRY!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) March 2, 2018
یہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے امریکہ کے محنت کشوں اور صنعت کو غیر منصفانہ بیرونی مقابلہ بازی سے بچانے کے وعدوں کی تکمیل کا ایک عہد تھا۔
اس کا ردعمل واضح تھا۔ یورپی یونین کی ٹریڈ کمشنر سیسلیا میلم سٹروم نے کہا کہ ان کے پاس ٹیرف کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ٹیرف لاگو کرنے اور دیگر جوابی کارروائیوں کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
’’ہمیں ڈر ہے کہ یہ ایک خطرناک سلسلے کا آغاز ہو گا، ‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے ’تجارتی جنگ‘ کا لفظ استعمال کرنا پسند نہیں ہے مگر میرے لیے امریکہ کی یہ حرکت اس سے ہٹ کر کچھ اور نہیں ہے،‘‘ یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے کہا۔ اس نے عندیہ دیا کہ وہ ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل، بوربن وہسکی اور بلیو جینز جیسی امریکی مصنوعات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یورپی یونین کے اہلکار جوابی حملے کے لیے 2.8 ارب یورو مالیت کی 100 سے زیادہ امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کریں گے جس میں امریکی سٹیل اور چاول، مکئی، مالٹا جوس اور کرین بیری جیسی زرعی مصنوعات بھی شامل ہیں۔ ان کا اطلاق امریکہ کی طرف سے کوئی بھی ٹیرف لاگو کرنے کے 90 دن کے اندر ہوگا۔
ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ازے ویڈو نے خبردار کیا کہ دنیا تجارتی جنگ کے خطرے سے دوچار ہے۔ ’’اس کے بڑھنے کا خطرہ حقیقت پر مبنی ہے،‘‘ اس نے کہا۔ ’’ایک تجارتی جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن یہ واضح رہے کہ تجارتی جنگ کوئی بھی نہیں جیتے گا،‘‘ GMO سے بین انکر نے وضاحت کی۔
نقصان، افراط رز اور غیر یقینی صورتحال
آئی ایم ایف نے فوری طور پر پرسکون رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے بیان جاری کیا۔ ’’امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ برآمدات پر پابندیوں سے محض بیرونی دنیا کو ہی نہیں بلکہ امریکہ کی اپنی معیشت کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا جن میں اس کے مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے شعبے شامل ہیں جو ایلومینیم اور سٹیل کے بڑے صارف ہیں۔‘‘ آئی ایم ایف کے ترجمان گیری رائس نے کہا۔
’’اس کے حقیقت میں بہت دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،‘‘ دولت مشترکہ کے فنانشل نیٹ ورک کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر بریڈ میکملن نے کہا۔ ’’ٹیرف لاگو کرنے کا حتمی نتیجہ۔۔۔ معاشی نقصان، افراط زر میں اضافہ اور جیو پولیٹیکل صورتحال میں غیر یقینی کی شکل میں نظر آئے گا۔‘‘
الیکٹرولکس، جو یورپ کی سب سے بڑی برقی مصنوعات کی کمپنی ہے، نے کہا کہ وہ ٹینیسی میں ایک کوکنگ فیکٹری میں اپنی 250 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری معطل کرچکے ہیں جس کا اعلان جنوری میں کیا گیا تھا۔ ’’ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ ٹیرف لاگو ہونے سے امریکہ میں ہماری مقابلے کی سکت پر اثر پڑے گا،‘‘ سویڈن کی اس کمپنی نے کہا۔
ایک سینئر اطالوی تجارتی اہلکار اوان سکالفاروتو نے کہا، ’’یہ بالکل غیر منصفانہ ہے۔۔۔ اور اس سے عالمی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔‘‘ اٹلی کی جانب سے برآمد کردہ 4.8 ارب یورو مالیت کے سٹیل اور 1 ارب یورو مالیت کے ایلومینیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا، ’’ہمارے صنعت کار نالاں ہیں اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ نالاں ہوں۔ لیکن یہ صرف ہمارے ملکی مفادات کے تحفظ کی بات نہیں ہے، یہ ہمارے اصولوں کے تحفظ کی بات ہے۔‘‘
امریکی ادارہ برائے فولاد و سٹیل نے کہا کہ انہیں ٹیرف کے اعلان سے ’’خوشی‘‘ ہوئی ہے۔ ایلومینیم ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’’ہم امریکی صدر کے صنعت کو بچانے کے عزم کا ’’خیر مقدم‘‘ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے امریکہ
لیکن ٹرمپ کو کہیں اور پڑنے والے اثرات کی فکر نہیں ہے۔ اسے صرف امریکہ کے مفادات کی فکر ہے، جیسے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا اصول عمل ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ ہے اور باقی دنیا بھاڑ میں جائے۔ جیسا کہ اس نے کہا ’’تجارتی جنگیں اچھی ہیں‘‘۔
اس نے صدارت سنبھالتے ہی پہلے دن ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ معاہدے(TPP) کو مسترد کر دیا جو کہ اس عہد میں تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ تھا۔ اس کا NAFTA پر بھی نظر ثانی کا ارادہ ہے جو اس کی نظر میں ’’تاریخ کا بدترین معاہدہ‘‘ ہے۔
جون 1930ء میں صدر ہوور نے سموٹ ہالے ایکٹ نافذ کیا جس میں اہم اشیاء پر زبردست ٹیرف لاگو کیے گئے۔ کینیڈا اور یورپ نے بھی جوابی کارروائی کے طور پر تحفظاتی ٹیرف لاگو کر دیے اور نتیجتاً عالمی تجارت کے انہدام سے عالمی کساد بازاری مزید گہری ہوگئی۔
واضح طور پر تب سے لے کر اب تک عالمی تجارت میں بہت اضافہ ہوا ہے، اسی وجہ سے تجارتی جنگ کے 1930ء کی دہائی سے بھی بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی سرمایہ داری کی زنجیر میں ہر ملک انتہائی پیچیدہ انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔ ہر ملک عالمی منڈی کے تابع ہے۔
ٹرمپ ’’نظام کو تباہ‘‘ کرنے کے وعدے پر منتخب ہوا، اور وہ شاید ایسا ہی کرنے جا رہا ہے۔ اگر WTO میں اس کے خلاف اپیل دائر کر کے اسے روکنے کی کوشش بھی کی جائے، تو وہ اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اور اس طرح عالمی تجارت کی بنیادیں ہی کمزور پڑ جائیں گی۔
امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ 2018ء وہ سال ہے جس میں فصیلوں پر تجارتی فوجیں لا کھڑی کریں گے۔ یہ خطرناک چیز ہے۔
سامنے کھڑا عالمی معیشت کا بحران
’’آج کا دن امریکہ کے لیے ایک عظیم دن ہے‘‘، صدر کے مشیر برائے تجارت اور ’’چین کے ہاتھوں موت‘‘ کے مصنف پیٹر نیوارو نے کہا، ’’یہ ٹرمپ کا انتہائی ذہانت پر مبنی فیصلہ ہے۔‘‘
یہ اعلان وائٹ ہاؤس میں تجارت کے معاملے پر جاری نوک جھونک سے بھی جڑا ہے، جہاں تحفظ پسند جیتتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔
چنانچہ ہمیں عالمی کشیدگی میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ آگے راستے پر ہمیں سرخ بتیاں جلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اپنی ہی ’’ذہانت‘‘ کے ہاتھوں اندھا ہوا ٹرمپ تجارتی جنگ میں کھنچا چلا جا رہا ہے، ایسی جنگ جو 1930ء کی دہائی کے بعد سے اب تک دیکھنے میں نہیں آئی۔
یہ اقدامات ایک عالمی کساد بازاری کے لیے عمل انگیز کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 2008ء کے عالمی بحران کو دس سال بیت چکے ہیں جو 1930ء کی دہائی کے بعد سب سے گہرا بحران ہے اور اس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔
دس سالہ تجارتی دورانیے کی بنیاد پر ہم مستقبل قریب میں ایک نیا بحران دیکھ رہے ہیں۔ اس کے درست وقت کی پیشن گوئی کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کیونکہ بہت سے عناصر کار فرما ہیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام اپنی حدوں کو پہنچ کر گل سڑ رہا ہے۔ موجودہ ’’بحالی‘‘ تاریخ کی کمزور ترین بحالی ہے(اگر اسے بحالی کہیں تو!)۔ یہ اس کے حتمی زوال کی علامت ہے۔
زائد پیداوار
سرمایہ دارانہ نظام زائد پیداوار کے گردشی بحرانات کے زیر اثر رہتا ہے، جن میں عوام کی محدود قوت خرید ہمیشہ بڑھتی ہوئی پیداواری قوتوں کے ساتھ ٹکراؤ میں آ جاتی ہے۔
سرمایہ دار اس تضاد پر قابو پانے کے لیے محنت کش طبقے کی غیر ادا شدہ اجرت کی صورت میں حاصل ہونے والے منافعوں کو سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں۔ اس سے منڈی میں وسعت آتی ہے۔ البتہ بڑھائی گئی سرمایہ کاری، پیداواری صلاحیت(Productive Capacity) میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے جس سے اشیاء(Commodities) پہلے سے بڑی تعداد میں بکنے کے لیے باہر آتی ہیں۔ چونکہ سرمایہ داری کا محرک ہی منافعوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے، تو بِکری میں کمی کا نتیجہ منافعوں میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے جو کہ بحران کو جنم دیتا ہے۔
جیسا کہ مارکس نے سرمایہؔ (جلد سوم) میں بیان کیا:
’’تمام حقیقی بحرانات کی حتمی وجہ ہمیشہ غربت اور عوام کی محدود قوتِ صرف ہے جس کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ پیداوار، پیداواری قوتوں کو اس انداز میں ترقی دینے کا رجحان رکھتی ہے کہ سماج کی مطلق قوتِ صرف ہی ان کی آخری حد ہوتی ہے۔‘‘
چنانچہ حتمی تجزیے میں سرمایہ دارانہ بحران کی بنیادی وجہ زائد پیداوار اور عوام کی محدود قوت خرید ہے۔
یقیناً سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں اور بہت سے تضادات موجود ہیں مگر اس کے زائد پیداوار کی جانب رجحان کی حیثیت مرکزی ہے۔
پیسے کے ڈھیر
2008ء کے بحران کا سب سے بڑے نتائج میں سے ایک ریاست کا سرمایہ داری کو بچانا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ ہر جگہ کٹوتیوں کی پالیسی لاگو کی جائے گی۔ تاہم محنت کشوں کے معیار زندگی پر کٹوتی کا مطلب سرمایہ داروں کے لیے موجود منڈیوں پر کٹوتی بھی تھا۔
یہ ’’طلب میں کمی‘‘ پہلے سے کم ہوتی ہوئی سرمایہ کاری پر زور دار وار ثابت ہوئی۔ سرمایہ کاری کیوں کی جائے جب آپ پہلے سے موجود صلاحیت بھی استعمال میں نہیں لا سکتے؟
اسی لیے تاریخ کی کم ترین شرح سود اور سستے پیسے کی بہتات کے باوجود بڑے سرمایہ داروں کی جانب سے سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ برطانیہ میں یہ 700 ارب پاؤنڈ کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جہاں وہ پیسہ لگاتے ہیں وہ محض غیر پیداواری فائدے کے لیے ہوتا ہے۔ کارپوریشنز اپنے حصص کی قیمتیں بڑھانے کے لیے انہیں خود ہی خریدنے میں مصروف عمل رہی ہیں۔ حصص مالکان تو امیر ہوتے جا رہے ہیں، مگر یہ معاشرتی طور پر بالکل غیر فائدہ مند ہے۔
سرمایہ دار ایک منافع خور طفیلی طبقہ بن چکے ہیں۔ وہ پیداواری ذرائع کی بجائے خالصتاً سٹہ بازی کے ذریعے منافعے کمانا چاہتے ہیں۔ پیداوار میں منافع بخش سرمایہ کاری کے ’’زائد صلاحیت‘‘ کے شکار ہونے کا رجحان ہر جگہ نظر آیا۔ پیداوار کی طرف جائیں ہی کیوں جب آپ مالیاتی اثاثوں کے ہیر پھیر میں زیادہ پیسہ بنا سکتے ہیں؟
ایسٹ مینیجر سرمایہ داری کے گِدھوں کا کام کرتے ہیں، کمپنیاں تحویل میں لے کر ان کے حصے بخرے کرتے ہیں اور محنت کشوں کو خیرات پر گزارہ کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان قبضوں کے عام ہونے سے سرمائے کا ارتکاز تیزی سے بڑھتا رہتا ہے۔
ارب پتی طبقہ کی خواہش پر مٹھی بھر افراد دنیا بھر میں سرمائے کی نقل و حرکت جاری رکھتے ہیں، جس سے یہ عمل مزید ناپائیدار اور غیر یقینی ہو گیا ہے۔ اجارہ داری پر مبنی سرمایہ داری، جہاں مٹھی بھر کارپوریشنز عالمی معیشت پر قبضہ کیے بیٹھی ہیں، نے معاشرے کو ایک بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
قرض میں ڈوبتے ہوئے
حکومتوں اور بینکوں کو تو قرضوں میں کمی کرنا تھی، جو کہ خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ لیکن سستے پیسے کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
OECD ممالک کا کل ریاستی قرضوں کا حجم 2008ء کی سطح 25 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر اس سال 45 ٹریلین ڈالر ہو گیا ہے۔ OECD ممالک کی GDP کے مقابلے میں قرض کی شرح پچھلے سال اوسطاً 73 فیصد تھی اور رکن ممالک اس سال منڈی سے 10.5 ٹرلین ڈالر مزید قرض لیں گے۔ کیونکہ معاشی بحران کے بعد لیے گئے زیادہ تر قرضے کی مدت آنے والے سالوں میں پوری ہونے والی ہے، ترقی یافتہ ممالک کو آئندہ 3 سالوں میں ایک بار پھر کل موجودہ قرضے کے حجم کے 40 فیصد کے برابر پھر سے قرض لینا ہوگا، OECD نے کہا۔ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔
OECD کی معاشی اور ترقیاتی ریویو کمیٹی کے چئیرمین ولیم وائٹ نے لکھا:
’’عالمی مالیاتی پالیسی کئی سالوں سے بہت نرم رہی ہے۔ اور اب واضح ہو رہا ہے کہ یہ اپنے ہی بنائے ہوئے قرض کے جال میں پھنس چکے ہیں۔‘‘
’’بس آنکھیں بند کر کے دعائیں کرنا کہ ایسا نہ ہو، انتہائی بیوقوفی ہے۔
’’موجودہ مالیاتی لائحہ عمل کو جاری رکھنا نہ صرف بے سود بلکہ خطرناک بھی ہے۔ مگر واپس مڑنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس سب سے پتہ چلتا ہے کہ ایک نئے بحران کے پھٹنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
یہاں تک کہ سرمایہ داری کے کچھ مفکرین بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایک اور بحران آنے والا ہے۔ لیکن ان کے پاس اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ جو بھی کریں گے الٹا ہی پڑے گا۔ شرح سود بڑھانے سے، جو کچھ جگہ بڑھ بھی رہی ہے، قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔ جو کاروبار سستے پیسے پر منحصر ہیں وہ بھی تباہ ہو جائیں گے۔ یہ بذات خود ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
’’حفاظتی اقدامات کی ضرورت بڑھ چکی ہے، کیونکہ اتار چڑھاؤ سے نمٹنے کے لیے ہماری ہماری میکرو اکنامک پالیسی محدود ہو چکی ہے۔‘‘ وائٹ مزید کہتا ہے،’’یہ پالیسیاں عدم استحکام کے لیے چنگاری کا کام کر سکتی ہیں جس سے ہم بچنا چاہتے ہیں۔ بہت بہتر ہے کہ اچھے حالات کی امید رکھتے ہوئے بھی بدترین حالات کے لیے تیار رہا جائے۔‘‘ (فنانشل ٹائمز، 18فروری 2018ء)
فرضی سرمایہ
الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا، ’’امید صدا انسان کے سینے سے پھوٹتی رہتی ہے،‘‘ سرمایہ دار جھوٹی امیدوں سے چمٹے ہوئے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے ان تضادات سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ یہ شیکسپئر کے ڈرامے میکبتھ میں ہمیشہ موجود رہنے والے بانکوو کے بھوت کی طرح ہے جو انہیں ڈراتا رہتا تھا۔
تمام حالات ایک گھمبیر بحران کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ بالکل 1929ء اور 2008ء کے بحران سے پہلے کی طرح ہمیں ایک سٹاک مارکیٹ کا بھار دکھائی دے رہا ہے۔ آج سٹاک مارکیٹیں تمام حدود پار کرچکی ہیں اور معاشی حقیقت سے میل نہیں کھاتیں۔
رابرٹ شلر کی قیمت اور کمائی کے اتار چڑھاؤ کے مطابق تناسب کو دیکھا جائے تو امریکی سٹاک مارکیٹ آج 1929ء جتنی بلند سطح پر موجود ہے۔ ’’یہ شیخی بگارنے کی نہیں بلکہ پریشانی کی بات ہے۔‘‘ مارٹن وولف نے فنانشل ٹائمز میں لکھا۔(30جنوری 2018ء)
سٹاک مارکیٹ زیادہ تر فرضی سرمائے پر قائم ہے جس کے پیچھے کوئی حقیقی دولت موجود نہیں۔ یہ ماضی کی طرح خالصتاً سٹے پر چلتی ہے۔ پچھلے بحران سے CDOs اور دوسرے ’مہلک معاشی ہتھیار‘ پھر ابھر آئے ہیں اور اس بار یہ پہلے سے زیادہ تباہ کن ہیں۔
قرضے بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ حقیقی اجرتیں یا جمود کا شکار ہیں یا گر رہی ہیں۔ کارپوریٹ اداروں کے منافعے صحت مند دکھائی دے رہے ہیں لیکن اجرتیں کم ہو رہی ہیں اور پیداوار منجمد ہے۔ انہوں نے محنت کش طبقے کی غیر اداشدہ محنت سے منافع کے آخرے قطرے تک نچوڑنے کے لیے تمام حربے استعمال کر لیے ہیں۔ صنعت میں سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ بالآخر ’’بحالی‘‘ کو 9 سال گزار چکی ہے اور آگے بس اندھیرا ہے۔
چاقو کی دھار پر
کوئی بھی چیز بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ اور جب یہ آئے گا تو وبا کی طرح پھیلتا چلا جائے گا۔ عالمگیریت کا مطلب ہے کہ بحران بھی عالمگیر ہو گا۔ پوری دنیا میں سٹاک مارکیٹس کے گرنے سے یہ فرضی اعداد و شمار جو ایک دہائی میں تعمیر ہوئے ہیں یہ بھی تباہ ہو جائیں گے۔ اس سے حقیقی معیشت پر بھی کاری ضرب لگے گی کیونکہ پیداوار رکی ہوئی ہے اور پیسہ بھی ڈوب جائے گا۔
جب امریکہ نے 1930ء میں سموٹ ہالے ایکٹ متعارف کروایا، جس کا بنیادی مقصد امریکہ کی زراعت کو بچانا تھا، تو بحران پہلے سے تیار تھا۔ جبکہ زراعت پر پابندیوں سے وسطی یورپ پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ ان معیشتوں نے فرانسیسی اور برطانوی بینکوں سے بھاری قرضے اٹھا رکھے تھے۔ جب یہ دیوالیہ ہوئے تو اس سے بینکاری کے بحران نے جنم لیا جس سے امریکہ میں بھی بینک دیوالیہ ہونے لگے۔
دوسرے ملکوں کی جانب سے بھی ٹیرف لاگو کرنے کی وجہ صوتحال کنٹرول سے باہر ہونے لگی۔ حکومتیں گرتی ہوئی منڈی میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں قیمتیں کم کرنے لگیں۔ بحران نے ہر جگہ دشمنیوں کو جنم دے دیا۔ یہی وہ چیز تھی جو بحران کو انہدام اور عظیم کساد بازاری کی طرف لے گئی۔
گل سڑ چکا نظام
یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سرمایہ داری بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست معاشی ترقی کی راہ حائل سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
2008ء میں آنے والا بحران بنیادی تبدیلیوں کا نقطۂ آغاز تھا۔ یہ بحرانی، متزلزل اور اتھل پتھل کے عہد کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ محنت کشوں کے خلاف بڑے معاشی حملے اور کٹوتیاں لے کر آیا۔ سرمایہ دارانہ بحران کا یہی مطلب ہوا کرتا ہے۔ نظام پچھلے دور کی طرح اصلاحات کا متحمل نہیں رہا۔ یہ دور ردِ اصلاحات کا دور ہے۔
اس کا نتیجہ سرمایہ داری کے خلاف شدید رد عمل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ معاشرے میں غصہ اور تلخی بڑھتی جا رہی ہے جس کا نشانہ امرا اور اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس سے معاشرے میں شدید طبقاتی تضاد کی وضاحت ہوتی ہے۔ پرانا نظام لڑکھڑاتا نظر آ رہا ہے اور سرمایہ دار پارٹیاں بحران کا شکار ہیں۔
اس سے لیبر پارٹی اور کوربن کو ملتی ہوئی حمایت کی وضاحت ہوتی ہے جو ایک متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ انقلاب کا لاوا سطح کے نیچے پکتا رہتا ہے اور آخر کار سطح پر آ کر اپنا اظہار کرتا ہے۔
سرمایہ داری کا ایک اور زوال اور ایک اور ممکنہ بحران کے تباہ کن اثرات ہوں گے، پچھلے ادوار سے کہیں زیادہ خوفناک۔ لاکھوں لوگ بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے عمل میں سیاسی طور پر متحرک ہوں گے۔
سرمایہ داری کو بحال کرنے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔ سرمایہ داری کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
صرف محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت ہی آگے کا راستہ دے سکتی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم منافع کی ہوس کو ہمیشہ کے لیے مٹاتے ہوئے ’’منڈی کی معیشت‘‘ کے تسلط کو ختم کریں گے اور تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو سب کی بہتری کے لیے استعمال کریں گے۔
ٹرمپ کی دھمکیاں نظام کے بحران کا خلاصہ کرتی ہیں۔ اگر وہ ان پر عمل کرتے ہوئے ٹیرف لاگو کرتا ہے تو چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ 1930ء کی طرح سرمایہ داری تیزی سے منہدم ہونا شروع ہو جائے گی۔ صرف سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہی انسانیت کو کسی ایسی بربادی سے بچا سکتی ہے۔